Showing posts with label اردو کی وچکارلی کتاب. Show all posts
Showing posts with label اردو کی وچکارلی کتاب. Show all posts

وچکارلی کتاب کاحساب

حساب، جسے نامعلوم وجوہات کی بناء پر ریاضی بھی کہاجاتا ہے، ہمارا آج کا موضوع ہے۔ برسبیل تذکرہ، بچپن میں ہم ریاضی کو ریاض کی مونث سمجھا کرتے تھے، ملک ریاض کی مثال سامنے رکھیں تو یہ اندازہ کچھ ایسا بعید از قیاس بھی نہیں ہے ۔ بہرحال، حساب کی اہمیت اس لحاظ سے شدید ہے کہ ساری بے حسابیوں میں اس کی ضرورت پڑتی ہے۔ لہذا آج ہم آپ کو حساب چُکتا کرنا سکھائیں گے۔
تفریق: عمومی طور پر حساب، جمع سے شروع ہوتا ہے لیکن وچکارلا حساب، تفریق سے آغاز ہوتا ہے۔ تفریق سے شروع کرنے پر آپ بہت کچھ جمع کرسکتے ہیں۔ مثال کے طور پر پولیس میں سپاہی بھرتی ہونے کے بعد "کچھ" چیزیں تفریق کردی جائیں تو حاصل جمع وزیر داخلہ کے منصب تک پہنچ جاتا ہے۔ اسی طرح عام کھلاڑی سے سپورٹسمین سپرٹ، غیرت، خودداری وغیرہ تفریق کردینے سے حاصل جمع لیجنڈ تک پہنچ جایا کرتا ہے۔
تقسیم: تفریق سے ہونے والے حاصل جمع کو مناسب مقدار سے تقسیم کیا جائے تو وہ ضرب کھا کر کئی گنا ہوجایا کرتا ہے۔ یہاں پھر ملک ریاض کی مثال، اس مظہر(مجید نہیں) کو سمجھنے میں مدد دے سکتی ہے۔
جمع: بہت سی چیزوں کو تفریق کرنے اور ان سے دوسروں کو ضرب دینے (یا لگانے) سے بہت سا حاصل جمع، اکٹھا کیا جاسکتاہے۔ مثلا بہت سے لوگ جمع کرکے ان میں سے کامن سنس تفریق کردی جائے تو جوحاصل جمع آتا ہے اسے سیاسی جماعت کہتے ہیں ۔ پھر اس حاصل جمع کو فرشتوں سے ضرب دی جائے تو "مساوات" مکمل ہوجاتی ہے۔ اس مساوات کا حاصل ضرب ،آپ ہاتھ لگا کر خود بھی "محسوس" کرسکتے ہیں۔
ضرب: یہ بہت خطرناک اور دودھاری عمل ہوتا ہے۔ ضرب دیتے ہوئے بہت احتیاط کرنی چاہیے اور ہمیشہ ضرب ،دوسروں کو دینی چاہیے۔ کسی کو دینے والی ضرب کی زد میں آنے سے آپ کا سارا حاصل جمع، صفر سے ضرب کھاجایا کرتا ہے۔ اور حاصل ضرب ایک انڈا رہ جایا کرتا ہے جو اکثر و بیشتر گندا ہوتا ہے۔

