آخری معرکہ

 

ممثّل بے بدل پنکج ترپاٹھی نے کہا تھا۔۔۔ "گاؤ بھوس٭٭ کے"۔ وقت آن لگا ہے، کپتان ہم سے کہے۔۔۔ "اٹھو۔۔بھوس٭٭ کے"

ارمان مسلے جاتے ہیں۔ خواہشیں حسرت بن جاتی ہیں۔ جس کے ساتھ مل کر بچوں کے نام سوچےجاتے ہیں وہ کسی عبداللطیف کی چوکڑی کو جنم دے رہی ہوتی ہے۔ یہی دنیا ہے۔ یہی مایا۔ کارِ ناکام ہے یہ ۔۔ کارِ ناکام۔

یک سال ادھر سب کچھ کہ ہنکی ڈوری تھا۔ فضائیں مشکبو۔ پسینے گلاب۔ دن کو چنتا نہ رات کو خواب۔ سورج ڈھلتے مغرب ادا ہوتی۔ یارانِ خوش جمال چوتھے مالے پر جمع ہوتے۔ موسیقی کہ روح کی غذا ہے، حسن کہ نفس کا آبِ حیات۔ رُوم رُوم سے صدا اٹھتی۔۔۔ ابھی تو پارٹی شروع ہوئی ہے۔۔۔ وہ ٹھنگنا نابغہ کہ دنیا جسے عامر خان کے نام سے یاد کرتی ہے۔۔۔ کیا خوب کہتا تھا۔۔۔ اڑتا ہی پھروں ان ہواؤں میں کہیں۔۔یا میں جھول جاؤں ان گھٹاؤں میں کہیں

دوام مگر سفر کو ہے، مسافر کو نہیں۔ جانے کس بدخصال کی نظرِ بَد تھی۔ سب ختم ہوگیا۔ سوچو تو لگتا ہے جیسے کوئی خواب تھا۔ اقبال کا خواب پورا کرتے کپتان خود خواب ہوچلا۔ انسان چیخ اٹھتا ہے۔

دنیا بنانے والے کیا تیرے مَن میں سمائی۔۔۔ تو نے کاہے کو دنیا بنائی۔۔۔

جاڑے کی ایک شب کپتان سے خلوت ہوئی۔ عرض کی، اتنا بے سمت نہ چل لوٹ کے گھر جانا ہے۔ کپتان ہنسا۔ طالبعلم کی ٹنڈ پر چپت لگائی۔ موج میں تھا۔ ایک اور لگائی۔ طالبعلم نے بھنے گوشت کی طرف توجہ مبذول کرائی۔ بڑا ٹکڑا منہ میں ڈال کر چباتے ہوئے کپتان نے آنکھ میچ کر یہ شعر پڑھا،

بھولے سے مسکرا تو دیے تھے وہ آج فیضؔ

مت پوچھ ولولے دلِ ناکردہ کار کے

لٹیرے مگر کائیاں نکلے۔ عیّار۔ سپہ سالار کہ اکل کھرے سپاہی۔ کان ان کے بھر دئیے۔ کپتان کو دیوث بنا کر دکھا دیا۔ سپاہی مگر سادہ دل۔ عیّاری سے ان کو علاقہ نہیں۔ دنیا کہ بدلنے جا رہی تھی۔ امّت مسیلمہ کا رہنما۔ دنیا جس کی دہلیز پر سجدہ ریز ہونے کو تھی کہ ۔۔

مجھے اپنوں نے مارا، گیروں میں کہاں دَم تھا

میری کِشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی کم تھا

ایسا لیڈر صدیوں میں گاہ گاہ۔ قوم مگر اپنی خوش قسمتی سے بے خبر اس کو ضائع کرنے پر مصر۔ امکانات کی ایسی دنیا کہ وطن جنت بن جائے۔ اس کے لیے مگر اٹھنا ہوگا۔ پوری قوم شیشہ پلائی دیوار کی طرح کپتان کی آواز پر اکٹھی ہو۔ گولیاں وہ کھا چکا۔ موت کا خوف اس کو کبھی نہ تھا۔ اب تو جان پاجامے میں لیے پھرتا ہے۔ ڈرا وہ اس کو سکتے نہیں۔ قوم کو سمجھنا ہوگا ۔۔ ڈر کے آگے جیت ہے۔

ممثّل بے بدل پنکج ترپاٹھی نے کہا تھا۔۔۔ "گاؤ بھوس٭٭ کے"۔ وقت آن لگا ہے، کپتان ہم سے کہے۔۔۔ "اٹھو۔۔بھوس٭٭ کے"

Comments
0 Comments

0 تبصرے:

تبصرہ کیجیے