چودھری صاحب سے ایک ملاقات

 

یہ صحافت میں مور دین تھری ڈیکیڈز سے ہیں۔ یہ پاکستان میں کالم نگاروں کے فادر ایڈم ہیں۔ قاسم علی شاہ جیسے ان کے کالم پڑھ پڑھ کے آج ایک لیکچر کے لاکھوں روپے کما رہے ہیں۔ یہ ایک بمباٹ اینکر بھی ہیں۔ ان کی سکرین پریزنس بروس لی سے کم نہیں۔ یہ خانزادے کو بھی کِک کرا چکے ہیں۔ یہ طویل قامت ہینڈسم ہَنک ہیں۔ ان کی گہری جھیل جیسی آنکھوں میں کئی ممالک کی حسینائیں باری باری غوطے کھانے کی کوشش کرتی رہی ہیں۔ لیکن یہ ایک گجّر ہیں۔ انہیں دودھ کی پاکیزگی کا جماندرو احساس ہے۔ یہ جانتے ہیں کہ ایک کلو دودھ کو کاڑھیں تو بمشکل چند گرام کریم بنتی ہے۔ اسی لیے انہوں نے ویلڈنگ والی دکان پر بیٹھ بیٹھ کر اپنی نظر کمزور کی تاکہ موٹے شیشوں والی عینکیں پہن سکیں۔ یہ عینک پہن کر ہونق لگتے ہیں مگر اس کی وجہ سے حسینائیں ان کا پیچھا چھوڑ چکی ہیں۔ اسی کارن یہ کئی کلو کریم آج تک سیو کر چکے ہیں۔

میں جب ان کے گھر پہنچا تو صبح کے دس بجنے والے تھے۔ یہ ایک معمولی سا فارم ہاؤس تھا۔ گیٹ کھڑکایا تو اندر سے ڈوگ بارکنے لگا۔ میں ڈر گیا۔ گیٹ تھوڑا سا کھلا اور اس میں سے ان کی سِری برآمد ہوئی۔ مجھے دیکھ کر یہ ایک دم ہیپی ہوگئے۔ مجھے اندر آنے کو کہا۔ میں نے کہا، پہلے کتا باندھ لیں۔ ہنہنا کر بولے، وہ تو ریکارڈنگ ہے۔

ان کا فارم ہاؤس قیمتی پینٹنگز، مینٹل پیسز سے سجا ہوا تھا۔ انہوں نے بتایا کہ یہ جب بھی یورپ کے ٹور پر جاتے ہیں۔ وہاں میوزیم وزٹ کرتے ہیں۔ ان کے حلیے سے سب انہیں یملا سمجھتے ہیں۔ وہ اس کا فائدہ اٹھا کر ہر دفعہ کوئی نہ کوئی پیس پار کر لیتے ہیں۔ ان کو لٹریچر سے بھی لگاؤ ہے۔ یہ کبھی جاسوسی، سسپنس کا شمارہ مِس نہیں کرتے۔ ان کے پسندیدہ رائٹرز میں یہ خود، ایم اے راحت، محی الدین نواب اور عمران خان شامل ہیں۔ یہ ان کی آڈیو بُکس کے دیوانے ہیں۔ یہ کہتے ہیں رومانس کو اس طرح آج تک کوئی رائٹر ڈسکرائب نہیں کر سکا۔ انہوں نے رومانس کپتانی انداز میں ڈسکرائب کرنے کی ٹرائی بھی کی لیکن ان کی زوجہ نے ان کو بہت مارا۔ یہ کئی دن بیڈ ریسٹ پر رہے۔ منہ بھی سوجا رہا۔

ان کی بیگم کو ان سے عشق ہے۔ یہ جہاں بھی جائیں وہ ان کے ساتھ جاتی ہیں۔ یہ ان سے دور بھی جانا چاہیں تو وہ ان کو سونگھ کر پیچھے آجاتی ہیں۔ اس بات پر میں ہنس پڑا۔ یہ مائنڈ کر گئے۔ یہ سائیڈ ٹیبل پر پڑا قلوپطرہ کا مجسمہ اٹھا کر مجھے مارنے کو لپکے۔ میں بھاگ کے باہر لان میں درخت پر چڑھ گیا۔ یہ بیگم کو آوازیں دینے لگے، "رحیلہ۔۔۔۔ میری شَرلیاں آلی بندوق لیا۔۔ اج میں اینہوں نئیں شڈناں۔۔"۔

میں نے پتوں سے سر نکال کے پوچھا، آپ کو ایک دم اتنا غصہ کیوں چڑھا؟۔ کہنے لگے تم نے سونگھنے والی بات پر ہنس کر میرا مذاق اڑایا ہے۔ میں گجّر ہوں۔ تم نے ریسسٹ بن کے سوچا کہ یہ نہاتا نہیں ہوگا اس لئے سمیل آتی ہوگی اور بیگم اس کو پکڑ لیتی ہوگی۔ ایسی بات نہیں ہے۔ اکتوبر کا تیسرا ہفتہ ہے اور میں تقریبا ہر دو ہفتے چھوڑ کے نہاتا ہوں۔ میں تمہاری اس ہنسی کو پنش کروں گا۔ بس میری بندوق آلینے دو۔

