ایک انتخابی تقریر

میرے بزرگو، دوستو، ساتھیو، تائیو، چاچئیو، پھپھڑو، خالوؤ ۔۔۔ (یہاں ایک وقفہ لے کر لمبا سانس لیں) السلام علیکم۔ (مجمع کے وعلیکم السلام کہنے کا انتظار کریں، اگر مجمع چپ رہے تو ان کو خود ہی گناہ ہوگا!) میں آج آپ کی خدمت میں پھر حاضر ہوا ہوں۔ جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ منظر نامہ کے بہترین نئے بلاگ کے لئے ووٹنگ کی کل آخری تاریخ ہے۔ اس تاریخی موقع پر میں آپ کی خدمت میں چند ہوش ربا انکشافات کے ساتھ حاضر ہوا ہوں۔ (یہاں ایک چھوٹا سا وقفہ لے کر گلے کا والیم فل کھول دیں) میرے بھائیو، آپ جانتے ہیں کہ یہ (سینے پر ہاتھ مار کر) بک تو سکتاہے، جھک بھی سکتا ہے، لیکن کٹ نہیں سکتا! میری ہی قربانیوں سے آج بلاگستان کا نام پوری دنیا میں روشن ہے۔ (یہاں لہجے میں تھوڑی سی رقت لائیں) پوسٹیں لکھ لکھ کر میری انگلیاں سوا سوا انچ گھس چکی ہیں۔ مسلسل جاگنے کے سبب میرا منہ, فٹے منہ ہوچکا ہے۔ لیکن میرے دوستو! مجھے اپنی کوئی پرواہ نہیں، میں اس بلاگستان کے لئے اپنی جان بھی قربان کرسکتا ہوں (اپنی شرٹ کے بٹن جھٹکے سے توڑ ڈالیں، اگر تالیاں بجیں اور نعرے لگنے لگیں تو مکے لہرانا شروع کردیں ورنہ ٹھنڈ رکھیں!)۔

میرے مقابلے میں جن بلاگرز نے الیکشن لڑنے کی ٹھانی ہے، میں نہایت احترام سے ان کے کرتوت بھی آپ کے سامنے لانا چاہتاہوں (لہجے میں پراسراریت سی پیدا کریں)۔ ایک بی بی ہیں، عنیقہ ناز۔ آج میں آپ کو بتادینا چاہتاہوں کہ یہ بی بی اپنی تحاریر مجھ سے ٹھیکے پر لکھواتی تھیں اور فی تحریر پونے تیرہ روپے دیتی تھیں۔ میں بھی زیادہ پیسے کمانے کی چکر میں دھڑا دھڑ ان کو تحاریر لکھ کر دیتا رہا ، اسی لئے ہر روز دو دو پوسٹیں ان کے بلاگ پر لگتی رہی ہیں (داد طلب انداز سے مجمع کی طرف دیکھیں)۔ جب میں نے ان سے کہا کہ حق محنت میں کچھ اضافہ کریں تو انہوں نے مجھے لندن سے دھمکی آمیز فون کروائے (مظلومیت طاری کریں)۔ میرے چھوٹے چھوٹے دوست ہیں(دھیان رکھیں کہیں چھوٹے چھوٹے بچے نہ کہہ دیں) لیکن میں ڈرا نہیں۔ اب انہوں نے میرے خلاف ایک اور سازش کی ہے (ایک کاغذ لہرائیں) یہ دیکھئے رابطہ کمیٹی کا سرکلر، جس میں کارکنان کو کہا گیا ہے کہ ایک ایک بندہ ۲۰ ای میل ایڈریس بنائے اور عنیقہ ناز کو ووٹ دے۔ لیکن میں بتا دینا چاہتا ہوں، اگر اس الیکشن میں، میرا بلاگ کامیاب نہ ہوا تو ہم نتائج تسلیم نہیں کریں گے۔ اصلی جمہوریت وہی ہوگی جس میں ہم کامیاب ہوں (والیم پھر فل کردیں)۔

دوسرے بلاگر خرم بھٹی صاحب ہیں۔ ان کے بارے میں تو ہر بات اظہر من الشمس ہے۔ ساتھیو (لہجے میں طنزیہ انداز لائیں) جو امریکہ میں رہتا ہو اور وہیں کام بھی کرے تو آپ سمجھ سکتے ہیں کہ وہ کس لابی کے زیر اثر ہوگا؟؟؟؟ ہیں جی۔۔۔۔ یہ کالا پانی اور اے بی سی ڈی ایف وغیرہ جتنی بھی ایجنسیاں ہیں، انہی صاحب کی مخبری پر میرے خلاف پاکستان میں لائی گئی ہیں، تاکہ میرا بلاگ ہیک کرکے اس پر اعجاز حشمت خان، نذیر ڈھوکی، ظہیر اختر بیدری اور خوشنود علی خان وغیرہ کے کالم چھاپے جائیں، طالبان کا نام تو ایک سموک سکرین ہے، ایک دھوکہ ہے، ایک فراڈ ہے۔ اصل میں تو یہ لوگ اس الیکشن کو انجینئرڈ کرنے آئے ہیں۔ لیکن میں ایک بات واضح کردینا چاہتا ہوں، جتنی چاہے سازشیں کرو، جعلی ووٹ بناؤ، دھمکیاں دلواؤ، چاہے میرا بلاگ ہیک ہوجائے لیکن آپ کا یہ بھائی (چھاتی پر ہاتھ ماریں) میدان نہیں چھوڑے گا۔ لڑے گا، لڑے گا، لڑے گا۔۔۔۔ (نعرے لگاتے ہوئے سٹیج سے اتریں) جیوے جیوے بلاگستان ، جیوے جیوے بلاگستان، جیوے جیوے ۔۔۔۔۔

(پیروڈی نما مزاح لکھنے کی کوشش کی گئی ہے، اسے اسی جذبے سے پڑھا جائے، کسی کی ہتک, واللہ, مقصود نہیں!!!)

سینکڑا!

اس تصویر ( اشتہار بھی کہہ سکتے ہیں) کو دیکھ کر حیرت میں مبتلا نہ ہوں! یہ میں نے سوویں پوسٹ کی خوشی میں اپنے آپ کو تحفہ دیا ہے۔ جی ہاں یہ سوویں پوسٹ ہی ہے نصف جس کے پچاس اور چوتھائی پچیس ہوتے ہیں۔ میں خاص طور پر اپنا اور عمومی طور پر اپنے ساتھی بلاگرز اور قارئین کا شکر گزار ہوں، اپنا اس لئے کہ میں لکھنا ہی بند کردیتا تو سوویں پوسٹ کی نوبت کیسے آتی۔۔۔ ہیں جی!اور دوستوں کا اس لئے کہ انہوں نے مجھے دس مہینے تک برداشت کیا اور میری رطب ویابس کی حوصلہ افزائی بھی کرتے رہے، جس سے شہ پا کر میں کھل کھیلتا رہا۔

اگر میں کہوں کہ پچھلے دس مہینے میں، میں نے بہت کچھ سیکھا، نئے دوست بنائے، بہت سے معاملات کو نئے زاویے سے دیکھا، تو یہ غلط نہ ہوگا۔ یہ بلاگ جو بغیر کسی منصوبے اور اونچی توقعات کے شروع کیا گیا تھا، آج منظر نامہ کے بہترین نئے بلاگ کے زمرے میں نامزد ہے۔ اسی سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ فی زمانہ قحط الرجال کی صورتحال کتنی تشویش ناک ہے!

