جنّت کی تلاش

یہ یونیورس جب سے کُن فیکون ہوئی ہے۔ جب سے تتھتھّسو ہوئی ہے اس وقت سے جو بھی غلط کام کرتا ہے۔ اسے پنشمنٹ ملتی ہے۔ یہ پنشمنٹ دنیا میں بھی ملتی ہے اور آفٹر لائف میں بھی۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو یہ ورلڈ یہ یونیورس یہ گلیکسیاں برباد ہو چکی ہوتیں۔ دنیا میں وال ای والا منظر ہوتا۔ خراب روبوٹ اور بلیاں اس دنیا پر راج کرتے۔ لیکن ایسا نہیں ہوا۔ آج بھی ہیومن بئینگز اس دنیا میں موجود ہیں۔ یہ گناہ بھی کرتے ہیں۔ یہ چوریاں بھی کرتے ہیں۔ یہ ڈکوئیٹ بھی ہیں۔ یہ اڈلٹریاں بھی کرتے ہیں۔ یہ بروک بیک ماؤنٹین بن جاتے ہیں۔ کلنگز بھی کرتے ہیں۔ مگر جو بھی پکڑا جاتا ہے اسے پنش کیا جاتا ہے۔ اسے پرزن میں ڈال دیا جاتا ہے۔ اس کو زہر کے ٹیکے لگا دئیے جاتے ہیں۔ ہینگ ٹِل ڈیتھ کر دیا جاتا ہے۔ تھیفس کے ہینڈ کَٹ کر دئیے جاتے ہیں۔ یہ پرزنوں میں سڑ جاتے ہیں۔ ان کو سورج کی روشنی نصیب نہیں ہوتی۔ گرمی سے ان کی کَنڈ پِت سے بھر جاتی ہے۔ رات کو مسکیٹوز ان کا بلڈ سَک کرتے ہیں۔ دن میں فلائیز ان کو سونے نہیں دیتیں۔ ان کی لائف لیونگ ہیل بن جاتی ہے۔

آپ سلطان کو دیکھ لیں۔ آپ ان کی لائف ہسٹری پھرول لیں۔ آپ کو پتہ لگے گا کہ ہول لائف انہوں نے بغیر بتّی کے سیکل نہیں چلائی۔ موٹر سیکل پر ون ویلنگ نہیں کی۔ یہ کار بھی کئیرفلی چلاتے رہے۔ ان کا کبھی چالان نہیں ہوا۔ کبھی انہوں نے ریڈ سگنل نہیں توڑا۔ یہ ہمیشہ اپنی حق حلال کی کمائی سے ہاؤس رَن کرتے رہے۔ یہ کسی سے پانی کا گلاس پینے کے روادار نہیں۔ یہ اتنے فیمس ہونے کے باوجود کبھی ایروگنٹ نہیں ہوئے۔ یہ پرستاروں کی چکن تکّے، بریانی، قورمے، برگر، پیزے کی آفر بھی قبول نہیں کرتے تھے۔ یہ ان سے کیش لے لیتے۔ یہ اس کیش سے ہر جمعرات چِک پیز پلاؤ کی دیگ پکوا کر ڈسٹری بیوٹ کر دیتے۔ یہ کہتے، کسی کا پیسہ سلطان کیسے اِیٹ سکتا ہے؟ سلطان کو گاڈ آلمائٹی آلموسٹ ایوری تھنگ گرانٹ کر چکا ہے۔

