خدا، بہار اور اَدبار

شجر سوکھتے ہیں۔ پتّے جھڑتے ہیں۔ مایوسی دلوں میں گھر کرجاتی ہے۔لیکن  بارِ دگر بہار آتی ہے۔ شجر ہرے اور شگوفے کھِل جاتے ہیں۔چمن آباد ہوتا ہے۔  خدا پر ہمارا یقین نہیں۔ مایوس ہم ہوجاتے ہیں۔ خزاں کے بعد بہار ہے۔خزاں کے بعد بہار ہے۔۔۔۔
درویش نے کہا تھا کہ اونچی نیچی زمین کے باسی متلوّن مزاج  ہوتے ہیں مگر چند مستثنیات۔۔۔ آٹھ سال ادھرموسم سرما کی دھند آلود خنک رات یاد آتی ہے۔  قہوۂ سیاہ کا پیالہ  تھامے، فرنگی جسے کافی کے نام سے پکارتے ہیں،  طالب علم نے سپہ سالار سے دریافت کیا، " تابکہ؟"۔ سپہ سالار نے سگریٹ کا پیکٹ میز سے اٹھایا۔ سگریٹ  نکالا اور پیکٹ پر فلٹر والا سرا ٹھونکتے ہوئے تفکّر کیا۔ داغِ مفارقت دیتے سگریٹ سے نیا سگریٹ سلگایا۔ اب طالبعلم پر بھید کھلتا ہے کہ یہ استعارہ، چراغ سے چراغ جلانے کا تھا۔ اس مردِ صابر نے ایک ہی کَش میں آدھا سگریٹ پھونکنے کے بعد جاسوسی ڈائجسٹ سے نظر اٹھائی اور کہا، "جلد ہی، صاحب، جلد ہی"۔ یادداشت گاہے ساتھ چھوڑ جاتی ہے۔ قوموں کی بھی۔ تشہیر کا ہَوکاسپہ سالار کو نہیں تھا۔ وگرنہ کارنامے ایسے کہ شاید و باید۔ دہشت گردوں کے مقابل وہ پورے قَد سے کھڑا رہا۔ امریکیوں اور ان کے کاسہ لیس حکمرانوں کے مقابل بھی۔ ایک لحظہ کو قدم ڈگمگائے نہ عزم لڑکھڑایا۔
کیسا بہتا ن ہے جو نہ گھڑا گیا ہو۔زندگی جہدمسلسل ہو تو ایمان زادِ رَہ ہوتا ہے۔ بھائیوں کا نام لے کر زبانِ طعن اس عظیم سپہ سالار پر دراز کی گئی جس کے کارنامے آنے والے زمانے کی درسی کتب میں چھپیں گے۔یہ سب اس دور میں ہوا جب شور و تشہیر کا غلغلہ بلند تھا۔ جیسے دنیا  کندھوں پر اٹھا رکھی ہو۔ فردِ عمل کا گوشوارہ ملاحظہ ہو تو چند نغموں، کچھ تصویروں اور مٹھی بھر ٹویٹوں کے سوا کھاتہ خالی نکلے۔ قریباً دو سال قبل، فقیر نے مشترکہ دوست کے ذریعے رابطہ کیا۔ کورا جواب، حضورِ والا، کورا جواب۔۔۔ درویش سچّا ہے۔ مزاج کی رُکھائی اور خودنمائی یکجا ہو جائیں تو ایسا ہی کرشمہ، منصّہ شہود پر آتا ہے۔ جواب ملا، " نہ میں سگریٹ اور ٭٭٭٭ پیتا ہوں نہ کافی۔۔۔ اور نہ میرے پاس فالتو وقت ہے"۔ دل  لہو ہوا اور چشم خونبار۔۔۔  دل دُکھا ہو تو درویش کا ڈیرہ ،فقیر کی آخری پناہ گاہ ہے۔ بجھے ہوئے سگریٹ جیسی شکل دیکھی تو درویش بے تاب ہو اٹھا۔ اپنے پاس بٹھایا۔ صوفے کے نیچے ہاتھ ڈال کے ڈَن ہل کا پیکٹ نکالا اور الماری کے نچلے خانے سے بلیولیبل۔ ایک کَش لیا، پھر ایک گھونٹ۔ طبیعت بحال ہوئی تو ماجرا عرض کیا۔
ہموار زمین کا سپُوت ہی مزاج  کا نرم اور عمل کا دھنی ہوگا۔ چہرے پر شفیق بزرگ جیسی نرماہٹ اور آنکھوں میں شکار پر جھپٹنے والے شہباز جیسی چمک۔  قریباً ایک عشرہ دشمن کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر آنکھ نہ جھپکی۔ایک افسر سے بات ہوئی۔ سراپا تعریف اور مجسم احترام۔ ایسی کہانیاں کہ راوی معتبر نہ ہو تو قرونِ اولیٰ کے صاحبِ کشف کی واردات لگے۔صراطِ مستقیم  کی مثال زندگی۔۔۔۔تشہیر سے نفور اور عمل سے محبّت۔ ۔۔۔۔اقبالؒ وجناح ؒ کے رستے کا مسافر۔۔۔۔ سحر خیز و شب بیدار۔۔۔۔ کتاب سے عشق۔۔۔۔ وطن کی مٹّی سے محبّت خون میں گھلی ہوئی۔۔۔۔ کیا ادبار سے نجات کا وقت آپہنچا؟ درویش نے سر اٹھایا اور تبسّم فرمایا۔ فقیر کو جواب مل گیا۔۔۔ دل شاد ہوا۔۔۔

شجر سوکھتے ہیں۔ پتّے جھڑتے ہیں۔ مایوسی دلوں میں گھر کرجاتی ہے۔لیکن  بارِ دگر بہار آتی ہے۔ شجر ہرے اور شگوفے کھِل جاتے ہیں۔چمن آباد ہوتا ہے۔  خدا پر ہمارا یقین نہیں۔ مایوس ہم ہوجاتے ہیں۔ خزاں کے بعد بہار ہے۔خزاں کے بعد بہار ہے۔۔۔۔

پانامہ کا ہنگامہ - آخری کَڑی

پانامہ کے معاملے میں بری طرح پھنس جانے کے بعد نواز شریف کے سامنے بچاؤ کا کوئی رستہ باقی نہیں رہا تھا۔  آخری حل یہی تھا کہ استعفٰی دینے کے بعد اقتدار شہباز شریف یا چوہدری نثار میں سے کسی کے سپرد کردیں  اور نواز شریف اس پر راضی تھے  ان کی شرط صرف یہ تھی کہ ان کی دولت کو نہیں چھیڑا جائے گا لیکن یہ راستہ عالمی اسٹبلشمنٹ کے لیے قابلِ قبول نہیں تھا۔  اس خطے میں اپنے ایجنڈے پر عملدرآمد کے لیے پاکستان میں نواز شریف سے بہتر مہرہ انہیں کوئی اور نظر نہیں آرہا تھا۔ انہوں نے اس سارے معاملے سے توجہ ہٹانے کے لیے نواز شریف کے ذاتی دوست مودی کے ذریعے کبھی بم دھماکے کرائے، کبھی سرحدوں پر گولہ باری حتی کہ سرجیکل سٹرائیک جیسا بودا ناٹک بھی کیا گیا۔ لیکن ان سب اقدامات کے باوجود محب وطن حلقے پانامہ کیس پر مٹی ڈالنے کے لیے تیار نہیں تھے۔  
پیرالل یونیورس یا متوازی کائنات کا تصوّر ہمیشہ سے انسان کے لیے پُراسرار رہا ہے اور اس کے عدم اور وجود پر مختلف آراء ہیں۔ ایک رائے یہ بھی ہے کہ ایک مادی دنیا ہے  اور ایک اس سے ماورا میٹا فزیکل یا روحانی دنیا ہے۔ اس دنیا کے اپنے اصول و ضوابط ہیں۔ عام انسان کے لیے اس دنیا کے اسرار کو جاننا ناممکن ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اس دنیا میں حق اور باطل کی کشمکش جاری رہتی ہے۔ نوری اور ناری علوم کے دو مکاتب فکر ہیں جو ہر پل ایک دوسرے پر غلبہ پانے کی جدوجہد میں رہتے ہیں۔
اب جو کہانی آپ کے سامنے آنے والی ہے یہ رونگٹے کھڑے کردینے والے ٹھوس حقائق پر مشتمل ہے۔ بابا رام دیو کے نام سے ہندوستان میں ایک یوگی ہیں جن کا میڈیا پر بھی کافی شہرہ ہے۔ یہ نریندرا مودی کے قریبی ساتھی ہیں۔ بابا رام دیو  انسانی حواس سے ماورا روحانی دنیا میں ناری علم والے گروہ کے ترجمان ہیں۔ بالآخر مودی نے بابا رام دیو سے پانامہ والے معاملے میں مدد مانگی کہ اس معاملے کو سلجھانے میں ہماری مدد کریں۔ روحانی دنیا کا ایک غیرتحریری اصول یا آئین ہے جس پر دونوں فریق عمل کرتے ہیں ۔ اس اصول کے مطابق ماضی اور مستقبل میں سفر کیا جا سکتا ہے لیکن جو واقعات ہوچکے ہیں ان کو بدلنے کی کوشش نہیں کی جاتی کیونکہ اس سے مادّی دنیا کا سارا نظام درہم برہم ہوسکتا ہے۔ اس اصول پر سینکڑوں سال سے دونوں متحارب فریق عمل کرتے آئے ہیں اور تاریخ کے بہت سے نازک ادوار میں بھی جب ایک فریق کی بقاء داؤ پر لگی ہوئی تھی اس اصول سے رُوگردانی نہیں کی گئی۔  لیکن پانامہ والے معاملے میں عالمی اسٹبلشمنٹ کا اتنا کچھ داؤ پر لگاہوا تھا کہ انہوں نے اس  غیرتحریری اصول کی خلاف ورزی کرنے کا فیصلہ کرلیا۔  بابا رام دیو کے سپرد یہ کام کیا گیا کہ وہ اسّی کی دہائی میں جا کے کچھ واقعات میں تبدیلی کرنے کی کوشش کریں۔
یہ 1980 کا سال تھا۔ مئی کا مہینہ انگلستان میں کافی سرد ہوتا ہے۔ کاؤنٹی سیزن کا آغاز تھا۔ عمران خان بطور پروفیشنل کرکٹر کاؤنٹی کرکٹ کا جزو لاینفک تھے۔ یہ ویک اینڈ کی بات ہے۔ لندن کے علاقےساؤتھ ہال کی جامع مسجد میں عشاء کی نماز ہوچکی تھی۔ مسجد میں گنے چنے نمازی موجود تھے۔ ان میں ایک وجیہہ و شکیل نوجوان بھی تھا جو نماز سے فارغ ہونے کے بعد تلاوت میں مصروف تھا۔ یہ نوجوان عمران خان تھا۔  ان کو جب بھی کرکٹ کی مصروفیت میں سے وقت ملتا وہ زیادہ تر اسے مسجد میں گزارتے تھے۔ اس  رات وہ دیر تک مسجد میں موجود رہے۔ تلاوت کے بعد وہ وظائف میں مشغول تھے کہ اچانک ایک دودھیا روشنی نمودار ہوئی اور اس میں ایک نورانی صورت والے بزرگ کی شبیہ نظر آنے لگی۔ فطری طور پر وہ پریشان ہوئے اور ذرا خوفزدہ بھی۔ لیکن پھر انہوں نے خود پر قابو پایا اور بزرگ سے پوچھا کہ وہ کون ہیں اور یہ سب کیا ہے۔
بزرگ نے ہلکا سا تبسم کیا اور فرمایا ، "عمران! اس عالم شباب اور اس ترغیب بھری دنیا میں تمہارا  تقوٰی اور پرہیزگاری ایسی ہے کہ اکابرین کے زُہد کو شرماتی ہے۔ اسی کو مدنظر رکھتے ہوئے تمہارے سپرد ایک اہم کام کیا جارہا ہے۔ میں جیسا کہتا رہوں ویسے کرتے جاؤ۔ کچھ کام ایسے ہوں گے کہ تمہیں وہ غلط لگیں گے لیکن ان کی مصلحت تم نہیں سمجھ سکو گے اس لیے ان پر شک مت کرنا اور پورے یقین کے ساتھ اس پر عمل کرنا۔ تمہارے سب اعمال اس اُمّت کے لیے خیر کا باعث ہوں گے"۔
یہ بزرگ کوئی اور نہیں بلکہ بابا رام دیو تھے اور انہوں نے نورانی صورت والے بزرگ کا بھیس بدل کر نوجوان عمران خان کو دھوکہ دیا۔ اس کے بعد ان سے ایسے کام کروائے جو ماضی کے اہم واقعات کو تبدیل کرنے والے تھے۔ اس واقعے سے پہلے عمران خان کی نہ کوئی آف شور کمپنی تھی اور نہ ہی ان کی زندگی ایسے لہو و لعب میں گزری تھی۔ انہوں نے نو اگست دو ہزار سولہ تک اسی تقوٰی اور پرہیزگاری کے ساتھ زندگی گزاری  جیسے اپنی جوانی میں تھے۔ بانوے کے علاوہ ستّاسی کا ورلڈ کپ بھی پاکستان ان کی کپتانی میں جیتا تھا۔ لیکن ماضی تبدیل ہونے کی وجہ سے دس اگست دو ہزار سولہ کے بعد تاریخ بدل چکی ہے۔ اب  ہم تاریخ  بارے وہی جانتے ہیں جو بابا رام دیو اور ان کے شیطانی ٹولے نے اسّی کی دہائی میں جا کے تبدیل کی تھی۔ 1987 کا ورلڈ کپ بھی اس نئی ٹمپرڈ ہسٹری کے مطابق پاکستان ہار چکا ہے۔ ڈکی برڈ اور ڈیوڈ شیفرڈ  سے غلط فیصلے کروا کے پاکستان کو سیمی فائنل ہروا دیا گیا۔ اگرچہ بانوے کے ورلڈ کپ میں  بھی بابا رام دیو نے اس نورانی صورت والے بزرگ کے بھیس میں عمران کو یہ باور کرانے کی کوشش کی تھی تم ان فٹ ہو، نہیں کھیل سکتے۔ لیکن عمران نے ان فٹ ہونے کے باوجود انجکشن لگوائے اورشدید تکلیف کے عالم میں کھیل کر پاکستان کو اس فتح سے محروم ہونے سے بچا لیا۔
یہ ایک ایسی خوفناک اور بھیانک حقیقت ہے جو ہم میں سے اکثریت کے لیے قابل قبول نہیں۔  لیکن جیسا انگریزی میں کہتے ہیں کہ رئیلٹی از سٹرینجر دین فکشن۔۔۔ اس معاملے میں یہ کہاوت سو فیصد درست بیٹھتی ہے۔ یہ رئیلٹی دنیا کے کسی بھی فکشن کے مقابلے میں عجیب تر اور ناقابل یقین ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ شیطانی ٹولے کی اس بھیانک کارروائی کا روحانی دنیا میں نوٹس نہیں لیا گیا۔ سب سے پہلے یہ واردات گوجر خان کے نواح میں آباد درویش کے علم میں آئی۔ یہ جولائی 2016 کے وسط کی بات ہے۔ انہوں نے فوراً پیرس میں بابا صاحب کے ادارے سے رابطہ کیا ۔ باباصاحب کے ادارے سے محی الدین نواب کے اکثر قارئین واقف ہوں گے۔ انہوں نے اپنی مشہور زمانہ کہانی "دیوتا" میں اس کے حوالہ جات افسانوی رنگ میں استعمال کیے ہیں۔ اگرچہ اس ادارے کی ساخت اور طریقۂ کار اس سے کافی مختلف ہے جیسے 'دیوتا' میں بیان ہوا ہے۔ بہرکیف ہنگامی بنیادوں پر اس سازش کا توڑ کرنے کی کوششیں شروع ہوگئیں۔ روحانی دنیا یا پیرالل یونیورس کا واحد غیرتحریری اصول ٹوٹنے پر ایک انارکی کی سی کیفیت برپا ہوچکی ہے۔ رحمانی گروہ والے اس  مذموم کارروائی پر شدید برانگیختہ ہیں اور ان کی جانب سے منہ توڑ جواب دینے کی کوششیں جاری ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ اگلے چند ماہ میں ہم تاریخ میں بہت بڑی تبدیلیاں دیکھیں لیکن ظاہر ہے کہ ہم ان کو نوٹس کرنے کے قابل نہیں ہوسکیں گے کیونکہ اس وقت وہی اس وقت کی حقیقت ہوگی۔
عمران خان کو روکنے کے لیے شیطانی ٹولے نے جس پنڈورا باکس کو کھولاہے اس سے نکلنے والی بلائیں اب مشکل سے ہی واپس جائیں گی۔ یہ ساری کتھا اس چیز کا اندازہ لگانے کے لیے کافی ہے کہ پانامہ کا ہنگامہ یوں ہی برپا نہیں ہوا۔ یہ کائنات کی حقیقت کو بدلنے کی سازش ہے۔ انتظار اب صرف اس بات کا ہے کہ فتح کس گروہ کی ہوتی ہے اور ہم کس گروہ کے ساتھ کھڑے ہیں۔
رہے نام اللہ کا!