میں ایک دفعہ پھر اپنے دوستوں کا دل کی "اونچائیوں" سے شکر گزار ہوں کہ جن کی حوصلہ افزائی کے پٹرول کے بغیر اس بلاگ کی گاڑی بہت پہلے ہی بند ہو چکی ہوتی! جئے بلاگستان۔۔۔۔
(یہ انکساری بالکل مصنوعی ہے، ورنہ میرے خیال میں، مجھ سے اچھا لکھاری اس دنیائے فانی میں نہ آیا ہے اور نہ ہی آنے کی امید ہے۔ وما علینا الا البلاغ)

دودھ کا جلا

کسی بھی اچھی خبر، امید افزا بات یا خوشگوار واقعہ سے بدترین توقعات وابستہ کرلینا یا ہولناک نتائج برآمد کرلینا میرے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے! نجانے کیا مسئلہ ہے کہ میں ہر چیز کو شک کی نظر سے دیکھتا ہوں۔ مجھ سے کوئی خوش اخلاقی سے ملے تو میرے دل میں خیال آتا ہے کہ یقینا اسے مجھ سے کوئی کام ہے یا اس کے دل میں تو میرے خلاف بڑے منصوبے ہیں، یہ خوش اخلاقی تو ایک دھوکہ اور منافقت ہے۔ پکا یاد نہیں کہ میری یہ حالت کب سے ہے، لیکن جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے شاید اس کی ابتداء تب ہوئی تھی، جب میرے ہم جماعت اور بہت پیارے دوست کے پروفیسر والد نے دسمبر ٹیسٹ کے نتیجے میں ردوبدل کروایا اور میں جو کلاس میں اول آرہا تھا، اسے دوسری بھی نہیں بلکہ تیسری پوزیشن پر دھکیل دیا گیا!

تب مجھے اس بات کی سمجھ نہیں آئی تھی کہ ایسا انہوں نے کیوں کیا، ویسے سمجھ تو اب بھی نہیں آئی! کالج سے فراغت کے بعد عملی زندگی میں کودا تو پتہ چلا کہ جو کچھ میں نے بچپن سے لے کر آج تک پڑھا تھا، اسے تو میں استعمال ہی نہیں کرسکتا۔ وہ کتابیں اور اساتذہ کی باتیں تو صرف امتحان میں کامیاب ہونے کے لئے ہوتی ہیں۔ عملی زندگی میں اس کا اطلاق کرنے والوں کو "احمق" کے نام سے لکھا اور پکارا جاتا ہے!

ہوش سنبھالنے کے بعد پہلی دفعہ انتخابات کے میلے میں بڑے بڑے رہنما دیکھے اور ان کے حسین و رنگین وعدے سنے۔ تب میں نے سوچا کہ اب تو میری اور اس ملک کی قسمت بدلے ہی بدلے! لیکن نہ قسمت بدلی نہ دن۔ پھر ایک فوجی وردی میں ملبوس صاف گو سا شخص ٹیلی وژن پر نمودار ہوا اور اس نے بتایا کہ آج تک جو ہوا ہے، اسے بھول جاؤ۔ میں وہ تمام غلطیاں درست کردوں گا جو آج تک ہوئی ہیں۔ میرے دل نے کہا کہ لے بھائی! تیری اور اس ملک کی سنی گئی۔ اب تو زندگی سے لطف اندوز ہونے کی تیاری پکڑ! اللہ نے خیر کردی ہے۔ اس کے بعد کی کہانی کہنے کا حوصلہ مجھ میں نہیں!

اب کوئی اخباری کالم یا خبر یا بیان میں یاکسی ٹی وی چینل کے (لوز) ٹاک شو میں این ایف سی ایوارڈ پر داد کے ڈونگرے برسائے یا عدلیہ کے ذریعے بے رحم احتساب کےخواب دکھا کرمجھے بے وقوف بنانے کی کوشش کرے تو بھائی سن لو! میں اور بے وقوف بننے کے لئے تیار نہیں!

ڈائجسٹ، جگت اور ڈاکٹر اقبال!

"اس کے اندر کیا ہے؟" اے ایس ایف کے اہلکار نے سفری بیگ سے ایک شاپنگ بیگ برآمد کرتے ہوئے استفسار کیا۔ میں جو بورڈنگ شروع ہونے کا اعلان ہوتے ہی فورا اندر گھس گیا تھا تاکہ مجھے اس تکلیف کا اور سامنا نہ کرنا پڑے جو مجھے اپنے والد کی آنکھوں میں آنسو دیکھ کر ہر سال ہوتی ہے! اب پچھتا رہا تھا کہ آدھ گھنٹہ اور انتظار کرلیتا اور یہ وقت باہر گزار لیتا تاکہ تازہ دم اہلکار آدھ پون گھنٹے کے بعد ذرا تھک بھی جاتے اور اکتاہٹ کا شکار بھی ہو جاتے۔ بہرحال میں نے جواب دیا کہ جی یہ فریز کئے ہوئے کھانے ہیں۔ اس پر "فرض شناس" اور "مستعد" اہلکار نے اپنی عقابی نظریں مجھ پر جماتے ہوئے گھرکا، "ہمیں کیا پتہ اس کے اندر آپ نے کیا بھرا ہوا ہے؟" اس کے ساتھ ہی اس نے کہیں سے برف توڑنے والا ایک سوا برآمد کیا اور اپنے توندیل باس سے مخاطب ہوا کہ "سر! اسے تو چیک کرنا پڑے گا"۔ اسی دوران اس کے باس نے دوسرے بیگ کو بھی کھول لیا۔

اندر بھرے ڈائجسٹوں کے انبار کو دیکھ کر اس کے چہرے پر تمسخر آمیز مسکراہٹ آگئی۔ "کیوں جی دبئی چ تسی ایہو کم کرن جاندے او، ایہہ کم تے تسی ایتھے وی کرسکدے او"۔ باس کے اندر چھپے فیصل آباد نے انگڑائی لیتے ہوئے فقرہ اچھالا۔ ایک تو واپس جانے کی ٹینشن، پھر یہ سارا فضیحتا اوراوپر سے ڈاکٹر اقبال کی یہ نصیحت بھی کہ دل کے ساتھ عقل کا چوکیدار ضرور رکھو لیکن کبھی کبھار دل کو دل پشوری بھی کرلینے دیا کرو، ان سارے عوامل نے مل جل کر ایسی کیفیت پیدا کی جو میرے دو ہفتے کے تیار راشن کو ان اہلکاروں کے شکم میں لے جانے پر منتج ہوسکتی تھی!