قاعدہ خلاص

ہمیں اندازہ ہے کہ آپ اس قاعدے سے "نکونک" آچکے ہیں اور  علم پھیلانے کا جو بیڑا، ہم نے آپو آپ ہی اٹھا لیا تھا، اس نے ہمارے دماغی کندھے بھی شل کرنے شروع کردئیے ہیں لہذا آج وچکارلے قاعدے کا اختتام کرکے ہم کچھ عرصے کے لیے اس بیڑے کو زمین پر پٹخنے والے ہیں۔ امید ہے کہ ہمارا "وچکارلا" علم، ڈینگی کی طرح پھیلے گا اور سب کو متاثر کرکے ہی دم لے گا۔ تو آئیے قاعدے کا اختتام کرتے ہیں۔
ل۔۔۔۔ لڑائی: یہ ترقی کی اماں جان ہوتی ہے۔ اس کا ملاپ جب سیاست سے ہوتا ہے تو دھڑا دھڑ بچےجنم لینے لگتے ہیں جنہیں ترقی کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ علامہ صاحب یوں تو بڑے عظیم بحرالعلوم تھے لیکن ان سےبھی ہجّوں کی ایک غلطی ہوگئی تھی (جبکہ ہماری ایک عظیم ادیبہ ساتھی غلطی سے ایک دفعہ درست ہجّے لکھتی پائی گئی تھیں) جب انہوں نے یہ فرمایا تھا کہ "آگیا عین لڑائی میں اگر وقت نماز"۔
م ۔۔۔۔ مالٹا: یہ مالٹے رنگ کا ایک پھل ہوتا ہے جو وٹامن سی، اورنج جوس اور گلا خراب کرنے کے کام آتا ہے۔  کھٹّا مالٹا بہت ہی مالٹا ہوتا ہے اور طبیب حضرات کے لیے نعمت غیر مترقبہ کی حیثیت رکھتا ہے۔
ن ۔۔۔۔ نعرہ: یہ ایک بہت مفید چیز ہوتی ہے۔ اس کے مُوجد بارے تاریخ خاموش ہے لیکن گمان ہے کہ وہ اس کائنات کا پہلا ماہر نفسیات تھا۔ یہ بھی شنید ہےکہ نعرے کی ایجاد کسی حکم شاہی کا نتیجہ تھی تاکہ رعایا کا کتھارسس ہوتا رہے اور گلشن کا کاروبار چلتا رہے۔
و۔۔۔۔ووٹ: یہ ایک پرچی ہوتی ہے جسے بکسے میں تہہ کرکے ڈالا جاتا ہے۔ البتہ ووٹ ڈالنے والوں کو کچھ عرصہ بعد پتہ چلتا ہے کہ یہ پرچی، بتّی بنا کر، ان کو واپس دے دی گئی ہے۔اس مظہر کو "جمہوریت بہترین انتقام ہے" کہا جاتا ہے۔ علامہ صاحب یہاں پھر یاد آتے ہیں جو اس بتّی سسٹم کے اتنے زیادہ پرستار نہیں تھے کہ جس میں ان کا اور مُودے دھیں پٹاس کا ووٹ ایک جیسی اہمیت رکھتا ہو۔
ہ۔۔۔ہم زلف: یہ سالی کا شوہر ہوتا ہے پنجابی میں اسے "سَانڈو" کہتے ہیں۔ نامعلوم وجوہات کی بناء پر سیانوں نے ہم زلف کی دوستی کو کچھ زیادہ اچھے الفاظ میں یاد نہیں کیا اور اس کو ایک ایسی کہاوت میں بیان کیا ہے جو یہاں بیان نہیں کی جاسکتی!
ء ۔۔۔: یہ پَخ ہوتی ہے۔ جو مختلف الفاظ کے ساتھ لگائی جاتی ہے تاکہ ان کو دھوکہ دیا جاسکے اور لفظ یہ سمجھیں کہ عبارت کا سارا بوجھ ان پر نہیں ہے۔
ی ۔۔۔ یلا یلی:  یہ لفظ استاد محترم سے مستعار لیا گیا ہے۔ اس کے اسرار و رموز ایک خاص عمر میں ہی پوری طرح ظاہر ہوتے ہیں۔ اس بارے جتنا کم لکھا اور جتنا زیادہ محسوس کیا جائے، اتنا ہی اچھا ہے۔
ے۔۔۔۔: اسے بڑی ے کہتے ہیں تاکہ چھوٹی ے کو احساس ہوتا رہے کہ اس پر نظر رکھنے کے لیے کوئی بڑا موجود ہے اور وہ آوارہ نہ ہوسکے!

پھر قاعدہ

بہت دن الٹی سیدھی ہانکنے کے بعد ہمیں محسوس ہونا شروع ہوگیا ہے کہ اب چونکہ چل چلاؤ کا وقت آن لگا ہے تو کچھ ایسا کام کرجانا چاہیے کہ ہمارا نام تاریخ (کیلنڈر والی نہیں) میں چمپئی الفاظ سے لکھا جائے اور مؤرخین، ہمیں ایک ایسے عظیم ادیب اور مصنف کے طور پر یاد کریں جس نے اردو کا مستقبل ہمیشہ کے لیے بدل کے رکھ دیا ہو۔ بناء بریں ہماری نظر اس موئے قاعدے کی طرف ہی گئی ہے جو ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتا۔ بہرحال اس دفعہ ہم اپنے تئیں سر دھڑ کی بازی لگا کر اسے ختم کرنے کی کوشش کریں گے مبادا اس سے پہلے کہیں ہم خود ہی کڑیں نہ ہوجائیں۔۔ ہیں جی!۔


ض۔۔۔۔ ضرار۔ یہ ایک ٹینک ہے۔ پانی والا یا تیل والا ٹینک نہیں بلکہ گولہ بارود برسانے والا ٹینک۔ اسے ہماری "مُسلا" افواج نے بنفس نفیس اپنی ورکشاپ میں بنایا ہے۔ تاکہ بوقت جنگ دشمن افواج کے دانت کھٹے اور ان کی جیپیں، ٹرک ودیگر آلات حرب و ضرب تباہ و برباد کیے جاسکیں۔ مستقل دشمن سے جنگ کا چونکہ کوئی امکان نہیں، لہذا اسے آزمانے کے لیے ہم نے ایسے جزوقتی "دشمن" ڈھونڈ لیے ہیں، جن کے پیسوں سے یہ ٹینک بنایا گیا تھا۔ان ناہنجاروں کی کمر توڑنے میں یہ ٹینک بہت کار آمد ثابت ہورہے ہیں۔ ایک محاورے میں اس صورتحال کی عکاسی ایسے کی گئی ہے کہ "میریاں جُتّیاں، میرا اِی سر" ۔


ط۔۔۔۔طوطا۔ اس کا نک نیم میاں مِٹھّو ہوتا ہے اور یہ چُوری کھاتا ہے۔ جبکہ طوطا چشم چَوری کھاتے ہیں۔ اشفاق احمد یہ اصرار کرتے کرتے اللہ کو پیارے ہوگئے کہ طوطا ، ت سے ہوتا ہے۔ لیکن کسی نے ان کی بات سن کر نہیں دی۔ تھوڑا غور کرنے پر پتہ چلتا ہے کہ توتا چشم، زیادہ طوطا چشم محسوس نہیں ہوتا!۔


