ہم دل والوں کو بہت کچھ ہوتا ہے صنم

روحان یونیورسٹی جانے کے لیے  گھر سے نکلا تو دس بج رہے تھے۔  بلیو جینز پر وائٹ ٹی شرٹ ، جس  پر سامنے "کَم بے بی کَم" لکھا ہوا تھا، پولیس کا   چشمہ، نفاست سے ترشی ہوئی داڑھی اور گُوچی کی خوشبو میں بسا روحان  کمال  کسی فیری ٹیل کا پرنس یا یونانی دیوتا یا کسی فیشن میگزین کااطالوی ماڈل  لگ رہا تھا۔ نئے ماڈل کی کار کا دروازہ کھول کر اندر بیٹھنے سے پہلے اس نے کار میں بیٹھنے کی دُعا پڑھی جو اس نے  اسی ہفتے علامہ اللہ دتّہ  کے تازہ ترین  درس میں سیکھی تھی۔  دس بجے کے بعد رش آور ختم ہوجاتا ہے ۔روحان نے کینال روڈ پر ایک سو تیس کی رفتار سے گاڑی دوڑانا شروع کی۔ کار سٹیریو پر یویو ہنی سنگھ   فل والیم میں اپنی سریلی آواز میں  گنگنا رہا تھا۔۔۔
چار بوتل واڈکا
 کام میرا روز کا
نہ مجھ کو کوئی  روکے
نہ کسی نے روکا
کار جہاں سے گزرتی ، دھم دھم کی آواز سے  لوگ باگ مُڑ کے دیکھتے ۔ کہیے تو جیسے روحان کمال، گشتی ڈی جے بٹ  ہو۔روحان نے   مارلبرو کے پیکٹ سے سگریٹ نکالا اور طلائی لائٹر سے سلگا کے لمبا کش لیا۔  نِرنے کلیجےمیں پہلا کش ٹھاہ کرکے لگا تو روحان کو یاد آیا کہ اس نے ناشتہ نہیں کیا۔ اس نے فورا گاڑی کا رخ  مکڈونلڈز کی طرف موڑدیا۔  ڈبل چِیز برگر اور ایکسٹر ا لارج پیپسی نے اسے تازہ دم کردیا۔  
روحان کی کار کیمپس میں داخل ہوئی تو اسے محسوس ہوا کہ آج معمول سے زیادہ چہل پہل ہے۔ گاڑی پارک کرکے وہ پولٹیکل سائنس ڈپارٹمنٹ کی طرف گامزن ہوا۔  نیلے آسمان پر ہلکے سرمئی بادل سورج سے آنکھ مچولی کھیل رہے تھے۔ فضا میں خوشگوار سی خنکی اور رومانیت تیر رہی تھی۔  ایسے موسم میں کس کافر کا دل سگریٹ پینے کو نہ چاہے۔ روحان نے سگریٹ سلگایا اور پہلا کَش لیتے ہی تمباکو ، پیپسی اور برگر  کا ملا جلا ڈکار مارا اور زیر لب الحمدللہ کہا۔  روحان کو اس وقت بالکل احساس نہ ہوا کہ کوئی اسے بہت انہماک سے دیکھ رہا ہے۔ وہ اپنی دُھن میں اجے دیوگن سٹائل میں سگریٹ ہونٹوں میں دبائے اپنے ڈپارٹمنٹ کی طرف  رواں دواں تھا۔
روحان پولٹیکل سائنس میں ماسٹرز کررہا تھا۔  اپنے ڈپارٹمنٹ کا وہ سب سے ذہین سٹوڈنٹ مانا جاتا تھا۔ روحان اتنے گولڈ میڈل جیت چکا تھا کہ اس  نے اپنی امّی  کو پانچ تولے کے کنگن بنا کے دئیے تھے۔  یہ اس کا اپنی امّی کے لیے ایک حقیر سا تحفہ تھا جنہوں نے اسے کپڑے سِی سِی کر پالا پوسا اور پڑھا رہی تھیں۔  ڈپارٹمنٹ میں پہنچ کر اسے چہل پہل کی وجہ معلوم ہوئی۔ آج ان کے ڈپارٹمنٹ میں نئے طلباء کی ویلکم پارٹی کا اہتمام تھا۔  روحان وہاں پہنچتے ہی سب کی توجہ کا مرکز بن گیا۔  پروفیسر عطیہ بخش نے روحان کو بلایا اور ہدایت کی کہ تقریب کی نظامت اس کے ذمہ ہے اور مہمان خصوصی کی خدمت میں سپاس نامہ بھی اسے ہی پیش کرنا ہے۔ نصابی کے ساتھ ساتھ روحان ہم نصابی سرگرمیوں میں بھی دلچسپی لیتا تھا۔وہ   یونیورسٹی کی فٹبال، ہاکی، کرکٹ، سکواش، بیڈ منٹن، باڈی بلڈنگ،  شطرنج، کبڈی اور ڈبیٹنگ ٹیموں کا کپتان تھا۔  اس کی زیر قیادت ہر سال انٹر یونیورسٹی مقابلوں میں  کلین سویپ کیا جاتا تھا۔ 
