ایسا نہیں ہے کہ ہم استاد خالد کوبھول چکے ہوں اور اپنا وعدہ فراموش کردیاہو لیکن مسئلہ کچھ اور ہے۔ سال کے سال
ہمیں واپس فیصل آباد جانا ہوتا ہے اور اگرچہ اس کا امکان ون ان آ ملین ہے کہ استاد
کی نظر ہمارے بلاگ پر پڑجائے، لیکن پرہیز علاج سے بہرحال بہتر ہے کہ استاد کا ہاتھ
کسی ہتھوڑے سے کم نہیں ہے۔ پورے گلبرگ، گلشن کالونی، محمدپورے وغیرہ کے گھروں میں
لوہے کے دروازے، کھڑکیاں اور ریلنگ وغیرہ استاد کے مبارک ہاتھوں سے ہی پایہ تکمیل
کو پہنچے ہیں اور اس عمل کے دوران ان کے ہاتھ "آہنی ہاتھ" بن چکے ہیں۔
اور یہ قانون کے آہنی ہاتھ بھی نہیں کہ ان کو ہر با رسوخ آدمی گرم بھٹّی کی طرح
لگے۔
بہرحال ہم "تُزک استاد
پونکوی" سے آپ کے لیے ایک سبق آموز واقعہ ضرور پیش کریں گے۔ چاہے اس میں ہمار
ےہاتھ ہی کیوں نہ قلم اور منہ بلم ہوجائے۔ جیسا کہ ہم پہلے بھی بیان چکے ہیں کہ
استاد کو مچھلی کے شکار کا ہوکا تھا۔ اور بقول ان کے کائنات میں ان سے بڑا مچھلی
کا شکاری نہ کبھی پیدا ہوا اور نہ ہی وہ پیدا ہونے دیں گے۔اس بات کا مطلب نہ
توہمیں اس وقت سمجھ آتا تھا اور نہ ہی اب
آتا ہے جبکہ ہم قابل شرم حد تک لفنگے اور واہیات بھی ہوچکےہیں۔
گرمیوں کی ایک "خوشگوار
دوپہر" کو ہم اپنے لنگوٹیے کے ساتھ استاد کی دکان کے باہر رکھے تاریخی پھٹّے
پر براجمان تھے اور استاد منہ میں کے ٹو کا سگریٹ دبائے دبادب ہتھوڑے کو لوہے پر
بجا رہے تھے۔ اس سے تنگ آکر ہم نے اپنے شریک ناکار کو آنکھ ماری اور استاد سے مخاطب
ہوکر کہا کہ "استاجی، وہ ہیڈ تریموں والا کیا قصہ تھا؟" استاد ہوراں ایک
دم گردن موڑ کر ہماری جانب گھورا۔ ہتھوڑا پھینکا۔ ڈبی سے نیا سگریٹ سلگا کر سٹول
کھینچا اور ہمارے قریب آبیٹھے۔ چھوٹے کو ڈیک کی آواز آہستہ کرنے اور چائے لانے کا
آرڈر دیا اور مخصوص سسکاری سی بھر کر چھ سو ستانوے دفعہ کا سنایا ہوا قصہ، اس جوش
و خروش سے سنانا شروع کیا جیسے پہلی دفعہ ہی ہو۔
"میں، حیدر گنجا، دینا
کلفیاں والا، چھیدا اور مولوی رفیق، ہم پانچ مُنڈے تھے"۔ استاد نے گہرا کش لے
کر ناک سے دھواں خارج کیا۔ سڑک کے پار خلیل بیکری والے کو بآواز بلند گالی دی اور
جوابی گالی سن کر زیرلب تبسم کیا۔ اور دوبارہ کہانی شروع کی۔ "سردی بہت تھی۔
ہم شام کو وہاں پہنچے اور ٹینٹ وغیرہ لگاتے رات ہوچکی تھی۔ ڈوریاں پانی میں ڈال کر
ہم نے کھانا کھایا اور تاش کھیلنی شروع کردی۔ گیارہ بجے تک سب سونے کے لیے لیٹ چکے
تھے۔ میں نے ان کو کہا بھی کہ ڈوریاں تمہارے باپ نے تازہ کرنی ہیں۔ لیکن سب کے سب
ہی کمینے اور ۔۔۔۔ تھے۔ میں نے جا کر ڈوریاں چیک کیں اور انہیں تازہ کیا اور اپنے
ٹینٹ میں آکر لیٹ کر ڈائجسٹ پڑھنے لگا۔ ایک ڈیڑھ گھنٹے کے بعد میں دوبارہ ڈوریاں
چیک کرنے کے لیے ٹینٹ سے باہر آیا ہی تھا کہ"۔
استاد نے ایک ڈرامائی وقفہ لیا،
مخصوص سسکاری بھری اور سلسلہ یوں جوڑا۔
"میرے سامنے پانچ چھ فٹ کی
دوری پر ایک کوبرا ناگ پھن پھیلائے شُوکریں مار رہا تھا۔ میں نے دل میں کہا کہ لے بئی خالد، اج تو نئیں یا فیر ایہہ نئیں۔ وہ