ظ۔۔۔۔ ظُلمی۔ یہ لفظ پرانے فلمی گانوں میں کثرت سے استعمال کیا جاتا تھا۔ مثلا، ظلمی نہ موڑ موری بیّاں ، پڑوں تورے پیّاں ۔۔ وغیرہ وغیرہ۔ اور اصل میں خاتون ان الفاظ کے برعکس ظُلمی کو اکسارہی ہوتی تھی کہ میری بّیاں پکڑ کے مروڑ کمبخت، مٹی کا مادھو بن کے نہ کھڑا رہ۔ اس ساری صورتحال کو وکی لیکس کے تناظر میں بخوبی سمجھا جاسکتا ہے۔


ع۔۔۔۔ عریانی و فحاشی۔ ملک عزیز میں اس کے مظاہر جابجا بکھرے نظر آتے ہیں۔ جناتی سائز کے سائن بورڈز، جہاں کوئی خاتون چارگرہ کپڑے میں پھنسی ہوئی آپ کومختلف اشیاء، جو سوڈا واٹر سے لے کر موبائیل پیکجز تک کچھ بھی ہوسکتا ہے، خریدنے کے لیے ورغلانے کی جان توڑ کوشش کرتی نظر آرہی ہوتی ہے۔ ان اشتہارات کو دیکھ کر آپ یہ فیصلہ نہیں کرسکتے کہ اشتہار سوڈا واٹر کا ہے یا خالص دودھ کا!۔ احباب اس بات پر شدید اعتراض کرسکتے ہیں کہ اس مظہر یعنی عریانی و فحاشی کی باقی علامات جو وطن عزیز میں جگہ جگہ نظر آتی ہیں، ان پر ہماری نظر کیوں نہیں پڑی؟ اس پر ہمارا جواب ایک طویل چپ ہے!۔


غ۔۔۔۔ غرارہ۔ یہ زیادہ تر ساٹھ کی دہائی کی فلموں اور فاطمہ ثریا بجیا کے ڈراموں میں پایا جاتا ہے۔ اس غبارہ نما لباس کی خاص بات، اس کی عیب پوشی کی صلاحیت ہے۔ اس لباس میں شمیم آراء اور صائمہ یکساں طور پر لحیم شحیم نظر آسکتی ہیں۔ شنید ہے کہ جب یہ لباس عام پہناوا تھا تو گھروں میں جھاڑو پونچھا لگانے کی ضرورت کم ہی پیش آیا کرتی تھی۔ کیونکہ اس کام کے لیے یہ لباس پہن کر گھومنا پھرنا ہی کافی ہوتا تھا۔ ایک غرارہ وہ بھی ہوتا ہے جو گلا خراب ہونےکی صورت میں نیم گرم پانی میں نمک ملا کے کیا جاتا ہے۔ یہاں آکے ہمارا سارا علم جواب دے جاتا ہے کہ ان دونوں غراروں میں قدر مشترک کیا ہے؟


ف۔۔۔فیصل آباد۔ یہ شہر سے زیادہ ایک حالت ہے اوراکثر و بیشتر اس شہر کے باشندوں پر ہی طاری ہوتی ہے بلکہ طاری ہی رہتی ہے۔ روایت ہے کہ ایک مشہور خطیب جمعے کے خطبے کے دوران حسب رواج و موسم حضرت موسی علیہ السلام کا قصہ بیان کررہے تھے۔ اس قصہ میں جب کوئلے کا ذکر آیا تو وہ یوں گویا ہوئے کہ "واہ اوئے کولیا، تیریاں شاناں، او جے پَخ گیا تے نورانی، تے جے بُجھ گیا تےےےےےےے۔۔۔۔۔۔ مفتی جعفر حسین"۔۔۔۔(واہ اے کوئلے، تیری کیا شان ہے۔ اگر دھک جائے تو نورانی اور اگر بجھ جائے تو مفتی جعفر حسین)۔ اس مثال سے آپ بخوبی سمجھ گئے ہوں گے کہ فیصل آبادی حالت کیسی ہوتی ہے۔


ق۔۔۔ قانون۔ یہ گنّا بیلنے والی مشین کی طرح ہوتا ہے۔ جس میں عوام کا رَس نکالا جاتا ہے۔ اس مشین کو چلانے والے، قانون نافذ کرنے والے ادارے، کے نام سے جانے جاتے ہیں اور جیسا کہ انصاف کا تقاضہ ہے، یہ ادارے قانون سے بالاتر ہوتے ہیں۔ قانون کی مزید تشریح کیلئے آپ، منٹو کی "نیا قانون" بھی ملاحظہ کرسکتے ہیں۔


