بٹ ریفریجریشن سروس

بٹ صاحب کا اصل نام تو شاید طاہرتھا  یا طارق ۔۔۔ لیکن بٹ ، بٹ ہی ہوتا ہے چاہے وہ پاءطیفا ہو یا وکّی۔ بٹ صاحب طویل قامت تھے لیکن ان کی طوالت عمودی  کی بجائے  افقی تھی۔ سر کا درمیانی حصہ،  اقبال سٹیڈیم فیصل آباد کی اس پچ کی طرح  تھا جسے ڈینس للّی نے اپنی قبر کے لیے منتخب کیا تھا۔ ان کی رنگت  دیکھ کے دلدار پرویزبھٹی کا وہ بیان یا د آتا کہ اگر میں ویسٹ انڈیز میں ہوتا تولوگ  مجھے بٹ ساب کہتے۔  بٹ صاحب سے تعارف کی وجہ وہی ظہیر لائبریری اور وہاں روز کا آنا جانا اور ڈیرہ جمانا تھا۔ پانچویں جماعت سے اس وقت تک جب ہم جلاوطن نہیں ہوگئے شاید ہی کبھی اس معمول میں ناغہ ہوا ہو۔ بہرکیف،  بٹ صاحب کی فریج اور اے سی رئیپرنگ کی دکان عین ظہیر لائبریری کے سامنے واقع تھی اور ازکاررفتہ فریج ، واشنگ مشینیں وغیرہ کمپنی کی مشہوری کے لیےآدھی سڑک گھیرے ہوئے تھیں۔
بٹ صاحب کا پہلا تاثر جو یاد کا حصہ ہے وہ ظہیرالدین بابر ، پروپرائٹر  ظہیر لائبریری  کی وہ شیطانی مسکراہٹ تھی جس کے بعد انہوں نے ہمیں مخاطب کرکے کہا تھا کہ "میر جعفرا !  تینوں اک شغل وخائیے؟"۔ ظہیر صاحب  ہمیشہ ہمیں اسی نام سے پکارتے تھے اور آخر کار جب ہم کالج میں پہنچے تو ایک دن ان سے پوچھ ہی لیا،  "پائین، جیہڑی غدار ی میں تہاڈے نال کیتی اے،  اوہ کسے نوں دسنا ناں"۔  یہ سن کے ان کے جاٹ خون نے جوش تو مارا لیکن چونکہ بہت عرصہ جلُاہوں کی صحبت میں گزار چکے تھے اسی لیے خون جلد ہی ٹھنڈا پڑگیا  اور شادیوں پر انٹرٹین کرنےو الوں بھانڈ احباب کی طرح انہوں نے ہمیں اس جگت کی ایک "ٹھاپ" کی صورت میں داد  دی۔
بہرکیف ،   احباب اب تک یہ بخوبی جان چکے ہوں گے کہ شغل ویخ ویخ کے ہی آج ہمارا یہ حال  ہے کہ دوسروں کو اپنے بارے جگتیں بتاتے ہیں کہ یہ زیادہ فٹ ہوتی ہے اور  یہ کہتا تو بڑا لطف آتا،۔۔۔  تو ہم نے فورا شغل "ویخنے " کی  حامی بھرلی۔ انہوں نے پنجابی اشٹائل میں آواز لگائی ۔۔۔اوئے بٹ اوئےےےےے۔۔۔  بٹ صاحب نے ادھر ادھر دیکھا اور آواز کا منبع دریافت کرنے کے بعد چھوٹے کو ضروری ہدایات دیں ، لڑھکتے ہوئے سڑک پار کی اور ہمارے ساتھ والی کرسی پر آکے دھپ سےتشریف دے ماری۔ نامعلوم وجوہات کی بناء پر بٹ صاحب ، مغلوں کے جدّ امجد کے ہم نام کی بہت عزت وغیرہ کرتے تھے۔ اور یہ وجوہات اتنی نامعلوم بھی نہیں تھیں۔ نام تو ان  کا مغلوں والا تھا لیکن وہ تھے اصیل جاٹ۔ سونے پر سہاگہ یا کریلا اور اس پر نیم چڑھا کے مصداق ان کے والد ریٹائرڈ حوالدار اور ان کے برادر بزرگ حاضر سروس سب انسپکٹر تھے۔  لہذا بٹ صاحب ان کی ناملائم گفتگو بھی دانت نکال کے برداشت کرلیتے تھے، یہ ساری باتیں بہرحال ہمیں بعد میں پتہ چلیں ۔
