گوگی اور جوگی

 میدان سے سطح مرتفع ہونے والی عمر سے گوگی جس کے عشق میں مبتلا تھی اب وہ دیوتا اس کی دسترس میں تھا۔ شاعر نے کہا تھا "قدر کھو دیتا ہے ہر روز کا آنا جانا" مگر گوگی کے پھیروں نے بالآخر عرفان کے دل میں وہ بھانبھڑ مچا دیا تھا جو گوگی کا تن بدن  اوائل شباب سے جھلسا رہا تھا۔

گوگی کارسے اتری۔ اک ادائے بے نیازی سے عرفان کی طرف دیکھا جو مبہوت گوگی کی سلیولیس بلیک چکن شرٹ سے جھانکتے گلابی بدن کو تَک رہا تھا۔ وائٹ سکن ٹائٹ ٹراؤزر اس کی سڈول پنڈلیوں سے لپٹا اپنی قسمت پر ناز کررہا تھا۔ گوگی نے کالی عینک اتاری اور عرفان کے چہرے کے سامنے ہاتھ لہرا کے بولی، "مانا جی۔۔۔ کدھر گم ہیں؟" ۔

عرفان ایک دم چونکا۔ کھسیانا ہو کر منہ بھینچا اور مسکرانے کی کوشش کرتے ہوئے بولا، ۔۔۔ میں نصرت کو سن رہا تھا پتہ ہی نہیں چلا کہ تم آئی ہو۔ گوگی معنی خیز انداز میں آنکھیں گھما کر عرفان کے سامنے پڑی خالی کرسی پر بیٹھ گئی۔

عرفان کے لئے عورتیں اور ان کی توجہ زیادہ اہم نہیں تھی۔ اس نے ساری زندگی قسم قسم کی عورتوں سے تعلق بنائے۔ ان سے ہر طرح کے فائدے اٹھائے۔ ابھی تک یہ تعلق قائم تھے۔ لیکن گوگی کے سامنے اس کی بولتی بند ہوجاتی تھی۔ اسے لگتا تھا کہ اب وہ زندگی کے اس مقام پر پہنچ گیا ہے کہ کوئی عورت اسے لبھا نہیں سکتی۔ گوگی نے اسے لبھانے کی کبھی کوشش نہیں کی لیکن اب عرفان کی خواہش تھی کہ وہ کسی طرح گوگی کے سامنے اپنا دل کھول دے تاکہ اس کے بعد باقی چیزیں کھولنے کی نوبت آئے۔

گوگی نے میز پر پڑی گولڈ فلیک کی ڈبّی اٹھائی۔ اس میں سے مُڑے ہوئے سِرے والا سگریٹ نکال کر ہونٹوں میں دبایا اور اشارے سے عرفان کو جلانے کا کہا۔ عرفان دم بخود ہو کر یہ سب دیکھ رہا تھا۔ اس نے ماچس اٹھا کر تیلی جلائی اور گوگی کو سگریٹ لگوایا۔ گوگی نے لمبا کَش لے کر تھوڑی دیر سانس روکا۔ پھر ناک سے دھواں نکالتے ہوئے عرفان کی طرح دیکھا تو وہ شدّت جذبات سے عنابی ہو رہا تھا۔ عرفان سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ گوگی اس کے دل کے تارے ایسے چھیڑے گی۔ ساتھ کھایا پیا تو بھول سکتا ہے لیکن جس کے ساتھ چرس پی ہو وہ آپ کی زندگی کا اٹوٹ انگ بن جاتا ہے۔ گوگی اب اس کا پیار ہی نہیں بلکہ سول میٹ بن گئی تھی۔

فضا آہستہ آہستہ خالص چرس کی خوشبو سے معطر ہو رہی تھی۔

ایک اور کَش لے کر گوگی نے سگریٹ عرفان کی طرح بڑھایا اور کہا، "مانے! میرا جوٹھا پی لوگے؟"۔ عرفان نے آہستگی سے سگریٹ اس کے ہاتھ سے لیا۔ درمیانی انگلیوں میں دبا کر مٹھی بنائی۔کنجر کش لیا۔ سگریٹ انگوٹھے اور انگلی کی مدد سے دور پھینکا۔ کرسی سے اٹھ کر گوگی کے پاس گیا۔ اسے بانہوں میں اٹھایا اور لان سے ملحق انیکسی میں لے گیا۔

