سپہ سالار کی ڈائری - توسیعی ورژن

شبِ رفتہ سے ہی طبیعت کچھ بوجھل سی تھی۔ نیند دیر سے آئی۔ تہجّد سے کافی دیر پہلے آنکھ کھل گئی۔ وضو بنایا۔ تہجّد کے وقت تک نوافل ادا کئے۔ دل کو کچھ قرار سا آیا۔ کل کی ملاقات میں مقتدرین نے اپنی خواہش کا برملا اظہار کر دیا۔ وہ چاہتے ہیں کہ میں ملک و ملّت کی خدمت سے کنارہ کش ہوجاؤں اور ان کو لوٹ مار کے لیے آزاد چھوڑ دیا جائے۔ میں نے صاف انکار کردیا کہ ایسا ہرگز نہیں ہوگا۔ جب تک وطنِ عزیز اسلام کا قلعہ نہ بن جائے میں اپنی ذمہ داریاں کیسے نظر انداز کرسکتا ہوں؟ وہ کچھ بولے تو نہیں مگر کبیدہ خاطری ان منحوسوں کے چہروں سے عیاں تھی۔
شب کے آخری پہر، خدا کے حضور مناجات کرنے سے دل کو تسلّی ہوئی۔ فجر کے بعد معمول کی ورزش کی۔ ناشتے میں آلو والے پراٹھے تھے۔ میں نے زوجہ سے باز پُرس کی کہ ان کے لیے رقم کا بندوبست کہاں سے ہوا؟ ان کی آنکھیں بھر آئیں۔ کہنے لگیں پچھلے دو ہفتوں سے وہ ایک وقت کا کھانا کھا رہی ہیں۔ اس سے جو رقم بچ رہی اس سے یہ پراٹھے بنائے۔ دل بھر آیا۔ لقمہ ہاتھ سے رکھ دیا۔ اِدھر اُدھر دیکھ کر زوجہ کا رُوئے انور چوم لیا۔ بد پرہیزی کرتے ہوئے تینوں پراٹھے کھائے اگرچہ زوجہ تیسرے پراٹھے پر شکایتی نگاہوں سے دیکھتی رہیں لیکن منہ سے کچھ نہ بولیں۔ جنّتی خاتون ہیں۔ الحمدللہ۔۔۔
بیٹ مین لطیف نے بائیسکل چمکا کے پورچ میں کھڑی کردی تھی۔ لطیف اوائل افسری سے میرے ساتھ ہے۔ اس کے ساتھ عجب اُنسیت سی ہے۔ اس کا معاملہ گھر کے فرد جیسا ہے بلکہ اس سے بھی بڑھ کر۔ برسوں گزرے ایک عجیب واقعہ پیش آیا تھا جس کے بعد لطیف کی اہمیّت دو چند ہوگئی۔
ان دنوں لطیف کے گھر  پہلی خوشی آنے والی تھی۔ ایک رات خواب میں کیا دیکھتا ہوں کہ ایک بزرگ، پن سٹرائپ سوٹ پہنے، خشخشی داڑھی، منہ میں پائپ دبائے کش پہ کش لگاتے، ایک سفید گھوڑے پر سوار، دفتر کے باہر تشریف لاتے ہیں اور با رُعب آواز میں پکارتے ہیں، "شکیل، باہر آؤ"۔ میں حیران ہو کر باہر نکلتا ہوں تو وہ شہادت کی انگلی بلند کرکے گویا ہوتے ہیں۔
"ہم ایک عظیم ذمہ داری تمہارے سپرد کرنے آئے ہیں۔ وعدہ کرو کہ اسے نبھاؤ گے"۔
میں جھٹ حامی بھرلیتا ہوں۔ بزرگ پائپ منہ سے اور دھواں نتھنوں سے نکالتے ہیں۔ اچھل کر گھوڑے سے اترتے ہیں۔ میرے قریب آکر کندھے پر ہاتھ رکھتے ہیں اور یوں گویا ہوتے ہیں۔۔
"تمہارے گھر ایک مہمان آنے والا ہے۔ اسے معمولی نہ سمجھنا۔ عنفوان شباب تک اس کی دیکھ بھال اور حفاظت کرنا۔ یہ بچہ ملک و ملّت کا پاسبان ہوگا۔ سارے ادبار دور کردے گا۔ دشمنانِ دین و ملّت اس کے درپے رہیں گے لیکن تمہیں وعدہ کرنا ہوگا کہ جب تک تمہاری سانس میں سانس ہے اس کی حفاظت و نصرت کرو گے۔ اور ہاں سنو۔۔ ایک بات اور ہے۔۔ یہ اللہ کی دَین ہے۔ اس لیے اس کا نام اللہ دتّہ ہوگا"۔
اس کے بعد میری آنکھ کھل گئی۔ خوابگاہ میں ایک ملکوتی سا سکوت اور عجیب سی خوشبو پھیلی ہوئی تھی۔ میں فورا اٹھا، غسل کیا اور خدا کے حضور سجدہ ریز ہوگیا جس نے مجھے اس کارِ عظیم کے لیے چُنا۔ پھر میں نے سوچا کہ زوجہ کے ہاں تو ابھی کسی نئے مہمان کے آثار نہیں تو یہ نیا مہمان کہاں سے آئے گا؟۔