اس مبینہ نتیجے کے اندوہناک اثرات کو مدنظر رکھتے ہوئے میں نے چہرے پرمسکینی طاری کی اوران کی جگت پر داد آمیز ہنسی نذر کرتے ہوئےدل ہی دل میں ان کو وہ کہا جو میں اصل میں کہنا چاہتا تھا! باس کو اپنی جگت کی قدرافزائی اس قدر بھائی کہ انہوں نے سر کی اثباتی جنبش سے مجھے سامان لے جانے کا پروانہ عطا کردیا۔ اور میں یہ سوچتے ہوئے بورڈنگ کاؤنٹر کی طرف چل پڑا کہ ہاں یار! واقعی اس طرح تو میں "کچھ" بھی لے جاسکتا ہوں! چلو کوئی نہیں، اگلے سال سہی!!

غیرت کا ڈھکوسلہ

صاحب نے اپنے گاؤن کی ڈوری ذرا ڈھیلی کی؛ آرام کرسی کی پشت سے سر اٹھایا اور میری طرف ایسی نظروں سے دیکھا جن میں حقارت، ترس، غصہ، افسوس، دکھ  سب شامل تھے؛  پھر چنیوٹ کی بنی ہوئی منقش سائڈ ٹیبل پر دھری چاندی کی ٹرے سے کیوبن سگار اٹھایااوراسے منہ میں ڈال کر ایسے چبانا شروع کردیا، جیسے میری گردن ہو! چند ثانیے گزرنے پر سگار کو طلائی لائٹر سے سلگایا جس پر سٹڈی  قیمتی تمباکو کی بو سے بھرگئی۔ اس تمام کاروائی کے دوران ان کی نگاہیں لگاتار مجھ پر جمی رہیں۔ مجھے خدشہ محسوس ہونے لگا کہ شاید آج میں اس قیمتی افریقی کافی کے مگ سے بھی محروم رہ جاؤں؛ جس سے صاحب ہر دفعہ میری تواضع کیا کرتے ہیں۔

صاحب کی ناراضگی کی وجہ وہ سوال تھا جو میں نے آتے ہی ان سے پوچھ لیا تھا کہ غیرت مند کا متضاد کیا ہوتا ہے؟ صاحب نے سگار کے پانچ چھ گہرے کش لے کر اپنے فشار خون کو نارمل سطح پر پہنچایا اور مجھ سے یوں مخاطب ہوئے۔ "کیاتم جانتے ہوکہ تمہارے جیسے مڈل کلاسیوں کا پرابلم کیا ہے؟ عزت، غیرت، اخلاقی اقدار، ایمانداری۔۔۔۔۔ مائی فٹ!!! تم لوگ اگر کسی وجہ سے اپنی کلاس سے نکل بھی آؤ تو یہ ربش مڈل کلاس مینٹیلٹی تمہارا پیچھا نہیں چھوڑتی۔ اکنامکس، مائی ڈئیر اکنامکس۔ اس دنیا کی سب سے بڑی حقیقت اکنامکس ہے۔ یہ عزت، غیرت، قومی وقار، خودی سب مڈل کلاسیوں کے ڈھکوسلے ہیں۔ ان سے باہر نکلو۔ اپنے ذہن کو آزاد کرو۔ لبرل سوچ اپناؤ۔ یہی وہ طریقہ ہے جس سے ہم ترقی کرسکتےہیں"۔

یہاں تک پہنچتے پہنچتے صاحب کا سانس پھول چکا تھا؛ جذبات کی شدت سے گلے کی رگیں پھول گئی تھیں اور ماتھے پر پسینے کے قطرے نمودار ہوچکے تھے۔ صاحب سانس لینے کو رکے تو میں نے ہاتھ اٹھا کر قطع کلامی کی معافی چاہی اور یہ کہہ کر اجازت مانگے بغیر باہر نکل آیا۔ "اگر آپ اس سوال کا ایک لفظی جواب نہیں دے سکتے تو دومیں سے ایک کام ضرور کریں؛ لفظ "غیرت" پر پابندی لگادیں یا حروف تہجی میں سے "ب" کا حرف خارج کردیں"۔

مزید خیالات پریشاں

زرداری اے۔ فراڈ اے۔ کرمنل بی اے۔

میں اوں، ولی اللہ اوں۔ قطب اوں؛ ابدال بی اوں۔ خدمت اے، کی اے۔ پاکستانی ایں، احسان فراموش ایں۔ باوے قید یازم کے بعد ایک ای لیڈر اے؛ وہ میں اوں۔ بلکہ باوا بی کوئی اتنا بڑا لیڈر نئیں اے؛ جو بی اے میں ای اوں! زرداری اے۔ لٹیرا اے۔ قومی خزانہ اے، لوٹ لیا اے۔ میں اوں؛ ایماندار اوں۔ پنشن اے۔ ملتی اے۔ بیٹا اے۔ بڑا لیق اے۔ پیسہ اے۔ کماتا اے۔ مجے بی دیتا اے۔ مزا آتااے۔

مجے امریکہ  کا ایک کالا کل ملا اے؛ کہتا اے کہ اگر میرا جیسا لیڈر ان کے ملک میں ہوتا تو ہم اس کا زندہ مجسمہ بنا دیتے! میں نے اس سے پوچھا اے۔ زندہ مجسمہ کیسے بنتا اے۔ اس نے بتایا اے کہ کنکریٹ مکسر میں ڈال کے ایک منٹ اس کو چلانا اے پھر لیڈر باہر نکال کر سکھا لینا اے۔ ایسے بنتا اے۔ میں نے بہوت سوچا اے لیکن سمجھ نئیں آئی اے!

آپ سبوں کو پتہ ہونا چائیے! میرے مرنے کے بعد باوے قید یازم کے مزار میں میری قور (قبر) ہونی چائیے۔ باوے کو نکال کر کھارادر میں بی دفنا دیں تو مشکل نئیں اے۔ اصل باوائے قوم تو میں اوں۔ باوے کی تو ایویں ہوا بنی ہوئی اے! پھر ہر سال میرے عرس پر شہزاد رائے کی قوالی اونی چائیے؛ جس پر رانی مکر جی کو دھمال بی ڈالنی چائیے! بلیک لیبل اور تکے کبابوں کا لنگر اونا چائیے۔ عرس کی سیریمونی کے آخر میں شکیرا کا کنسرٹ اونا چائیے؛ اس کے بعد میرے ایصال ثواب کے لئے عائشہ ثنا سے اجتماعی دعا کرانی چائیے!

پی ٹی وی کے خبرنامے سے پیلے جو "باوائےقوم نے فرمایا" آتا اے؛ اس میں میرے "گولڈن کوٹس" ہونے چائیں۔ مثلاً دوباتیں ایں، ایک تو میری ڈگنیٹی اے، دوسری پاکستان (سب سے پیلے پاکستان والا) کی ملک کی، ترقی اے۔۔۔ وغیرہ وغیرہ۔ اور یہ ہونے بی میری آواز میں چائییں۔ میں آٹھ سالوں میں اتنا بولا اوں کہ اگلے دس ہزار سال تک بی یہ گولڈن کوٹس کھتم نئیں ہوں گے۔

پر مجے مالوم اے۔ ایسا نئیں ہوگا۔ یہ قوم نئیں اے؛ جانور ایں۔ اسی لئے میرے جیسا گریٹ لیڈر ملک سے باہر اے۔ ووٹ ایں۔ گنجے کو دئیے ایں، زرداری کو بی دئیے ایں۔

اور مجے صرف آرٹیکل سکس کے ڈراوے دئیے ایں!