عفیفہ، لمڈا اور ڈان

برّصغیر پاک وہند کے غیّور لوگ یا تو فلموں کے شائق ہوتے ہیں یا خود چھوٹی موٹی فلم ہوتے ہیں۔  اچھے زمانوں میں فلم بنانا کوئی مشکل کام نہیں ہوتا  تھا۔ ایک خوبرو ، تندرست عفیفہ، ڈاڑھی مونچھ مُنڈا ایک لمڈا اور پوری دنیا پر حکومت کرنے کے منصوبے بنانے والا ایک عجیب الخلقت ڈان۔ یہ تین چیزیں لے کر ان میں عفیفہ کی غربت، لمڈے کی خودداری اور ڈان کی بے غیرتی شامل کردی جاتی تھی۔ حسبِ خواہ شائقین کا دل بہلانے کو ایک آدھ مسخرہ (ہماری ضرورت ہر دور میں رہی ہے)، رقص و سرود، بیمارماں، چالاک سہیلی، وفادار دوست، کالج کا غائب دماغ پروفیسر، ڈان کا خصوصی چمچہ بھی  ہوتا تھا۔  یہ سب چیزیں  فلم کے ڈبّے میں ڈال کر زور زور سے ہلائی جاتی تھیں تاکہ ایسے یکجان ہوجائیں جیسے جامن ڈبّے میں نمک سمیت ڈال کر ہلانے سے جامن اور نمک یکجان ہو کر "جَمُّو  راء  کالے" (یہاں راء سے مراد وہ والی را نہیں ) بن جاتے ہیں۔
ان  اجزاء میں سب سے دلچسپ عفیفہ ہوا کرتی تھیں۔ ان کے والدین میں سے ایک دائمی مریض  ہوتا تھا جو ہر وقت چارپائی پر پڑا کھانستا رہتا تھا اور پانی پانی پکارتا تھا اور دوسرا محنت مزدوری کرکے گھر کا خرچ، بیمار کی دوائی اور عفیفہ کے زرق برق ملبوسات، بھاری بھرکم زیورات اور سات کلو یومیہ میک اپ کا خرچ اٹھا تا تھا۔ عفیفہ کالج بھی جاتی تھیں۔ گھر سے نکلتے ہوئے  میڈم فرحت ہاشمی کی طرح چادر میں لپٹی ہوتی تھیں۔ رستے میں لُچّے لفنگے ان کے حسنِ بے پناہ سے متاثر ہوکر سیٹیاں وغیرہ بھی مارا کرتے تھے۔ یہی عفیفہ جب کالج پہنچتی تھیں تو یویو ہنی سنگھ کے گانے کی ماڈل بن جاتی تھیں۔ اب کی بار سیٹیاں فلم بین بجاتے تھے۔یہیں عفیفہ کی ملاقات لمڈے سے ہوتی تھی جو فلم کے اختتام پر دنیا کو تباہ ہونے سے بچاتا تھا۔
عفیفہ کے گھریلو اور مدرسی ملبوسات میں وہی فرق ہوتا تھا جو آخری روزے اور عید کے دن مسلمانوں کے جذبات میں ہوتا ہے۔ گھر میں سفید دوپٹہ سے سر اور دیگر اشیاء کو اچھی طرح ڈھانپےہوئے مٹی کے چولہے پر  روٹیاں پکاتی ہوئی عفیفہ، کالج میں جاتے ہی ایسی ساڑھی میں ملبوس ہوجاتی تھیں جس کےبارے غالب کہہ گئے ہیں       ؎
آفریں اس دو گرہ کپڑے کی قسمت
جس کی قسمت میں ہو عفیفہ کا بلاؤز ہونا
کندھوں سے کمر کے خَم تک صرف ایک ڈوری سے ستر پوشی کی اس سے عمدہ مثال ملنی مشکل ہے۔ عفیفہ پر موسمی حالات بھی اثر نہیں کرتے تھے۔ برفباری میں بھی عفیفہ ایسے کپڑے پہن کے رقص کرتی تھیں جس سے ان کی سردی دور ہو نہ ہو، فلم بینوں کے کانوں سے دھوئیں اٹھنے  لگتے تھے۔  جملہ فنون جیسے کھانا پکانا، پڑھائی، سلائی وغیرہ کے علاوہ  عفیفہ کی رقص میں مہارت بھی قابل صد تحسین ہوتی تھی۔ لمڈے بھائی کے ساتھ تو ان کا رقص قابلِ دید ہوتا ہی تھا لیکن فلم کی آخری ریلوں میں ڈان کے اڈّے پر ان کے سب ہم نفسوں کے سامنے بھی عفیفہ جان توڑ کے ناچتی تھیں۔ جبکہ لمڈے بھائی ان کو سختی سے منع بھی کرتے تھے کہ ۔۔۔ عفیفہ۔۔ ان کُتّوں کے سامنے مت ناچنا۔۔۔ لیکن جیسا کہ ہمیں علم ہے کہ فن کی کوئی سرحد نہیں ہوتی اور نہ ہی فن، موقع محل دیکھتا ہے۔ ناچنا شروع کردیتا ہے۔۔۔
عفیفہ کی ایک خوبی اوربھی تھی۔ یہ جب بھی مہین لباس میں ہوتی تھیں تو یکدم بارش شروع ہوجاتی تھی جس کی وجہ سے انہیں مجبور اً توبہ شکن رقص و سرود کا مظاہرہ کرنا پڑتا تھا۔ سنا ہے اگلے زمانوں میں راگ گانے سے بارش ہونے لگتی تھی۔ عفیفہ راگ کے ساتھ رنگ شامل کرکے اسے رنگین  بنا دیتی تھیں۔
فلم میں ہیرو اتنا ہی ضروری ہے جتنے زندگی میں خواب۔ خوابوں کے بغیر زندگی گزر تو جاتی ہے لیکن کافی بورنگ ہوتی ہے۔  تو ہمارے لمڈے بھائی زیادہ تر یتیم اور لاوارث ہوتے تھے لیکن کہیں نہ کہیں سے ان کو ایک بہن مل ضرور جاتی تھی ۔ جس کی عزت و عصمت کی حفاظت ان کی زندگی کا لائحہ عمل ہوتی تھی لیکن لمڈے میاں  عفیفہ سے سرعام وہی حرکات کرتے پائے جاتے تھے جن سے وہ اپنی بہن کو محفوظ رکھنا چاہتے تھے۔خیر یہ تو فلم ہے۔ اس میں ایسا ہی ہوتاہے۔
لمڈے میاں کو کبھی کبھار بذریعہ لاکٹ یا ایک عدد جذباتی، نیّرسلطانوی گانے کی بدولت ایک بھائی بھی فلم کے آخر میں مل جاتا تھا۔ یہ والا بھائی زیادہ تر ڈان کا دایاں ہاتھ ہوتا تھااور ساری فلم میں لمڈے  بھائی کو ناکوں چنے چبواتا رہتا تھا۔  لیکن عین اس وقت جب ڈان انکل ہیرو کا رام نام سَت کرنے لگتے تھےتو کوئی ناہنجار پرانا جذباتی گانا بجانا شروع کردیتا تھاجس سے دونوں بھائی ایک دوسرے کو پہچان لیتے تھےاور اتفاق  میں برکت کا عملی مظاہرہ کرتے ہوئے ڈان انکل اور ان کے کارندوں کو گدّڑ کُٹ لگا کر رقص کرتی ہوئی عفیفہ کو بصد مشکل روکتے تھےکہ رقص موقوف کردو پارو۔۔۔ سب وفات پا گئے ہیں۔
لمڈے میاں کی بندوق بھی سٹیٹ آف دی آرٹ ہوتی تھی۔ لکڑی کی بندوق ہونے کے باوجود اس میں لامتناہی گولیاں ہوتی تھیں اور ڈان انکل کے تقریباً تئیس ہزار کن ٹُٹّوں کو جہنم رسید کرنے کے بعد اس کی گولیاں عین اس وقت ختم ہوتی تھیں جب وہ ڈان انکل کو گولی مارنے لگتے تھے۔ ڈان انکل کے پستول سے نکلی ہوئی ستائیس گولیوں کو گیڑا کرانے کے بعد جب پستول خالی ہوجاتا تھا تو لمڈے میاں ان کو مُکّوں اور ٹھڈوں سے خوب پیٹتے تھے اور آخر کار ڈان انکل کو کسی بانس وغیرہ میں پَرو کر جہنم واصل کرتے تھے۔  اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ بندوق میں ایک گولی اضافی ہو تو کافی اٹھا پٹخ سے نجات مل سکتی ہے۔
بہر کیف لمڈے میاں کی غربت اور خودداری کے باوجود ان کے ڈیزائنر سوٹ، چشمے اور جوتوں سے فلم بینوں کو اخلاقی سبق ملتا تھاکہ کبھی ہمّت نہ ہاریں اور ہمیشہ اس بات پر یقین رکھیں کہ۔۔۔ ایک دن آپ بھی کسی فلم میں لمڈا بن جائیں گے۔
ڈان انکل فلم کا اٹوٹ انگ ہوا کرتے تھے۔ ان کے عالیشان محل نما اڈّے میں توبہ شکن حسیناؤں اور صورت حرام گن مینوں کی تعداد  یکساں ہوتی تھی۔ ڈان انکل اتنی دلرباؤں کی ہم نشینی کے باوجود لمڈے میاں کی کیوٹ سی گھریلو بہن پر جی جان سے عاشق ہوجایا کرتے تھے اور ہر حال میں ان کے ساتھ ویسے ڈوئیٹ گانے کی خواہش رکھتے تھے جیسے لمڈے میاں اور عفیفہ اکثر و بیشتر جذباتی ہوکے گاتے تھے۔ لیکن لمڈے میاں ایک غیرت مند بھائی تھے اور ڈان انکل کی ایسی خواہشات کے سامنے سدِّ راہ ثابت ہوتے تھے۔
ڈان انکل  کے ٹھوس و مائع منشّیات، اسلحہ، اغواء برائے پیار، جوا، کنسٹرکشن، شپنگ کے علاوہ ہوٹلز کے بزنس بھی تھے۔ آپ ہر وقت  ایک ہاتھ میں ارغوانی مشروب کا گلاس اوردوسرے ہاتھ میں ناکافی لباس والی حسینہ کی کمر تھامے رہتے تھے۔ یہ سب ہونے کے باوجود ڈان انکل کا غصہ ہر وقت عروج پر رہتا تھا۔ جس کو ٹھنڈا کرنے کے لیے حسینائیں وقتاً فوقتاً ہیجانی رقص پیش کرتی تھیں۔ ڈان انکل اتنے بے وقوف ہوتے تھے کہ یہ سب موجود ہونے کے باوجود دنیا پر حکومت کرنے کے منصوبے بناتے رہتے تھے۔ اگر ان میں ذرا سی بھی سمجھداری ہوتی تو بِل کلنٹن سے سبق حاصل کرتے جو بے چارے ایک حسینہ کے ساتھ نام آنے پر کھجل ہوتے رہے جبکہ ڈان انکل تو  ایسی کھَے پوری فلم میں کھاتے رہتے تھے۔ ڈان انکل کو ایک مجہول سا ثمرمبارک مند نما سائنسدان بھی مل جاتا تھا جو انہیں دنیا پر حکومت کرنے کے لیے وڈّا بمب بنا دیتا تھا۔ عین اس وقت جب ڈان انکل دنیا پر حکومت کرنے کے لیے تقریباً تیار ہوتے تھے انہیں لمڈے بھائی کی کیوٹ سی بہن یاد آجاتی تھی اور وہ اسے اغوا برائے پیار کروا لیتے تھے۔ اس بھرشٹا چار سے مجبور ہو کر لمڈے بھائی اپنی بندوق نکال کے ڈان انکل کے اڈّے پر دھاوا بول دیتے تھے ۔ جہاں ڈان انکل نے لمڈے کی بہن کو ایک ستون کے ساتھ باندھا ہوا ہوتا تھا۔ اور کسی عجیب و غریب وجہ سے عفیفہ بھی وہاں اپنی مشہور زمانہ ڈوری والی ساڑھی کے ساتھ آخری رقص عرف ان کُتّوں کے سامنے مت  ناچنا ،پیش کرنے کے لیے تیار ہوتی تھیں۔ جیسے ہی عفیفہ کا گانا ختم ہوتا تھا، لمڈے میاں کی بندوق گولیاں اگلنے لگتی تھی۔ یہ ساری لپّا ڈکی دس بارہ منٹ جاری رہنے کے بعد ڈان انکل کو کسی سٹیل راڈ یا بانس میں پَرودینے پر ختم ہوتی تھی۔ اور عفیفہ و لمڈے سمیت سب لوگ باقی زندگی ہنسی خوشی بور  رہنے لگتے تھے۔