تقریب شروع ہوئی ۔ روحان کمال نے اپنے مخصوص انداز میں سپاسنامہ پیش کیا۔ اشعار سے سجے اس اظہار یے نے شرکاء کو دم بخود کردیا۔ سپاسنامہ ختم ہوا  تو پورا  پنڈال تالیوں سے گونج اٹھا۔ روحان نے نئے طلباء کے نمائندہ کو تقریر کے لیے بلایا  تو یکدم جیسے وقت ٹھہر سا گیا ہو۔ بنفشی آنکھیں، میدے جیسے رنگت، ستواں ناک، گلاب کی پنکھڑیوں جیسے ہونٹ ، نچلا ہونٹ تھوڑا سا اٹھاہوا، سرو قد، سر اور کان حجاب میں لپٹے ہوئے، فٹنگ والی بلیک شرٹ جس کے گلے پر سرخ کڑھائی اورسگریٹ ٹراؤزر ۔۔۔ جوبن ایسا کہ برسوں کی تپسّیا بھنگ کردے۔ روحان کی نظریں اس مایا جال میں ایسی الجھیں کہ اسے ڈائس خالی کرنا بھول گیا۔  اس مہ وش کی سانسیں جب اسے اپنے چہرے پر محسوس ہوئیں تو یکلخت جیسے وہ ہوش میں آگیا ہو۔ اس نے نظر بھر کے ایک دفعہ پھر اسے دل میں اتارا اور ڈائس اس کے حوالے کرکے  سٹیج کے عقب میں جا  کھڑا ہوا۔ روحان کو اس کا اندازہ اس دن ہوا کہ حُسن کوجس طرف سے بھی دیکھیں حُسن ہی رہتا ہے۔  سٹیج کے عقب میں کھڑے ہو کر اس پری وش کو تکتے رہنا  اس کے بس کی بات نہیں تھی۔ ایک عجیب سی بے اختیاری اس پر طاری تھی ۔  وہ سگریٹ تک بھول چکا تھا ۔ یاد تھا تو بس وہ ایک نظارہ۔۔۔۔ یہ روحان کمال کی جوبنہ ودود سے پہلی ملاقات تھی۔
کیوپڈ اپنا کام کرچکا تھا۔ روحان کمال کا دل چھلنی ہوچکا تھا اور اس کے دل سے بہنے والے خون نے جوبنہ کا نام اس کی روح پر لکھ  دیا تھا۔ جوبنہ کا حال بھی مختلف نہیں تھا۔ آج صبح یونیورسٹی میں داخل ہوتے ہی اس نے روحان کمال کو کمال بے نیازی سے سگریٹ پیتے ہوئے دیکھا تو اس کا دل اس کی نفاست سے ترشی ہوئی داڑھی میں اٹک گیا ۔ یہ محبت کی وہ گھاتیں ہیں جو معصوم دلوں کو چھلنی کردیتی ہیں گھائل پنچھی  اڑنا بھول جاتے ہیں۔  پیار کے گیت گاتے ہیں اور پیتم کو یاد کرتے ہیں۔
روحان اور جوبنہ نے وقت ضائع نہیں کیا۔ تقریب سے اگلے ہی دن روحان نے کلاس کے بعد جوبنہ کو گراسی پلاٹ میں برگد کے پیڑ کے نیچے بلایا ۔ جوبنہ فیروزی ٹی شرٹ اور جینز میں  پرستان سے آئی پری لگ رہی تھی۔ اس نے حسب معمول سر اور کان اچھی طرح سکارف سے ڈھکے ہوئے تھے ۔ ایک بال تک نظر نہیں آتا تھا۔  روحان نے جوبنہ کی  ساگر جیسی آنکھوں میں جھانکا، اس کامرمریں ہاتھ پکڑا، چشمہ اتار کے شرٹ کے کالر کی پچھلی طرف اٹکایا، اور اس سنگ مرمر سے بنے ہاتھ کو  اپنی آنکھوں سے لگا لیا۔ جوبنہ بے اختیار ہوکر روحان کی  مضبوط بانہوں میں سما گئی۔   دور کہیں کنٹین پر یہ گانا چل رہا تھا۔۔۔۔
میں تے ماہی اینج جیویں
ٹچ بٹناں دی جوڑی
عشق اور مُشک چھپائے نہیں چھپتے۔ روحان اور جوبنہ کی کہانی بھی یونیورسٹی میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی۔ روحان کمال یونیورسٹی کی طلباء تنظیم کا صدر بھی تھا۔ طلباء تنظیم کی ہائی کمان کی طرف سے اسے   پیشی کا بلاوا آیا۔  روحان ، یونیورسٹی سے فارغ ہو کر ہیڈ آفس پہنچا تو تنظیم کے سارے بڑے اس کا انتظار کررہے تھے۔ چئیرمین واسع شریف  نے اسے بیٹھنے کا اشارہ کیا ۔ ان کا رویہ واضح طور پر سرد تھا۔ انہوں نے تنظیم کے اغراض و مقاصد  اور ضابطہ اخلاق پر روشنی ڈالی۔ اسلام، نظریہ پاکستان اور اخلاقی اصولوں و مشرقی روایات کی اہمیت بیان کی۔  تمہید کے بعد واسع شریف نے  صاف الفاظ میں روحان اور جوبنہ کے تعلق کا ذکر کیا اور جوبنہ کے ملبوسات کو مشرقی و اسلامی روایات کی صریح خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے روحان کمال سے وضاحت طلب کی کہ بطور صدر آپ یونیورسٹی میں ضابطہء اخلاق کے نفاذ کے ذمہ  دار ہیں۔ اور آپ نے آج تک یہ ذمہ داری بخوبی ادا کی ہے ۔ لیکن جوبنہ ودود کے مخرب الاخلاق ملبوسات بارے آپ نے یہ کوتاہی کیوں کی؟
روحان کمال نے  جیب سے پیکٹ نکالا، سگریٹ کھینچا، منہ میں دبایا، طلائی لائٹر سے اسے سلگا کر ایک طویل کش لیا ۔ دھواں واسع شریف پر چھوڑتے ہوئے بے نیازی سے جواب دیا۔۔۔
اوہنوں سج دے وی  نیں۔۔۔۔