نسوار بھرے پراٹھے

میں آج کل اگرچہ جنت میں ہوں کہ جنت میں ملنے والی نعمتیں جو ہمیں آج تک بتائی گئی ہیں، میں کم و بیش ان سے متمتع (واہ ! کیا لفظ استعمال کیا ہے) ہورہاہوں۔ لیکن میں اپنے دوستوں کو بھولا نہیں۔ اسی سلسلے میں یہ تازہ ترکیب آپ کے "اعلی" ذوق کی تسکین کے لئے پیش خدمت ہے!

ہوسکتا ہے کچھ حاسدین اس ترکیب میں سے تعصب اور نسلی و لسانی منافرت  برآمد کرنے کی کوشش کریں، لیکن میرا خدا جانتا ہے کہ میں بہت نیک، پرہیز گار، غیر متعصب، قومی یکجہتی پر یقین رکھنے والا نہایت ہی عمدہ انسان ہوں! اس لئے ایسے لوگوں کے کہے پر کان نہ دھریں اور اجزاء نوٹ کرکے عنداللہ ماجور ہوں۔

اجزاء مندرجہ ذیل ہیں:

1-  اعلی قسم کی نسوار

2-  سبز مرچ (کافی ساری)

3-  کالی مرچ (5 چمچے۔۔۔جی ہاں! وہی چمچے)

4-  نمک (بالکل نہیں!)

5-  بھنگ کے تازہ پتے

6-  موبل آئل (اگر میسر نہ ہو تو کھانے کے تیل سے بھی کام چل جائے گا کہ زیادہ فرق تو ہوتا نہیں دونوں میں!)

7-  اور ہاں! آٹا (کہ اس کے بغیر پراٹھا کیسے بنے گا۔۔۔ ہیں جی!)

فرائنگ پین میں تھوڑا سا موبل آئل ڈال کر گرم کرلیں۔ پھر اس میں نسوار ملا کر اچھی طرح بھون لیں۔ سبز مرچیں باریک کاٹ کر ملالیں۔ نسوار اچھی طرح بھوننے کے بعد چولہے سے اتار لیں۔ اگلا مرحلہ نہایت اہم ہے۔ یہ ہے آٹا گوندھنے کا۔ امید ہے کہ آپ کو آٹا گوندھنا نہیں آتا ہوگا، مجھے بھی نہیں آتا! یہ تو بڑا مسئلہ ہوگیا، اب کیا کریں؟ ایک حل تو اس سمسیا کا یہ ہےکہ آپ کسی نزدیکی تندور پر جائیں اور خشک آٹا دے کر گوندھا ہوا آٹا لے آئیں یا پھر کسی ہمسائے کا منت ترلہ کرکے اس سے آٹا گوندھوا لیں۔ بہرحال یہ آپ کا سردرد ہے۔ میں آپ کو آٹا گوندھنے کی ترکیب بتانے کا مکلف نہیں! الجبرے کی طرح فرض کرلیں کہ آٹا گوندھا ہوا ہے۔ اب پیڑے بنا کر ان کے درمیان بھنی ہوئی نسوار برابر پھیلادیں اور پیڑے کو بیلنے سے پہلے فی پراٹھا ایک چمچہ کالی مرچ کا ملانا نہ بھولیں! پراٹھے تیار کرنے کے بعد بھنگ کے تازہ پتے بلینڈر میں ڈال کر بلینڈ کرلیں اور اسے حقے کے پانی میں ملا کر "مزیدار چٹنی" تیار کرلیں۔

گرماگرم نسوار ملے پراٹھوں کو بھنگ کی چٹنی کے ساتھ پیش کریں۔ زندگی کا لطف آجائے گا!!!

بی سی جیلانی کی ڈائری کا ایک ورق

صبح جلدی اٹھنا پڑا۔ رات ناروے کے قومی دن کی پارٹی میں ناں ناں کرتے بھی پانچ چھ لگاگیاتھا۔ صبح سر درد کے مارے پھوڑا بنا ہوا تھا، اٹھتے ہی بلیک کافی سے دو اسپرین نگلنی پڑیں۔ دس بجے ہالیڈے ان میں "چائلڈ لیبر اور انسانی حقوق کی تقدیس" پر ایک سیمینار تھا۔ جس کے مہمان خصوصی کیچوؤں کے تحفظ کی وزارت پر نئے آنے والے وزیر محترم تھے۔ مجھے اپنی این جی او "آؤ سبق سکھائیں" کی نمائندگی کرنا تھی اور پیپر بھی پڑھنا تھا۔ دیو ہیکل امریکی قونصل جنرل اس تقریب کی صدارت کرنے والے تھے، لہاذا میرا وقت سے پہلے پہنچنا ازحد ضروری تھا!

فیکے کو ہزار دفعہ سمجھایا ہے کہ جوتے رات کو ہی پالش کرکے رکھا کرو، آٹھ سال کا پلا پلایا سانڈ بن چکا ہے لیکن کام کرتے ہوئے موت پڑتی ہے۔ جبکہ اس کی ماں روز آکر اس کی تنخواہ بڑھانے کا مطالبہ کرتی ہے۔ ان غریبوں نے بھی ناک میں دم کرکے رکھا ہوا ہے۔ ادھر بشیر بھی ہر روز گاڑی سٹارٹ کرنے سے پہلے دو ہزار ایڈوانس مانگنا نہیں بھولتا۔ اس کی ماں بیمار ہے تو اس میں میرا کیا قصور ہے؟ میں تو اسے تنخواہ وقت پر دیتا ہوں۔ میں نے کیا ساری دنیا کا ٹھیکا لیا ہوا ہے؟

آج گھر میں ایک نیا چہرہ دیکھ کر میں دل پکڑ کر رہ گیا۔ کل ماسی حنیفاں بیمار تھی اور چھٹی مانگ رہی تھی لیکن مسز جیلانی نے کہا کہ اگر چھٹی کی تو پھر پکی چھٹی کرادوں گی، شاید اسی لئے آج اس نے اپنی بیٹی کو کام پر بھیجا تھا۔ کیا مال ہے!! میں تو سوچ رہا ہوں کہ آئندہ حقوق نسواں والی واک میں اس کو "پھٹے پرانے" کپڑے پہنوا کر اس کی تصویر بنواؤں اور اس کا پوسٹر بنے گا تو بہہ جا بہہ جا ہو جائے گی۔ یہ لڑکی میرے بڑے بڑے پھنسے ہوئے کام نکلوا سکتی ہے۔ ماسی کو دس ہزار بھی دے دیا تو وہ خوش ہوجائے گی!