یہ جو دھرنا ہے۔۔ چاہت ہے ہماری

دھرنے کی طبیعت میں
یہ کیسا  لَوٹنا سیاست نے رکھا ہے
کہ یہ جتنا پرانا، جتنا بھی معتوب ہوجائے
اسے تائید تازہ کی ضرورت پھر بھی رہتی ہے
سڑک کی آخری حد تک سروں سے لہلہاتا ہو
نگاہوں سے ٹپکتا ہو، لہو میں جگمگاتا ہو
ہزاروں طرح سے دلکش، حسیں جوڑے بناتا ہو
اسے چند نوجوانوں کی تو حاجت پھر بھی رہتی ہے!
یہ دھرنا مانگتا ہے یوں گواہی اپنے ہونے کی
کہ جیسے رہنما سادہ، شام کو درزی بٹھائے
اور شب میں بارہا اٹھے
کھڑکی کھول کر دیکھے
شیروانی اب کہاں تک ہے!
دھرنے کی طبیعت میں عجب تکرار کی خُو ہے
یہ ڈی جے کے گانوں کو سننے سے نہیں تھکتا
الیکشن کی گھڑی ہو یا ووٹ گنتی کی ساعت ہو
اسے بس ایک ہی دُھن ہے
"کہو میں دھرنوی ہی تھا!"
"کہو میں دھرنوی ہی ہوں!"
"تم بھی دھرنوی ہی ہو نا؟؟!"
کچھ ایسی بے سکونی ہے سیاست کی زمینوں میں
کہ جو اہلِ دھرنا کو سدا بے چین رکھتی ہے
کہ جیسے ریس کا گھوڑا
کہ پہلی شام کا دُلہا
کہ جیسے بِیڑی کا آخری ڈنڈا!
کہ دھرنے والوں کی سحر راتوں میں رہتی ہے
حسرت کی شاخ پر آشیاں ہے وزارت کا
عینِ حکومت میں بھی الیکشن کے خوابوں میں رہتا ہے
دھرنے کے مسافر شب جب کاٹ چکتے ہیں
ٹینٹ کی کرسیاں چُنتے، سیور کی تھیلیاں تھامے
سمے کی راہگزر کی آخری سرحد پہ رکتے ہیں
تو کوئی گرتی قناتوں کی ڈوری تھام کر
دھیرے سے یہ کہتا
"یہ سچ ہے ناں!
ہماری قنات اک دوسرے کے نام لکھی تھی
یہ دھندلکا جو آنسو گیس کا قریب و دور پھیلا ہے
اسی کا نام دھرنا ہے!
تم بھی دھرنوی تھے نا؟؟!
تم بھی دھرنوی ہو نا؟؟!"
کہ دھرنے کی طبیعت میں

یہ کیسا لَوٹنا سیاست نے رکھا ہے

٭٭شاعر نامعلوم٭٭

صیہونی سازشیں اور کدّو کے فوائد

عراق پر امریکی حملے کے دوران بغداد کی ایک قدیم عمارت بمباری سے ملبے کا ڈھیر بن گئی۔ عراق پر امریکی قبضے کے بعد شہر کی صفائی شروع ہوئی تو اس عمارت کا ملبہ ہٹاتے ہوئے گہرائی سے ایک قدیم عمارت کے آثار دریافت ہوئے۔ یہ کسی درس گاہ کے آثار تھے۔ وہاں سے ایک قدیم قلمی نسخہ مکمل حالت میں دستیاب ہوا جس کا نام "تحفۃ الاغانی" تھا۔ مصنف کا نام عبداللہ بن طاہر البغدادی رضوی تھا۔ کتاب سے معلوم ہوتا ہے کہ مصنف عالم دین اور صوفی تھے۔ یہ کتاب ان کے کشف پر مبنی پیشینگوئیوں پر مبنی ہے۔ اس میں ایک باب خاص طور پر ہند یعنی ہندوستان کے بارے میں ہے۔ اس میں حضرت لکھتے ہیں کہ ہند کے کچھ علاقوں پر مسلمانوں کی حکومت قائم ہوگی لیکن ایک طویل عرصہ تک یہ ملک افراتفری اور بے چینی کا شکار رہے گا۔ اس کی جو وجہ اس کتاب میں بیان کی گئی وہ بہت ہولناک ہے۔ حضرت لکھتے ہیں کہ اس علاقے کے مسلمان خنزیر نما خوراک کھانے کے عادی ہوں گے اور یہی سبب ہوگا کہ وہ بتدریج دین سے دور ہوتے جائیں گے۔ یہ بہت عجیب بات تھی کیونکہ پاکستان میں لوگ بظاہر ایسی کوئی چیز نہیں کھاتے۔ 2011 میں یونیورسٹی آف مشیگن کے پروفیسر سٹورٹ جونز جو ڈپارٹمنٹ آف بائیو ٹکنولوجی کےسربراہ ہیں، انہوں نے اپنی ریسرچ میں ثابت کیا کہ برائلر چکن اور خنزیر کے گوشت میں بنیادی طور پر کوئی فرق نہیں۔ برائلر جس ٹکنالوجی سے پیدا کیا گیا اس میں خنزیر کے ماڈل کو ہی فالو کیا گیا تھا۔ اس تحقیق کے سامنے آتے ہی اس پر پابندی لگا دی گئی اور ڈاکٹر جونز کو نفسیاتی مریض قرار دے کر ذہنی امراض کے ہسپتال میں ڈال دیا گیا۔ نومبر 2015 میں ڈاکٹر سٹورٹ جونز کا اسی ہسپتال میں پراسرار حالات میں انتقال ہوگیا۔ اگر یہ تحقیق منظر عام پر آجاتی تو مغرب کی ملٹی بلین ڈالر برائلر چکن انڈسٹری تباہ ہوجاتی۔ اس انڈسٹری کے بَل پر انہوں نے مسلم ممالک میں اپنے ایجنٹس کو جیسے ارب پتی کیا، وہ سلسلہ بھی ختم ہوجاتا اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ مسلمان حرام گوشت کھا کے جن روحانی امراض کا شکار ہو رہے ہیں اس سے نجات مل جاتی۔
انہی دنوں تل ابیب یونیورسٹی  میں کدّو کے خواص پر ایک ریسرچ پیش کی گئی۔ ڈاکٹر موشےڈیوڈ جو پولینڈ سے ہجرت کرکے اسرائیل میں آئے تھے، وہ پچھلے بائیس برس سے کدّو کے خواص پر تحقیق کررہے تھے۔ 2014  کے موسم گرما میں یہ تحقیق مکمل کرکے یونیورسٹی کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کی میٹنگ میں پیش کی گئی۔ اس ریسرچ پیپر میں یہ انکشاف کیا گیا کہ کدّو ایک ایسی مکمل غذا ہے جس کی مثال کسی اور غذا میں نہیں ملتی۔ اگر ایک انسان روزانہ دو وقت کدّو کھائے تو اس کی غذائی ضروریات بالکل پوری ہوجاتی ہیں۔ کدّو میں ایسے اجزاء شامل ہیں جو انسان کو ہر قسم کی بیماری سے بچا لیتے ہیں۔ کینسر اور ایڈز کے مریضوں کو تجرباتی طور پر ایک مہینہ کدّو کھلائے گئے تو وہ بالکل بھلے چنگے ہوگئے۔ کدّو کے جوہر سے ہر قسم کی بیماری کے علاج کی ویکسین تیار کرنے کا تجربہ بھی کیا گیا اور نتائج حیران کن تھے۔ کسی بھی بیماری کے آخری سٹیج کے مریض کو بھی کدّو ویکسین لگائی گئی تو وہ ایک دن کے اندر پوری طرح صحت مند ہوگیا۔  
 حیران کن بات یہ ہے کہ ڈاکٹر موشے ڈیوڈ کو بھی اس کے بعد منظر عام سے غائب کردیا گیا۔ تل ابیب ٹائمز میں ڈاکٹر ڈیوڈ کی بیوی  مارشا ڈیوڈ کا انٹرویو بھی چھپا جس میں انہوں نے اپنے خاوند کی پراسرار گمشدگی پر سوالات اٹھائے اور اس کا تعلق ان کی ریسرچ سے جوڑتے ہوئے حکومت سے مطالبہ کیا کہ اصل حقائق کو سامنے لایا جائے۔ یہ معاملہ بھی بعد میں وقت کی گرد میں گم ہوگیا۔ اس ریسرچ کو اگر آفیشلی طور پر سامنے لایا جاتا تو اسلام کی حقّانیت کھل کر پوری دنیا کے سامنے واضح ہوجاتی اور یہود و ہنود کا کفر روزِ روشن کی طرح واضح ہوجاتا۔
درج بالا دو واقعات سے ہر مسلمان مرد و زن پر لازم ہے کہ وہ اس تحریر کو  سبحان اللہ کہہ کے شئیر کرے  اور اپنے مسلمان بھائی بہنوں کو حرام کھانے سے بچائے اور کدّو کے فوائد  سے رو شناس کرائے۔  جزاکم اللہ

چار لکیریں

انہوں نے ایک ادا سے دایا ں ہاتھ بالوں میں پھیرا۔ کاؤچ کی پشت سے ٹیک لگائی۔ کرتے کے کھیسے سے  طلائی پائپ نکال کر کافی ٹیبل پر رکھا۔ سائڈ ٹیبل کا دراز کھولا۔ چمکتی دھات کی ایک ڈبیا نکال کر کافی ٹیبل کے شفاف شیشے پر سفید رنگ کا سفوف انڈیلا۔  ان کے دوست نے فوراً اپنے بٹوے سے کریڈٹ کارڈ نکال کے ان کو دیا۔ انہوں نےکریڈٹ کارڈ سے سفوف کی ڈھیری کو نہایت مہارت سے چار لکیروں کی شکل  دی۔ ٹیبل سے پائپ اٹھا کر اس کا ایک سرا  ناک سے لگایا اور دوسرے سرے سے ان لکیروں کو سونگھنا شروع کردیا۔ چوتھی لکیر ختم ہوتے ہی انہوں نے کالا چشمہ اتار کر ٹیبل پر دھرا۔ سر جھٹکا۔ گہرا سانس لیا۔ پائپ کھیسے میں ڈالا اور میری طرف متوجہ ہوکر بولے۔۔۔ جی چوہدری صاحب۔۔ آپ کیا کہہ رہے تھے؟
یہ گریٹ پرسنیلٹی ہیں۔ زندگی میں انہوں نے جس کام کو بھی ہاتھ لگایا وہ سونا ہوگیا اور جس شخص کو ساتھ ملایا وہ مٹّی۔ یہ رول ماڈل  بھی ہیں۔ یہ واحد پرسنیلٹی ہیں جن سے مولوی بھی انسپائر ہوتے ہیں اور پلے بوائے بھی۔ انکی انرجی ، ان کی ڈیڈیکیشن ایک ضرب المثل کی حیثیت اختیار کرچکی ہے۔ لوگ مرنے کے بعد لیجنڈ بنتے ہیں یہ لیونگ لیجنڈ ہیں۔ یہ جہاں چلے جائیں سینٹر آف اٹینشن ہوتے ہیں۔ میں اپنی ویب سائٹ کے لیے ایک موٹیویشنل مضمون لکھ رہا تھا۔ میں نے فیصلہ کیا کہ ان سے ملاقات کرنی چاہیے۔ ان سے پوچھنا چاہیے کہ آپ کی اچیومنٹس کا راز کیا ہے۔ میں نے ان کے سیکرٹری سے وقت لیا۔ انہوں نے  مجھ سے پیسے لیے۔  میں وقت مقررہ پر ان کے گھر پہنچ گیا۔ میرے پاس گلوریا جینز کی بلیک کافی کا مگ اور شوگر فری ڈنکن ڈونٹس کا شاپر تھا۔  مجھے علم تھا کہ یہ کسی ملنے والے کو پانی بھی نہیں پوچھتے۔ میں مریض آدمی ہوں۔ میں کام کرتے ہوئے کچھ نہ کچھ نہ کھاؤں تو میرا مُوڈ سُوِنگ ہوجاتا ہے۔ خانزادے کو کرسی مارنے کا واقعہ آپ کو یاد ہوگا۔  اس لیے احتیاطا ً میں نے کافی اور ڈونٹس ساتھ لے لیے۔ میرا مُوڈ سُوِنگ شوگر لو ہونے پر ہوتا ہے۔ ان کا مُوڈ ہر وقت سُوِنگ رہتا ہے۔ یہ غصے میں بہت گندی گالیاں نکالتے ہیں۔  مجھے گالیوں سے بہت ڈر لگتا ہے خاص کر جب کوئی مجھ سے تگڑا بندہ نکال رہا ہو۔ اینی ہاؤ۔۔۔
میں نے ان کو چار لکیریں سونگھتے دیکھا۔ میں حیران ہوگیا۔ میں نے ڈونٹ کافی میں ڈبویا۔ بائٹ لینے کی کوشش کی۔آدھا زمین پر گر گیا۔ میں نے جلدی سے اٹھا یا۔ کلمہ پڑھ کر اس پر پھُونک ماری اور کھا لیا۔ کافی کا سِپ لیا۔ مگ میز پر رکھا۔ چشمہ اتار کر ٹائی سے اس کے شیشے صاف کیے۔ چشمہ ناک کی پھننگ پر جمایا  ۔  اور ان سے گفتگو کا آغاز کردیا۔ میرا پہلا سوال ہی چار لکیروں بارے تھا۔ میں نے کہا۔ یہ نشہ ہے۔ یہ حرام ہے۔ یہ غیرقانونی ہے۔ یہ صحت کے لیے نقصان دہ ہے۔ اس سے دماغ ماؤف اور جسم مفلوج ہوجاتا ہے۔ آپ یہ کیوں کرتے ہیں؟  یہ سن کر ان کے سیکرٹری نے انگلی ہونٹوں پر رکھ کر مجھے خاموش ہونے کا اشارہ کیا۔  میں خاموش ہوگیا۔ ان کی آنکھیں مزید چُندھیا گئیں۔ ان کا چہرہ سُرخ ہوگیا۔انہوں نے  پیپسی کی ڈیڑھ لیٹر والی بوتل کھولی۔ ایک لمبا گھونٹ لیا۔ ڈھکن لگایا۔ میری جانب ایک نگاہِ غلط انداز سے دیکھا اور کہنے لگے۔۔۔