ناگ کم از کم بیس فٹ لمبا تھا اور کنڈلی مار کے اس کی تقریبا تین منزلیں بن گئی
تھیں۔"
یعنی تین منزلہ ناگ، استاجی؟ میں
نے دخل در معقولات کیا۔ استاد نے میری طرف گھورا۔ اسی اثناء میں دوسرا کمینہ بولا
کہ استاجی اتنا لمباسانپ ہوتا ہی نہیں، اژدھا ہوتا ہے۔ استاد نے سگریٹ کی راکھ
جھاڑی اور اسے مخاطب کر کے کہا کہ تینوں میرے ۔۔۔ دا پتہ؟ چپ کرکے سن۔ میں نے اسے
کہنی ماری۔ اس نے جوابا ٹھڈا مارا۔ لہذا ہماری بے اختیار ہنسی جو ابلنے کو آئی تھی
اسے تکلیف نے دبا لیا۔ استاد نے دوبارہ سلسلہ جوڑتے ہوئے کہا۔ "میں بالکل
ساکت ہوگیا کیونکہ مجھے پتہ تھا کہ میں نے ذرا سی بھی حرکت کی تو اس نےحملہ کردینا
ہے اور اس کا ڈسا پانی نہیں مانگتا"۔ چائے مانگتا ہوگا شاید۔ ہم نے لقمہ
دیا۔ استاد نے اس واہیاتی کو اگنورا اور
کہانی جاری رکھتے ہوئے کہا۔
" تمہیں شاید پتہ نہ ہو کہ
کوبرے ناگ کی آنکھوں میں ایسی کشش ہوتی ہے کہ وہ بندے کو ہپناٹائز کردیتی ہے۔ لیکن
میں اس کی آنکھوں کی بجائے ، آنکھوں کے درمیان میں دیکھنے لگا تھاورنہ میرے والا
کام ہوجانا تھا۔ میرے بائیں ہاتھ میں شکار والی ڈوری تھی جس کے ساتھ مچھلی پکڑنے
والا کانٹا لگا ہوا تھا۔ میں نے آہستہ آہستہ ڈوری کو دائرے میں گھمانا شروع کیا"۔
پر استاجی، آپ تو کہہ رہے تھے حرکت کرنے پر کوبرا، حملہ کردیتاہے؟۔ میں نے پھر
آبجیکشن می لارڈ کی صدا بلند کی۔ " تجھے منہ کی بواسیر ہے"۔ استاد نے
گھورتے ہوئے میری بیماری کی تشخیص کی، فلٹر تک پہنچتے ہوئے سگریٹ کو زمین پر پھینکا
اور اسے پاؤں سے ایسے مسلا جیسے میری گردن ہو۔ "چپ کرکے سن۔ ہاں تو میں کہہ
رہا تھا کہ میں نے ڈوری کو تیزی سے گھماتے ہوئے سوچا کہ یہ زندگی موت کا کھیل ہے
خالد۔ تیری ایک غلطی تجھے نیلا کرسکتی ہے۔ اللہ کانام لے کر میں نے ڈوری کو کوبرے
کی طرف پھینکا"۔ استاد نے پھر وقفہ کرکے ڈبی سے سگریٹ نکالا، سلگایا، کش
لگایا۔ دوسرا کمینہ بولا کہ استاجی، کانوں سے دھواں نکال کے دکھائیں۔ استاد نے
جواب دیا، "پھر تو کہے گا کہ اب ۔۔۔
میں سے دھواں نکال کے دکھا۔ بکواس بند کر اور آگے سن۔ ڈوری کو کوبرے تک پہنچنے میں
سیکنڈ کا ہزاروں حصہ لگا ہوگا کیونکہ میں نے پھینکی ہی اتنی رفتار سے تھی، کانٹا
سیدھا جا کے کوبرے کے حلق میں پیوست ہوگیا اور اس کی زہر کی تھیلی پنکچر کردی اور
اس کا سارا زہر بہہ گیا"۔
استاجی، سانپ کا زہر تو اس کے دانتوں میں نہیں ہوتا؟
میں نے پھر سوال داغا۔ "اوئے کھوتے، وہ عام سانپ کا ہوتا ہے، کوبرے کا زہر اس
کے حلق میں ہی ہوتا ہے"۔ استاد نے اپنے علم دریاؤ سے ہمارے بنجر ذہن سیراب
کرتے ہوئے کہا۔ اور دوبارہ گویا ہوئے۔ "اب مجھے اطمینان ہوگیا کہ یہ میرا کچھ
نہیں بگاڑ سکتا۔ پھر میں نے اس کو گچّی سے پکڑا اور اس کی گردن میں رسی ڈال کر اسے
قریبی درخت سے باندھ دیا۔ شکار سے واپس آتے ہوئے میں نے کوبرے کو دوبارہ کھول دیا
تاکہ وہ واپس چلاجائے"۔
استاجی، اس کو مارا کیوں نہیں؟۔
" اوئے کم عقلا، اس کو ماردیتا تو اس کی
ناگن نے ہمیں چھوڑنا تھا بھلا؟
ناگن فلم نئیں دیکھی تو نے؟ "
متعلقہ تحاریر : اردو,
کچھ ہلکا پھلکا,
مزاح