کپتانؒ، پاسبان اور صنم خانہ

صاحبقراں امیرِ تیمور کہ چنگیزی خون تھے،  اولیاء کی نظرِ کرم ہوئی ، دل پلٹ گیا۔ منگول طوفان   کہ دنیا کو مٹانے پر تلا تھا، انسانیت کا مسیحا بنا۔  انسان کا دل  کہ جیسے دو انگشت کے درمیاں ہے، جدھر اس کی مرضی ہو، پلٹ دے۔ سبحان اللہ۔۔۔

چار برس اِدھر، بہار کے دن تھے۔ فضا مشکبار، ہوا مشکبو۔ کپتانؒ کے پاس طالبعلم حاضر ہوا۔ دو وقت مل رہے تھے۔ خادم نے انتظار کرنے کا کہا۔ طبیعت کی بے چینی کا مگر کیا کریں۔ بے اختیار ہو کر اٹھا اور مرغزار کی پچھلی سمت جا نکلا۔ کپتانؒ کہ تالاب کنارے گھاس کے فرش کو جاءنماز بنائے گڑگڑا رہا تھا۔ "مولا! اس کا دل بدل دے۔۔۔ مولا! اس کا دل بدل دے"۔ چشم اشک بار۔ ہچکی بندھی ہوئی۔ فقیر نے  کہ زندگی میں بہت تغیّر دیکھے، ایسا منظر کبھی نہ دیکھا تھا۔  دل کٹ کر رہ گیا۔ ایسا منظر کہ ملائک تاب نہ لاسکیں۔

دعا سے فراغت ہوئی تو طالبعلم پر نظر پڑی۔ رُخِ کپتانؒ متغیّر ہوا۔ صوفی کہ جلالی ہوتا ہے یا جمالی۔ کپتانؒ میں دونوں صفات یکجا۔ جلال سے فقیر کی طرف دیکھا، بے ساختہ دہن  مبارک سے نکلا، "تیری میَں  ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"۔  فقیر کہ سدا کا کائیاں، نظر انداز کیا۔ محبوب کی توجہ ہی محبّ کا ایمان ہے۔ مرزا یاد آئے۔۔۔ کتنے شیریں ہیں ترے لب کہ۔۔۔۔۔

لجاجت سے کپتانؒ کے قریب جا  بیٹھا۔استفسار کیا ، یا کپتانؒ! یہ دعا کس کا دل بدلنے کے لئے  تھی؟۔ کپتانؒ کہ ملکوتی حسن کا شہکار۔ زیرِلب تبسّم فرمایا ، پھر سکوت اختیار کیا۔ طالبعلم کا اصرار کہ قائم ۔ تنگ آکر فرمایا، "اوئے کھوتیا، تجھے بتا دیا تو  زور زور سے بول کے سب کو سکیم بتادے گا۔"

فقیر نے خاموشی اختیار کی۔ صاحبانِ معرفت کی کفش برداری سے تعلیم ہوا کہ کبھی وارداتِ قلبی بارے اصرار نہ کرنا چاہئیے۔ طالبعلم چپ ہورہا۔ شام کے لوازم خدّام نے تالاب کنارے سجا رکھے تھے۔ اس رات ہم دو بجے تک پیا۔

اس شام کی پھانس چہار سال فقیر کے دل میں چبھی رہی۔ ربع سال ہوتا ہے کہ کپتانؒ نے یاد کیا۔ سب مصروفیات ترک کیں اور ترنت خدمت میں حاضر ہوا۔ عاشق کے لئے اس سے بڑی سعادت اور کیا کہ محبوب کا بلاوا آجائے۔ وہی مقام، وہی دو وقت ملنے کا جھٹپٹا۔عرض کی، یا کپتانؒ! آج فقیر کی یاد کیسے دلِ مصفا میں آئی۔ کپتانؒ نے نگاہ دلبری سے فقیر کو دیکھا اور روایتی سادگی سے فرمایا، "او  یکاّ، کدی  کالم وچوں باہر وی نکل آیا کر۔"