یہ چار لکیریں نہیں ہیں۔ یہ زندگی کا فلسفہ ہے۔ یہ طرزِ حیات ہے۔ پہلی لکیر انرجی کی ہے۔ میں اس عمر میں بھی  انتھک محنت کرتا ہوں۔ میں نوجوانوں سے زیادہ جوان ہوں۔ یہ سب انرجی اس پہلی لکیر کا کمال ہے۔ دوسری لکیر ذہانت کی ہے۔ یہ دماغ کی کارکردگی کو ناقابل یقین لیول تک بڑھا دیتی ہے۔ ایسی ایسی باتیں اور چالیں دماغ میں آتی ہیں جن کو یہ دنیا سمجھتی، سمجھ ہی نہیں سکتی۔ میں اس دنیا سے پچاس سال آگے کی سوچتا ہوں۔ یہ سارا کمال اس دوسری لکیر کا ہے۔ تیسری لکیر صحت کی ہے۔ صحت کے لیے ضروری ہے کہ بھوک لگے اور نیند آئے۔ میں دو دیسی مرغیاں ایک وقت میں کھا جاتا ہوں۔ عام آدمی دیسی مرغی کا لیگ پیس بھی کھا کر نہیں پَچا سکتا۔ میں دو مرغیاں دَبڑ جاتا ہوں۔ بنی نوع انسان کو آج تک یہ بات ہی سمجھ نہیں آئی کہ رات ہر کام کرنے کے لیے بہترین وقت ہے۔ لوگ سوئے ہوتے ہیں۔ گرمی بھی نہیں ہوتی۔ رش بھی نہیں ہوتا۔ اس لیے میں رات کو جاگتا ہوں۔ اور نور پیر کے وقت گہری نیند سوجاتا ہوں۔ ایک بجے تک بھرپور نیند لے کے بیدار ہوتا ہوں۔ یہ سب تیسری لکیر کا کمال ہے۔ یہ کہہ کر وہ خاموش ہوگئے۔ میں نے بچا ہوا ڈونٹ کافی میں ڈبوئے بغیر منہ میں ڈالا۔ کافی کا گھونٹ لیا اور اسے نگل کر سوال کیا۔ 
 "اور چوتھی لکیر؟"
نہوں نے بے نیازی سے میری طرف دیکھا اور بولے،"وہ قوّت باہ کے لیے ہے۔"
یہ سن کر میں نے میز سے اپنا فون اٹھایا۔ان کے ہاتھ چُومے۔ چوتھی لکیر کا سفوف بطور تبرک لیا ۔ ہینڈ شیک کیا اور کمرے سے الٹے قدموں باہرنکل آیا۔

بتا نہیں سکتا

تنہا سفر کرنا ہمارے لیے کبھی کوئی ایسا خوشگوار کام نہیں رہا۔  کوشش یہی ہوتی ہے کہ سفر کے آغاز میں ہی سوجائیں اور آنکھ کھلے تو منزل مراد شاد باد آچکی ہو۔سفر کی نیند بھی بہرحال  خواب میں کروڑ پتی ہونے والا حساب ہے ؛آنکھ کھلنے پر بندہ وہی کا وہی اور وہیں کا وہیں ہوتا ہے۔ خیر۔۔ آج ہم آپ کو ایک حالیہ سفر کا قصّہ سنانے جارہے ہیں ۔ فیصل آباد سے ایشیا کے صاف  اور خوبصورت ترین شہر گوجرانوالہ کا سفر۔
گوجرانوالہ کے ذکر سے ہمارے ذہن میں جو پہلی چیز آتی ہے وہ "کھوتا پُلی" ہے۔ حاشا و کلا اس سے  تفنّن مراد نہیں ہے۔ زندگی میں پہلی دفعہ  جب ہم گوجرانوالہ وارد ہوئے تو  سکول کے ابتدائی درجات میں اپنی استانیوں کو  شاگردی  کا شرف ارزاں کررہےتھے۔ سردیوں کے دن تھے اور رات کا سفر۔ جی ٹی ایس کی بس سے اتر کر جب تانگے میں سوار ہوئے تو ابّو جی کو پتہ سمجھاتے ہوئے کھوتا پُلی کا نام لیتے سنا۔  ہم دل میں بہت ہنسے کہ یہ کیا نام ہوا۔ اونچی آواز میں اس لیے نہیں کہ اس زمانے کے ابّو جی لوگ بہت بارعب ہوا کرتے تھے اور ان کے سامنے دَم مارنے کی جرات نہیں ہوتی تھی کجا منہ پھاڑ کر ہنسنا ۔ خیر ہم اپنے خالہ زادوں کو بہت عمر تک "کھوتا پُلی" کا نام لے کر چھیڑتے رہے۔۔۔ فیصلابادی جو ہوئے۔
دوسرا سفر ہم نے لڑکپن اور نوجوانی کے درمیانی عرصہ میں کیا۔ یہ ہمارے یکے از خالہ زادوں کی شادی کی تقریب تھی۔  گوجرانوالہ ابھی تک ایک بہت بڑی  کھوتا پُلی ہی تھا۔ شادی کا ڈیڑھ دن ہم نے بہت مشکل سے گزارا اور عین ولیمہ کے وقت فرار ہوکے عازمِ فیصل آباد ہوئے۔  اس کے بعد طویل عرصہ  تک گوجرانوالہ ہمارے لیے شہرِ ممنوع رہا۔ اس دفعہ بعدمدت مدید ایک کام کے سلسلے میں  گوجرانوالہ جانا ہوا۔
فیصل آباد میں اب  جی ٹی ایس  چوک ہی باقی رہ  گیا ہے۔ جی ٹی ایس تو  عرصہ ہوا ملازمین کو پیاری ہوگئی۔ فلائنگ کوچ  سے نجانے ہمیں اپنے کلب کرکٹ کے لیفٹ آرم سپنر  ثاقب یاد آجاتے ہیں جو موٹے شیشوں کا چشمہ پہنتے تھے اور انہیں پیار سے "انّہی فلینگ کوچ" کہا جاتا تھا۔ ان کے احترام میں ہم فلائنگ کوچ میں سفر کرنا کچھ مناسب نہیں سمجھتے۔ خیر احترام وغیرہ تو کچھ نہیں  اس کی اصل وجہ فلائنگ کوچ کی  نشستوں کا یک جان  دو قالب ہونا ہے۔ آپ کا قد معمول یا اس سے کچھ زیادہ ہے تو اس نشست پر تشریف رکھنے کے بعد گھٹنے قد کی مناسبت سے پیٹ یا سینے سے لگ جاتے ہیں اور ہر دھچکے پر ایسا لگتا ہے جیسے۔۔۔
؎  سینہ ءبشیر سے باہر ہے دم بشیر کا
ڈائیوو  نے موٹر وے تو خیر بنائی ہی تھی لیکن اس کا بڑا احسان بسیں چلانا ہے۔ سچ پوچھیں تو ہمیں اتنی عزت سے بذریعہ سڑک سفر کرنے کی عادت ہی نہیں رہی۔ لاری اڈّے پر مسافر کو ربڑ سمجھ کے کھینچا جاتا تھا۔ سانگلے جانے والے کو زبردستی سمندری کی بس میں کھینچ کر بٹھا دیتے کہ ۔۔۔۔ پاء جی بیٹھو تے سئی۔۔ گڈّی بس ٹُرَن ای لگّی اے۔۔۔ وہ بے چارہ چلاّتا رہتا کہ۔۔ او بھائیا۔۔ مَیں سانگلے جانا۔۔ لیکن اس غریب کی کوئی سنتا نہیں تھا۔  ڈائیوو کی دیکھا دیکھی  اب بہت سے لوگوں نے ویسی ہی بسیں منگوا  لی ہیں۔ ہوسٹس کا بندوبست بھی ہوگیا ہے۔ وائی فائی بھی چلتا ہے۔ تھکی ہوئی ہندی/انگلش فلم کے علاوہ  ٹھنڈا پانی اور گرم کولڈ ڈرنک بھی میسر ہے۔ سنیکس کے نام پر دو بسکٹ اور ہوا سے بھرا ایک  پیکٹ ملتا ہے جس میں سے کبھی کبھی آلو کے قتلے بھی برآمد ہوجاتے ہیں۔ 
تو صاحبان، مدّعا اس تفصیل کا یہ کہ ہم فلائنگ کوچ سے بچ کے ایک ڈائیوو نما بس میں جا گھسے۔  خوشگوار حیرت تب ہوئی جب عین وقت مقرّرہ سے پانچ منٹ بعد ہمارے سفر کا آغاز ہوگیا۔  مَلوکڑی سی ہوسٹس کے پاس جا کے ہم نے وائی فائی کا پاسورڈ دریافت کیا تو وہ چَمک کے غلامابادی لہجے میں بولیں، "پہلی دفعہ سفر کرنے لگے ہیں؟"۔ ہم نے مُنڈی اثبات میں ہلائی تو  انہوں نے ہمیں عجیب نظروں سے دیکھتے ہوئے پاسورڈ عنایت کیا اور ہم نیویں نیویں ہوکے اپنی نشست کی جانب روانہ ہوگئے۔ سائیں، خاتون اور جیالے کی بات کا ہم کبھی برا نہیں مانتے۔
ٹوئٹر  کھولا۔ اتنی صبح ٹوئٹر بالکل ہومیوپیتھک ہوتا ہے۔ سلام دعا چل رہی ہے۔ کہیں تلاوت لگی ہے تو کہیں اقوال زریں کا ناشتہ ہورہا ہے۔ کسی کو ڈی ایم نہ آنے کا نِمّا نِمّا گلہ ہے تو کوئی سب ٹویٹس میں نسرین/پروین/رخسانہ وغیرہ کو صبح بخیر کہہ رہا  ہے۔  واللہ اعلم دس گیارہ بجے کے بعد ٹویپس کو کیا موت پڑتی ہے کہ ایک دوسرے کے گریبان نوچنے پر تُل جاتے ہیں اور رات دس بجے تک یہی گھڑمس برپا رہتا ہے۔ دس بجے کے بعد اچانک پھر سب کو اپنی اپنی نہ ہونے والی محبتّیں یاد آنے لگتی ہیں اور وہ حسبِ توفیق میرؔ سے وصی شاہ سرکار اور محمد رفیع سے یویو ہنی سنگھ پر ہاتھ صاف کرنا شروع کردیتے ہیں۔ 
ہم نے بھی موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے دو چار خودساختہ اقوال زرّیں مارکیٹ کیے اور حسب خواہ ری ٹویٹس اور لائکس سمیٹ کر چپکے ہو رہے۔ ایک دفعہ جب لوگ آپ کو کچھ تسلیم کرلیں تو پھر چاہے ان کو جو مرضی انٹ شنٹ پڑھاتے رہیں وہ اس  کو" اللہ کرے زورِ قلم اور زیادہ" کہہ کے برکت ڈالتے رہتے ہیں۔ ہم بھی یہی نسخہ آزماتے ہیں کچھ بھی لایعنی، مہمل بات ٹویٹ کردیتے ہیں اور ہمارے پرستار اس میں سے ایسے ایسے نکات ڈھونڈ لاتے ہیں کہ ہمارے فرشتوں کے علاوہ ان کے سپروائزر کو بھی کوئی خبر نہیں ہوتی کہ ایں چہ چکر است۔۔۔ اور گلشن کا کاروبار چلتا رہتا ہے  اور ہم ری ٹویٹس اور لائکس کے نشے میں دُھت رہتے ہیں۔  جب نشہ ٹوٹنے لگتا ہے تو کسی گمنام سے شاعر کا فضول سا شعر ٹویٹ کرکے اس پر واہ واہ سمیٹ کے نشہ پورا کرلیتے ہیں۔ کچھ احباب دُشنام کا نشہ بھی کرتے ہیں ۔  یہ ملامتی صوفیاء کے طبقے سے تعلق رکھتے ہیں اور ان کا ٹوئٹری کے علاوہ روحانی دنیا میں بھی اونچا درجہ ہے۔ 
؎  آپ بھی گالم گال ہو مجھ کو بھی گالم گال کر
شہری حدود سے نکل کے موٹر وے پر چڑھتے ہی ہمیں کُوکِی چڑھنی  شروع ہوگئی اور گوجرانوالہ پہنچنے تک ہمیں صرف "سنیکس" کے لیے جاگنا پڑا جب  ہوسٹس بی بی نے ہمارے کان میں آکر کہا۔۔۔ "سرررر۔۔ سنیکس"۔۔ ہم ہڑبڑا کر اٹھے کہ شایدرہزن آگئے ہیں۔۔ جبکہ وہ سنیکس تھے۔ سنیکس کا ڈبہّ سامنے والی جالی میں اُڑس کے ہم دوبارہ کارِ زیاں میں مشغول ہوگئے اور ہماری آنکھ دوبارہ تبھی کھلی جب گوجرانوالہ شہر کی بتّیاں اور کھوتا ریڑھیاں نظر آنے لگیں۔ 
جس جگہ ہم بس سے اترے وہ شاید شیخوپورہ موڑ کہلاتی ہے۔ لاری اڈّے کی مخصوص افراتفری اور بے ترتیبی۔ سڑک کے ایک جانب پھلوں کی ریڑھیاں قطار اندر قطار  کھڑی تھیں اور تقریبا آدھی سڑک پر مالکانہ حقوق کا دعوی کیے ہوئے تھیں۔ باقی آدھی سڑک پر رکشے، موٹر سائیکلیں، تانگے، ریڑھیاں، چنگ چی، کاریں۔۔۔ توں ٹھہر جا ، مینوں لنگھ لین دے۔۔ کا عملی مظاہرہ پیش کررہی تھیں اور اس کوشش میں سب وہیں جمے کھڑے تھے۔ کاروں اور موٹر سائیکلوں  والے ہارن بجا رہے تھے اور ویگنوں، رکشوں والے نصیبو اور ہنی سنگھ کے گانے ۔ 
ہمیں گرجاکھ جانا تھا۔ تھوڑا پیدل چل کے ہم ایسی جگہ پہنچے جہاں رش کچھ چھَٹ گیا تھا۔ رکشے والے سے استفسار کیا کہ میاں، گرجاکھ  کا کیا لوگے؟ وہ بولے، سو روپیہ۔ ہم لپک کے رکشے میں سوار ہوگئے۔ رکشے والے بھائی کے تاثرات بتا رہے تھے کہ ابے گھامڑ، دو سو ہی مانگ لیتا۔۔۔ 
ہمارے ذہن میں گوجرانوالہ کا جو تاثر جما ہوا تھا اس دفعہ شہر اس سے مختلف دِکھ رہا تھا۔ وقت عجیب ستم ظریف شے ہے۔ انسان کو کھنڈر کردیتا ہے اور شہرسنوار دیتا ہے۔ رش بے ہنگم اور بے تحاشہ تھا لیکن صفائی کی جو صورتحال ہم نے دیکھ رکھی تھی، موجودہ حالت اس سے کہیں بہتر تھی۔ رستے ٹوٹے پھوٹے نہیں تھے۔ دس بجنے والے تھے۔ ناشتے کی دکانیں، ریڑھیاں ابھی تک رش لے رہی تھیں۔ بازار کھل رہے تھے۔ قریبا دس بجے ہم منزل مقصود تک پہنچ گئے۔ وہاں جو کام تھا، نمٹایا اور  بارہ بجے کے قریب فارغ ہوگئے۔ لشٹم پشٹم دوبارہ رکشے پر سوار ہوئے اور شیخوپورہ موڑ جاپہنچے۔
ٹکٹ کاؤنٹر سے لیکن ہمیں ٹکٹ کی بجائے مایوسی ملی۔ وڈّی بس جا چکی تھی اور اگلی بس تین بجے روانہ ہونی تھی۔ تین گھنٹے اس رونق میں گزارنے کے خیال سے ہی ہَول اٹھنے شروع ہوگئے تھے۔ ہم نے دوبارہ مسمسی سی صورت بنا کے ٹکٹ بابو سے پوچھا کہ کوئی گنجائش؟ وہ رکھائی سے بولے، "فلینگ کوچ لگّی جے۔۔۔ پندرہ منٹاں تک نکلے گی۔۔۔ اوہدے اچ چلے جاؤ"۔۔۔ ہم نے ایک لحظہ توقف کیا۔ تین گھنٹے لاری اڈے پر انتظار کرنے کا موازنہ فلائنگ کوچ کے سفر سے کیا اور دل بڑا کرکے حامی بھرلی۔ 
سمارٹ فون کے بے شمار گفتنی و ناگفتنی  فوائد ہیں۔ ہم بھی ہنگامی حالات کے لیے ہر وقت اپنے فون میں ایک دو فلمیں اور کسی ٹی وی شو کے تین چار ایپی سوڈ  کاپی کرکے رکھتے ہیں کہ ۔۔ نجانے کہاں زندگی کی شام ہوجائے۔۔۔۔  فلائنگ کوچ میں تشریف فرما ہوتے ہی ہم نے کانوں کو ٹونٹیاں لگائیں اور واکنگ ڈیڈ کی تازہ قسط ملاحظہ کرنی شروع کردی۔ چند منٹ ہی گزرے تھے کہ کسی نے ہمارا کندھا تھپتھپایا۔ ایک درمیانی عمر کے صاحب جو درمیانی یعنی فولڈنگ نشست پر تشریف رکھتے تھے ، ہمیں گنڈیریاں چوپنے کی صلح مار رہے تھے۔ ہم نے نرمی سے شکریہ کہہ کے انکار کیا اور دوبارہ  فونی سکرین کی طرف متوجہ ہوگئے۔ چند ثانیوں بعد انہوں نے ہمارا گھٹنا ہِلا کے متوجہ کیا اور بھُنے ہوئے چنے پیش کیے۔ اگرچہ ہمارے برادرِ خُورد بچپن سے ہی ہمیں گھوڑا کہتے آرہے ہیں لیکن حاشا و کلا ہمیں بھُنے ہوئے چنوں سے ہرچند رغبت نہیں رہی۔ ہم نے نرمی سے انکار کیا اور ٹونٹیاں کانوں سے نکال کے  ان صاحب کی طرف متوجہ ہوئے اور عرض کی کہ ہم ایک فِریک شو قسم کے انسان ہیں اور دورانِ سفر کھانے سے اتنا پرہیز کرتے ہیں  کہ غصہ تک نہیں کھاتے۔ 
ہمیں اندازہ ہورہا تھا کہ فولڈنگ سیٹ والے صاحب فیصل آباد تک کا سفر ہم سے گپ شپ کرکے گزارنا چاہتے ہیں جبکہ ہم ایسا ہرگز نہیں چاہتے تھے ۔ کوئی رستہ نہ پاتے ہوئے ہم نے ٹونٹیاں لپیٹ کر فون سمیت کھیسے میں ڈالیں  اور کھڑکی سے باہر کا منظر ملاحظہ کرنے لگے۔ فلائنگ کوچ کسی ایسی سڑک پر گامزن تھی جو  پُل صراط کی کزن لگتی تھی۔ ناہموار، سامنے سے آتی ہوئی ٹریفک اور ایک دوسرے کو آخر تک رستہ نہ دینے کی مردانگی۔  وہ صاحب  اپنے ساتھیوں سے حکومتوں کی بے حسی پر دھواں دھار بحث کررہے تھے کہ  سڑک کا براحال ہے اور کوئی سننے والا نہیں۔ کہیں تو وہ ہمیں ایک چھوٹے موٹے حسن نثار ہی لگ رہے تھے۔ صاحب موصوف کی ناراضگی کی وجہ بھی بیلی پور کی سڑک ہی بتائی جاتی ہے۔۔ واللہ اعلم بالصواب۔۔۔
ہمیں متوجہ دیکھ کر ان صاحب نے ہم سے سمال ٹاک کرنی شروع کی۔ کہاں جارہے ہیں۔ کہاں کے رہنے والے ہیں۔ گوجرانوالہ کوئی رشتہ دار ہے۔  ہم ان سوالات کے مناسب جواب دیتے رہے۔ جب انہوں نے پوچھا کہ آپ کیا کام کرتے ہیں تو اچانک ہمارے اندر جاوید چوہدری کی کالمانہ روح بیدار ہوئی۔ ہم نے پہلو بدلا۔ کان کی لَو کھجائی۔ بالوں میں ہاتھ پھیرا اور منہ ان کے کان کے قریب لے جا کر آہستگی سے بولے۔ سرکاری ملازمت۔ حسب توقع اگلا سوال یہ تھا کہ کہاں؟ ہم نے لہجے میں مزید پُراسراریت سموتے ہوئے جواب دیا۔۔۔ بتا نہیں سکتا!
صاحب موصوف کو یکلخت جیسے چُپ سی لگ گئی۔  کچھ توقف کے بعد بولے کہ ہمارے گاؤں کا ایک لڑکا بھی ایسی ہی ملازمت کرتا ہے کسی کو پتہ نہیں کہ کیا اور کہاں کام کرتا ہے۔ جب اس کی شادی ہوئی تو اس سے دو دن پہلے تین جیپوں میں بندے بھر کے آئے اور پورے گاؤں کا سروے کرتے رہے۔ پھر شادی سے ایک رات پہلے وہ آیا اور عین ولیمے کے بعد دوبارہ واپس چلا گیا۔ صاحب کے چہرے پر خوف بھری عقیدت کے تاثرات صاف دیکھے جاسکتے تھے۔ یہ کہہ کر وہ پھر چُپ ہوئے تو فیصل آباد آنے تک ان کے منہ سے کوئی آواز نہیں نکلی۔ ہم نے واکنگ ڈیڈ کے دو ایپی سوڈ سکون سے دیکھے۔ شیخوپورہ روڈ پرچڑھنے کے بعد سڑک بھی ہموار ہوگئی اور کچھ دیر نیند نما چیز سے بھی لطف اندوز ہوئے۔ 
فلائنگ کوچ فیصل آباد شہر میں داخل ہوئی تو ہم نے ڈرائیور کو بتایا کہ ہمیں فلاں جگہ اتار دے۔ ہمارا سٹاپ آیا  تو اترنے سے پہلے ان صاحب  کی طرف سے "اللہ حافظ سر" کو ہم نے سر کی مربّیانہ  جنبش سے قبول کیا ۔ جیب سے چشمہ نکالا، جمایا اور قلانچ بھر کے فلائنگ کوچ سے کود گئے۔

