چوتھی منزل

چھیما ڈیرے سے واپس آ رہا تھا۔ پِنڈ کی حد شروع ہونے میں دو پیلیاں باقی تھیں کہ اس نے بَنتو کو آتے دیکھا۔ بَنتو چودھری  زوار کی حویلی میں چودھرانی کی خاص تھی۔ چھیما یوں تو وڈھیری عمر کا تھا لیکن خوب کس کے بچے  کچھے بال کالے کرتا اور طیفے نائی سے شیو بھی خوب چھیل چھیل کر کراتا ۔ آنکھوں میں سُرمہ ڈالے ، لاہور بادشاہی مسجد کے نواح سے خریدا گیا عطر لگا کے گھوما کرتا ۔ بَنتو چھیمے کی جنٹل مین لُک پر مر مٹی تھی اور اکثر و بیشتر  کماد، حویلی، ڈیرے اور چودھری زوار کے منشی منّان کے گھر ان کی ملاقاتیں ہوتیں۔ چھیمے کی آواز منہ متھے لگتی تھی۔ فنکاروں کا بچّہ تھا، سُر کی پہچان تھی۔ بَنتو کو عنایت حسین بھٹی اور جازی بی کے گانے سناتا اور اس کی لائی ہوئی چُوری کے ساتھ کبھی کبھار حُسن کی سوغات بھی پاتا۔
بَنتو نے چھیمے کے قریب سے گزرتے ہوئے اسے آج شام منشی منّان  کے گھر ملنے کا کہا۔ چھیما خوش بھی ہوا لیکن اسے جیدے کی فکر بھی لگ گئی تھی۔ جیدا بھی چھیمے کی طرح منشی مانے کا ماتحت تھا۔  ویسے تو دونوں کی بہت بنتی تھی لیکن زن، زر، زمین فساد کی جڑ ہوتی ہے اور بَنتو ویسے بھی سینکڑوں میں ایک تھی۔ جیدا عمر میں اس سے کافی چھوٹا تھا اور اسے تیار ہونے میں بھی چھیمے کی طرح دو گھنٹے نہیں لگتے تھے۔ چھیما ہمیشہ بَنتو کو کہتا تھا کہ منشی کے گھر ملنا خطرے سے خالی نہیں لیکن بَنتو پچھلی وڈّی عید کی رات کماد والی ملاقات سے کافی یَرک چکی تھی۔ وہ تو چھیمے نے بعد میں بات سنبھالی  ورنہ بَنتو ہتھّے سے اکھڑ جاتی۔
چھیمے کے کرنے کو اب کافی کام اکٹھے ہوچکے تھے۔ اسے جیدے کو کسی کام سے شہر بھجوانا تھا۔ منشی مانے کے لیے درّے کی خالص چرس مہیّا کرنی تھی تاکہ منشی جی دو جوڑے لگا کر سرگی ویلے تک انٹا غفیل رہیں۔ پڑچھتّی کی صفائی کرنی تھی ۔ نیچے سے منجی لے جا کر اس پر پھول دار چادر اور رنگلا نیا کھیس بچھانا تھا۔ چھیما تِیر کی طرح نکلا اور چودھری صاحب کی حویلی میں منشی مانے کے پاس جا پہنچا۔ منشی کو کہہ کر جیدے کو شہر بھجوایا۔ منشی کو چرس دی اور شام ہونے سے پہلے منشی کے گھر پہنچ گیا۔ چھیما اور جیدا منشی کے گھر کی بیٹھک میں رہتے تھے۔مغرب سے پہلے چھیما کنگھی پٹّی کرکے تیار بیٹھا تھا۔
