وہ دن کہ جس کا وعدہ تھا

جولائی کی وہ رات بہت مشکل سے کٹی تھی۔ تپش، حبس اور مچھّر۔ جیسے تیسے صبح ہوئی تو وہ بڑی مشکل سے اٹھا۔ کمرے کے کونے میں پانی کی بالٹی دھری تھی، جس کی تہہ میں تھوڑا سا پانی باقی تھا۔ پچھلے ہفتے کی بارش میں اس نے بالٹی بھر لی تھی۔ اب پانی ختم ہونے کو تھا۔ اس نے بالٹی میں  ٹوٹے کنارے والا مگ ڈال کر تھوڑا سا پانی بھرا۔ ایک گھونٹ پیا، باقی پانی سے منہ صاف کرنے کی کوشش کی، جو زیادہ کامیاب نہ ہوسکی۔

وہ کل شام دربار کے لنگر سے چاول لایا تھا۔ جس میں چنے تو گنتی کے تھے، کنکر کافی تھے۔ تھوڑے سے چاول اس نے بچا کے رکھے تھے جو شاپر میں کھونٹی پر لٹک رہے تھے۔ زمین پر چیونٹیاں، کاکروچ  اور اکا دکا ٹڈّیاں بھی رینگتی پھر رہی تھیں۔ چاولوں کا شاپر اتار کر اس نے کھولا تو اس میں سے ہمک سی آرہی تھی۔ شاید گرمی کی وجہ سے خراب ہوگئے تھے۔ اس نے ہمک کو نظر انداز کرکے چاول کھانے شروع کر دئیے۔

دو تین دن سے وہ بخار میں پھنک رہا تھا۔ اسی حالت میں سارا دن گھومتا رہتا۔ جہاں کچھ کھانے کو ملتا، لائن میں لگ جاتا۔ سارا دن اسی میں گزرتا۔ رات کو اپنے کمرے میں واپس آتا۔ کئی دفعہ اس نے سوچا کہ کسی کھلی جگہ رات بسر کرلے لیکن کچھ عرصہ سے باغوں وغیرہ میں سونے والے غائب ہونے شروع ہوگئے تھے۔ کوڑے کے ڈھیروں پر ادھ نچی انسانی لاشیں بھی نظر آنے لگی تھیں۔ اسی ڈر سے وہ رات کو کمرے میں واپس آجاتا تھا۔

ہمت جمع کرکے وہ چپل پہن کے باہر گلی میں نکلا۔ گلی سنسان لگ رہی تھی۔ چند گھروں کے باہر عورتیں، بچے، بوڑھے بیٹھے تھے لیکن سب نڈھال اور ایسے چپ تھے جیسے کسی نے انہیں ہمیشہ کے لئے ڈرا دیا ہو۔  آہستہ آہستہ چلتا ہوا وہ بازار کی مرکزی سڑک تک پہنچ گیا تھا۔ سڑک ویران تھی۔ دکانیں بند اور ان کے سامنے ایسے گرد جمی تھی جیسے سالوں سے کسی نے ان کو کھولا نہ ہو۔ نہ کوئی کار، نہ کوئی ویگن، موٹر سائیکل۔ حتی کہ کوئی سائیکل بھی نظر نہیں آتی تھی۔ وہ تقریبا اپنے آپ کو گھسیٹتا ہوا چلتا رہا۔

شہر کے مرکزی اسپتال تک پہنچنے میں اس کو کافی وقت لگا۔ جولائی کی دوپہر قہر بن گئی تھی۔ پیاس اور بخار سے اس کا گلا خشک تھا۔ وہ اسپتال کے مرکزی دروازے کے سامنے پانی کی ٹینکی کے پاس گیا۔ ٹونٹیوں پر جما زنگ بتا رہا تھا کہ اس میں پانی بھرے ہوئے عرصہ گزر گیا۔ سٹیل کے گلاس جو زنجیر سے بندھے ہوتے تھے وہ بھی کوئی اتار کے لے گیا تھا۔

اسپتال کے اندر بھی اُلّو بول رہے تھے۔ نہ ڈاکٹر، نہ دوا۔ کھڑکیاں اکھڑی ہوئی ، دروازے ٹوٹے ہوئے۔ایمرجنسی وارڈ میں آوارہ کتّے  بھر رکھے تھے۔ کتّوں سے اسے بہت خوف آتا تھا۔ تقریبا بھاگتا ہوا وہ اسپتال سے باہر نکل آیا۔ نیم کے درخت کے نیچے ڈھیر ہوتے ہوئے اس نے سوچا کہ شاید بخار ہی اسے اس عذاب سے چھٹکارا دلائے گا۔ بیٹھے بیٹھے اسے ہوش نہ رہی۔کمزوری ، بخار اور جگ راتے کی وجہ سے وہ نیم بے ہوش سا ہو کر سو گیا۔ کتّے کے منہ چاٹنے کی وجہ سے اس کی آنکھ کھلی تو وہ چیخ مار کر بھاگ کھڑا ہوا۔ خوف ہر تکلیف سے نجات دے دیتا ہے۔بھاگتے ہوئے وہ کافی دور نکل آیا ۔ شام ، رات میں بدل رہی تھی۔ آج دوا کے چکر میں وہ دربار بھی نہیں جا سکا  تھا۔کچھ دور اسے آسمان پر روشنیوں کا عکس نظر آیا۔ یہ حیران کن تھا۔ بجلی اور دوسری شہری سہولیات مدّت سے منقطع ہو چکی تھیں۔ وہ  روشنی کی سمت تیزی سے بڑھنے لگا۔

کچھ قریب پہنچا تو اس پر کھلا کہ یہ تو شہر کا سب سے بڑا کھیل کا میدان ہے۔ اس کی تمام   روشنیاں جل رہی تھیں۔ وہ حیران ہو کر میدان میں داخل ہوا تو بہت بڑی ٹی وی سکرین پر کوئی کھیل دکھایا جا رہا تھا اور پسِ پردہ کوئی پُر درد سرائیکی لہجے میں گا رہا تھا۔۔۔

"اچھّے دن آئے ہیں۔۔۔۔"


Comments
2 Comments

2 تبصرے:

Unknown نے فرمایا ہے۔۔۔

Nice

Omer Javed نے فرمایا ہے۔۔۔

معاف کیجئے گا مگر یہ منٹو کے کسی افسانے کا سرقہ معلوم ہوتا ہے

تبصرہ کیجیے