ہم دل والوں کو بہت کچھ ہوتا ہے صنم

روحان یونیورسٹی جانے کے لیے  گھر سے نکلا تو دس بج رہے تھے۔  بلیو جینز پر وائٹ ٹی شرٹ ، جس  پر سامنے "کَم بے بی کَم" لکھا ہوا تھا، پولیس کا   چشمہ، نفاست سے ترشی ہوئی داڑھی اور گُوچی کی خوشبو میں بسا روحان  کمال  کسی فیری ٹیل کا پرنس یا یونانی دیوتا یا کسی فیشن میگزین کااطالوی ماڈل  لگ رہا تھا۔ نئے ماڈل کی کار کا دروازہ کھول کر اندر بیٹھنے سے پہلے اس نے کار میں بیٹھنے کی دُعا پڑھی جو اس نے  اسی ہفتے علامہ اللہ دتّہ  کے تازہ ترین  درس میں سیکھی تھی۔  دس بجے کے بعد رش آور ختم ہوجاتا ہے ۔روحان نے کینال روڈ پر ایک سو تیس کی رفتار سے گاڑی دوڑانا شروع کی۔ کار سٹیریو پر یویو ہنی سنگھ   فل والیم میں اپنی سریلی آواز میں  گنگنا رہا تھا۔۔۔
چار بوتل واڈکا
 کام میرا روز کا
نہ مجھ کو کوئی  روکے
نہ کسی نے روکا
کار جہاں سے گزرتی ، دھم دھم کی آواز سے  لوگ باگ مُڑ کے دیکھتے ۔ کہیے تو جیسے روحان کمال، گشتی ڈی جے بٹ  ہو۔روحان نے   مارلبرو کے پیکٹ سے سگریٹ نکالا اور طلائی لائٹر سے سلگا کے لمبا کش لیا۔  نِرنے کلیجےمیں پہلا کش ٹھاہ کرکے لگا تو روحان کو یاد آیا کہ اس نے ناشتہ نہیں کیا۔ اس نے فورا گاڑی کا رخ  مکڈونلڈز کی طرف موڑدیا۔  ڈبل چِیز برگر اور ایکسٹر ا لارج پیپسی نے اسے تازہ دم کردیا۔  
روحان کی کار کیمپس میں داخل ہوئی تو اسے محسوس ہوا کہ آج معمول سے زیادہ چہل پہل ہے۔ گاڑی پارک کرکے وہ پولٹیکل سائنس ڈپارٹمنٹ کی طرف گامزن ہوا۔  نیلے آسمان پر ہلکے سرمئی بادل سورج سے آنکھ مچولی کھیل رہے تھے۔ فضا میں خوشگوار سی خنکی اور رومانیت تیر رہی تھی۔  ایسے موسم میں کس کافر کا دل سگریٹ پینے کو نہ چاہے۔ روحان نے سگریٹ سلگایا اور پہلا کَش لیتے ہی تمباکو ، پیپسی اور برگر  کا ملا جلا ڈکار مارا اور زیر لب الحمدللہ کہا۔  روحان کو اس وقت بالکل احساس نہ ہوا کہ کوئی اسے بہت انہماک سے دیکھ رہا ہے۔ وہ اپنی دُھن میں اجے دیوگن سٹائل میں سگریٹ ہونٹوں میں دبائے اپنے ڈپارٹمنٹ کی طرف  رواں دواں تھا۔
روحان پولٹیکل سائنس میں ماسٹرز کررہا تھا۔  اپنے ڈپارٹمنٹ کا وہ سب سے ذہین سٹوڈنٹ مانا جاتا تھا۔ روحان اتنے گولڈ میڈل جیت چکا تھا کہ اس  نے اپنی امّی  کو پانچ تولے کے کنگن بنا کے دئیے تھے۔  یہ اس کا اپنی امّی کے لیے ایک حقیر سا تحفہ تھا جنہوں نے اسے کپڑے سِی سِی کر پالا پوسا اور پڑھا رہی تھیں۔  ڈپارٹمنٹ میں پہنچ کر اسے چہل پہل کی وجہ معلوم ہوئی۔ آج ان کے ڈپارٹمنٹ میں نئے طلباء کی ویلکم پارٹی کا اہتمام تھا۔  روحان وہاں پہنچتے ہی سب کی توجہ کا مرکز بن گیا۔  پروفیسر عطیہ بخش نے روحان کو بلایا اور ہدایت کی کہ تقریب کی نظامت اس کے ذمہ ہے اور مہمان خصوصی کی خدمت میں سپاس نامہ بھی اسے ہی پیش کرنا ہے۔ نصابی کے ساتھ ساتھ روحان ہم نصابی سرگرمیوں میں بھی دلچسپی لیتا تھا۔وہ   یونیورسٹی کی فٹبال، ہاکی، کرکٹ، سکواش، بیڈ منٹن، باڈی بلڈنگ،  شطرنج، کبڈی اور ڈبیٹنگ ٹیموں کا کپتان تھا۔  اس کی زیر قیادت ہر سال انٹر یونیورسٹی مقابلوں میں  کلین سویپ کیا جاتا تھا۔ 
تقریب شروع ہوئی ۔ روحان کمال نے اپنے مخصوص انداز میں سپاسنامہ پیش کیا۔ اشعار سے سجے اس اظہار یے نے شرکاء کو دم بخود کردیا۔ سپاسنامہ ختم ہوا  تو پورا  پنڈال تالیوں سے گونج اٹھا۔ روحان نے نئے طلباء کے نمائندہ کو تقریر کے لیے بلایا  تو یکدم جیسے وقت ٹھہر سا گیا ہو۔ بنفشی آنکھیں، میدے جیسے رنگت، ستواں ناک، گلاب کی پنکھڑیوں جیسے ہونٹ ، نچلا ہونٹ تھوڑا سا اٹھاہوا، سرو قد، سر اور کان حجاب میں لپٹے ہوئے، فٹنگ والی بلیک شرٹ جس کے گلے پر سرخ کڑھائی اورسگریٹ ٹراؤزر ۔۔۔ جوبن ایسا کہ برسوں کی تپسّیا بھنگ کردے۔ روحان کی نظریں اس مایا جال میں ایسی الجھیں کہ اسے ڈائس خالی کرنا بھول گیا۔  اس مہ وش کی سانسیں جب اسے اپنے چہرے پر محسوس ہوئیں تو یکلخت جیسے وہ ہوش میں آگیا ہو۔ اس نے نظر بھر کے ایک دفعہ پھر اسے دل میں اتارا اور ڈائس اس کے حوالے کرکے  سٹیج کے عقب میں جا  کھڑا ہوا۔ روحان کو اس کا اندازہ اس دن ہوا کہ حُسن کوجس طرف سے بھی دیکھیں حُسن ہی رہتا ہے۔  سٹیج کے عقب میں کھڑے ہو کر اس پری وش کو تکتے رہنا  اس کے بس کی بات نہیں تھی۔ ایک عجیب سی بے اختیاری اس پر طاری تھی ۔  وہ سگریٹ تک بھول چکا تھا ۔ یاد تھا تو بس وہ ایک نظارہ۔۔۔۔ یہ روحان کمال کی جوبنہ ودود سے پہلی ملاقات تھی۔
کیوپڈ اپنا کام کرچکا تھا۔ روحان کمال کا دل چھلنی ہوچکا تھا اور اس کے دل سے بہنے والے خون نے جوبنہ کا نام اس کی روح پر لکھ  دیا تھا۔ جوبنہ کا حال بھی مختلف نہیں تھا۔ آج صبح یونیورسٹی میں داخل ہوتے ہی اس نے روحان کمال کو کمال بے نیازی سے سگریٹ پیتے ہوئے دیکھا تو اس کا دل اس کی نفاست سے ترشی ہوئی داڑھی میں اٹک گیا ۔ یہ محبت کی وہ گھاتیں ہیں جو معصوم دلوں کو چھلنی کردیتی ہیں گھائل پنچھی  اڑنا بھول جاتے ہیں۔  پیار کے گیت گاتے ہیں اور پیتم کو یاد کرتے ہیں۔
روحان اور جوبنہ نے وقت ضائع نہیں کیا۔ تقریب سے اگلے ہی دن روحان نے کلاس کے بعد جوبنہ کو گراسی پلاٹ میں برگد کے پیڑ کے نیچے بلایا ۔ جوبنہ فیروزی ٹی شرٹ اور جینز میں  پرستان سے آئی پری لگ رہی تھی۔ اس نے حسب معمول سر اور کان اچھی طرح سکارف سے ڈھکے ہوئے تھے ۔ ایک بال تک نظر نہیں آتا تھا۔  روحان نے جوبنہ کی  ساگر جیسی آنکھوں میں جھانکا، اس کامرمریں ہاتھ پکڑا، چشمہ اتار کے شرٹ کے کالر کی پچھلی طرف اٹکایا، اور اس سنگ مرمر سے بنے ہاتھ کو  اپنی آنکھوں سے لگا لیا۔ جوبنہ بے اختیار ہوکر روحان کی  مضبوط بانہوں میں سما گئی۔   دور کہیں کنٹین پر یہ گانا چل رہا تھا۔۔۔۔
میں تے ماہی اینج جیویں
ٹچ بٹناں دی جوڑی
عشق اور مُشک چھپائے نہیں چھپتے۔ روحان اور جوبنہ کی کہانی بھی یونیورسٹی میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی۔ روحان کمال یونیورسٹی کی طلباء تنظیم کا صدر بھی تھا۔ طلباء تنظیم کی ہائی کمان کی طرف سے اسے   پیشی کا بلاوا آیا۔  روحان ، یونیورسٹی سے فارغ ہو کر ہیڈ آفس پہنچا تو تنظیم کے سارے بڑے اس کا انتظار کررہے تھے۔ چئیرمین واسع شریف  نے اسے بیٹھنے کا اشارہ کیا ۔ ان کا رویہ واضح طور پر سرد تھا۔ انہوں نے تنظیم کے اغراض و مقاصد  اور ضابطہ اخلاق پر روشنی ڈالی۔ اسلام، نظریہ پاکستان اور اخلاقی اصولوں و مشرقی روایات کی اہمیت بیان کی۔  تمہید کے بعد واسع شریف نے  صاف الفاظ میں روحان اور جوبنہ کے تعلق کا ذکر کیا اور جوبنہ کے ملبوسات کو مشرقی و اسلامی روایات کی صریح خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے روحان کمال سے وضاحت طلب کی کہ بطور صدر آپ یونیورسٹی میں ضابطہء اخلاق کے نفاذ کے ذمہ  دار ہیں۔ اور آپ نے آج تک یہ ذمہ داری بخوبی ادا کی ہے ۔ لیکن جوبنہ ودود کے مخرب الاخلاق ملبوسات بارے آپ نے یہ کوتاہی کیوں کی؟
روحان کمال نے  جیب سے پیکٹ نکالا، سگریٹ کھینچا، منہ میں دبایا، طلائی لائٹر سے اسے سلگا کر ایک طویل کش لیا ۔ دھواں واسع شریف پر چھوڑتے ہوئے بے نیازی سے جواب دیا۔۔۔
اوہنوں سج دے وی  نیں۔۔۔۔