ظہیر نے چھُوٹتے ہی دُرفنطنی نما سوال کیا کہ۔۔۔ بٹ صاب ۔۔ ایہہ جیہڑی پوجا بھٹ اے، اے وی بٹ اے؟۔۔۔ بٹ صاحب کا مُشکی   رنگ مزید سانولا ہوا اور انہوں نے کرسی پر تقریبا پھُدکتے ہوئے جواب دیا ۔۔۔ یار، ظہیر، میں تیری اینی عزت کرداں تے توں سانوں ذلیل ای کردا رہناں؟۔۔ ۔ ظہیر نے پکّا سا منہ بنا کے کہا کہ  یار، میں نے تو اپنے علم میں اضافے کے لیے پوچھا تھا، تُو غصہ کرگیا ہے۔ چل مٹّی پاء،  ۔۔۔ چائے پیے گا؟  کھانے پینے کا ذکر  آتے ہی بٹ صاحب کو پوجا بھٹ، بیستی اور دیگر امور یکایک بھول گئے اور انہوں نے مُنڈی ہلا کے  بارات کے دن والی شرمیلی دلہن کی طرح ہاں کردی۔
 تمہید طُولانی ہوتی جارہی ہے اور اصل قصّہ ابھی تک سنائے جانے کا انتظار کررہا ہے۔ گلشن کالونی میں ایک پارک نما چیز تھی جسے "تِن نُکری گراونڈ" کے عظیم نام سے پکارا جاتا تھا حالانکہ اس کا سرکاری نام تو شاید کسی شیخ صاحب کے نام پر تھا لیکن جیسے کمپنی باغ کو آج تک کوئی جناح باغ نہیں کہتا اسی طرح سب اسے تِن نُکری گراونڈ ہی کہا کرتے تھے اور اب تک کہتے ہیں۔ اس زمانے میں کبھی این جی اوز کا ذکر کسی لبرل نے بھی نہیں سنا تھا لیکن ہمارے کچھ دوستوں نے مل کر ایک "غیر سرکاری تنظیم" بنا رکھی تھی، جس کے زیر اہتمام  "ہیلتھ واک"، "پیس واک" یہ واک ، وہ واک وغیرہ کا اہتمام ہوا کرتا تھا۔ اس تنظیم کے روح رواں یا  ہیڈ گیڑے باز میاں کاشف نواز تھے۔ اب ان کا ذکر ایک علیحدہ  تحریر  بلکہ بہت سی تحاریر کا متقاضی ہے لہذا اس سے صرف نظر کرتے ہیں۔ میاں صاحب نے اس تِن نُکری گراونڈ میں ایک مباحثہ کا اہتمام کیا جس کے مہمانان خصوصی  سُوتر منڈی کے شیخ صاحبان تھے۔۔۔ ہمیں اب پورا یقین ہے کہ سارا "ناواں" بھی انہی خصوصی مہمانوں کا خرچ ہوا ہوگا۔ اس مباحثے کا عنوان  "عقلاں والے بھُکھے مردے، مُورکھ کھان جلیب" تھا۔ اب میاں صاحب کی اس ستم ظریفی کی داد کوئی اہل نظر و دل ہی دے سکتا ہے کہ شیخ صاحبا ن کو سٹیج پر بٹھا کر ، انہیں کے پیسے لگوا کر ، انہیں اس مباحثے کو سننےپر مجبور کیا جائے۔
یہ مباحثہ ہمارے یار غار نے جیتا  جوزمانہ  سکولیت سے ہی زید حامد جیسے مقرّر تھے اور بہت سی ٹرافیاں اور کپ اور پلیٹیں وغیرہ جیت چکے تھے۔ کلاس فیلو ہونے کے ناطے ان کی تقاریر کی ریہرسل سننے کی سزا اکثر بھگتنی پڑتی تھی اور وہ شور مچانے پر تقریر روک کر ہمیشہ یہ چتاونی دیا کرتے  ۔۔۔ جو قومیں تقاریر غور سے نہیں سنا کرتیں، وہ تباہ و برباد ہوجایا کرتی ہیں۔۔۔ مجھے تو اب یہ  لگتاہے کہ ٹاک شوز کا آئیڈیا بھی ہمارے انہی عزیز دوست کا ہے تاکہ ساری قوم بیٹھ کے تقریریں سنتی رہے اور تباہ نہ ہو۔۔ واللہ اعلم بالصواب۔۔۔
اس سارے ڈفانگ کی سمعی و بصری عکس بندی کا اہتمام بھی  کیا گیا تھا، سادہ الفاظ میں جسے ویڈیو بنانا کہتے ہیں۔  اس کی بہت سی کاپیاں بنائی گئیں اور ان شیخ صاحبان کو دی گئیں جن کے خرچے پر یہ سب کیا گیا تھا۔ ایک کاپی ، ہیڈکوارٹر ہونے کے ناطے ظہیر لائبریری پر بھی پہنچی۔