ک۔۔۔ کُتّا۔ یہ ایک پالتو جانور ہوتا ہے۔ اقوام مغرب میں اسے افراد خانہ کی حیثیت حاصل ہوتی ہے۔ وہاں بیوی رکھنا اتنا ضروری نہیں، جتنا کُتّارکھنا ضروری ہے۔ ہالی ووڈ فلموں کا ماچو ہیرو بھی اسی وقت غیض و غضب کی انتہا کو پہنچتا ہے جب ولن اس کے بیوی بچوں کو مارنے کے بعد اس کے کُتّے کو بھی مار دیتا ہے۔ صاحب لوگ اکثر کُتّے کو ان اقوام کی رحمدلی، جانوروں سے محبت اور تہذیب یافتہ ہونے کی دلیل کے طور پر بیان کرتے ہیں اور ہمیں شرمندہ کرتے ہیں کہ تم اب تک جاہل کے جاہل ہی رہے اور کُتّے کو اس کا اصل مقام نہ دے سکے۔ ان روز روز کے طعنوں سے تنگ آکر ہم نے بھی وہ کام کیا ہے کہ بقول شاعر۔۔ ۔جو کام ہوا ہم سے، رستم سے نہ ہوگا۔۔۔ سمجھ تو آپ گئے ہی ہوں گے!۔


گ۔۔۔ کھَوتَا۔ ہمارے برادر خورد، اردو کا الف انار ب بکری والا قاعدہ پڑھتے ہوئے ہمیشہ گ سے کھَوتَا پڑھتے تھے۔ ان کے معصوم ذہن میں یہ بات نہیں سماتی تھی کہ عام زندگی میں جسے وہ کھوتا کہتے ہیں، کاغذ پر اس کی تصویر چھپی ہو تو اسے گدھا کہنا کیوں ضروری ہے؟ اپنی مِس سے تو شاید انہیں مار نہیں پڑی ہوگی کہ شدید گُگلُو قسم کے بچے تھے، لیکن ہمارے ہاتھوں وہ غریب سخت زدوکوب ہواکرتے تھے۔ آخر تنگ آکے انہوں نے زمینی حقائق سے سمجھوتہ کرلیا اور گ سے کھوتے کی بجائے گدھا ہی پڑھنے لگے!۔

مزید قاعدہ

ہمیں احساس ہے کہ یہ قاعدہ اسی طرح آرہا ہے، جیسے اچھے دن آتے ہیں۔۔۔ یعنی ہولے ہولے، جبکہ ایکدم اور یکایک تو حادثہ ہی ہوتا ہے۔ حادثے سے یاد آیا کہ یہ خوشگوار بھی ہوتے ہیں، جیسے نظروں (نظریوں کا نہیں) کا تصادم، دلوں کا ٹکراؤ وغیرہ وغیرہ۔۔ بہرحال حادثے ہمارا موضوع نہیں ہیں۔ ہمارا موضوع ہے وچکارلا قاعدہ، تو چلیے مزید قاعدہ پڑھتے ہیں۔

ر ۔۔۔ رشتہ دار: یہ کچھ ایسے لوگ ہوتے ہیں جن کے بارے کوئی دل جلا ہم سے پہلے ہی کہہ گیا ہے کہ ۔۔۔ ہوئے تم ”دوست“ جس کے، اس کا دشمن آسماں کیوں ہو۔۔ انہیں آپ اپنی ہر خوشی کے موقع پر بسورتے اور دکھ کے موقع پر کھلکھلاتے دیکھ سکتے ہیں۔ ان کے بارے جو بات سب سے زیادہ تکلیف دہ ہے کہ جیتے جی یہ آپ کا پیچھا نہیں چھوڑتے! ایک بات یہ بھی ذہن میں رہے کہ اگر آپ کے رشتے دار ہیں تو آپ بھی کسی کے رشتے دار ہیں۔

ڑ۔۔۔ یہ لفظ صرف اور صرف اندرون لاہور بسنے والے باشندوں کی سہولت کے لیے اردو میں شامل کیا گیا تھا وگرنہ اس کی چنداں ضرورت نہ تھی۔ اندرون بھاٹی، جہانگیر بدر، جہانگیڑ بدڑ ہوجاتا ہے، کرارے، کڑاڑے ہوجاتا ہے، لڑائی، لرائی ہوجاتی ہے۔۔۔ علی ہذا القیاس۔۔۔

ز۔۔۔ زُہد: پرانے وقتوں میں لوگ اس سے باطنی صفائی کا کام لیا کرتے تھے اور اس پر عمل کرنےو الے کو زاہد کہتے تھے۔ آج کل کے زاہد، جدید زُہد سے دوسروں کی دھلائی کا کام لیتے ہیں۔

ژ۔۔۔ یہ لفظ صرف ہمیں شرمندہ کرنے کے لیے حروف تہجی میں داخل کیا گیا ہے۔ کچی کے قاعدے میں ژ سے ژالہ باری پڑھا تھا۔ قسم لے لیں جو آج تک ژ سے شروع ہونے والا کوئی دوسرا لفظ سنا یا پڑھا ہو، کانسپریسی پکوڑوں سے لگاؤ ہمیں یہ بات سوچنے پر مجبور کرتا ہے کہ دور قدیم میں ہی ہمارا کوئی حاسد پیدا ہوچکا تھا جو کسی کالے یا نیلے جادو کے زور سے یہ معلوم کرچکا تھا کہ ہم اوائل شباب میں اردو کا ایک وچکارلا قاعدہ لکھیں گے، لہذا اس نے بوجہ حسد و دشمنی یہ حرف تہجی، اردو حروف تہجی میں شامل کروادیا۔ تاکہ ہم پورے بلاگستان کے سامنے شرمندہ ہوں اور اس کا دل اس زمانی بُعد کے باوجود ٹھنڈا ہو۔ لیکن شاید اس کا طلسمی آئینہ اسے یہ بات بتانا یا دکھانا بھول گیا تھا کہ۔۔۔۔ ہم نہایت ڈھیٹ ہیں۔۔۔ ہیں جی۔۔۔۔ اور حاسد دیرینہ کے لیے ہمارا پیغام ہے کہ ۔۔۔ ہور چُوپو۔۔۔