پانامہ کا ہنگامہ - لاسٹ لاف

پانامہ کا معاملہ اپنے منطقی انجام کی طرف رواں دواں ہے۔ میاں نواز شریف اپنی سیاسی  بقاء کے لیے آخری حد تک جا چکے ہیں۔ انکے پاس جو تُرپ کا پتّہ تھا وہ کھیلا جا چکا ہے۔ اب صرف اس کے نتائج و عواقب کا انتظار ہے۔ اس معاملے کی تفصیل سے پہلے ایک کہانی سن لیجیے۔
سترہویں صدی عیسوی کے اختتام کا ذکر ہے۔ شمالی ہندوستان کے ایک غیرمعروف قصبے میں ایک پختون خاندان آباد تھا۔ گھر میں غربت نے ڈیرے ڈال رکھے تھے۔ بچوں میں سب سے بڑے لڑکے نے فیصلہ کیا کہ وہ شہر جا ئے گا اور  اپنے ماں باپ اور بہن بھائیوں کی خوشحال زندگی کے لیے محنت مزدوری کرے گا۔ لڑکے کی عمر بمشکل پندرہ سولہ سال تھی۔ والدین نے بوجھل دل کے ساتھ بیٹے کو رخصت کیا اور پھر اپنی زندگی میں اس کی شکل دوبارہ نہ دیکھ سکے۔  دن مہینے سال گزرتے گئے اور اس لڑکے کی کوئی خبر نہ آئی۔ گھر والوں نے صبر کرلیا کہ شاید کسی حادثے کا شکار ہوگیا ہوگا۔ جیسے تیسے گھر کا نظام چلتا رہا۔ زمانہ بیت گیا۔ لڑکے کے والدین وفات پاگئے۔  بہن بھائیوں کی شادیاں ہوگئیں۔ سب اس لڑکے کو بھول بھال چکے تھے کہ ایک دن اچانک وہی لڑکا ایک ادھیڑ عمر شخص بن کر واپس آگیا!۔
کھچڑی بال، کندھوں تک دراز زلفیں، ترشی ہوئی خوبصورت داڑھی ، چہرے پر ایسا رعب کہ  دوسری نظر ڈالنی مشکل۔ بہن بھائیوں نے مشکل سے پہچانا کہ جب گھر چھوڑا تو سب بہت چھوٹے تھے۔ انہوں نے اسی قصبے میں جگہ لے کر ایک خانقاہ نما حویلی تعمیر کرانی شروع کی۔  حویلی تعمیر ہوچکی تو روزانہ وہاں لنگر پکتا اور سب کے لیے دعوتِ عام ہوتی۔ آہستہ آہستہ قرب و جوار میں ان کی شہرت پھیلتی گئی۔ یہ کوئی روحانی بزرگ یا پیر نہیں تھے لیکن پھر بھی دور دور سے لوگ ان سے ملنے آتے اور اپنے مسائل ان کے سامنے رکھتے۔ وہ دعا اور دوا ، دونوں سے ان کا حل نکالنے کی کوشش کرتے۔
بظاہر کوئی ذریعہ آمدن نہ ہوتے ہوئے بھی  حویلی کی تعمیر، لنگر  اور ضرورت مندوں کی مدد ، بہت سے لوگوں کے لیے حیرت کا باعث تھا۔  ایک دن انہوں نے سب گھروالوں کو اکٹھا کیا اور ان سے رازداری کا حلف لے کر انہیں اپنے غیاب کی کہانی سنائی۔ انہوں نے بتایا کہ جب وہ گھر سے نکلے تو بردہ فروشوں کے ہتھے چڑھ گئے۔ چار سال ایک بیگار کیمپ میں گزارے۔ موقع پا کر وہاں سے فرار ہوئے اور ہمالیہ کی ترائی میں جا پہنچے۔  بردہ فروشوں کے خوف سے وہ کسی آبادی کے قریب نہیں جاتے تھے اور جنگل میں ہی بسر کرتے تھے۔ ایک رات  سوتے ہوئے ان کو زہریلے سانپ نے ڈس لیا۔   ان کی چیخ و پکار اس جنگل میں سننے والا کوئی نہیں تھا۔ اسی حالت میں بے ہوش ہوگئے۔ آنکھ کھلی تو خود کو ایک غار میں پایا۔  جہاں ایک دھان پان سے بزرگ بھی موجود تھے۔ اگلے دس سال انہوں نے اسی بزرگ کے ساتھ گزارے اور ان کی خدمت کرتے رہے۔ بوقت وصال ان بزرگ نے ان کو ایک ایسا راز دیا جس کے لیے زمانہءقدیم سے لوگ اپنی زندگیاں وقف کرتے آرہے ہیں۔
بزرگ نے انہیں سونا  بنانے کا نسخہ بتایا۔
اس کے ساتھ کچھ شرائط بھی عائد تھیں۔   اس سے اپنی ذات پر صرف بقدرِ ضرورت خرچ کیا جاسکتا تھا۔ اور یہ نسخہ آخری وقت میں صرف بڑے بیٹے کو منتقل کیا جاسکتا تھا اس سے پہلے ایسا کرنے کی کوشش کی جاتی یا کسی اور بتانے کی کوشش کی جاتی تو سونا بننا بند ہوجاتا۔  نسل در نسل یہ سلسلہ چلتا رہا ۔ یہ خاندان ہجرت کرکے موجودہ پاکستان میں آپہنچا۔ نسل در نسل اس راز کی حفاظت ہوتی رہی اور ضرورت مندوں اور محتاجوں کی مدد کی جاتی رہی۔ اپنی ضروریات پر کسی نے کچھ خرچ نہیں کیا اور محنت مزدوری کرکے خاندان کا پیٹ پالتے رہے۔
یہ اسّی کی دہائی کی ذکر ہے۔ جنرل ضیاء کا مارشل لاء لگ چکا تھا۔ پاکستان پر اقتصادی پابندیاں عائد تھیں۔ افغان جہاد شروع ہوچکا تھا۔ ایٹمی پروگرام فیصلہ کُن مرحلے پر پہنچ چکا تھا۔ بھٹو کی موت کے بعد عربوں نے ایٹمی پروگرام کی فنڈنگ سے ہاتھ اٹھا لیا ۔ حالات اس نہج پر پہنچ گئے کہ شاید یہ پروگرام ، جو پاکستان کی سلامتی کی ضمانت تھا، بند کرنا پڑتا۔ وزراتِ خزانہ کے ایک اعلی افسر ،جو  ایک پولیس آفیسر کے بچپن کے دوست تھے، انہوں نے اس بات کا ذکر ان سے کیا اور فکرمندی کا اظہار کیا کہ حالات بہت نازک ہیں۔ اگر فنڈز کا بندوبست نہ ہوا تو شاید ہمیں ایٹمی پروگرام روکنا پڑے۔ پولیس افسر  یہ بات سن کر چونکے اور اپنے دوست سے کہا کہ کیا وہ ان کی ملاقات کسی ذمہ دار حکومتی شخصیت سے کروا سکتے ہیں۔ بہت اصرار پر بھی انہوں نے اپنے دوست کو کچھ بھی بتانے سے انکار کردیا اور کہا کہ وہ اصل بات کسی ذمہ دار حکومتی شخصیت کو ہی بتائیں گے۔
یہ پنڈی کے حساس علاقے میں موجود ایک عمار ت کا کانفرنس روم تھا۔ کمرے میں جنرل ضیاء، غلام اسحاق خان، ڈاکٹر عبدالقدیر خان اور جنرل غلام جیلانی موجود تھے۔ پولیس آفیسر نے بات شروع کی۔ انہوں نے اپنےوزارتِ خزانہ میں موجود اپنے دوست کے ساتھ ہوئی  بات چیت کا ذکر کیا اور کہا کہ وہ فنڈز کا مسئلہ حل کرسکتے ہیں۔ جنرل ضیاء کے چہرے کے تاثرات سے اندازہ لگانا مشکل نہیں تھا کہ وہ  یہ بات سن کر بالکل محظوظ نہیں ہوئے۔ انہوں نے سخت لہجے میں پوچھا، "آپ کے پاس سونے بنانے کا نسخہ ہے؟" پولیس آفیسر نے جواب دیا، " جی ہاں"۔  یہ جواب سن کر کانفرنس روم میں ایک دم سنّاٹا چھا گیا۔ پولیس آفیسر نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ان کو موقع دیا جائے تو وہ اس بات کو ثابت کرسکتے ہیں۔ جنرل ضیاء نے ڈاکٹر قدیر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ان کو ساتھ لے جائیں   اور دیکھیں کہ یہ کیا کرتے ہیں۔
قصّہ مختصر، یہ پولیس آفیسر اسی پختون خاندان سے تعلق رکھتے تھے جن کے بزرگ کو ہمالیہ کی ترائی میں سونا بنانے کا نسخہ ملا تھا۔ انہوں نے کہوٹہ لیبارٹریز میں سب سائنسدانوں کے سامنے لوہے سے سونا  بنا کے دکھایا۔ ہر قسم کے ٹیسٹ کرنے کے بعد جب سب کو یقین ہوگیا کہ یہ خالص سونا ہے تو سب حیرت سے انگشت بدنداں رہ گئے۔ یہاں سے ایٹمی پروگرام کا آخری مرحلہ شروع ہوا۔ سونا بنانے کے لیے لوہے کی کثیر مقدار درکار  ہوتی تھی۔  اگر سرکاری طور پر خام لوہے کی کثیر مقدار در آمد کی جاتی تو اس سے غیرملکی ایجنسیوں کے کان کھڑے ہوسکتے تھے جو پہلے ہی پاکستان پر نظریں جمائے بیٹھے تھے۔ اس موقع پر جنرل جیلانی نے لاہور کے شریف خاندان سے سلسلہء جنبانی شروع کیا۔ ان کو اس شرط پر اتفاق فونڈری واپس کی گئی کہ وہ اپنے نام پر سکریپ در آمد کریں گے اور حکومت کے حوالے کردیں گے۔ اس خدمت کے بدلے میاں شریف کے بڑے صاحبزادے کو پنجاب میں نمائشی قسم کا وزیر خزانہ بھی مقرر کیا گیا۔  سونا بنانے کا یہ کام تقریبا دو سال جاری رہا۔ اور  انیس سو تراسی کے لگ بھگ ایٹمی پروگرام  پایہء تکمیل کو پہنچا۔
یہ پولیس آفیسر، جہانگیر ترین کے والد تھے۔
جنرل ضیاء کی شہادت کے بعد بے نظیر حکومت میں آئیں۔ اس کے بعد دس سال تک جمہوری حکومتوں کی میوزیکل چئیرز جاری رہی۔ ایٹمی پروگرام کی تکمیل کے بعد پاکستان نے میزائل پروگرام شروع کرنے کا فیصلہ کیا۔ غلام اسحاق خان نے جہانگیر ترین کو بلایا اور ان سے درخواست کی کہ میزائل پروگرام کے لیے فنڈز چاہییں جبکہ سیاسی حکومتوں کے لوٹ کھسوٹ سے ملک تقریبا دیوالیہ ہونے والا ہے۔ لہذا آپ کی مدد کی ضرورت ہے۔ جہانگیر ترین کے والد کے انتقال کے بعد سونا بنانے کا نسخہ ان  تک منتقل ہوگیا  تھا اور انہوں نے بھی اپنے والد کی طرح  اسے ملک کی خدمت کے لیے استعمال کیا۔نوّے کا عشرہ جہاں سیاسی افراتفری اور حکومتی لوٹ کھسوٹ کا زمانہ گنا جاتا ہے وہیں اس عشرے میں پاکستان کا میزائل پروگرام بھی پروان چڑھا۔ اس کا سہرا سائنسدانوں کے بعد جہانگیر ترین کے سر ہے۔
غلام اسحاق خان نے بصد اصرار جہانگیر ترین کو بینک سے قرضہ لے کر دیا اور کہا کہ آپ ملازمت چھوڑ دیں اور کاروبار کریں تاکہ یکسو ہو کر ملک کی خدمت ہوسکے۔  دو ہی سالوں میں بینک کا سارا قرضہ لوٹا دیا گیا اور یہ سب کاروبار کی کامیابی سے ہوا۔ حیرت کی بات یہ کہ سونا بنانے کی صلاحیت کے باوجود، اس فن سے اپنی ذات پر ایک دھیلا بھی خرچ نہیں کیا گیا۔ یہ سب ملک و قوم اور اسلام کی خدمت کے لیے استعمال ہوا۔  اسی دور میں اسٹیبلشمنٹ اور سیاستدانوں سمیت پورے حکمران طبقے میں ایک غیر تحریری معاہدہ طے پایا کہ چاہے کوئی بھی اقتدار میں ہو اور کیسے بھی حالات ہوں، جہانگیر ترین اور ان کے خاندان کی طرف کوئی آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھے گا ۔ ان کو غیرسرکاری طور پر پاکستان کی فرسٹ فیملی کا درجہ دے دیا گیا۔  یہ بھی طے ہو ا کہ جیسے بھی سیاسی حالات ہوں، سیاسی مخالفت کسی بھی درجے تک پہنچی ہو، جہانگیر ترین پر کوئی بھی وار نہیں کرے گا  کیونکہ یہ خاندان پاکستان کا حقیقی محسن ہے۔
جنرل مشرف آئے ، اس کے بعد پی پی کی حکومت آئی۔ اس سارے عرصے میں سیاسی طور پر بہت خاک اڑائی گئی  لیکن کسی بھی طرف سے ترین کو ہدف نہیں بنایا گیا۔ وہ ن لیگ میں بھی رہے۔ جنرل مشرف کے ساتھ بھی رہے۔ ق لیگ میں بھی رہے لیکن انکا احترام ہر حکومت اور پارٹی نے ملحوظ رکھا۔  دو ہزار گیارہ میں جب پی ٹی آئی کا عروج شروع ہوا تو جہانگیر ترین  پی ٹی آئی میں شامل ہوگئے۔ لوگ آج تک سوال اٹھاتے ہیں کہ پی ٹی آئی کے پاس اتنے بڑے جلسے کرنے،  میڈیا پر اتنی کوریج کے لیے فنڈز کہاں سے آتے ہیں۔ اس کا جواب جہانگیر ترین اور ان کا سونا بنانے کا فن ہے۔ پاکستانی سیاست سے گند صاف کرنے کے لیے انہوں نے اپنے اس فن کو دوبارہ استعمال کیا۔ دو ہزار تیرہ کے انتخابات کی کہانی پہلے بیان ہوچکی ہے کہ کیسے اس وقت کی فوجی قیادت نے پی ٹی آئی کی کمر میں خنجر گھونپا تھا۔ اگر دھاندلی نہ ہوتی تو آج پاکستان کا نقشہ ہی کچھ اور ہوتا۔ دھرنے کے دوران اور اس کے بعد جہانگیر ترین کا ہر وقت عمران خان کے ساتھ ہونا میاں نواز شریف کے لیے ناقابل برداشت تھا۔ مشکل یہ بھی تھی کہ ترین کے خلاف وہ کسی بھی قسم کی کوئی کاروائی نہیں کرسکتے تھے۔
پانامہ لیکس لیکن اونٹ کی کمر پر آخری تنکا ثابت ہوا۔ میاں نواز شریف کو علم ہوچکا تھا کہ ان کے خلاف منصوبہ بنانے والوں میں شہباز شریف اور چوہدری نثار بھی شامل ہیں۔ بیماری کا بہانہ بنا کر لندن روانہ ہونے سے پہلے انہوں نے دو کام کیے۔ حمزہ شہباز کو اغوا کرواکے افغانستان بھجوادیا جہانگیر ترین کے خلاف جعلی بنک دستاویزات تیار کروائیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ انہوں نے بنک سے قرضہ معاف کروایا۔ حمزہ شہباز کو اغوا کرنے کی کہانی دلچسپ اور عبرت آموز ہے۔ کسی دور میں حمزہ کو ن لیگ میں نواز شریف کا جانشین سمجھا جاتا تھا۔ سیاسی سوجھ بوجھ اور متحرک شخصیت کی وجہ سے وہ کارکنان میں ہر دلعزیز تھے۔  لیکن اقتدار کا کھیل ایسا ظالم ہے کہ خون کے رشتے بھی اس کے سامنے ماند پڑجاتے ہیں۔ شہباز شریف نے اقتدار کی خاطر بھائی کے خلاف منصوبے میں شرکت کی اور بھائی نے اقتدار کے لیے سگے بھتیجے کو اغوا کراکے بھائی کو پیغام دیا کہ  اقتدار کے لیے وہ کچھ بھی کرسکتے ہیں۔
لندن میں قیام کے دوران انہوں نے جہانگیر ترین کے بچوں کے نام پر جائیداد کا سراغ لگانے کے لیے پیسہ پانی کی طرح بہایا۔ جہانگیر ترین اگر چاہتے تو سارا لندن خرید سکتے تھے ان کے لیے دولت کوئی مسئلہ نہیں۔ ریاست پاکستان ان کو دنیا میں کسی بھی جگہ ہر قسم کی سہولیات فراہم کرنے پرہروقت تیار رہتی تھی۔ لیکن انہوں نے اپنے  جائز کاروبار سے کمائی ہوئی دولت سے اپنے بچوں کے لیے جائیداد خریدی۔ جس خاندان نے اس ملک کے لیے ایسی خدمات سرانجام دیں کہ شاید تاریخ میں اس کی مثال نہ مل سکے اس کو ایسے رسوا کرنا پرلے درجے کی بددیانتی اور بے ایمانی گنی جائے گی۔
پاکستانی فیصلہ سازوں کا پیمانہءصبر لبریز ہوچکا ہے۔ جہانگیر ترین کے خلاف حالیہ کردار کشی کی مہم  ناقابل برداشت ہے۔ میاں نواز شریف نے اس غیر تحریری معاہدے کی خلاف ورزی کی ہے جس کی پاسداری آج تک پاکستان کے ہر سیاستدان، جنرل اور مقتدر شخص نے کی ۔ میاں صاحب نے محسن کشی کی۔ آج وہ اگر اس مقام پر ہیں تو  جہانگیر ترین کی وجہ سے ہیں نہ ان کو اتفاق فاؤنڈری واپس ملتی اور نہ وہ پنجاب کے نمائشی وزیر خزانہ بنتے۔ اپنی سیاست کے لیے انہوں نے خون کے رشتوں سے وفا نہیں کی تو ملک سے کیا وفا کریں گے۔
میاں صاحب، آپ کے دن گِنے جا چکے ہیں۔ 