یہیں سے بٹ صاحب کا المیہ شروع ہوتاہے !۔
ایک شام گپیں مارتے ہوئے  اور ایسے لطیفے سنتے سناتے ہوئے جنہیں بندہ  اپنے یاروں کے علاوہ کسی کو نہیں سنا سکتا، اچانک ہمارے ذہن میں ایک شیطانی خیال نے جنم لیا۔ ہم نے اس ابلیسی خیال کو ظہیر تک منتقل کیا اور اس نے فورا ہی منظوری دیتے ہوئے  آواز لگادی۔۔۔ اوئے بٹ اوئےئےئےئےئے۔۔۔  ہزار دفعہ یوں پکارے جانے کے باوجود بٹ صاب اس آواز پر ادھر ادھر دیکھنا ضروری سمجھتے تھے لہذا انہوں نے اپنی روٹین پوری کی اور پھر ظہیر کی طرف دیکھ کے سر ہلایا اور اپنا لُڑھکنا چالو کردیا۔
بٹ صا ب کے وہاں پہنچنے تک ہم سب پکّے منہ بنا کے بیٹھ چکے تھے۔ ظہیر نے آواز میں پُراسراریت  سمو کر بٹ صاب کو کہا کہ ایک ضروری بات کرنی ہے  اکیلے میں۔ چلو ، ذرا باہر۔ باہر دو تین منٹ بٹ صاب کے کان میں کھسر پھسر کرکے ظہیر اندر آیا اپنے کاونٹر کے دراز سے ویڈیوکیسٹ نکالی اسے اخبار میں لپیٹا اور نہایت رازداری سے بٹ صاب کو باہر جاکے تھمادی۔ بٹ صا ب نے چوکنّے ہو کے ادھر ادھر دیکھا،  اور عین سڑک پر سب کےسامنے اخبار میں لپٹی ہوئی کیسٹ  بڑے "خفیہ " انداز میں ڈب میں لگا لی۔
ظہیر الدین بابر ، پروپرائٹر ظہیر لائبریری راوی ہیں کہ بٹ صاب نے اگلے دن ان کی جو کُتّے خانی کی وہ ایک عظیم تاریخی حیثیت کی حامل تھی۔ بٹ صاب ، ظہیر کا جاٹ ہونا ، ان کے والد کا سابقہ اور بھائی کا موجودہ پُلس والا ہونا بالکل فراموش کرکے ، غلامابادی انداز کی جتنی گالیاں انہیں یاد تھیں ، وہ یکے بعد دیگرے اور بار بار انہیں دیتے جاتے اور اس کے ساتھ ساتھ اپنی دردناک آپ بیتی بھی سناتےجاتے کہ کتنے جتنوں سے سب کے سونے کا انتظار کیا  اور اتنی گرمی میں کمرے کا دروازہ بند کرکے جب میں نے وی سی آر آن کیا تو شرو ع میں ہی شناسا چہرے نظر آئے ، میں خوش ہوگیا کہ "پروگرام" جینوئن لگتا ہے، مُنڈوں نے اپنا موج میلہ ریکارڈ کیا ہے۔۔۔۔  آپ بیتی کا آخری حصّہ بقول راوی ، بٹ صاب نے رقّت آمیز آواز میں سنایا کہ میں نے تین گھنٹے کی ساری کیسٹ بنا فارورڈ کیے دیکھی کہ ۔۔۔۔۔ خورے۔۔۔ پر "کچھ " ہونا تھا نہ ہوا۔ راوی بیان کرتا ہے کہ ہنس ہنس کے اس کی اتنی بری حالت ہوئی کہ بٹ صاب اپنا رنڈی رونا  بھول کے اس کی خیریت بارے فکر مند ہوگئے کہ کہیں بے چارا پاگل تو نہیں ہوگیا ۔
شنید ہے کہ یہ قصّہ آج بھی گلستان روڈ موجودہ بمبینو روڈ   کےباسی کسی لوک کہانی کی طرح یاد رکھے ہوئے ہیں ۔  اور اکثر بک بکواس کی محافل شبینہ میں فرمائش کرکے سُنتے  اور سناتے ہیں ۔
ہمیں تو یوں لگتا ہے کہ اس دفعہ بھی "بٹ صاحب" کو جو کیسٹ دی گئی ہے
وہ پھر  "خالی"  نکلنی ہے!.