س۔۔۔ سیب: زمانہ قدیم کے حکماء و اطباء کہا کرتے تھے کہ ایک سیب روزانہ کھانے سے بیماریاں دور رہتی ہیں۔ آج کل ریڑھی والے سے سیب کے دام پوچھے جائیں تو سمجھ میں نہیں آتا کہ اس نے ایک کیلو کے دام بتائے ہیں یا ریڑھی پر پڑے سارے سیبوں کے۔ مزید استفسار پر ریڑھی والا، آپ کو ایسی نظروں سے دیکھتا ہے، جیسے مل اونر کی بیٹی کا رشتہ مانگنے والے کلرک کو مل اونر دیکھتا ہے۔

ش ۔۔۔ شاعر: ان حضرات کا پول انہی کے ایک بھائی بند نے ایسے کھولا ہے کہ ۔۔ پاپوش میں لگادی، کرن آفتاب کی ۔۔۔ جو بات کی، خدا کی قسم لاجواب کی۔ شاعری، فنون لطیفہ کی اماں جان کہی جاتی ہے۔ جبکہ ہمارے خیال میں تو شاعری، سائنس اور اس میں بھی ریاضی اور فزکس کی مشترکہ شاخ ہے۔ جس میں وزن پورا کرتے کرتے بندے کا وزن کم ہونا شروع ہوجاتا ہے۔ شاعر حضرات کو رکشہ ، رشتہ اور ملازمت بڑی تگ ودو کے بعد ملتے ہیں۔ جن کو پھر بھی نہ ملیں، وہ مزید شاعر ہوجاتے ہیں۔

ص۔۔۔ صراحی: خواتین کے رسالوں میں صراحی دار گردنوں کا اتنا ذکر ہوتا ہے کہ یہ کہانیاں، کمہاروں کی لکھی لگتی ہیں۔ صراحی کی گردن تک تو بات قابل فہم ہے لیکن ہم یہ سمجھنے سے ہمیشہ قاصر رہے کہ اس کے نچلے حصے سے مصنف حضرات کی کیا دشمنی ہے کہ اس سے کسی کو تشبیہ نہیں دیتے؟ جبکہ حضرات و خواتین کی اکثریت تیس کے بعد صراحی جیسی ہی نظر آنے لگتی ہے۔ صراحی زیادہ تر مغل آرٹ کے فن پاروں میں نظر آتی ہے، جہاں سٹارپلس کے ڈراموں کی ساڑھیوں سے بنے ہوئے لباس پہنے ایک عجیب الخلقت شخص، صراحی سامنے رکھے، عورت نما چیزوں کو گھورتا پایا جاتا ہے۔

باقی قاعدہ

حضرات، خواتین اس لیے نہیں لکھا کہ مدت مدید سے اس بلاگ پر خواتین کی آمد آٹے میں نمک کے برابر رہ گئی ہے، ہمارا وچکارلا قاعدہ جو 'ج' تک پہنچ چکا تھا، ہم آج اس کو مکمل کرنے کی کوشش کریں گے۔ بہت سے احباب نے ہمیں لارے لگائے تھے کہ وہ بھی اس 'کار خیر' میں، ہماری مدد کریں گے لیکن یہ وعدے بھی محبوب اور حکومتی وعدوں کی طرح ایفا نہ ہوسکے۔ ویسے بھی ٹاٹ میں مخمل کا پیوند چنداں مناسب نہ ہوتا۔

چلیے، قاعدے کی طرف چلتے ہیں۔

چ۔۔۔۔ چینی: یہ جادو کی چیز ہوتی ہے۔ ۱۲۷ روپے من گنے سے بننے والی چینی ۱۳۰ روپے کیلو تک بکتی ہے۔ شنید ہے کہ دوران عمل برائے چینی سازی اس میں زعفران، یورینیم، اریڈیم، پلوٹونیم جیسے قیمتی اجزاء بھی ملائے جاتے ہیں۔ اسی وجہ سے اس کی قیمت تھوڑی سی زیادہ ہوجاتی ہے۔ جس پر ناشکرے لوگ ، مہنگائی مہنگائی کا شور مچا کر آسمان سر پر اٹھالیتے ہیں لیکن اسے ایک مہینے کے لیے استعمال کرنا بند نہیں کرتے کیونکہ ۔۔۔ اس ملک خداداد میں سوائے چینی کے کوئی میٹھی چیز جو باقی نہیں رہی۔