اتنی میں ان کی بیگم اندر سے ڈوئی سمیت نمودار ہوئیں۔ گھور کے ان کو دیکھا اور بولیں، اندر بیٹھک میں جا کے بیٹھ کر انسانوں کی طرح مہمان سے باتیں کریں۔ اتنے ٹچی ہیں تو ہر دوسرے دن نہا لیا کریں۔ میں یہ ڈرامے برداشت نہیں کروں گی۔

یہ ہنس دئیے۔ مجھ سے کہنے لگے، میں تو شغل لگا رہا تھا۔ میں بہت فنی ہوں۔ جرنلزم میں نہ ہوتا تو آج لاہور کے تھئیٹر میں پرفارم کر رہا ہوتا۔

یہ بہت کیژول ہیں۔ یہ محفل میں بیٹھے بیٹھے نَوز سے ریٹس نکالتے رہتے ہیں۔ یہ ان ریٹس کو ٹیبل کی نچلی طرف چپکا دیتے ہیں۔ میں نے پوچھا، آپ ایسا کیوں کرتے ہیں۔ کہنے لگے، آکسیجن انسانی زندگی کے لیے سب سے ضروری ہے۔ اگر نوز میں ریٹس زیادہ ہو جائیں تو انسان کی سانس بند ہو سکتی ہے۔ یہ ریسٹ ان پِیس ہو سکتا ہے۔ میں ان ریٹس کو نکال کے اپنی لائف بچاتا ہوں۔ زندگی بچانے کا تو حکم بھی ہے۔

چائے بن کے آئی تو ساتھ کٹے ہوئے کھیرے اور ثابت مولیاں تھیں۔ کیچپ اور مایونیز کی بوتلیں بھی رکھی تھیں۔ یہ کھیرا کیچپ سے لبیڑ  کر منہ میں ڈالتے اور ساتھ چائے کا گھونٹ بھرتے۔ مجھے بھی انسسٹ کرنے لگے کہ تم بھی ایسے کھاؤ۔ بہت مزا آئے گا۔ میں نے کہا، مجھے میرے ڈاکٹر نے مزے لینے سے منع کیا ہے۔ انہوں نے پوچھا کہ یہ کیا بات ہوئی۔ کوئی وجہ تو ہونی چاہیئے۔ اس پر میں نے ڈاکٹر صاحب کا مزے نہ لینے والا قول دہرایا۔ وہ سن کر ان کو اچھو لگ گیا۔ میں نے مایونیز چٹائی تو سانس بحال ہوا۔

یہ جرنلزم میں جیلسی سے بہت ہرٹ ہیں۔ یہ کہنے لگے، میرے زیادہ تر کولیگز فیلئیر ہیں۔ یہ میرے بارے غلط باتیں مشہور کرتے ہیں۔ میں نے اس ملک اور جرنلزم کی جتنی خدمت کی ہے کوئی اس کے پاسنگ بھی نہیں پہنچ سکتا۔ ان سب کو میں نے ہر شہر میں پلاٹ لے کر دئیے۔ ان کی منتھلیاں لگوائیں۔یہ رات ڈَرنک ہو کر ہنگامہ کرتے تو میں ان کو تھانے سے چھڑا کر لاتا۔ اکثر ان کی بیویوں سے جھوٹ بولتا کہ یہ تو میرے ساتھ ترابیاں پڑھنے گیا ہوا تھا۔ یہ موتیے کے ہار کوئی مولوی صاحب کے لیے لایا تھا۔ اس نے وہاں سے ایک اٹھا لیا۔ اور یہ نشے میں نہیں بلکہ کوئی شوقین مرید ختم کی مٹھائی میں بھنگ ڈال کے لے آیا تھا۔ اس نے تین چار ڈلیاں برفی کی کھا لیں۔ اسی وجہ سے مدہوش ہے۔ میں ایک آنسٹ اور اپ رائٹ ہیومن بئینگ ہوں۔ میں نے کبھی جھوٹ نہیں بولا لیکن ان کو بچانے کے لیے میں جھوٹ بھی بولتا رہا۔ آج یہ مجھے ملک صاحب کا نوکر کہتے ہیں۔ میری انٹیگرٹی پر سوال اٹھاتے ہیں۔جس دن میں نے ان کے بارے سکسٹی نائن پرسنٹ بھی بتا دیا تو یہ منہ دکھانے لائق نہیں رہیں گے۔

یہ سب کہہ کر یہ نڈھال سے ہوگئے۔ ان کی آنکھیں بھر آئیں۔ آواز بھرّا گئی۔ انہوں نے نَوز سے ٹٹول کر رَیٹ ڈھونڈا ۔ اسے قلوپطرہ کے مجسمے پر چپکایا۔ اور فریش ہو کر سانس لینے لگے۔

Comments
4 Comments

4 تبصرے:

Anonymous نے فرمایا ہے۔۔۔

جعفر صاحب جیسی ہجو کوئئ نہیں لکھ سکتا

Anonymous نے فرمایا ہے۔۔۔

انتہائی واہیات اسلوب ہے۔

Anonymous نے فرمایا ہے۔۔۔

Excellent

Anonymous نے فرمایا ہے۔۔۔

👎

تبصرہ کیجیے