انیکسی میں جا کر عرفان نے گوگی کو منجی پر آہستگی سے رکھا تو گوگی کسمسا کر عرفان سے الگ ہوگئی۔ انگشت شہادت دائیں سے بائیں گھما کر بولی، "مانے، ابھی نہیں۔ جب میں کہوں گی تب۔" عرفان توجیسے گوگی کا معمول بن گیا تھا۔ وہ گوگی قدموں میں بیٹھ کر اس کی پنڈلیوں سے لپٹ گیا۔

"تم جیسا کہو گی، ویسا کروں گا۔" عرفان اسکی ٹانگوں سے لپٹا ہوا منمنایا۔

ساری زندگی کا خواب، گوگی ایسے برباد نہیں کر سکتی تھی۔ وہ عرفان سے بالکل ویسے ہی ملنا چاہتی تھی جیسے آج تک وہ خواب میں دیکھتی آئی تھی۔ شام کے جھٹپٹے میں چرس آلود سانسوں کے ساتھ چھوٹی سی انیکسی کی ڈھیلی منجی ہرگز وہ جگہ نہیں تھی جو اس نے تصور میں بسائی تھی۔

اگلے چند دن گوگی نے خواب کو حقیقت بنانے کی تیاریوں میں گزارے۔

اسلام آباد کے مضافات میں دھیمی بہتی ہوئی ندی کا ٹھنڈا پانی، اطراف سر سبز پہاڑ، جنگلی پھولوں کی بھینی بھینی خوشبو، تنہائی اور سکون۔ گوگی جب سے عرفان اکرم سے ملی تھی اس نے مناسب جگہ ڈھونڈنی شروع کردی تھی۔ یہ سپاٹ اسے ہفتوں کی ریکی کے بعد ملا۔ وہ وقت آگیا تھا جب اس کا خواب پورا ہوتا۔ گوگی نے عرفان کو پورا سکرپٹ اچھی طرح سمجھا دیا تھا۔

بیری کے درخت پر ٹنگے سانیو کے ٹیپ ریکارڈر سے انورادھا پوڈوال کی آواز وادی میں گونج رہی تھی۔۔۔ کسی دن بنوں گی میں راجہ کی رانی۔۔۔۔ گوگی نے ندی کے پانی میں ڈبکی لگائی۔ لہرا کر کھڑی ہوئی،گیلےبال جھٹکے اور تھوڑا سا شرمائی۔ پانی اس کی کمر سے نیچے تھا۔ بھیگے ملبوس میں ترشے ہوئے بدن کا طلسم ۔ مانو تو جیسے وقت رک گیا ہو۔

عرفان چھوٹی پہاڑی سے ماؤنٹین بائیک چلاتا ہوا نیچے آرہا تھا۔ ندی کے پاس پہنچ کر وہ رکا۔ بائیک سے اترا۔عینک اتار کر گریبان میں اڑسی۔ جینز کی پچھلی جیب سے مڑا تڑا سگریٹ نکال کر سلگایا۔ آںکھیں موندیں۔کش لگایا۔ گوگی کو انتہائے شوق سے دیکھا اور ندی کی طرف لپکا۔ ابھی پانی میں پیر رکھا ہی تھا کہ ہڑبڑا کر پیچھے ہٹ گیا۔ گوگی نے حیرانی سے پوچھا، کیا ہوا؟ عرفان اکرم نے پے در پے پکّے کے کش کھینچے۔ ہاتھ ایک دوسرے سے  رگڑ کر بغلوں میں دئیے۔ منہ بھینچ کر مردنی سے بولا،

"سرکار۔۔۔ ایناں ٹھنڈا پانی؟۔۔"

Comments
0 Comments

0 تبصرے:

تبصرہ کیجیے