یہ ورلڈ پوائزوں کے لیے ایگزامینیشن ہال ہے۔ خدا اپنے لوّنگ ہیومن بئینگز کو ڈفیکلٹیز میں ڈال کے ایگزامن کرتا ہے۔ سلطان نے ساری زندگی سٹریٹ وے گزاری۔یہ ہمیشہ گاڈ فئیرنگ رہے۔ پھر بھی ان کے حاسدین نے ان کو ایک جھوٹے کیس میں پھنسا لیا۔ یہ پانی کی سبیل پر زنجیر سے بندھا ہوا گلاس چوری کرنے کے الزام میں جیل چلے گئے۔ یہ چاہتے تو اپنے فینز کو بھڑکا سکتے تھے۔ یہ ان کو ہر چیز آن فائر کرنے کا کہہ سکتے تھے۔ یہ اگر چاہتے تو پورے کنٹری پر قبضہ کر سکتے تھے۔ مگر یہ لا ابائیڈنگ سٹیزن ہیں۔ یہ چپ چاپ جیل چلے گئے۔ یہ ایک چھوٹی سی کوٹھڑی میں بند ہوگئے۔ یہ نیکڈ فلور پر سونے لگے۔ انہوں نے کّدو شریف اور چپاتی سے لنچ اور ڈنر کرنا شروع کردیا۔ یہ اپنے پریزنٹ پر راضی ہوگئے۔

یہ جیل میں ان کا دوسرا دن تھا۔ جولائی کا ہاٹ منتھ اپنے عروج پر تھا۔ اچانک پرزن کے اوپر گہرے بادل چھا گئے۔ کُول بریز چلنے لگی۔ جولائی کا مہینہ نومبر بن گیا۔ نیکڈ فلور اچانک فلاور بیڈ بن گیا۔ فضا میں خوشبو سپریڈ ہونے لگی۔ جیل کے باہر ریڑھیوں والے پی نٹس بیچنے لگے۔ لوگ خرید کے ان کو چھیلتے تو بیچ میں سے کاجو نکلتے۔ یہ لنچ کرنے لگے تو چنے کی دال اور روٹی ایک دم مٹن ٹینڈرلین اور تازہ تندوری نان میں بدل گئی۔ جیل کا گدلا پانی، سپارکلنگ واٹر بن گیا۔ یہ تہجّد کے لیے باتھ لینے لگے تو گندا ٹائلٹ یکدم سیون سٹار ہوٹل کا واش روم بن گیا۔ ان کی چھوٹی سی کوٹھڑی اتنی بڑی ہوگئی کہ اس میں وہ دس کلومیٹر جاگنگ کرنے لگے۔

ان کو تکلیف پہنچانے کے لیے جس دورافتادہ گرم شہر میں ان کو بھیجا گیا تھا وہ گاڈ ولنگ ایک سَب جنّت قرار دے دیا گیا۔ شہر کے لوگ اشارے توڑ کے، جھوٹ موٹ لڑائی جھگڑا کرکے قطار اندر قطار جیل میں آنے لگے۔ جیل کا عملہ جسے سلطان پر ظلم کرنے کا حکم تھا۔ وہ سب یہ دیکھ کر لرز گئے۔ وہ گریہ کرنے لگے۔ وہ خدا سے اپنے سنِز کی پارڈن مانگنے لگے۔ وہ سلطان کے پاؤں پڑ گئے۔ سلطان نے کہا، تمہارا کوئی قصور نہیں۔ تم اپنی ڈیوٹی کر رہے تھے۔ جاؤ آج سے تم آزاد ہو۔

شام ڈھلتے ہی کوٹھڑی میں ہلکی دودھیا روشنی پھیل جاتی۔ بڑی بڑی آنکھوں والی حسین عورتیں جن کی چِیکز حیا سے پنک ہوتیں، کوٹھڑی ان سے بھر جاتی۔ پھلوں کے رَس سے بھرے بلوریں گلاس سلطان کو پیش کیے جاتے۔ سلطان لیدر کاؤچ پر اپنا سَر پنک گالوں والی کی گود میں رکھے نیم دراز تھے۔ اس نے سلطان کے گھنے بالوں میں ہاتھ پھیرتے ہوئے سلطان کے ہاتھ سے جوس کا گلاس لیا اور کہا، جانِ عالم! بارہ بج گئے ہیں۔ دودھ پی لیں۔دوسری پنکی نے سلطان کے ریشمی گاؤن میں ہاتھ ڈالا اور آہستگی سے اسے ۔۔۔۔ چررررررر۔۔۔ کرکے پھاڑ دیا۔ فضا میں بھینی بھینی خوشبو تھی اور یہ سونگ گونج رہا تھا۔۔۔