ح۔۔۔۔حشر: واعظ حضرات، عوام کالانعام کو اس سے ڈراتے رہتے ہیں۔ خود، البتہ، وہ سمجھتے ہیں کہ ایسی کوئی چیز ہے ہی نہیں، اور اگر ہے بھی تو ان کے لئے نہیں ہے، انہیں گھگو گھوڑوں کے لئے ہے۔ سرکار بھی اس کی تیاری کے لئے 'طاقت کے سرچشمے' کو مسلسل حشر کی ریہرسل کرواتی رہتی ہے تاکہ آخری سٹیج پر عوام کو کوئی پریشانی نہ ہو۔ واللہ اعلم بالصواب۔

خ۔۔۔۔خرگوش: یہ ایسے بندے کو کہتے ہیں جس کے کان، کھوتے جیسے ہوں۔ مثلا اظہر محمود، میرا بھانجا ولید وغیرہ وغیرہ۔ اس کے علاوہ یہ لفظ اہل فارس کی تہذیبی روایت، اور ذخیرہ الفاظ پر بھی دلالت کرتا ہے۔ جس میں 'کھڑکنّوں' کے لیے بھی خرگوش جیسا پیارا لفظ موجود ہے۔

د۔۔۔۔دلال: انگریزی میں اس کو بروکر وغیرہ کہتے ہیں۔ وطن عزیز اس جنس میں خود کفیل سے بھی چھ درجے آگے ہے۔ ہر نوع، سائز اور قیمت کے دلال، اس اسلامی جمہوریہ میں میسر ہیں۔ سیاسی سے صحافتی، عسکری سے معاشی، کھیل کے میدان سے یونیورسٹی کے لان تک ہرجگہ یہ جنس بافراط دستیاب ہے۔ پنجابی میں اس کا مترادف لفظ  اگرنستعلیق حضرات کے سامنے دھرایا جائے تو ان کو کراہت کا احساس ہوتا ہے۔

ڈ۔۔۔۔ڈڈّو: یہ خواجے کا گواہ ہوتا ہے۔ البتہ اس گواہی کی نوعیت ذرا پیچیدہ قسم کی ہوتی ہے۔ یہ ڈڈّو زیادہ تر ٹاک شوز میں اپنے اپنے خواجوں کی گواہیاں دیتے نظر آتے ہیں۔ آج کل جو ڈڈّو سب سے 'ان' ہے، اس کا خواجہ، سگ پرست نہیں، بلکہ خلق خدا نے اسے ہی سگ کے مرتبے پر فائز کیا ہوا ہے۔

ذ۔۔۔۔ذلالت: یہ ایک حالت ہوتی ہے۔ جو کمزور پر طاقتور مسلط کرتا ہے اور اس کے لیے رنگ برنگے جواز ڈھونڈنے کا کام دانشوروں پر چھوڑدیتا ہے۔ جو ٹیکنی کلر اصطلاحات، تھری ڈی استدلال اور ڈیجیٹل دانش کو بروئے کار لا کر ان ذلیلوں کو اور ذلیل کرنے اور ذلیل ہی رکھنے کا کام سرانجام دیتے ہیں۔