ڈھائی بجے سیمینار سے فارغ ہوکر گالف کلب گیا۔ کلب کے مینیجر نےفون کیا تھا کہ ایس اے فاروقی آئے ہوئے ہیں، پچھلے تین سیمینارز کے بل پھنسے ہوئے تھے۔ ایس اے فاروقی سے مل کر گزارش کی کہ حضور ۳۰ فیصد کافی سے زیادہ ہے، آدھا آپ کو دے دیں گے تو خود گنجی نہائے گی کیا اور نچوڑے گی کیا!

گرانٹ ملے بھی ایک مہینہ ہوگیاہے۔ پچھلی گرانٹ تو ساری ڈیفنس والے بنگلے کی انٹیرئیر ڈیکوریشن میں لگ گئی تھی۔ اب کیری لوگر بل سے میری بڑی امیدیں وابستہ ہیں۔سننے میں آیا ہے کہ یہ گرانٹ این جی اوز کے ذریعے خرچ ہوگی۔ بس وارے نیارے ہوجائیں گے۔ پتہ نہیں کون بے غیرت لوگ غیرت غیرت کا شور مچا کر ہمارا چھابہ الٹانے پر تلے ہوئے ہیں۔ ان پر اللہ کی مار ہو!

آج شام کو جلدی گھر واپس آگیا، مسز جیلانی ایک کاک ٹیل پارٹی پر جانے کی تیاری کررہی تھیں، انہوں نے مجھے ساتھ چلنے کے لئے نہیں کہا، میں بھی یہی چاہتا تھا۔

ماسی حنیفاں کی بیٹی ابھی واپس نہیں گئی تھی!!!!!

سپیمی سازش

عالم اسلام کے عظیم لکھاری (مابدولت) کے خلاف اگرچہ پہلے بھی یہود و ہنود بہت سی ناکام سازشیں کرکے منہ کی کھا چکے ہیں، لیکن میں "کھٹکتا ہوں دل یزداں میں کانٹے کی طرح"، لہاذا ان کی تازہ ترین سازش میری کردار کشی کی وہ کوشش ہے، جو وہ مجھے "بدنام زمانہ ادویات" خریدنے پر مائل کرکے، کر رہے ہیں۔

چند ایک تحاریر سے شاید ان دشمنان ملت نے یہ اندازہ لگایا ہے کہ مابدولت بھی رنگیلے (فلمسٹار نہیں!) واقع ہوئے ہیں! حاشا و کلا ایسی کوئی بات نہیں۔ نہ تو میری شکل رنگیلے سے ملتی ہے اور نہ ہی میری طبیعت رنگیلی ہے! مشروبات میں سادہ پانی میرا من بھاتا مشروب ہے۔ منورنجن کے نام پر میں صرف گانے سنتا ہوں، وہ بھی آئی ٹیونز پر۔ زندہ ناچ گانے کا نہ تو شوق ہے نہ اوقات! لیکن دل کا کیا کریں؟ اگر کسی پر آجائے تو کیا گھٹ گھٹ کے مرجائیں اور اظہار بھی نہ کریں، بقول رونا لیلی "مجبور ہیں اف اللہ! کچھ کہہ بھی نہیں سکتے" اور اگر کہہ ہی دیں تو ان بدخواہوں کے دل میں لڈو پھوٹنے لگتے ہیں کہ یہ بندہ تو "دو نمبر" ہے! لہاذا وہ مابدولت کو بدنام کرنے لئے ایسی ادویات بیچنے کی کوشش پچھلے دو ماہ سے کررہے ہیں جو یا تو ہوس پرست خریدیں گے یا "پوشیدہ" بیماریوں میں مبتلا افراد اور دونوں صورتوں میں ہماری ساکھ انتہائی مجروح ہونے کا اندیشہ حقیقی ہے!

پہلی صورت میں محبوبان خوش ادا ہم سے بدظن ہوسکتے ہیں اور دوسری صورت میں مایوس! یہ دونوں آپشن ہمیں قبول نہیں۔ فرض کریں اگر خدانخواستہ ایسی صورت حال پیدا ہو بھی جائے تو ہمارے تین چار ذاتی دوست ہیں جو حکمت میں درک رکھتے ہیں اور رازداری کی ضمانت بھی دیتے ہیں! طب یونانی میں ضمنی اثرات بھی نہ ہونے کےبرابر ہوتے ہیں جبکہ ہمارے ان سازشی دوستوں کی ادویات کے ضمنی اثرات اظہر من الشمس ہیں!

تو ہم آخری بار اپنے ان سازشی دوستوں کو خبردار کرتے ہیں کہ ہمیں تنگ کرنا بند کردیں ورنہ ۔۔۔۔۔ ہم ایسے ہی روزانہ اپنے ڈیش بورڈ پر آدھا گھنٹہ صرف کرکے ان کے تبصرے ڈیلٹتے رہیں گے!!!!