آندیاں نصیباں نال اے گھڑیاں۔۔۔


۔۔اک کمرے میں بند ہوں۔۔۔


شہرِ اقتدار میں سائے لمبے ہونے لگے تھے۔ پہاڑوں کی طرف سے آنے والی ہوا میں ایک تازگی اور بے نام سی افسردگی تھی۔ پرانی مگر عالیشان عمارت پیڑوں میں گھری شام کے دھندلکے میں ہزار بھید چھپائے کھڑی تھی۔ صدر دروازے سے ایک سیاہ گاڑی آہستگی سے پورچ میں آ کے رکی۔ مستعد جوان نے چوکسی سے گاڑی کا دروازہ کھولا۔ ایک وجیہہ الشان شخصیت گاڑی سے باہر نکلی۔ پیشانی کی کشادگی اور آنکھوں کی چمک بلند بختی کا اعلان کر رہی تھی۔ سفید لباس، نیلی واسکٹ، نیو بیلنس کے سنیکرز، سیاہ چشمہ، چال میں ہلکی سی للک۔

ان کا استقبال کرنے والوں میں چھریرے بدن، تیکھے نقوش والے صاحب تھے۔ انہوں نے گرمجوشی اور عقیدت سے وجیہہ کا ہاتھ تھاما اور چوم کر آنکھوں سے لگایا۔ چوکس جوان کی رہنمائی میں دونوں احباب ڈرائنگ روم میں پہنچے۔سنٹر ٹیبل انواع و اقسام کے فواکہات و مقویات سے سجی تھی۔ وجیہہ نے بیٹھنے سے پہلے مقویات کی ایک مٹھی بھری اور صوفے پر صاحب کے ساتھ جُڑ کے بیٹھ گئے۔ بادام پستوں کا ایک پھکّا مار کے منہ چلاتے ہوئے وجیہہ کی آنکھوں میں برسات سی اتر آئی۔ ریڈ بُل کے گھونٹ سے نٹس نگل کے صاحب سے لپٹ سے گئے۔

وجیہہ نے قمیض کے دامن سے آنکھیں پونچھیں اور بھرّائی ہوئی آواز میں بولے، "بہت مِس کیا ہے تمہیں۔ کیا کوئی اپنے چاہنے والوں سے یوں کرتا ہے؟ گلے شکوے تھے تو مجھے کہا ہوتا۔ میں تمہاری ایک آواز پر دوڑا چلا آتا۔ تمہارے بن کیسے یہ دن گزرے ہیں یا خدا جانتا ہے یا پنبیری جانتی ہے۔"

صاحب پر رقّت طاری ہونے لگی تھی۔ بہت مشکل سے خود کو سنبھالا اور اپنا بازو وجیہہ کے گرد حمائل کرکے ان کو زور سے بھینچا۔ "میں بہک گیا تھا جانی۔ ایک سٹیل کے گلاس کے ذریعے مجھ پر جادو کر دیا گیا تھا۔ مجھے وہی کچھ نظر آنے لگا تھا جو شیر خان اور مولوی خلیل مجھے بتاتے تھے۔ انہوں نے مجھے تمہارے بارے من گھڑت کہانیاں سنائیں۔ کچھ تو بہت گندی تھیں۔ ساتھ کچھ تصاویر اور فلمیں بھی دکھائیں۔ میں ایک صاف دل اور سادہ انسان ہوں۔ میں نے ان کو سچ مان لیا۔" صاحب نے تاسّف سے سر نفی میں ہلایا۔ ڈن یل کی ڈبّی اٹھا کر سگریٹ نکالا تو وجیہہ نے ہاتھ پکڑ لیا۔ بولے، سگریٹ مت پیا کرو۔ دیکھو کتنا سا منہ نکل آیا ہے۔ یہ کہہ کر واسکٹ کی اندرونی جیب سے پلاسٹک کی تھیلی نکالی اور سائیڈ ٹیبل پر تھوڑا سا سفوف انڈیلا۔ صاحب سے کریڈٹ کارڈ لے کر سفوف کو چار لکیروں میں تقسیم کیا اور صاحب سے بولے، بسم اللہ کرو۔ صاحب نے ہچکچا کر انکار کیا۔ وجیہہ نے بھی اصرار نہیں کیا اور پانچ سو کا کڑک نوٹ نکالا۔  اس کو رول کرکے چاروں لکیریں کھینچ لیں۔ وجیہہ کا چہرہ مزید نورانی ہو چکا تھا۔ انہوں نے سر اوپر کرکے گہرا سانس لیا۔ ناک میں چھوٹی انگلی سے خلال کیا اور صاحب سے مخاطب ہوئے، "یہ پنبیری کے پیر صاحب کا خاص دم کیا ہوا سفوف ہے۔ موت کے علاوہ ہر بیماری کی دوا ہے۔ ہر چیز واضح نظر آنے لگتی ہے۔ میرے لیے تو یہ مرشدوں کا تبّرک ہے۔"

