نام میں کیا رکھا ہے

یہ 90 کی دہائی کے اوائل کا قصہ ہے ۔ پرانا دور ہمیشہ سادہ اور اچھا لگتا ہے کیونکہ اس وقت تک ہم دنیا کو اس طرح نہیں جانتے جیسی وہ ہے۔ یہ تو وقت جب گزرتا ہے تو علم ہوتا ہے کہ وقت ہمیشہ اچھا ہوتا ہے، انسان اور رویّے اچھے نہیں ہوتے ۔  یہ گورنمنٹ کالج دھوبی گھاٹ لائلپور کا قصّہ ہے۔ ان دنوں سردیوں میں اردو، انگریزی، اسلامیات وغیرہ کی کلاسز کمروں سے نکل کر باغیچوںمیں منتقل ہوجاتی تھیں۔ کالج میں ہاکی، فٹبال اور کرکٹ کے الگ الگ میدان تھے۔ اردو اور انگریزی کی کلاس اکثر لائبریری کے سامنے والے باغیچے میں ہوتی تھی جس کے ساتھ ہی ہاکی کا میدان تھا۔ 

یہ سرما کی نرم دھوپ والا دن تھا۔ فرسٹ ائیر کے رنگروٹوں کی بڑی تعداد  اردو کی کلاس میں انہماک سے بیٹھی  ہاکی کا میچ دیکھ رہی تھی۔ کرسی پر براجمان جوان العمر، نرم نقوش اور خوش پوش لیکچرار  میرؔ  کی غزل پڑھاتے ہوئے ، "تھا عشق مجھے طالبِ دیدار ہوا میں " تک پہنچے تو رک گئے ۔ اور سامنے بیٹھے ہونق بچوں سے  دریافت کیا کہ وہ سامنے پگڈنڈی پر جو صاحب آرہے ہیں، کیا کوئی ان کو جانتا ہے؟ ان کا اشارہ چھوٹا سا چرمی بیگ بغل میں دبائے تیز تیز قدموں سے چلتے ادھیڑ عمر فرد کی طرف تھا۔ بھولی سی صورت والے ایک بچے نے ہاتھ کھڑا کیا۔ استاد خوش ہو کر بولے، ہاں بھئی بتائیں، کون ہیں یہ؟ وہ ناہنجار اپنی لائلپوری پنجابی میں بولا، "سرجی، اے کوئی گولیاں ٹافیاں ویچن آلے نیں۔"

کلاس میں بے ساختہ قہقہہ پھوٹا۔ استاد بھی اس میں شریک تھے۔ بہرکیف ایک دم سنجیدہ  ہوئے  اور خفا ہوتے ہوئے بولے، یہ ریاض مجید ہیں۔ شعبۂ اردو کے صدر ہیں  اور بہت اچھے شاعر۔ سوال ہوا کہ اتنے اچھے شاعر ہیں تو اردو کی کتاب میں ان کی شاعری کیوں نہیں ہے؟ سرَجی مسکرائے اوربولے،  ابھی زندہ ہیں؛ اسی لیے نہیں ہے۔

وہ بدتمیز ناہنجار ہم ہی تھے۔ سائنس کے طالبعلموں کو اردو، اسلامیات وغیرہ پڑھانا اس وقت بھی سمجھ نہیں آیا تھا نہ آج تک آیا۔ لیکن اگر کالج میں اردو نہ پڑھتے تو سَر جی سے کیسے شناسائی ہوتی۔  سکول میں استاد کا تصور ڈنڈے اور تشدد کے بغیر نامکمل  تھا۔ سارا دن کہیں نہ کہیں سے کسی نہ کسی  کو گدڑ کُٹ لگنے کی آوازیں آتی رہتی تھیں۔ اس ماحول سے نکل کر کالج میں آنا ، قید بامشقت سے نکل کر سیدھا لاس ویگاس پہنچنے جیسا تھا۔ کلاس میں کچھ بھی بول سکتے تھے۔ ڈنڈے نہیں پڑتے تھے۔ مرغا نہیں بنناپڑتا تھا۔ دل چاہے تو کلاس  میں حاضر ہوں نہ چاہے تو کرکٹ کھیلیں  یا آوارہ گردی کریں یا اتوار ہے تو پہلا شو دیکھنے چلے جائیں۔

 اردو کی کلاس سے کبھی غیر حاضر ہونے کا خیال نہیں آیا ۔ سَر جی پڑھاتے  تو دنیا جہان کے قصے سناتے ۔ انداز ان کا کسی مہربان قصہ گو جیسا تھا۔ ہر ادیب، شاعر کی زندگی، پسِ منظر، اس دور کے حالات سب  کی ایک تصویر بنا دیتے ۔  میرؔ سے ان کو خصوصی شغف تھا۔ بین السطور ان کے وہ قصے بھی بیان کرتے جو اس وقت سمجھ  نہیں آتے تھے۔ تفصیل پوچھنے پر نیا قصہ چھیڑ دیتے ۔ منیر نیازی کا ذکر کرتے ہوئے پُرجوش ہوجاتے ۔ انہی سے سنا کہ ایسی شاعری نہ پہلے کبھی کسی نے کی نہ شاید کوئی اور کرسکے۔ ہماری اردو کی کتاب میں  منیر کی غلام علی والی غزل تھی۔ بے چین بہت پھرنا گھبرائے ہوئے رہنا۔۔۔ پڑھتے ہی ہمیں غلام علی کی آواز سنائی دینے لگتی ۔ اب فرسٹ ائیر کے بچے کو غلام علی سے کیا دلچسپی ہوسکتی ہے؟  ہمیں سَر جی کی یہ بات سمجھ نہیں آتی تھی۔ اب آتی ہے۔