منیر نیازی ۔ دو پنجابی نظمیں

میری عادت


تھاہ لے کے ای واپس مڑیا جدّھر دا رخ کیتا میں

زہر سی یا اوہ امرت سی سب انت تے جاکے پیتا میں

مینوں جیہڑی دھن لگ جاندی فیر نہ اوس توں ہٹدا میں

راتاں وچ وی سفر اے مینوں دن وی ٹردیاں کٹدا میں

کدے نہ رک کے کنڈے کڈّھے زخم کدے نہ سیتا میں

کدے نہ پچھّے مڑ کے تکیا کوچ جدوں وی کیتا میں
چار چپ چیزاں

بربر جنگل دشت سمندر سوچاں وچ پہاڑ

جیہڑے شہر دے کول ایہہ ہوون اوس نوں دین بگاڑ

اندروں پاگل کردیندی اے ایہناں دی گرم ہواڑ

ایہناں دے نیڑے رہن لئی بڑی ہمت اے درکار

ایہناں دی چپ دی ہیبت دا کوئی جھل نہ سکدا بھار

انٹر نیٹ-عمرو عیار کی زنبیل

بچپن میں کہانیاں سننے کا زیادہ شوق نہیں تھا، البتہ پڑھنے کا بہت شوق تھا۔ آٹھ آنے والی کہانیاں بہت پڑھیں، جن میں شہزادی اور دیو والی کہانیوں کے علاوہ عمرو عیار کی کہانیاں بہت اچھی لگتی تھیں۔ دل چاہتا تھا کہ میرے پاس بھی کوئی ایسی زنبیل ہو جس میں‌ ہاتھ ڈال کر جو چاہوں نکال لوں! بچپن میں تو یہ خواہش پوری نہیں ہوئی، لیکن اب ہوچکی ہے، انٹر نیٹ کی صورت میں!
میرا پاکستان والے افضل صاحب نے ٹیگ کا سلسلہ شروع کیا تھا ایک دو دن پہلے، مجھے راشد کامران نے ٹیگ کیا ہے، لیجئے حاضر ہیں جوابات!
انٹرنیٹ پر آپ روزانہ کتنا وقت صرف کرتے ہیں؟
میرے کام کی نوعیت ایسی ہے کہ انٹرنیٹ پر تقریبا آٹھ سے نو گھنٹے صرف ہوجاتے ہیں۔
انٹرنیٹ آپ کے رہن سہن میں کیا تبدیلی لایا ہے؟
انگلش کے کسی لفظ پر پھنس جاتا تھا تو ڈکشنری پاس نہ ہونے کی صورت میں بال نوچنے کو جی چاہتا تھا۔
اخبار پڑھنے کی لت تھی۔ روزانہ پبلک لائبریری میں دو سے تین گھنٹے صرف کرتا تھا۔
میوزک کا شوق تھا (اب بھی ہے) جو فارغ وقت کے انتظار میں تشنہ رہتا تھا۔
فکشن کا رسیا تھا، خاص طور پر روسی ادباء کو پڑھنا چاہتا تھا، لیکن یہ پتہ نہیں تھا کہ ان کی کتابیں کہاں سے حاصل کروں؟
اب یہ سب اور اس کے علاوہ بھی بہت کچھ ایک جگہ پر بیٹھے ہوئے ہوسکتاہے۔ اس سے بڑی تبدیلی اور کیا ہوگی۔۔
کیا انٹرنیٹ نے آپ کی سوشل یا فیملی لائف کو متاثر کیا ہے اور کس طرح؟
فیملی لائف تو ملک چھوڑنے کے ساتھ ہی متاثر ہوگئی تھی، انٹرنیٹ کا اس میں‌کوئی قصور نہیں۔ سوشل لائف میں تو بہت بہتری آئی ہے۔ آن لائن کمیونٹی کی صورت میں اتنے اچھے اور پیارے لوگ ملے ہیں کہ بس کچھ نہ پوچھیں!
اس علت سے جان چھڑانے کی کبھی کوشش کی اور کیسے؟
میں اسے علت سمجھتا ہی نہیں‌ تو جان کیوں چھڑاؤں گا۔۔۔ ہیں جی۔۔۔ علت تو میری صرف ایک ہے، زبان پھسلنے کی، اس سے جان نہیں‌چھوٹتی!
کیا انٹرنیٹ آپ کی آؤٹ ڈور کھیلوں میں رکاوٹ بن چکا ہے؟
بالکل نہیں۔۔۔ میں معمول کے مطابق ورزش کرتا ہوں، انٹر نیٹ مجھے بالکل نہیں روکتا۔ ویسے بھی جی تقریبا نو گھنٹے مانیٹر کے سامنے گزارنے کے بعد میرا کمپیوٹر کی شکل دیکھنے کو دل ہی نہیں‌کرتا۔
اور میں ٹیگ کرتا ہوں اب
عمر احمد بنگش ، نازیہ، اسیداللہ، منیر عباسی اور ڈفر اعظم کو

اوبامہ کے نام ”بند“ خط

عالی مقام جناب السید بارک حسین اوبامہ مدظلہ العالی سلمہ

ہاؤڈی!

امید ہے آپ بخیر ہوں گے اور ہماری خیریت بارے منصوبے بنانے میں زوروشور سے مصروف ہوں گے! سب سے پہلے آپ کو "نوبل پیس پرائز" ملنے پر دل کی اونچائیوں سے مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ "پیسنے" میں جو مہارت آپ نے اپنے ابتدائی صدارتی ایام میں دکھائی ہے، وہ قابل صد تحسین ہے۔ اللہ کرے زور "پیس" اور زیادہ۔۔۔

آمدم برسر مطلب۔۔ اس نامے کا مقصد آپ کی توجہ ایک انتہائی اہم معاملے کی طرف مبذول کرانا ہے۔ جیسا کہ ساری دنیا جانتی ہے کہ اس ملک خداداد موسوم بہ پاکستان پر ہمیشہ سے عظیم ریاست ہائے متحدہ کی بالواسطہ حکومت رہی ہے جو وہ اپنے قابل اعتماد لوگوں کے ذریعے چلاتا رہا ہے۔ لیکن حضور والا! آپ کے لوگوں نے پاکستان کے عوام پر بہت ظلم ڈھائے ہیں اور ڈھا رہے ہیں۔ ہمیں یقین کامل ہے کہ اس ظلم کو آپ کی حمایت حاصل نہیں۔ اور وہ یہ کام آپ والا تبار سے بالا بالا ہی کرتے آرہے ہیں۔ آپ بھی چند "ناگزیر وجوہات" کی بناء پر ان سے چشم پوشی کا رویہ اختیار کرتے رہے ہیں جو قطعی طور پر قابل فہم ہے۔ لیکن حضور والا! اب پانی سر سے اونچا ہوتاجارہا ہے۔ ایسا نہ ہو میرے منہ میں خاک۔۔ کہ آپ کو اپنا بوریا بستر یہاں سے گول کرنا پڑجائے اور عظیم ریاست ہائے متحدہ "بڑے بے آبرو ہوکر ترے کوچے سے ہم نکلے" کی عملی تصویر بن جائے۔

اس صورتحال کے تدارک کے لئے خاکسار آپ کی خدمت میں ایک تجویز پیش کرنے کی جسارت کرتا ہے۔ تجویز یہ ہے کہ فورا سے پیشتر پاکستان کو ریاست ہائے متحدہ امریکہ کی ریاست قرار دے دیا جائے۔ اس طرح پاکستان کے عوام کو بھی وہی حقوق حاصل ہوجائیں گے جو امریکی آئین کے تحت آپ کو حاصل ہیں۔ اس چھوٹے سے قدم سے آپ اتنا لمبا فاصلہ طے کرسکتے ہیں جو پچھلے دس سال "دہشت گردی کے خلاف جنگ"، القاعدہ، طالبان، روشن خیال اعتدال پسندی، جمہوریت، این جی اوز، ریڈ وائن، بلیک واٹر وغیرہ سے بھی طے نہ ہو سکا تھا۔ امریکہ کا تاثر بھی مسلم دنیا خاص طور پر "اسلام کے قلعے" میں اتنا مثبت ہوجائے گا کہ آپ اس کا تصور بھی نہیں کر سکتے۔ ویسے بھی ہم جتنے مرضی نعرے آپ کے خلاف لگاتے رہیں، ویزہ ہمیں امریکہ کا ہی بھاتا ہے۔ اور اگر ویزے کی بجائے گھر بیٹھے گرین کارڈ ہی مل جائے تو اس قوم کی خوشی کا اندازہ لگانے کے لئے آپ کو آئن سٹائن ہونے کی ضرورت نہیں ! دہشت گردی کی جو فیکٹریاں آپ نے اپنے باوردی دوستوں کے تعاون سے قبائلی علاقوں میں لگائی تھیں، ان کی مصنوعات کا رخ بھی چین کی طرف موڑا جاسکے گا جس کی گستاخیوں کی وجہ سے آج کل آپ کی اشرافیہ کی نیند حرام اور ہاضمہ خراب ہورہا ہے!!!

مجھے امید ہے کہ آپ میری معروضات پر ہمدردانہ غور کرتے ہوئے فوری اقدام کریں گے اور اس فددی کو نئی ریاست کے گورنر کے عہدے کے لئے ڈیمو کریٹک پارٹی کا ٹکٹ بھی عنایت کریں گے۔

آپ کا نیاز مند

عشق وشق پیار ویار

میں بڑی مشکل میں پڑگیا ہوں!