پانامہ کا ہنگامہ

بالآخر اس کھیل کا انجام ہونے کو ہے جو آج سے چھ سال پہلے شروع ہوا تھا۔ یہ دو ہزار گیارہ کے اوائل کا قصہ ہے۔ پنجاب میں شہباز شریف کی حکومت تھی  اور نواز شریف ڈیل کے تحت انتخاب لڑنے کے اہل نہیں تھے لہذا قومی اسمبلی سے باہر تھے۔ مقتدر حلقوں کے ساتھ ان کے تعلقات کی تاریخ کافی پرانی اور تلخ ہے۔ جبکہ ان کے برادر خورد ہمیشہ سے ان حلقوں کے فیورٹ رہے ہیں۔ اس کی بہت سی وجوہات ہیں جن کا ذکر آگے آئے گا۔
اسی سال کے شروع میں چوہدری نثار کے ذریعے نواز شریف نے جی ایچ کیو سے دوبارہ رابطہ استوار کرنے کی کوششیں کیں۔ اس کی فوری وجہ سیاسی منظرنامے پر عمران خان کی دھماکہ خیز آمد تھی۔ نواز شریف جو اگلے انتخاب کو اپنی جیب میں سمجھ رہے تھے ان کے لیے یہ امر بہت تشویش ناک تھا۔ عام خیال کے برعکس عمران خان کے سیاسی ابھار کی وجہ مقتدر حلقوں کی حمایت نہیں تھی۔ اصل بات اس سے بالکل الٹ تھی۔ عمران خان  انہی معاملات کو لے کر چل رہے تھے جو عام آدمی کے دل میں تھے ۔ مثال کے طور پر ڈرون حملے، پاکستان میں غیرملکی مداخلت، کرپشن، اقربا پروری، موروثی سیاست، میرٹ کا قتلِ عام وغیرہ۔  عمران خان پاکستانی سیاست میں ایک نیا مظہر تھا۔ روایتی دائیں بازو کا ووٹر تو ان سے متاثر تھا ہی لیکن شہری علاقوں کی اپر مڈل اور اپر کلاس جو روایتی طور پر سنٹر کا ووٹ سمجھی جاتی ہے وہ عمران خان کی پرجوش حمایت میں نکل آئی۔  یہ صورتحال ن لیگ اور نواز شریف کے لیے کسی بھیانک خواب سے کم نہیں تھی۔
یہ رائے ونڈ کے شریف محلات کے ایک عالیشان کمرے مین ن لیگ کے تھنک ٹینک کے اجلاس کا منظر تھا۔ حاضرین میں نواز شریف، چوہدری نثار، اسحاق ڈار، شہباز شریف اور ایک حاضر سروس ہستی موجود تھی۔ اس اجلاس کا یک نکاتی ایجنڈا "عمران کا رستہ کیسے روکا جائے" تھا۔  بات چوہدری نثار نے شروع کی۔ ان کا کہنا تھا کہ بجائے عمران کی مخالفت کے اس کو ساتھ لے کر چلنا چاہیے۔ قومی اسمبلی کی پچاس سیٹیں ، پنجاب میں سینئر وزیر اور چھ وزارتیں اور کے پی کے کی وزارت اعلی پی ٹی آئی کو آفر کرنی چاہیے۔  شہباز شریف اس سے متفق تھے۔ انہوں نے اس پر اضافہ کرتے ہوئے کہا کہ عمران خان کے کلین امیج کا ہمیں بھی فائدہ ہوگا اگر ہم اس کے ساتھ انتخابی اتحاد کرلیں۔  شہباز شریف نے مہاتیر محمد سے ملاقات کا بھی ذکر کیا۔ مہاتیر  جب پاکستان کے دورے پر آئے تو  شہباز شریف سے بھی ملاقات ہوئی۔ انہوں نے اس ملاقات میں شہباز شریف کو بتایا کہ آپ کے پاس ایک ایسا شخص موجود ہے جو اس ملک کو ترقی اور خوشحالی کی راہ پر ڈال سکتا ہے ۔ شہباز شریف کے استفسار پر انہوں نے عمران خان کا نام لیا اور کہا کہ یہ شخص قائد اعظم ثانی ہے۔ اگر یہ ملائشیا میں ہوتا تو ہم شاید پوری دنیا پر حکمرانی کرر ہے ہوتے۔ مہاتیر نے یہ مشورہ بھی دیا کہ آپ اس کے ساتھ مل کے اگلا انتخاب لڑیں ۔ لوگ آپ پر نوٹ اور ووٹ نچھاور کردیں گے۔ نواز شریف خاموشی یہ سب سن رہے تھے۔ ان کے چہرے کے تاثرات سے اندازہ لگانا مشکل تھا کہ وہ کیا سوچ رہے ہیں۔  شہباز شریف خاموش ہوئے تو نوا ز شریف نے گفتگو کا آغاز کیا۔ ان کی لہجے کی تلخی  محسوس کی جاسکتی تھی۔ انہوں نے نثار/شہباز کی تجویز کو کُلّی طور پر رد کرتے ہوئے محفل کے پانچویں فرد کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ان سے پوچھیے کہ یہ عمران خان کے بارے کیا سوچتے ہیں۔ حاضر سروس ہستی نے  ختم ہوتے سگریٹ سے اگلا سگریٹ سلگایا۔ لمبا کَش لیا اور اپنی مخصوص دھیمی آواز میں کہنے لگے ۔ "عمران اس ملک کے پاور سٹرکچر کا سٹیک ہولڈر بن گیا تو ہم سب مارے جائیں گے۔ ہم کسی بھی صورت یہ رسک نہیں لے سکتے۔" انہوں نے بطور خاص نثار اور شہباز سے مخاطب ہوکر کہا کہ اگر آپ اس سے متفق نہیں ہیں تو ہم پی پی سے بات کرلیتے ہیں۔ لیکن عمران کا آنا کسی بھی صورت ہمیں قبول نہیں ہے۔اسحاق ڈار جو اس اجلاس میں اب تک خاموش تھے۔ انہوں نے اپنے بریف کیس سے کاغذات کا پلندہ نکال کر میز پر دھرا اور بولے۔ یہ سب ہمیں پاکستان  واپس لانا پڑے گا۔ آپ کو اندازہ ہے کہ یہ سب کتنا ہے؟ تئیس 23 بلین ڈالرز۔ یہ ہماری ساری زندگی کی کمائی ہے۔ آپ یہ سب برباد کرنے کو تیار ہیں؟
بظاہرشہباز اور نثار لاجواب ہوچکے تھے۔ نواز شریف ، اسحاق ڈار اور حاضر سروس  اس معاملے پر ایک پیج پر تھے کہ عمران کو روکا جانا چاہیے۔ شہباز اور نثار کو بھی بادلِ نخواستہ ہاں میں ہاں ملانی پڑی۔  اس کے بعد جو ہوا وہ سب ویسا نہیں تھا جیسا عام طور پر سمجھایا یا دکھایا گیا۔ حاضر سروس ہستی کے خاندان کے افراد کو بڑے بڑے ٹھیکے ملے۔ ان کے ایک معتمد جن پر عمران کی سیاسی اتالیقی کا الزام تواتر سے آج تک لگایا جاتا ہے، انہوں نے بھی اس گنگا میں جی بھر کے اشنان کیا۔ یہ سموک سکرین تھی تاکہ لوگوں اور میڈیا میں یہ تاثر بنایا جائے کہ پی ٹی آئی کی بڑھتی ہوئی سیاسی حمایت کے پیچھے مقتدر حلقے ہیں۔ اور یہ تاثر کامیابی سے بنایا گیا۔
اس اجلاس میں طے پانے والی ڈیل کے باوجود عمران اور پی ٹی آئی کا راستہ روکنا مشکل سے مشکل تر ہوتا جارہا تھا۔ مقتدر حلقوں کی اپنی ایجنسیوں کے سروے اور رپورٹس کے مطابق پی ٹی آئی ساٹھ فیصد نشستیں جیتنے جارہی تھی۔ یہ صورتحال جہاں ن لیگ کے لیے خوفناک تھی وہیں کچھ حاضر سروس لوگوں کے لیے بھی بے خواب راتوں کا سبب بنی ہوئی تھی۔ پی ٹی آئی کا راستہ روکنے کے لیے ہر حربہ آزمایا جارہا تھا۔ الیکٹ ایبلز کو ہانکا لگا کر ن لیگ میں دھکیلا جا رہا تھا۔ کچھ لوگوں نے انکار کرنے کی جرات کی تو انہیں جانی، مالی طور پر نقصان پہنچا کر عبرت ناک مثال بنایا گیا۔  الیکٹرانک میڈیا پورے کا پورا خرید لیا گیا تھا۔ صرف اس مد میں چوہتر 74 ارب روپے خرچ کیے گئے۔  عمران خان کو مختلف لوگوں کے ذریعے ترغیبات /دھمکیاں بھی دی گئیں۔ راوی بیان کرتے ہیں کہ خان کے چہرے پر سوائے  ایک طنزیہ مسکراہٹ کے کوئی تاثر نہیں ہوتا تھا۔ سب حربوں کے باوجود پی ٹی آئی پنجاب میں میدان مارتی جارہی تھی۔ میٹرو/لیپ ٹاپ جیسے مہنگے اور بلاضرورت منصوبوں کے باوجود لوگ  ن لیگ سے متنفر ہوتے جارہے تھے۔ اس  موقع پر آخری داؤ کھیلا گیا۔
جب یہ نظر آنے لگا کہ انتخابات میں پی ٹی آئی واضح اکثریت سے جیتنے جارہی ہے تو انتخابات ملتوی کرنے کا منصوبہ بنا۔ اس کام کے لیے  مقتدر حلقوں نے اپنے آزمائے ہوئے طاہر القادری کو میدان میں اتارا۔ عام تاثر یہی تھا کہ طاہر القادری ، نواز شریف دشمنی میں یہ سب کررہے ہیں جبکہ حقیقت اس سے بالکل مختلف تھی۔  اس کے برعکس قادری کے دھرنے کا سارا خرچہ بمع ساڑھے سات ارب کیش ، نواز شریف نے اپنی جیبِ خاص سے ادا کیا۔ پلان یہ تھا کہ قادری کے دھرنے کو جواز بنا کر انتخابات ملتوی کردئیے جائیں۔ تین سال کے لیے نگران حکومت بنا دی جائے اور اس عرصے میں پی ٹی آئی کا مکمل صفایا کرکے انتخابات کرادئیے جائیں۔ اس ظالمانہ نظام کو بچانے کا یہ حربہ بھی ناکام گیا۔ قادری کا دھرنا ایک مذاق ثابت ہوا۔ اس میں اہم کردار پھر پی ٹی آئی کا تھا۔ عمران خان نے اس دھرنے کی شدت سے مخالفت کی۔ جبکہ سوشل میڈیا پر موجود پی ٹی آئی کے نوجوانوں نے اس کو ایک مذاق بنا کے رکھ دیا۔ ایک اور وار خالی گیا۔
انتخابات سر پر تھے اور آزادانہ  سروے، ملکی اور غیر ملکی  انٹیلی جنس رپورٹس پی ٹی آئی کی لینڈ سلائڈ فتح کی پیشگوئی کررہی تھیں۔  اگر کہا جائے کہ پوری دنیا میں تشویش کی لہر دوڑ رہی تھی تو بے جا نہ ہوگا۔ عمران خان کو بطور وزیر اعظم پاکستان  ہضم کرنا پاکستانی اشرافیہ، مقتدر طبقات کے علاوہ بین الاقوامی اشرافیہ کے لیے بھی ڈراؤنا خواب ثابت ہوسکتا تھا۔  اس بھیانک خواب سے بچنے کے لیے اس کھیل کا آغاز ہوا جسے اسرائیل کی تخلیق کے بعد شاید سب سے بڑی سازش قرار دیا جاسکتا ہے۔