کھیسے کی جیب سے مُڑے ہوئے سِرے والا سگریٹ نکال کر سلگایا۔ ایک کَش لگا کر فقیر کی طرف بڑھا دیا۔ پھر یوں گویا ہوئے، "تمہیں یاد ہوگا، چار سال پہلے تم نے مجھ سے پوچھا تھا کہ کس کا دل بدلنے کی دعا کر رہا ہوں۔ آج میں تمہیں بتاتا ہوں۔ خواب میں بشارت ہوئی کہ مودی ہی وہ شخص ہے جو ہند میں اسلام کا جھنڈا بلند کرے گا۔ اس کو صراطِ مستقیم دکھانے کی ذمہ داری تمہاری ہے۔ میں تو یہ سوچ کر پریشان ہوگیا۔ سوچا کہ شاید ایک لکیر زیادہ کھینچنے کی وجہ سے یہ خواب آیا ہے ۔ مگر یہ خواب متواتر دو ہفتے آتا رہا۔ پھر میں نے انڈیا جا کر مودی سے ملاقات کی۔ پیرو مرشد سے ایک تعویذ لیا۔ بی بی پاک نے فرمایا کہ نظر بچا کر اس کی چائے میں پھیر دینا۔ خدا اس  کو نریندر مودی سے محمود احمد مودی کر دے گا۔ "

فقیر دم بخود ہو کر یہ داستانِ ہزار امکاں سن رہا تھا۔ کپتانؒ کہ ورزش ، طعام اور۔۔۔ ۔میں کبھی تاخیر نہیں کرتا، خادم کو اشارہ کیا ۔ ترنت ہی فرشی دستر خوان پر طعامِ شب چُن دیا گیا۔ مصنوعی تکلفات سے دور سادہ آدمی۔ رغبت سے گوشت خوری کرتا رہا اور فقیر اسے محویت سے تکتا رہا۔ فقیر کو بھنے گوشت کی اشتہا انگیز مہک نے مجبور کیا، ایک بوٹی اٹھانے کو ہاتھ بڑھایا، کپتانؒ نے کَس کر ہاتھ پر چمچہ مارا۔ فقیر چپکا ہو رہا۔

بعد از فراغتِ طعام کپتانؒ نے داستان وہیں سے شروع کی۔ مودی سے ملاقات ہوئی۔ چائے میں تعویذ بھی گھول دیا۔ دو خزاں گزر گئے، مگر امیدِ بہار کے آثار  ظاہر نہ ہوئے۔ پھر تائیدِ غیبی آ پہنچی۔ وبا نے دنیا کو لپیٹ میں لے لیا۔ لوگ اپنے گھروں میں بند۔ اپنے ساتھ وقت گزارنے کا موقع ملا تو مودی جی نے من میں جھانکا۔ وہاں اسلام کی حقانیت موجود تھی۔ چلّہ پورا ہوا اور مودی جی باہر آئے تو حلیہ سے دل تک سب بدل چکا تھا۔ 14 اگست کی شب کپتانؒ کو وٹس ایپ کال کی اور کپتانؒ کے آئی فون پر اسلام قبول کرلیا۔ آپ کا نام محمود احمد مودی رکھا گیا۔
فقیر کے بدن میں کاٹو تو لہو نہیں۔ایسی محیّر العقول بات کہ شاید و باید۔ کپتانؒ کے گال پر چٹکی بھری کہ کہیں انٹا غفیل نہ ہوں۔ آپؒ نے اس حرکت پر فقیر کی مادر و ہمشیر کو یکجا کرنے کے بعد ارشاد کیا، "اب ہم مناسب وقت کا انتظار کر رہے ہیں۔ آہستہ آہستہ محمود صاحب یہ چیز سامنے لائیں گے۔ عوام ان کے ساتھ ہے۔ جیسے ہی وہ پبلکلی اسلام قبول کرنے کا اعلان کریں گے۔ سارا ہندوستان مسلمان ہوجائے گا۔ یہی غزوہ ہند تھا۔ اور ہم جیت چکے ہیں۔"
صاحبقراں امیرِ تیمور کہ چنگیزی خون تھے،  اولیاء کی نظرِ کرم ہوئی ۔ دل پلٹ گیا۔ منگول طوفان   کہ دنیا کو مٹانے پر تلا تھا، انسانیت کا مسیحا بنا۔  انسان کا دل  کہ جیسے دو انگشت کے درمیاں ہے، جدھر اس کی مرضی ہو، پلٹ دے۔ سبحان اللہ۔۔۔