مولوی صاحب نے عشاء کی اذان دی تو آدھا پنڈ سو چکا تھا۔ چھیما نظر بچا کر چھت پر  گیا تو پڑچھّتی میں بچھی منجی پر بَنتو اپنی تمام حشر سامانی کے ساتھ آلتی پالتی مارے موجود تھی۔ بَنتو کے زانو پر رکابی دھری تھی جس میں دیسی گھی کی چُوری تھی۔ چھیمے نے بھی مِیدے حلوائی سے سپیشل بھنگ والے پکوڑے بنوائے تھے۔ چھیمے نے پکوڑوں کا لفافہ کھولا اور اپنے ہاتھ سے بَنتو کو پکوڑے کھلانے لگا۔ تیسرے پکوڑے پر ہی بَنتو بے خود ہو کر ہنسنے لگی تھی۔ پکوڑے ختم ہوئے تو چُوری کی باری آئی۔ ابھی دو نوالے ہی لیے تھے کہ یکایک جیدا سیڑھیوں سے نمودار ہوا۔ بَنتو گھبرا کر چھیمے سے اور لپٹ گئی۔ چھیمے کی ہوائیاں اڑی دیکھ کر جیدے کی آنکھوں میں شیطانی چمک اتر آئی۔ جیدا  ان کے سامنے دونوں ہاتھ پہلوؤں پر رکھ کر کھڑا ہوگیا اور کہا، "سانوں شہر بجھوا کے تے آپ کلّے کلّے چُوریاں کھا دیاں  جا  ریاّں نیں۔۔۔ ساڈا وی حصہ پاؤ۔۔ نئیں تے فیر کھپ ای پئے گی۔۔۔"
چھیمے نے بَنتو کے کان میں کہا سرگوشی کی کہ اس شوہدے کو بھی تھوڑی سی چُوری دے دیتے ہیں ورنہ بدنامی ہوجائے گی۔ بَنتو بادلِ نخواستہ مان گئی۔ سب چُوری کھا کر فارغ ہوئے تو بھنگ کے پکوڑوں نے بَنتو پر اثر دکھانا شروع کر دیا تھا۔ وہ روتے ہوئے چھیمے سے لڑنے لگی کہ تم تو میرے جانو ہو اس ناما نیم نے میری چُوری کیوں کھائی۔ چھیمے کو بھی اس پر غیرت آگئی۔ وہ لہراتا ہوا اٹھا اور ایک گھسن جیدے کے منہ پر دے مارا۔
چند لمحوں میں ہی پلاسی کی جنگ شروع ہوچکی تھی۔ دونوں لڑتے لڑتے سیڑھیوں سے لڑھکتے صحن میں جا گرے۔ آس پاس کے لوگ شور سن کر جاگ گئے تھے۔ مانا منشی بھی چرس کے نشے میں دھت اپنے کمرے سے نکلا۔ پیچھے سے منشی کی بیوی نے آواز دی کہ "دھوتی وی بَن لوو۔۔ کلا کرتہ ای پایا جے"۔۔۔ منشی جی جلدی سے کمرے میں گھس کر دھوتی باندھ کر باہر آئے تو چھیما اور جیدا لڑتے لڑتے گلی میں پہنچ چکے تھے۔ دونوں کے کرتے لیرو لیر ہوچکے تھے۔ ان کو چھڑانے کی کوشش میں بَنتو کا دوپٹہ بھی لا پتہ تھا اور وہ سینہ تانے گلی میں کھڑی جیدے کو بددعائیں دے رہی تھی۔
چودھری زوار کو اس ماجرے کی خبر ہوئی تو وہ سفید گھوڑی پر سوار منشی مانے کے گھر جا پہنچا۔ چھیما اور جیدا خونم خون، لیرو لیر کپڑو ں کے ساتھ ادھ مرے پڑے تھے۔ بَنتو ان کے قریب کھڑی واویلا کر رہی تھی۔ چودھری نے منشی مانے کو پکارا اور کہا ، "منشی! یہ ہمارا پنڈ ہے، تو نے اسے ہیرا منڈی بنا دیا ۔" درّے کی خالص چرس اپنے عروج پر پہنچ چکی تھی۔ منشی مانے اپنے کرتے کا پلّو جھٹکا اور للکار کر چودھری کو جواب دیا، "چودھری صاحب! یہ میرا گھر ہے، آپ کا نہیں۔ اپنے کام سے کام رکھیں"۔
چودھری نے یہ سن کر کندھے سے لٹکی پکّی رائفل اتاری اور گھوڑی سے کود کر اترا!

Comments
3 Comments

3 تبصرے:

جعفری نے فرمایا ہے۔۔۔

مکمل کہانی نہیں ہے ؟

Anonymous نے فرمایا ہے۔۔۔

باقی کدر ہے؟

Anonymous نے فرمایا ہے۔۔۔

نامکمل

تبصرہ کیجیے