صاحب نے چائے کا کپ اٹھا کے ہلکا سا سپ لیا۔ رومال سے ہونٹوں کے گوشے صاف کیے۔ نمک پارہ اٹھا کے تھوڑا سا کھایا۔ باقی پرچ میں کپ کے ساتھ رکھ کے بولے، "آج سے چند دن پہلے عجیب ماجرا ہوا۔ شام کو لان میں بیٹھا تھا کہ پہاڑوں کی طرف سے آنے والی ہوا میں ایسی بُو آئی جیسے گوشت جل رہا ہو۔ ایسا کبھی نہیں ہوا۔ طبیعت کچھ مکدّر سی ہوئی۔ اندر جا کے چائے بھی پی۔ لیکن عجیب سا اضمحلال طاری تھا۔ اسی عالم میں نیند آگئی۔ کیا دیکھتا ہوں کہ مارگلہ کے جنگلات میں آگ لگی ہے۔ شعلے آسمان کو چھو رہے ہیں۔ ان شعلوں میں ایک بزرگ کی شبیہہ نظر آئی۔ کالے چوغے میں ملبوس، سر بھی کالے کپڑے سے ڈھکا ہوا، ہاتھ میں ایک عصا جس کے سرے پہ عجیب سا دھاتی پھل تھا، بزرگ نے دونوں ہاتھ پھیلائے اور گونج دار آواز میں بولے۔۔۔ وجیہہ کو بچاؤ۔۔۔ ورنہ سب کچھ برباد ہو جائے گا۔ میں ہڑبڑا کر جاگ اٹھا۔ یہ خواب مجھے سات دن مسلسل آیا۔ اس کے بعد میں نے فیاض سے رابطہ کیا۔ شیر خان اور مولوی خلیل کی کہانیوں بارے اس سے پوچھا تو اس نے بتایا کہ یہ سب جھوٹ ہے۔ وجیہہ ایک اپ رائٹ اور آنسٹ انسان ہے۔ اس نے کبھی کوئی حرامزدگی نہیں کی۔ اس کی زندگی ایک کھلی کتاب ہے۔ تم پر ضرور کسی نے جادو کیا ہے۔ میں تمہیں ایک بزرگ کا پتہ بتاتا ہوں جو پھونکوں سے جادو کا اثر ختم کر دیتے ہیں۔ میں نے فیاض کے پیر سے رابطہ کیا۔ اس نے پھونکوں سے مجھ پر کیے گئے جادو کا اثر ختم کر دیا۔ اس کے بعد مجھے احساس ہوا کہ تمہارے ساتھ بہت زیادتی ہوئی ہے۔ اسی لیے آج تمہیں بلایا ہے۔"

یہ کہہ کر صاحب وجیہہ سے لپٹ گئے۔ دور کہیں آل انڈیا ریڈیو پر"تعمیلِ ارشاد"  میں یہ گانا بج رہا تھا۔۔۔

ہم تم اک کمرے میں بند ہوں اور چابی کھو جائے