اس کا جواب اگلی صبح ملا جب بیٹ مین لطیف، مٹھائی کا ڈبّا لیے آیا۔ ڈبّا بائیسکل کے کیرئیر پر رکھ کے دھرتی دہلا دینے والا سلیوٹ مارا اور خوشی سے لال ہوتے چہرے سے اطلاع دی کہ وہ بیٹے کا باپ بن گیا ہے۔ ذہن میں روشنی سی لپکی اور گزشتہ شب کا خواب اور پن سٹرائپ سوٹ والے بزرگ کی بشارت اور اپنا وعدہ یاد آگیا۔ اس دن کے بعد سے آج تک میں نے اللہ دتّے کو اپنی اولاد سے بڑھ کر توجہ دی۔ اعلی درسگاہوں سے اس کو تعلیم دلائی۔ آج کل اللہ دتّہ ملک فرنگ میں اعلی ترین تعلیم کے لیے مقیم ہے۔
دفتر جانے کے لیے بائیسکل کا پیڈل مارا ہی تھا کہ لطیف ہانپتا ہوا آیا اور کہنے لگا کہ مخبر اعلی نے فورا آپ سے ملاقات کی خواہش ظاہر کی ہے ابھی ایک ہرکارہ ان کا پیغام لے کر آیا ہے۔ میں فورا بائیسکل سے اترا اور رکشے کو ہاتھ دے کر روکا۔ ہنگامی حالات میں ایک ایک منٹ کی اہمیت ہوتی ہے۔
بھاگم بھاگ دفتر پہنچا تو مخبر اعلی پہلے سے موجود تھے۔ انہوں نے شتابی سے دفتر کا دروازہ بند کیا اور بولے۔۔۔ ابھی ابھی اطلاع ملی ہے کہ دشمن نے اللہ دتّے کو درسگاہ سے واپس آتے ہوئے اغوا کر لیا ہے اور ان کی طرف سے ابھی تک کوئی رابطہ نہیں کیا گیا۔ میں فورا ساری گیم سمجھ گیا۔ یقینا یہ مقتدرین کی سازش ہے۔ انہیں علم ہے کہ مجھے کسی بھی طرح جھکنے پر مجبور نہیں کیا جا سکتا۔ حتی کہ میری اپنی اولاد بھی اگر داؤ پر لگی ہو تو میں کبھی ملک و ملّت کے مفاد کو پسِ پُشت نہیں ڈال سکتا۔ لیکن اللہ دتّے کا معاملہ الگ ہے۔ اس کے ساتھ غیر معمولی انسیّت کا راز میں نے آج تک کسی پر ظاہر نہیں کیا لیکن مخبروں کی دنیا الگ ہوتی ہے۔ شاید کوئی ٹیلی پیتھی کا ماہر دشمن جاسوس میرے ذہن میں جھانک کر اللہ دتّے سے میری بے پناہ محبّت سے واقف ہو گیا تھا۔ جس کا فائدہ اب مقتدرین اٹھا رہے ہیں۔
اسی اثناء میں مخبر اعلی کے واچ ٹرانسمیٹر پر ٹوں ٹوں ہونے لگی۔ ملکِ فرنگ میں موجود علاقائی مخبر نے اطلاع دی کہ اللہ دتّے کے اغوا کاروں نے بہت عجیب مطالبہ کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ سپہ سالار نے چوبیس گھنٹوں کے اندر مُقرّرہ مدت میں سپہ سالاری چھوڑنے کا اعلان نہ کیا تو وہ اللہ دتّے کو اگلے جہان میں ہی مل سکیں گے۔
یہ بہت مشکل مرحلہ تھا۔ ایک طرف ملک و ملّت کی پاسبانی اور دوسری طرف وعدے کی نگہبانی۔ پھر مجھے یاد آیا کہ اللہ دتّے کی نگہبانی کے صدقے ہی شاید مجھے سپہ سالاری ملی تھی اگر اسی کام میں ناکام رہا تو روزِ قیامت اس بزرگ کو کیا منہ دکھاؤں گا۔ اللہ دتّے کی تعلیم مکمل ہونے میں کچھ ہی عرصہ باقی ہے۔ بزرگ نے عنفوانِ شباب تک اس کی سرپرستی کا کہا تھا۔ وہ وقت مکمل ہوا چاہتا ہے۔ شاید میری ذمّہ داری یہیں تک تھی۔ ملک و ملّت کا اصلی مسیحا آنے کو ہے۔ میری قربانی سے اگر اس کا راستہ ہموار ہوجائے تو اس سے بڑی سعادت کیا ہوگی۔ جو کام میں پورا نہ کرسکا وہ میرا اللہ دتّا پورا کرے گا۔
میں نے مقتدر اعلی کو فون ملایا اور ان کے مطالبے کو پورا کرنے کی حامی بھرلی۔ یہ سنتے ہی ان کی آواز پر چھائی مُردنی یکایک شگفتگی میں بدل گئی۔ وہ حسبِ عادت چکنی چُپڑی باتیں کرنے لگے۔ میں ان کی دلی حالت کا اندازہ کر سکتا تھا۔ وہ سمجھ رہے تھے کہ ان کو کھلی چھُٹّی مل گئی ہے۔ وہ جیسے چاہیں اس ملک کو لوٹیں۔ ملّت کا شیرازہ بکھیریں۔ ان کو کوئی روکنے والا نہیں۔۔ مگر ان کے خواب و خیال میں بھی یہ بات نہیں ہے کہ
میرا اللہ دتّہ آئے گا۔۔۔۔
Comments
9 Comments