اس کھیل میں سبھی ملکی اور غیر ملکی کھلاڑی  شامل تھے۔ پاکستا ن کا ایک "دوست" ملک، ایک دشمن ہمسایہ، عالم اسلام کے قلب میں گڑا ہوا خنجر اور اس کا سرپرست سب اکٹھے تھے۔ سب کا مقصد صرف ایک تھا۔ پی ٹی آئی کا راستہ روکنا۔ اس کے لیے پاکستان میں خرید و فروخت کا ایسا بازار لگا جس کی مثال ملنی مشکل ہے۔ کیا صاف شفاف سیاستدان، کیا سو کالڈ ایماندار جج اور  کیا  باضمیر صحافی،  سب  اس بازار میں برائے فروخت تھے۔  اس  کام کے لیے ایک سو سترہ ارب روپے مختص ہوئے۔ لیکن ایک بات شاید خریدنے والے بھول گئے۔ عوام کو خریدنا  ممکن نہیں ہوتا۔ آخر گیارہ مئی کا دن آپہنچا۔  انتخاب ہوا  اور تمام تر دھاندلی، دھونس اور بدمعاشی کے باوجود پی ٹی آئی  نے میدان مار لیا۔ سب منصوبے، خرید و فروخت، سازشی پلان دھرے کے دھرے رہ گئے۔ کے پی کے ابتدائی انتخابی نتائج آنے کے بعد جب منصوبہ سازوں کو احساس ہوا کہ ان کی ساری کوششیں نقشِ بر آب ثابت ہوئی ہیں تو "پلان بی" پر عمل در آمد شروع کردیا گیا۔ نتائج روک دئیے گئے۔ ریٹرننگ آفیسرز کو یرغمال بنا لیا گیا اور جس نے چوں چرا کرنے کی کوشش کی اسے خاندان سمیت عبرت کا نشان بنانے کی دھمکیاں دی گئیں۔ تعاون کرنے والوں کو نقد  اور آؤٹ آف ٹرن ترقی کے وعدے کیے گئے جو بعد میں پورے بھی ہوئے۔  ایک سابق نگران وزیر اعلی پر ہوئی عنایتیں سب کے سامنے ہیں۔
پاکستان کے عوام سے ایک بار پھر حقِ نمائندگی چھین لیا گیا۔ پی ٹی آئی ایک سو تریپن 153 نشستوں پر جیت رہی تھی۔ لیکن نتائج مکمل ہوئے تو اس کے پاس صرف چالیس کے قریب نشستیں بچی تھیں۔  کوئی بھی اس پر یقین کرنے کو تیار نہیں تھا۔ عمران خان کو متحرک رکھنے سے روکنے کے لیے انتخابی مہم کے آخری حصے میں ایک پلانٹڈ حادثے کا شکار کردیا گیا۔ منصوبہ سازوں کو علم تھا کہ متحرک عمران خان کے ہوتے ہوئے  دن دہاڑے انتخاب چرانا ممکن نہیں ہوگا۔ عمران ہسپتال کے بستر پر بے یارومددگار پڑے تھے اور  پاکستانی عوام کا حقِ رائے دہی لوٹا جا رہا تھا۔  یہ پاکستانی تاریخ کا سب سے تاریک دن تھا۔  منصوبہ سازوں کی امیدوں کے برعکس عمران  اپنی قوت ارادی کے بل بوتے پر وقت سے پہلے صحت یاب ہو کر میدان میں اتر آئے۔ اب ان کا ایک ہی ایجنڈا تھا۔ عوام کا حقِ رائے دہی واپس لینا۔ پہلے دن سے انہوں نے اس کھلی بے ایمانی کے خلاف آواز بلند کی۔ پارلیمان میں ان کی تقریر آج بھی ریکارڈ پر موجود ہے۔ انہوں نے کسی بھی قسم کے سمجھوتے سے انکار کیا اور انتخابات میں دھاندلی کی کھلی تحقیقات کا مطالبہ کیا۔ سازشی ٹولہ اس مطالبہ کو  کبھی نہیں مان سکتا تھا۔ عمران کا مذاق اڑایا گیا۔ ان کو زچ کیا گیا ۔ آخر کار کپتان نے سب سازشیوں کا بلف کال کر لیا۔
اسلام آباد تک لانگ مارچ اور دھرنے کے اعلان نے منصوبہ سازوں کے ایک دفعہ پھر ہوش اڑا دئیے ۔ ان کو علم تھا کہ عوام کا سمندر ہوگا اور پھر ان کو بچانے والا کوئی نہیں رہے گا۔ مقتدر حلقوں میں ہونے والی تبدیلیاں بھی پاکستان کے لیے خوش خبری تھیں۔ ذاتی مفادات کے لیے ملک کو داؤ پر لگانے والے جا چکے تھے اور ان کی جگہ پاکستان کے سچّے سپوت لے چکے تھے۔  منصوبہ سازوں نے اس انقلاب کو ڈی فیوز کرنے کے لیے پھر اپنا آزمودہ مہرہ میدان میں اتارا۔ طاہر القادری  کو یہ سارا شو ہائی جیک کرنے کےلیے میدان میں اتارا گیا۔ ماڈل ٹاؤن کا واقعہ بھی منصوبہ سازوں کی ایماء پر ہوا تاکہ ساری توجہ طاہر القادری کی طرف مبذول کرائی جاسکے۔میڈیا میں یہ تاثر پھیلایا جارہا تھا کہ طاہر القادری اور عمران خان مقتدر حلقوں کی  شہ پر اسلام آباد کی طرف چڑھائی کررہے ہیں تاکہ جمہوریت کو ختم کیا جاسکے۔ حقیقت اس کے برعکس تھی۔ عمران خان جمہوریت کو بچانے جبکہ طاہر القادری اس کو تباہ کرنے کے درپے تھے۔
چودہ اگست کا دن آپہنچا اور عمران خان، عوام کے ایک سمندر کے ساتھ اسلام آباد آن براجے۔ لوگوں کو نظر آرہا تھا کہ اب پاکستان میں ایک حقیقی تبدیلی اور انقلاب آرہا ہے۔ سازشی اور لٹیرے بے نقاب ہورہے ہیں۔ اور خلق خدا کے راج کا آغاز ہونے والا ہے۔ اس موقع پر وزیر اعظم نے مقتدر حلقوں  سے مدد مانگی تو وہاں سے صاف جواب ملا کہ سیاسی معاملے کو سیاسی طریقے سے حل کریں  اور اس میں ہم آپ کی کوئی مدد نہیں  کرسکتے۔ دھرنے نے منصوبہ سازوں کے ہوش و حواس اڑا کے رکھ دئیے تھے۔ کبھی چین کی اربوں ڈالرز امداد کی افواہیں پھیلائی جاتیں اور کبھی عمران خان پر الزامات لگائے جاتےکہ یہ پاکستان کی ترقی کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کر رہے ہیں۔ ہر حربہ آزمانے کے باوجود بھی جب عمران خان کو ہلایا نہ جاسکا تو پھر منصوبہ سازوں نے ایسا گھناؤنا وار کیا جس کی امید بدترین دشمن سے بھی نہیں ہوسکتی۔
یہ امر شاید سب کے لیے حیران کُن  نہ ہو کہ آرمی پبلک سکول سانحہ میں  ہمسایہ ملک کی مدد سے معصوم بچوں کو شہید کرنے والے کوئی اور نہیں بلکہ اسی ملک کے حکمران تھے۔ تاکہ اس دھرنے سے نجات حاصل کی جائے جس نے ان کے جعلی اقتدار کو حقیقی خطرے سے دوچار کر رکھا تھا۔ بادلِ نخواستہ دھرنا ختم کرنا پڑا۔   منصوبہ سازوں کا ایک دفعہ پھر وقتی کامیابی حاصل ہوچکی تھی۔ لیکن وہ یہ نہیں جانتے تھے کہ اس گھناؤنے فعل سے ان کی اپنی صفوں میں ہی پھُوٹ پڑ چکی ہے۔ بہت خفیہ ہونے کے باوجود اس منصوبے کی بھنک چوہدری نثار اور شہباز شریف  کو مل چکی تھی۔ جن کے ذریعے یہ خبر مقتدر حلقوں تک بھی پہنچ گئی۔ اس دفعہ بننے والا منصوبہ پاکستان کو بچانے والا تھا۔ اس منصوبے میں چوہدری نثار، شہباز شریف اور دو حاضر سروس  شامل تھے۔ شہباز شریف ساری زندگی بڑے بھائی کے بلنڈرز کی پردہ پوشی کرتے رہے لیکن یہ سانحہ شاید اونٹ کی کمر پر آخری تنکا ثابت ہوا۔ وہ کھل کر ان کے خلاف صف آرا ہوچکے تھے۔ یہ شہباز شریف ہی تھے جن کے بیٹے کو پورا خاندان، مشرف کے پاس ضمانت کے طور پر چھوڑ گیا تھا ۔ شہباز شریف کی کارکردگی پر ہر دفعہ ووٹ لے کر جیتنے والے نواز شریف نے کبھی ان کو وہ اہمیت نہیں دی جو ان کا حق تھا۔ حمزہ شہباز جو جلاوطنی کے دنوں میں ن لیگ کو زندہ رکھے ہوئے تھے ان کو مریم نواز شریف کے سیاسی کیرئیر پر قربان کرنے کا منصوبہ بھی بن چکا تھا۔ شہباز شریف نے اپنی زندگی اور کیرئیر تو بھائی پر قربان کردی لیکن جب اولاد کے ساتھ بھی وہی سلوک ہوتا نظر آیا تو  ان کی برداشت جواب دے گئی۔
یہ پنڈی کے ایک حساس علاقے میں موجود عمارت کا ڈرائنگ روم تھا۔ شہباز شریف، چوہدری نثار،  حمزہ شہباز اور دو حاضر سروس ہستیاں اس  کمرے میں موجود تھیں۔ موضوع گفتگو "گیٹ نواز شریف سُون" آپریشن تھا۔ شہباز شریف نے اپنے  کوٹ کی جیب سے یو ایس بی نکالی اور میز پر موجود لیپ ٹاپ میں لگا کر سب لوگوں کو متوجہ ہونے کا کہا۔ اس یو ایس بی میں وہ تمام معلومات تھیں جن سے ثابت ہوتا تھا کہ کیسے پاکستان کی دولت لوٹ کر اسے بیرون ملک بھیجا گیا۔ بے نامی بینک اکاؤنٹس، کمپنیز، ٹرانزیکشنز سب کچھ اس میں موجود تھا۔ کمرے میں موجود  دونوں افسر دم بخود یہ سب دیکھ رہے تھے۔ شہباز شریف نے اپنی پریزنٹیشن ختم کی اور یو ایس بی نکال کر اپنے ساتھ بیٹھے افسر کے حوالے کردی۔  یہ پانامہ لیکس کی شروعات تھیں۔
اس کے بعد اس آپریشن کا آغاز ہوا جسے تاریخ میں سب سے عظیم سپائی آپریشن کے نام سے یاد کیا جائے گا۔ پوری دنیا کی انٹیلی جنس ایجنسیز کے مقابلے میں پاکستانی افسروں نے وہ کارنامہ کر دکھایا جو کسی کے تصور میں بھی نہیں تھا۔ جرمن اخبار کو  موساک فانسیکا بارے معلومات دینے والا نامعلوم شخص کوئی اور نہیں بلکہ پاکستانی آفیسر ہی تھا۔ جس نے جان پر کھیل کر یہ معلومات حاصل کیں۔ اگر یہ سب پاکستانی میڈیا کے سامنے پیش کیا جاتا تو اس پر جمہوریت کے خلاف سازش کا الزام لگا کے اس کو رد کردیا جاتا  لیکن چوہدری نثار کی ذہانت نے یہ مسئلہ حل کردیا۔  غیرملکی ثقہ اخبار میں چھپنے کی وجہ سے اس کی کریڈیبلٹی پر کوئی انگلی نہیں اٹھا سکا۔ بالآخر وہ وقت آگیا ہے جب عوام کے ووٹ اور ان کی دولت لوٹنے والے کٹہرے میں کھڑے ہوں گے۔ ان کے لیے اب کوئی راہِ فرار باقی نہیں رہی۔ مقتدر حلقوں میں ان کے ہمدرد ختم ہوچکے۔  مکافات عمل اب ان کا انتظار کررہا ہے۔
عمران خان بالآخر سچّا ثابت ہوا۔