سیانےکہتے تھےکہ " علموں بس کریں او یار'' تو ٹھیک ہی کہتے تھے!

عشق ومحبت کی اقسام اور ان کی خصوصیات، جب سے پڑھی ہیں تو میرے دل میں بھی بڑی خواہش اور تمنا پیدا ہوگئی ہے کہ میں بھی عشق کروں، محبت میں مبتلا ہوجاوں اور سیانے لوگوں نے محبت کی تعریفوں کے جو پل باندھے ہیں اور بے شمار صفحات، اس کوشش میں کالے کئے ہیں تو ذرامیں بھی اس کا مزا چکھوں!

پر شرط بڑی کڑی لگادی ہے جی کہ محبت کرنے کے لئے اپنا آپ خاک میں ملاو، اپنی انا کو محبوب کے سامنے سرنڈر کرو، اپنے آپ کی نفی کرو۔ اب میرے جیسا بندہ کہ جس کے پاس اپنی انا کے علاوہ کچھ ہے ہی نہیں، نہ علم ، نہ ایمان، نہ شعور، نہ وجدان، تو وہ کیسے اپنی ساری جمع پونجی اس جوئے میں لٹادے؟

دل کی بستی پر محبت کا بلڈوزر چلا کے پرانی بستی ڈھانی اور نئی بسانی بہت مشکل ہے۔ بستی کے پرانے مکین، غم روزگار کی عدالت سے حکم امتناعی لے آتے ہیں کہ جی یہ 420 منزلہ خود غرضی کی عمارت تو آپ بالکل نہیں گراسکتے۔اور اس کے متصل خواہشات کا ڈپارٹمنٹل سٹور بھی بہت ضروری ہے، اس کے بغیر تو کام چلتا ہی نہیں۔ اور انا کا مینار تو وہ ہے جی کہ اس کی آخری منزل پر کھڑے ہوکر بندے کو دوسرے آدم زاد کیڑے مکوڑے نظر آتے ہیں! اوروہ خود کو خدا کا نائب تو کیا خود ہی خدا سمجھنے لگتا ہے! بڑا ہنگامہ کھڑا ہوجائے گا جی دل میں تو۔ خانہ بدوشوں کی بستی کو بھی اگر حکومتی اہلکار گرانے آجائیں تو وہ مسکین بھی مزاحمت پر اتر آتے ہیں۔ لاٹھی چارج اور آنسو گیس استعمال کرنی پڑجاتی ہے جی بلکہ کبھی کبھار تو گولیاں بھی چل جاتی ہیں، تو دل کی بستی کے مکین تو بڑے ڈاہڈے ہوتے ہیں۔ یہ تو اتنی آسانی سے بستی چھوڑ کے جانے والے نہیں!

اور یہ دل کی بستی ہے بھی بڑی عجیب کہ ایثار و خلوص کی جھونپڑی بنتے تو زمانے لگ جاتے ہیں جبکہ خودغرضی اور کمینگی کے سکائی سکریپر لمحوں میں کھڑے ہوجاتے ہیں!

تودوستو!

میں تو بڑی مشکل میں پڑگیاہوں۔۔۔ کیا کروں؟

انعامی مقابلہ برائے حصول تصویر مابدولت!

ہمارے ایک بہت پیارے اور عبرت ناک حد تک سنجیدہ تصاویر کھنچوانے کے شوقین دوست نے کتاب چہرے پر ہماری ایک تصویر لگائی تھی، جسے ہم نے فساد خلق کے ڈر سے ہٹادیا۔ تس پر عوام کے ایک طبقے نے شدید غم و غصے کا اظہار کرتے ہوئے مجرم کو کیفر کردار تک پہنچانے کا پرزور مطالبہ کیا!

لہاذا اب ہم ایک انعامی مقابلے کا انعقاد کررہے ہیں۔ تصویر میں سے ہمیں پہچاننے والے کو ایک تازہ ترین (اگرچہ اب ہم باسی ہوچکے ہیں پھر بھی۔۔) تصویر بطور انعام برقی ڈاک کےذریعے بھیجی جائے گی۔ ایک سے زیادہ درست جوابات کی صورت میں قرعہ اندازی کی جائے گی۔ ججز کا فیصلہ حتمی تصور ہوگا۔ (کچھ چائے پانی ملنے کی صورت میں ججز اپنے فیصلے میں مناسب ترامیم بھی کرسکتے ہیں)۔

003

اس تصویر میں کرسیوں پر براجمان تھری مسکیٹیرز میں سے ایک میں ہوں، دوسرا وسیم انوار (جس سے رابطہ ہوئے مدت گزر چکی، خود پڑھ لے تو واپس آجائے، اسے کچھ نہیں کہا جائے گا) اور تیسرا غلام دستگیر ہے، جو کالج کے بعد بالکل ہی لاپتہ ہوگیا تھا۔ اس کے لئے بھی مضمون واحد ہے!

یہ تصویر، ہمارے سکول (لیبارٹری ہائی سکول، یونیورسٹی آف ایگریکلچر، فیصل آباد) کے سالانہ جلسے کی ہے جس میں ہم تینوں کوئز کوئز کھیل رہے ہیں۔ کمپئیر ہمارے بہت محترم استاد فضل محمد صاحب ہیں۔ پس منظر میں ایک صاحب سوٹ پہنے کھڑے ہیں۔ وہ رشید صاحب ہیں جو ہمیں بیالوجی پڑھانے کی کوشش کیا کرتے تھے! ان کے ایک واقعے کا شمار کلاسکس میں ہوتا ہے، جو، اگر کبھی موڈ بنا تو آپ کی نذر کیا جائے گا۔

عاصم بٹ / راجندر سنگھ بیدی

تب پہلی بار وہ مجھے محض ایک عام لڑکی نہ لگی، جیسا میں اسے سمجھتا آیا تھا۔ مجھے احساس ہوا کہ یہ یورپین بظاہر جتنے بے تکلف ہوتے ہیں اتنے ہی محتاط بھی، ایسے ہی کسی سے نہیں کھلتے۔ کسی سے اپنا دل کھولنا، ان کے لئے کسی کے ساتھ ہم بستری کرنے سے بھی زیادہ احتیاط برتنے کے لائق بات ہوتی ہے۔

(عاصم بٹ کی کہانی "بوڑھی راہبہ" سے اقتباس)