یہ وہ وقت تھا جب تعلیمی اداروں میں خاردار باڑھ، مورچے،  مسلح محافظ وغیرہ نہیں ہوتے تھے۔ گورنمنٹ کالج ایک بڑے  پارک جیسا تھا۔ ہر طرف ہریالی، جدھر بھی نکل جائیں، کھیل کا کوئی میدان یا باغیچہ سامنے آجاتا ۔ البتہ جس حالت میں اب ہم ہیں، وہاں تک پہنچنے کی تیاریاں جاری تھیں۔ جہادی تنظیمیں، اسلحہ، جہاد، وغیرہ کا خوب زور تھا۔  نفاذِ اسلام کا بھی غلغلہ تھا۔ اس وقت سیکولرازم وغیرہ کا ذکر نہیں تھا البتہ کمیونزم اور کمیونسٹ گالی سمجھی جاتی تھی۔  دائیں اور بائیں بازو کی اصطلاحات اردو صحافت میں خوب استعمال ہوتیں۔ بائیں بازو کی تنقیص کے لیے مذہب کا بھی سہارا لیا جاتا کہ مسلمان ہر کام دائیں ہاتھ سے کرتے ہیں، یہی حکم ہے۔ شروع شروع میں ہمیں وسیم اکرم بھی اسی لیے ناپسند تھا کہ بائیں ہاتھ سے بالنگ کرتا ہے۔

سَر جی فیض کے بھی معتقد تھے۔ ہم نے اس لڑکپن میں جو کچھ پڑھا اس میں فیض کو سرخا، کمیونسٹ، ملک دشمن، دہریہ وغیرہ پکارا جاتا ۔ ان کو ملے لینن پرائز کو ان کے روسی ایجنٹ ہونے کی سند سمجھا جاتا۔ ہم جب جوش سے یہ سب سَر جی کے گوش گذار کرتے تو زیرِ لب مسکراتے رہتے۔ صرف اتنا کہتے، آپ اگر پڑھتے رہے تو وقت کے ساتھ آپ کی بہت سی الجھنیں سلجھ جائیں گی۔  سَر جی ہم سب کو پسند تو بہت تھے لیکن جب وہ ایسے ملک دشمنوں کی تعریف کرتے تو اس پسند میں بال سا آجاتا۔ جو اگلی کلاس تک دور بھی ہوجاتا۔ چھوٹی عمر کا یہی فائدہ ہے۔ کوئی رنج یا خفگی زیادہ دیر نہیں رہتی۔

ایک یاد سے کتنے سلسلے جُڑے ہوتے ہیں۔  کل کسی کو پُرسہ دیتے ہوئے ریاض مجید کا شعر یاد آیا،

وقت خوش خوش کاٹنے کا مشورہ دیتے ہوئے

روپڑا وہ آپ مجھ کو حوصلہ دیتے ہوئے

اس کے ساتھ ہی سَر جی کی یاد بھی آگئی۔ بہت کوشش کی لیکن ان کا نام یاد نہیں آیا۔ تب سے ان کی یاد ساتھ ہے۔ اوائل عمری کے قبول کیے ہوئے اثر ساری زندگی ساتھ رہتے ہیں۔ سَر جی سے بہت   سیکھا اور اس سے زیادہ وہ سیکھا جو اس وقت ہمارے لیے ہضم کرنا مشکل تھا۔  زندگی پر کسی کا اتنا اثر ہو اور نام بھول جائے۔ پھر شیکسپئیر یاد آیا کہ نام میں کیا رکھا ہے۔

میرا یقین ہے کہ سَر جی نے بھرپور، مطمئن زندگی گزاری ہوگی اور اب بھی اپنے اردگرد کے لوگوں کے لیے انسپریشن ہوں گے۔ یہ چند سطور اگر کسی نہ کسی طرح ان تک پہنچ جائیں تو جعفر حسین آپ کو سلام کہتا ہے، سَر جی۔

 


Comments
4 Comments

4 تبصرے:

shan نے فرمایا ہے۔۔۔

اپنا کالج کا دور یاد آ گیا۔۔۔
کالج کے اساتذہ کا شخصیت پر گہرا اثر ہوتا ہے۔

Dfwrite نے فرمایا ہے۔۔۔

سال کے آخری دن استاد کی تحریر کمال ہوگیا

Zainab Zainab نے فرمایا ہے۔۔۔

A piece of writing that needs to be read with a cup of tea. Simply amazing.

Unknown نے فرمایا ہے۔۔۔

بہت خوب

تبصرہ کیجیے