الف امریکہ، ب بھیڑیا

اردو کے ابتدائی قاعدے (القاعدے نہیں) جو ہم نے اپنے اپنے بچپنوں میں پڑھے تھے، ازکار رفتہ ہوگئے ہیں اور فی زمانہ، زمینی حقیقتوں سے بالکل متصادم ہیں۔ مثال کے طور پر الف انار، ب بکری، پ پنکھا، ت تختی وغیرہ وغیرہ۔۔۔ اردو میں تعلیم حاصل کرنے والے اطفال تو اب انار کے نام سے بھی واقف نہیں، کھانا تو دور کی بات ہے۔ یہی حال بکری اور اس کے گوشت کا ہے۔ بھلا ہو شیر کا اور اس محاورے کا جس میں یہ دونوں ایک ہی گھاٹ پر مبینہ طور پانی پیتے ہیں، کیونکہ اگر یہ محاورہ نہ ہوتا بکری کا ذکر بھی معدوم ہوچکاہوتا۔ پنکھا بھی معدوم ہونے کی سرحد پر ہی کھڑا ہے۔ جن کو بجلی میسر ہے وہ اس کی ضرورت سے بے نیاز ہیں کیونکہ وہ پنکھے کے برادر نسبتی ائیر کنڈیشنر سے تعلقات گانٹھ چکے ہیں اور ہما شما کو تو یہ نعمت موسوم بہ بجلی میسر ہی نہیں۔ اس لئے وہ پنکھے کی حاجت سے بھی بے نیاز ہیں۔ تختی بھی آثار قدیمہ میں شمار ہونے لگی ہے۔ کسی زمانے میں تختی والے سکول”کھوتی سکول“ کہلاتے تھے۔ سرکار نے یہ تفریق ختم کرکے اب سارے سکول ”کھوتے سکول“ کردیئے ہیں! جبکہ ہمارے ایک دوست عرصہ تک مُصر رہے کہ تختی، تختے کی بیوی ہوتی ہے، وہی تختہ جو الٹایا جاتا ہے! واللہ اعلم بالصواب۔۔۔
قصہ مختصریہ کہ ہم نے اردو کا ایک وچکارلا قاعدہ بنایا ہے۔ جو بچوں کو تعلیم کے ساتھ ساتھ روشن خیال اور ۔۔۔۔۔۔۔۔ مزید روشن خیال بنائے گا۔ آئیے ابتدا کرتے ہیں۔
الف ۔۔۔۔۔۔ امریکہ : اصولی طور پر تو آجکل ہر حرف تہجی سے امریکہ ہی بننا چاہیے کیونکہ جتنی انسان دوستی، علم سے محبت، اعلی ترین اخلاقی و آفاقی اقدار، رواداری، مذہبی یگانگت، عدل و انصاف، امن پسندی، رحمدلی، سچ سے لگاو اور جھوٹ سے نفرت اس عظیم الشان ملک کی ہیئت مقتدرہ میں پائی جاتی ہے، انسانی تاریخ اس کی مثال کسی ایک دور میں پیش کرنے سے معذور ہے!
ب ۔۔۔۔ بھیڑیا: یہ ایک جانور ہوتا ہے۔ خونخوار۔۔۔ وحشی۔۔۔۔ میمنے اور اس کی کہانی بڑی مشہور ہے۔ یہ اتنی عمدہ کہانی ہے کہ تاریخ کے ہردور میں اس کی ڈرامائی بلکہ حقیقیاتی تشکیل کی جاتی ہے۔ بھیڑیے اور میمنے کا کردار ہمیشہ بدلتا رہتا ہے۔ آخری مشہور میمنے اور بھیڑیے کی مڈبھیڑ ۲۰۰۲ میں ہوئی تھی۔ آٹھ سال بعد اب بھیڑیا شور مچا رہا ہے کہ میمنا اسے پھاڑ کھائےگا! ہور چوپو۔۔۔
(ب سے ایک اور مشہور جانور بھی ہوتا ہے۔۔۔ سمجھ تو آپ گئے ہوں گے!)
پ ۔۔۔۔۔ پیٹ: ہر جاندار کے ساتھ لگا ہوتا ہے۔ اسے بھرنا بڑا مسئلہ ہوتا ہے۔ اکثریت تو اسے روکھی سوکھی سے بھرتی ہے، جبکہ کئیوں کے پیٹ قبر کی مٹی ہی بھرتی ہے۔ ضرورت سے زیادہ بھر جائے تومستی چڑھتی ہے جسے ”رج کھان دی مستی“ کہتے ہیں اور اسی کے زیر اثر بھیڑیا، میمنا اور میمنا، بھیڑیا نظر آنے لگتا ہے۔
ت۔۔۔۔۔۔ترقی: یہ بڑی اچھی چیز ہوتی ہے۔ اس سے دنیا کی آبادی قابو رکھنے میں بڑی مدد ملتی ہے۔ جب انسان غیر ترقی یافتہ تھا تو لڑائی میں سینکڑوں لوگ مرتے تھے۔ ترقی کرنےکے بعد اب وہ لاکھوں، کروڑوں انسان ماردیتا ہے اور اسے کولیٹرل ڈیمیج کا دانشورانہ اور فلسفیانہ نام دیتا ہے!
ٹ ۔۔۔۔۔ ٹی سی: بچّو! اس کے بارے آپ بڑے ہو کر خود ہی جان جائیں گے کیونکہ یا تو آپ کو یہ کرنا پڑے گی یا کوئی آپ کی کرے گا۔ دعا ہے کہ آپ دوسرے آپشن سے ہی دوچار ہوں۔۔۔
ث۔۔۔۔۔ثانیہ: یہ پاکستانیوں کی مشہور زمانہ بھابھی (ہائے۔۔۔ کس دل سے یہ لفظ لکھا ہے۔۔۔ میرا دل ہی جانتا ہے) اور کچھ کم مشہور زمانہ ٹینس کی کھلاڑی ہے۔ اس کے متعلق جتنا کم لکھوں اتنا ہی اچھا ہے ۔۔۔۔ آہو۔۔۔
ج۔۔۔۔جعفر: خود دیکھ لیں کہ ثانیہ کا صحیح جوڑ کس کے ساتھ بنتا تھا؟

اردو کی 'وِچکارلی' کتاب - دیباچہ

غالباً اسمعیل میرٹھی نے 'اردو کی پہلی کتاب' لکھی تھی اور استاد الاساتذہ ابن انشاء نے 'اردو کی آخری کتاب'۔ اگرچہ ان حضرات نے اپنے تئیں سارے دریا، جھیلیں، ندیاں، ڈیم، بحور وغیرہ کوزے میں بند کردیئے تھے لیکن اہل نظر (یعنی ہم) جانتے تھے کہ اس ضمن میں ابھی بہت سا کام کرنا باقی ہے۔ ہم نے بہت وقت اس انتظار میں گزارا کہ شاید کوئی اس کام میں ہاتھ ڈالے لیکن صد افسوس کہ کوئی مائی کا لال یا ابّا کی بنّو (محاورات میں دورجدید کے تقاضوں کے مطابق ترامیم بھی زیر نظر کتاب میں شامل ہوں گی) اس بھاری پتھّر کو نہ اٹھا سکے, بنا بریں ہمیں خود ہی ہمّت کرنی پڑی اور لنگر لنگوٹ وغیرہ کسنا پڑا۔ اگرچہ ہمارے لئے یہ کام کوئی ایسا کٹھن نہیں تھا لیکن ہم صرف یہ دیکھنا چاہتے تھے کہ عصر حاضر میں شاید ایسا جواں مرد یا زنِ ذہین ہو جو ہمارا ہم عصر کہلانے کے لائق ہو، لیکن ۔۔۔ اے بسا آرزو کہ خاک شد۔۔۔ ہیں جی۔۔۔

