۔۔اک کمرے میں بند ہوں۔۔۔


شہرِ اقتدار میں سائے لمبے ہونے لگے تھے۔ پہاڑوں کی طرف سے آنے والی ہوا میں ایک تازگی اور بے نام سی افسردگی تھی۔ پرانی مگر عالیشان عمارت پیڑوں میں گھری شام کے دھندلکے میں ہزار بھید چھپائے کھڑی تھی۔ صدر دروازے سے ایک سیاہ گاڑی آہستگی سے پورچ میں آ کے رکی۔ مستعد جوان نے چوکسی سے گاڑی کا دروازہ کھولا۔ ایک وجیہہ الشان شخصیت گاڑی سے باہر نکلی۔ پیشانی کی کشادگی اور آنکھوں کی چمک بلند بختی کا اعلان کر رہی تھی۔ سفید لباس، نیلی واسکٹ، نیو بیلنس کے سنیکرز، سیاہ چشمہ، چال میں ہلکی سی للک۔

ان کا استقبال کرنے والوں میں چھریرے بدن، تیکھے نقوش والے صاحب تھے۔ انہوں نے گرمجوشی اور عقیدت سے وجیہہ کا ہاتھ تھاما اور چوم کر آنکھوں سے لگایا۔ چوکس جوان کی رہنمائی میں دونوں احباب ڈرائنگ روم میں پہنچے۔سنٹر ٹیبل انواع و اقسام کے فواکہات و مقویات سے سجی تھی۔ وجیہہ نے بیٹھنے سے پہلے مقویات کی ایک مٹھی بھری اور صوفے پر صاحب کے ساتھ جُڑ کے بیٹھ گئے۔ بادام پستوں کا ایک پھکّا مار کے منہ چلاتے ہوئے وجیہہ کی آنکھوں میں برسات سی اتر آئی۔ ریڈ بُل کے گھونٹ سے نٹس نگل کے صاحب سے لپٹ سے گئے۔

وجیہہ نے قمیض کے دامن سے آنکھیں پونچھیں اور بھرّائی ہوئی آواز میں بولے، "بہت مِس کیا ہے تمہیں۔ کیا کوئی اپنے چاہنے والوں سے یوں کرتا ہے؟ گلے شکوے تھے تو مجھے کہا ہوتا۔ میں تمہاری ایک آواز پر دوڑا چلا آتا۔ تمہارے بن کیسے یہ دن گزرے ہیں یا خدا جانتا ہے یا پنبیری جانتی ہے۔"

صاحب پر رقّت طاری ہونے لگی تھی۔ بہت مشکل سے خود کو سنبھالا اور اپنا بازو وجیہہ کے گرد حمائل کرکے ان کو زور سے بھینچا۔ "میں بہک گیا تھا جانی۔ ایک سٹیل کے گلاس کے ذریعے مجھ پر جادو کر دیا گیا تھا۔ مجھے وہی کچھ نظر آنے لگا تھا جو شیر خان اور مولوی خلیل مجھے بتاتے تھے۔ انہوں نے مجھے تمہارے بارے من گھڑت کہانیاں سنائیں۔ کچھ تو بہت گندی تھیں۔ ساتھ کچھ تصاویر اور فلمیں بھی دکھائیں۔ میں ایک صاف دل اور سادہ انسان ہوں۔ میں نے ان کو سچ مان لیا۔" صاحب نے تاسّف سے سر نفی میں ہلایا۔ ڈن یل کی ڈبّی اٹھا کر سگریٹ نکالا تو وجیہہ نے ہاتھ پکڑ لیا۔ بولے، سگریٹ مت پیا کرو۔ دیکھو کتنا سا منہ نکل آیا ہے۔ یہ کہہ کر واسکٹ کی اندرونی جیب سے پلاسٹک کی تھیلی نکالی اور سائیڈ ٹیبل پر تھوڑا سا سفوف انڈیلا۔ صاحب سے کریڈٹ کارڈ لے کر سفوف کو چار لکیروں میں تقسیم کیا اور صاحب سے بولے، بسم اللہ کرو۔ صاحب نے ہچکچا کر انکار کیا۔ وجیہہ نے بھی اصرار نہیں کیا اور پانچ سو کا کڑک نوٹ نکالا۔  اس کو رول کرکے چاروں لکیریں کھینچ لیں۔ وجیہہ کا چہرہ مزید نورانی ہو چکا تھا۔ انہوں نے سر اوپر کرکے گہرا سانس لیا۔ ناک میں چھوٹی انگلی سے خلال کیا اور صاحب سے مخاطب ہوئے، "یہ پنبیری کے پیر صاحب کا خاص دم کیا ہوا سفوف ہے۔ موت کے علاوہ ہر بیماری کی دوا ہے۔ ہر چیز واضح نظر آنے لگتی ہے۔ میرے لیے تو یہ مرشدوں کا تبّرک ہے۔"

