تُوڑِی سائیں

جناح کالونی کو فیصل آباد میں وہی اہمیت حاصل ہے جو طالبان میں مُلا عمر کو ہے۔ اس اہمیت کی دو وجوہات ہیں۔ شیخ صاحبان کی کثیر تعداد اور ہوزری مارکیٹ۔ ہمارے ایک دوست تو جناح کالونی کا نام بگاڑ کے ایک کبیرہ گناہ کا نام لے کر آگے کالونی لگایا کرتے تھے اور اس کی وجوہات میں شیخ حضرات کی "ہم نصابی" سرگرمیوں کی تفصیلات بیان کیا کرتے تھے۔ ہمارے یہ دوست کافی واہیات تھے!۔
ہم نے اپنے پہلے سکول میں داخلے اور وہاں سے فرار کی داستان ایک دفعہ بیان کی تھی تو جب خاندانی اکابرین کو یقین ہوگیا کہ ہم اس سکول میں بٹنے والے علم سے اپنا حصہ حاصل کرنے پر تیار نہیں ہیں تو ہمیں ایک اور سکول میں داخل کرا دیا گیا۔ یہ سکول کامل فاؤنڈیشن تھا (اب بھی ہے)۔ ہم روزانہ گرےنیکر، سفید اور نیلے چیک والی شرٹ، چمکتے ہوئے بوٹ، سفید 
جرابیں پہن کر ، بستہ گلے میں ڈال کر ، باؤ بن کر سکول جانا شروع ہوگئے۔ 
سکول سے چھٹی کے بعد ہم پیدل ہی اپنی دکان تک مارچ کرتے ہوئے پہنچ جاتے تھے کہ فاصلہ زیادہ نہیں تھا۔ اور وہاں ابّا کا انتظار کرتے تھے جو کسی نہ کسی کام کے سلسلے میں کہیں نہ کہیں گئے ہوتے تھے۔ اس زمانے میں جرابیں اور بنیانیں، استری کرنے کے لیے دیسی ساختہ استریاں استعمال ہوا کرتی تھیں جو کافی وزنی ہوتی تھیں اور یہ کام کرنے والے پریس مین کہلاتے تھے۔ اس وقت شاید چار یا پانچ پریس مین ہماری دکان پر کام کرتے تھے۔ ان میں سے ایک تُوڑِی سائیں بھی تھے۔
نام تو ان کا عبداللطیف تھا لیکن پنجابی روایات کے عین مطابق یہ نام شاید ان کے نکاح کے وقت یا تو نکاح خواں نے لیا ہوگا یا ہمارے ابّا ان کو اس نام سے پکارتے تھے۔ باقی سب لوگوں کے لیے وہ "طیفا" بلکہ "طیفے اوئے " تھے۔ دھان پان، گھنگریالے بال، باریک لیکن لمبی مونچھیں جن کو وہ ہمیشہ بل دینے کی کوشش کرتے رہتے تھے۔  سمن آباد میں کہیں رہتے تھے۔ اور سائیکل پر جب صبح دکان پر پہنچتے تو ان کی دھج دیکھنے والی ہوتی تھی۔ لمبی لڑیں چھوڑ کر باندھا ہوا لاچہ، بوسکی کا کرتہ، منہ میں پان اور ایمبیسی فلٹر کی ڈبّی ہاتھ میں۔
یہ تو ہمیں علم نہیں کہ ان کا نام تُوڑِی سائیں کس نے اور کیسے اور کیوں رکھا۔ لیکن ان کے قریبی دوست انہیں اسی نام سے پکارتے تھے۔ ہر مرد کو زندگی میں کسی نہ کسی بازی کی علّت ضرور ہوتی ہے۔ انہیں کبوتر بازی کی تھی۔ کبوتروں کی اقسام، ہر قسم کی امتیازی اور غیر امتیازی خصوصیات، کونسی خوراک کس نسل کو کھلائیں تو اس کا کیا نتیجہ نکلے گا، اور ایسی ہی بہت سی جزئیات۔ چاچا باریا (عبدالباری) جو طیفے کے ساتھ ہی کام کرتا تھا، اکثر چھیڑتے ہوئے کہتا تھا کہ۔۔ تُوڑی سائیں نیں اک دفعہ کبوتر اڑایا۔۔۔ دو سال ہوگئے ہالے تیکر واپس نی آیا۔۔ ایڈی لمبی پرواز اے اوہدی۔۔۔ کبوتر، تُوڑی سائیں کی وہ واحد دکھتی رگ تھی جہاں ان کی ساری خوش مزاجی ہوا ہوجاتی تھی۔ اپنے کبوتروں کے خلاف وہ کسی قسم کی کوئی بات سننے کے روادار نہیں تھے۔ 
کبوتروں کے سالانہ ٹورنامنٹ سے پہلے ان کی خوراک میں بادام پستے تک شامل کردئیے جاتے تھے۔ جیسے پرانے نواب حضرات قوت مردمی کے لیے حکیموں سے کشتے بنواتے تھے، ایسے ہی ان خوش قسمت کبوتروں کے لیے کشتے تیار کیے جاتےتھے۔ کیا زبردست زمانہ تھا کہ مزدور بھی سابقہ صدر مملکت والے شوق پورے کرسکتا تھا۔۔ بہر کیف ایک دفعہ ہمارے ابّا کے علم میں یہ بات آئی تو وہ بڑے رسان سے ، جیسی ان کی عادت ہے، طیفے کو کہنے لگے کہ، عبداللطیف، یہ پان سگریٹ چھوڑ کے ایسی خوراک تو خود کھانے لگے تو تیری صحت گامے پہلوان جیسی ہوجائے۔
تو ذکر ہمارے سکول سے شروع ہوا تھا۔ روزانہ جب ہم بستہ گلے میں لٹکائے، خراماں خراماں چلتے، دکان پر پہنچتے تو جو آواز سب سے پہلے ہمیں سنائی دیتی وہ طیفے کی ہوتی تھی۔۔ او ساڈا لنڈے دا باؤ آگیا۔۔ اگرچہ یہ بات ہمیں اتنی اچھی نہیں لگتی تھی بلکہ بالکل اچھی نہیں لگتی تھی لیکن ساری زندگی ہماری کوئی چھیڑ نہ پڑنے کی بڑی وجہ ہی یہ ہے، دوسروں سے پہلے ہم خود اپنا مذاق اڑانا شروع کردیتے ہیں۔ طیفے نے جتنی دیر ہمارے ابّا کے پاس کام کیا، وہ ہمیں اسی نام سے پکارتے تھے۔
وقت گزر جاتاہے۔ یہی اس کی اچھائی اور برائی ہے۔ طیفے سے ہماری آخری ملاقات ایک دو سال پہلے ہوئی تھی۔ اپنے ایک دوست کے ساتھ جناح کالونی کا ایک ناسٹیلجک چکر لگارہے تھے کہ ایک دکان کے باہر طیفے کو پریس مشین کے سامنے کھڑے دیکھا، گاڑی رکوائی، ان کے پاس جا کر سلام کیا۔ بہت سا وقت گزر چکا تھا۔  لکھنو کے بانکوں جیسی چھب رکھنے والا طیفا اب ایک کمزور سا بوڑھا تھا۔ چند ثانیوں بعد ایک دم شناسائی کی چمک طیفے کی آنکھوں میں ابھری۔ او باؤ جی تسی۔۔۔ گرمجوشی سے گلے ملتے ہوئے اس نے آہستہ سے میرے کان میں کہا۔۔
لنڈے دا باؤ۔