ہم گاہے بہ گاہے یعنی کَدَی کَدَی (وہی 'مَوکَا ملے کَدَی کَدَی' والا) اس کتاب کے لئے مضامین اسی بلاگ پر تحریر کریں گے۔ جن کو بعد میں کتابی شکل میں چھاپا جائے گا(بشرطیکہ ہمیں ہی کسی چھاپے وغیرہ میں نہ اٹھا لیا جائے)۔ چونکہ ہم درویشی/ فقیری قسم کی طبیعت رکھتے ہیں اس لئے اس کتاب کی رائلٹی وغیرہ سے ہم اللہ کی شان دیکھنے بلاد یورپ و امریکہ وغیرہم جائیں گے جہاں سیر و سیاحت اور فاسق و فاجر فرنگنوں کو دیکھ کر حصولِ عبرت برائے آخرت، جیسے نیک مقاصد پورے کئے جائیں گے۔ ہم اس بات پر بھی عمیق و دقیق غور کررہے ہیں کہ ان اسفار بارے تین چار چَوندے چَوندے سفرنامے بھی پھڑکائیں جن کے ہر تیسرے صفحے پر 'وَن سَوَنِّی' فاسق و فاجر فرنگی دوشیزائیں ہم پر موسلادھار طریقے سے عاشق ہوں جیسے اپنے چاچا جی پر ہوا کرتی تھیں اور بخدا کارٹون والے معصوم سے چاچا جی کے سفرنامے جب ہم نے ذرا بڑے ہونےپر پڑھے تو ہمیں چاچا جی کے میسنے پن پر بیک وقت غصّہ اور پیار آیا۔ اس بیک وقت غصے اور پیار کی وجوہات بیان کرنے کا یہ موقع نہیں، اسے کسی اور موقع پر اٹھا رکھتے ہیں!

اس کتاب کے فلیپ پر اپنی آراء چھپوانے کے لئے دنیا کے بہت سے عظیم ادباء، شعراء و مصنفین نے ہم سے رابطہ کیا جن میں گاما بی اے، فیجا لُدّھڑ ، طافو طمنچہ، شادا پوٹھوہاری، ماجھو ٹھاہ، ببّن کراچوی، ناجا لاہوری، چاچا چُوئی، مائیکل ٹُن، جارج گھسیٹا وغیرہم شامل تھے، لیکن چونکہ ہم ایسی سستی تشہیر پر یقین نہیں رکھتے اس لئے ہم نے ان سب عظیم ہستیوں سے معذرت کرلی۔ اب سب کو دو دو ہزار اور کتاب کے پچاس مفت نسخے کون دیتا پھرے! ویسے بھی ادب عالیہ کے عظیم نثرپاروں کو کسی ریویو وغیرہ کی محتاجی نہیں ہوتی کیونکہ جادو وہ جو سرچڑھ کے بولے اور ۔۔آہو۔۔۔

کتاب کے نام کی وجہ تسمیہ فوکویاما بھائی جان کا وہ نظریہ ہے جس میں انہوں نے فرمایا تھا کہ تاریخ کا خاتمہ ہوگیا ہے۔ لہذا اصولی طور پر اب تاریخ کو پیچھے کا سفر کرنا چاہیے تو آخری کتاب سے پیچھے جاتے ہوئے پہلے 'وچکارلی' کتاب ہی آنی چاہیے، اسی لئے ہم نے اس نام کو موزوں جانا۔ ویسےبھی چاچو شیکسپئیر نے فرمایا تھا کہ نام میں کیا رکھاہے اور گلاب (اس نکتے پر ذرا غور کریں کہ چاچو کو کیسے پتہ تھا کہ میں نے اپنا گریویٹار گلاب رکھنا ہے۔۔۔!!!! یہاں آپ (اپنے) منہ سے ۔۔ ڈھن ڈھنااااان۔۔۔ کا میوزک بھی بجا سکتے ہیں ) کو جس نام سے بھی پکاریں وہ گلاب ہی رہتا ہے۔ لہذا اگر اس کتاب کا نام 'ٹریکٹر کو 'پَینچر' کیسے لگاتے ہیں؟' یا 'برسات کے موسم میں ملیریا سے بچاؤ کی حفاظتی تدابیر اور روح افزا کے فائدے' بھی ہوتا تو اس سے کوئی فرق نہیں پڑنا تھا۔

آخر میں ہم اپنا شکریہ ادا کرتے ہیں جنہوں نے اپنے نہایت قیمتی وقت کو خرچ کرکے آپ جیسے کم پڑھے لکھے، سطحی سوچ کے حامل اور عقل کے پورے لوگوں کے لئے اس کتاب کو لکھنے کا ارادہ کیا! جئے ہم۔۔۔۔