صاحب نے چائے کا کپ اٹھا کے ہلکا سا سپ لیا۔ رومال سے ہونٹوں کے گوشے صاف کیے۔ نمک پارہ اٹھا کے تھوڑا سا کھایا۔ باقی پرچ میں کپ کے ساتھ رکھ کے بولے، "آج سے چند دن پہلے عجیب ماجرا ہوا۔ شام کو لان میں بیٹھا تھا کہ پہاڑوں کی طرف سے آنے والی ہوا میں ایسی بُو آئی جیسے گوشت جل رہا ہو۔ ایسا کبھی نہیں ہوا۔ طبیعت کچھ مکدّر سی ہوئی۔ اندر جا کے چائے بھی پی۔ لیکن عجیب سا اضمحلال طاری تھا۔ اسی عالم میں نیند آگئی۔ کیا دیکھتا ہوں کہ مارگلہ کے جنگلات میں آگ لگی ہے۔ شعلے آسمان کو چھو رہے ہیں۔ ان شعلوں میں ایک بزرگ کی شبیہہ نظر آئی۔ کالے چوغے میں ملبوس، سر بھی کالے کپڑے سے ڈھکا ہوا، ہاتھ میں ایک عصا جس کے سرے پہ عجیب سا دھاتی پھل تھا، بزرگ نے دونوں ہاتھ پھیلائے اور گونج دار آواز میں بولے۔۔۔ وجیہہ کو بچاؤ۔۔۔ ورنہ سب کچھ برباد ہو جائے گا۔ میں ہڑبڑا کر جاگ اٹھا۔ یہ خواب مجھے سات دن مسلسل آیا۔ اس کے بعد میں نے فیاض سے رابطہ کیا۔ شیر خان اور مولوی خلیل کی کہانیوں بارے اس سے پوچھا تو اس نے بتایا کہ یہ سب جھوٹ ہے۔ وجیہہ ایک اپ رائٹ اور آنسٹ انسان ہے۔ اس نے کبھی کوئی حرامزدگی نہیں کی۔ اس کی زندگی ایک کھلی کتاب ہے۔ تم پر ضرور کسی نے جادو کیا ہے۔ میں تمہیں ایک بزرگ کا پتہ بتاتا ہوں جو پھونکوں سے جادو کا اثر ختم کر دیتے ہیں۔ میں نے فیاض کے پیر سے رابطہ کیا۔ اس نے پھونکوں سے مجھ پر کیے گئے جادو کا اثر ختم کر دیا۔ اس کے بعد مجھے احساس ہوا کہ تمہارے ساتھ بہت زیادتی ہوئی ہے۔ اسی لیے آج تمہیں بلایا ہے۔"

یہ کہہ کر صاحب وجیہہ سے لپٹ گئے۔ دور کہیں آل انڈیا ریڈیو پر"تعمیلِ ارشاد"  میں یہ گانا بج رہا تھا۔۔۔

ہم تم اک کمرے میں بند ہوں اور چابی کھو جائے

Comments
0 Comments

0 تبصرے:

تبصرہ کیجیے