گرمیٔ کلام

 

بنک میں آج معمول سے کم رش تھا۔رات امتیاز صاحب دیر سے سوئے۔ موسم بدل رہا تھا۔ صبح  اٹھے تو ہلکا سا زکام تھا۔ امتیاز صاحب معمول کے پکے تھے۔ چھٹی کی بجائے دفتر جانے کا فیصلہ کیا۔ گیارہ بجے کے قریب ہلکا سا بخار بھی ہوگیا۔ چائے کے ساتھ پیناڈول بھی لی لیکن جسم میں درد اور چھینکوں نے ایسا زور مارا کہ انہوں نے گھر جانے کا فیصلہ کیا۔

امتیا ز رؤف درمیانی عمر کےنک سک سےدرست معقول آدمی تھے۔اچھے وقتوں کے ایم بی اے تھے۔ بنک میں ملازم ہوگئے۔ آج ترقی کرتے برانچ مینجر کے عہدے پر پہنچ چکے تھے۔

ان کی شادی کو طویل عرصہ گزر چکا تھا۔بیوی مضافات کے ڈگری کالج میں   ہوم اکنامکس کی لیکچرار تھیں۔نورین شہزادی انکا نام تھا۔ امتیاز پیار سے نین کہتے تھے۔ نین کی ہفتے میں دو دن کلاس ہوتی تھی۔ باقی وقت وہ سماجی بھلائی اور ادبی سرگرمیوں میں گزارتی تھیں۔

امتیاز گھر پہنچےتو بارہ بجنے والے  تھے۔ نین عام طور پر اسوقت گھر پر نہیں ہوتی تھیں۔ گھر میں داخل ہوتے ہی بیڈروم سے ٹی وی کی ہلکی سی آواز سنائی دی۔ امتیاز حیران ہوئےکہ نین آج گھر پر ہیں۔کچن میں جاکے چائے کا پانی رکھا۔ اچانک بیڈروم سے لذّت بھری سسکاری سی سنائی دی۔امتیاز سُن ہوگئے۔ سارے امکانات یکلخت انکے ذہن سے برق کےکوندے کی طرح گزر گئے۔ اب بیڈروم سے ٹی وی کی آوازبھی اونچی ہو چکی تھی اور سسکاریاں بھی ہلکی چیخوں میں بدل چکی تھیں۔امتیازاس آواز کو لاکھوں میں پہچان سکتےتھے۔

یہ نین کی آوازتھی۔

ٹی وی پر کوئی تقریرچل رہی تھی۔کرکٹ کا ذکربھی ہو رہا تھا۔امتیاز نے آہستگی سے بیڈروم کا دروازہ کھولا۔ نین بیڈ پر دراز تھیں۔ تکیہ ٹانگوں میں دبائے، آنکھیں بند کئے، سسکاریاں لے رہی تھیں۔ امتیاز صاحب نے ان کا بدن بستر پر یوں بکھرا سہاگ رات کے بعد آج ہی دیکھا۔ٹی وی پر کپتان کی تقریر چل رہی تھی۔نین دنیا و مافیہا سے بےخبر بیڈ پر پڑی تھیں۔ جیسے ہی کپتان اس حصے پر پہنچے جس میں وہ کہتے ہیں، بڑا وہ ہوتا ہے، جس کی سوچ بڑی ہوتی ہے، نین نے چیخ ماری، جسم ایک دم اکڑ کرڈھیلا پڑگیا اوروہ بسترسے نیچےجاگریں۔بیڈ کاکونہ نین کےسر پر لگا اور خون کی پتلی سی لکیران کے سفید بالوں کی جڑوں کو رنگین کرتی ہوئی گال تک پہنچ گئی۔

امتیاز یہ سب دم بخودہو کے دیکھ رہے تھے۔زمین پر گر کے نین کے حواس بحال ہوئے۔ امتیاز کی طرف دیکھ کے مسکرائیں اور لذت بھری تھکاوٹ سے بولیں، "آپ کب آئے؟"