9 تبصرے:

Maqsood Asi مقصود عاصی نے فرمایا ہے۔۔۔

میرا اللّہ دتہ آئے گا... واہ استاد... بیت شگفتہ لکھا.. بہت دعائیں

Khawaja نے فرمایا ہے۔۔۔

واہ استاد محترم
میرا اللہ دتہ آئے گا
کمال کر دتا جے

Unknown نے فرمایا ہے۔۔۔

بہت خوب, کمال کر دیا آپ نے

Sufyan Ahmad Sufi نے فرمایا ہے۔۔۔

واہ...بہت ہی عمدہ

Zahid نے فرمایا ہے۔۔۔

Buhut umdah..

شاہدہ اکرم نے فرمایا ہے۔۔۔

جعفر کب آئے گا اللہ دتہ

Unknown نے فرمایا ہے۔۔۔

دو سوال میرے ذہن میں کلبلا رہے ہیں
ایک: آپ کا مکمل نام جعفر طیار نقوی تو نہیں ؟
دو: آرمی اور خصوصی طور پہ راحیل شریف سے آپ کے بیر کی وجہ ؟

Unknown نے فرمایا ہے۔۔۔

کہیں یہ ایسا تو نہیں کہ جسے اللہ پاک نے عزت دی یہ اس سے حسد کا معاملہ ہے، معذرت کے ساتھ کیونکہ میں جانتا ہوں آپ بہت بڑے ٹویٹری دانشور ہیں

عدنان جبار نے فرمایا ہے۔۔۔

میرے کرن ارجن آئیں گے ھاااھاھاھاھاھاھا


تبصرہ کیجیے