یہ بات نہیں کہ وہ سگھڑ سیانیوں کی طرح اپنا سارا کچھ ایک ہی دم نہ دے دینا چاہتی تھی، بلکہ کوئی بات تھی جو اُبٹنے، بندی، اخروٹ کی چھال اور رس بھریوں سے اوپر ہوتی ہے، جس کا تعلق عورت کی شکل و صورت سے نہیں ہوتا، نہ اس کی نسائیت جس کی انتہا ہے، جسے وہ دھیرے دھیرے سامنے لاتی ہے اور جب لاتی ہے، تب پتہ چلتا ہے، یہ بات تھی! جیسے اشٹم کا چاند اپنا آدھا چھپائے رہتا ہے، اور پھر آہستہ آہستہ، روز بہ روز، ایک ایک پردے؛ دُپٹے، چولی، انگیا، سب کو الگ ڈالتا جاتاہے اور آخر ایک دن، ایک رات، پورنیما کے روپ میں آکر کیسی بے خودی و مجبوری، کیسی ناداری و لاچاری کے ساتھ اپنا سب کچھ لٹا دیتا ہے۔ کیا علم النّساء علم النّجوم سے دور کی بات ہے؟ کوئی بھی علم دوسرے علم سے فاصلہ رکھتا ہے؟ جن لوگوں نے برسوں اور عادتا آسمانوں پر جھانکا، ستاروں کو دیکھا ہو، ان کی جھلمل کے ساتھ مرے، ہل مل کے ساتھ جیے ہوں، اماوس کے ساتھ مرجھائے، پونم کے ساتھ کھلے ہوں، وہی رجنی کی آنکھوں میں پلکوں کے نیچے زمینوں سے بڑی، آسمانوں سے بڑی، برق و مقناطیس کی وسعتوں میں جو راس رچائی جاتی ہے، جو بھنگڑے اور جھمر اور لڈّی ناچے جاتےہیں، ان کے راز سمجھتے ہیں ۔۔۔ وہی اشٹم کے چاند کا بھید بھی جانتے ہیں۔

(راجندر سنگھ بیدی کی کہانی "ایک چادر میلی سی" سے اقتباس)

فقیری ٹکڑے

بہت دن گزر گئے بلکہ عید بھی آکے چلی گئی لیکن کوئی ترکیب نہیں لکھی۔ ہمارے پرانے بادشاہ انگریز کہتے ہیں جی کہ کبھی بھی بہت دیر نہیں ہوتی، لہاذا پیش خدمت ہے "تازہ ترین" ترکیب!

شاہی ٹکڑے (یہ نام بہت کنفیوزانہ ہے، سننے پر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ کسی بادشاہ کو ٹکڑے کرکے اور ورق لگاکے پیش کیا جارہا ہو! ویسے اگر حالات نہ بدلے تو عن قریب شاہی ٹکڑے ایسے ہی تیار ہوا کریں گے!) تو آپ نے کھائے ہوں گے اور خوب لطف اندوز بھی ہوئے ہوں گے، آج آپ کی خدمت میں فقیری ٹکڑے پیش ہیں، تو اجزاء نوٹ کرلیں:

چار دن کی باسی روٹی کے ٹکڑے

پانی

نمک

مرچ

ترکیب بہت آسان ہے!

پیالہ، جگ یا گلاس (جو بھی میسر ہو) میں پانی ڈال کر نمک مرچ ملالیں اور باسی روٹی کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے کرکے اس میں بھگودیں۔ خیال رکھیں کہ ٹکڑے چھوٹے چھوٹے ہوں، ٹکڑے بڑے ہونے کی صورت میں ڈش کی لذت برقرار نہیں رہے گی!

باسی روٹی پر اگر پھپھوندی بھی لگی ہو تو یہ سونے پر سہاگہ والی بات ہے!

دوگھنٹے کے بعد یہ ڈش کھانے کے لئے تیار ہوجائے گی۔ اسے چکھیں! اگر اسے کھانے کے بعد آپ کو خدا یاد نہ آجائے تو پیسے واپس!

یہ ماحضر تناول کرنے کے بعد اپنے بادشاہوں کے "حق" میں "دعائے خیر" کرنا نہ بھولئے، جن کی مہربانیوں اور لطف و کرم کے صدقے ، ملک خداداد کے غیور عوام کی اکثریت ایسا "من و سلوی" دن رات کھا رہی ہے!

امرود

ہندی فلموں میں آپ نے اکثر ہیروئن کو ہوشربا ملبوسات میں توبہ شکن ڈانس کرتے تو دیکھا ہی ہوگا۔ جسے دیکھ کر آپ کا اوپر کا سانس نیچے اور نیچے کا اوپر رہ گیا ہوگا !!!
آپ یہ سوچنے میں خود کو حق بجانب محسوس کرتے گے کہ ہندوستان میں ایسی ناریاں عام چلتے پھرتے نظر آتی ہوں‌ گی تو ہندوستانیوں کی تو موجیں ہی موجیں ہیں!
بس یہیں آپ مار کھا گئے!
آپ کو کبھی پھیکے خربوزے، پلپلے امرود، سوکھے ہوئے مالٹے، اندر سے سفید تربوز کھانے کا اتفاق ہوا ہے؟
بس یہی حال ہندوستانی عورتوں کا ہے!!

مجبوری ہے!

دل تو بہت چاہتا ہے
پر لکھوں‌ گانہیں ۔۔۔
کہ نواز شریف ”اللہ کے فضل و کرم سے“ منہ میں‌گھنگھنیاں ڈال کے کیوں‌بیٹھے ہوئے ہیں؟ چینی سے لوڈشیڈنگ تک اور بلیک واٹر سے زی تک، سبھی کچھ تخم لنگاں کا شربت سمجھ کر نوش کئے جارہے ہیں۔ ہیں جی! روز نئی واسکٹ زیب تن کرکے کسی نہ کسی سفیر کے ساتھ ملاقات پھڑکانے کے علاوہ بھی سیاست میں بہت کام ہوتا ہے!
پیپلز پارٹی یک سالہ جشن صدارت پر بھنگڑے اور جھومر ڈال ڈال کر بے حال ہوئی جارہی ہے اور اسے اس بات کی کوئی پرواہ نہیں کہ عوام کا کیا حال ہے!
صدر مملکت اپنی مشہور زمانہ بتیسی اور تھکی ہوئی لائن ”جمہوریت بہترین انتقام ہے“ کے زور پر ہی پاکستان کو چلانے کی کوشش کررہے ہیں۔ جبکہ یہ جمہوری انتقام لیا بھی عوام سے ہی جارہا ہے ۔۔۔ ہور چوپو!
جناب وزیر اعظم جون جولائی میں بھی ڈیزائنر سوٹ زیب تن کرکے ”تاریخ“ رقم کرنے کے دعوے کررہے ہیں۔ شاید یہ رقم کمانے کی تاریخ ہو!
الطاف بھائی نے اپنی پٹاری سے اب قادیانی سانپ نکالا ہے اور چینلز پر اس کا تماشہ دکھا رہے ہیں! جبکہ ان کی بین کی آواز پر سانپ کی بجائے صاحبان جبہ و دستار مست ہوئے جارہے ہیں۔ ہمیں‌ہر جمعے قیامت اور قبر کے عذاب سے ڈرانے والوں کو خود مرنا یاد نہیں؟
یادش بخیر، ریٹارٹڈ کمانڈو، بادشاہ سلامت کے حضور “سب سے پہلے پاکستان کے لئے رحم کی درخواست کرتے ہوئے بالکل “بھاگ لگے رہن، دوارے وسدے رہن“ کی تصویر بنے بیٹھے ہیں! اگر آپ بھول چکے ہوں‌ تو یاد کرائے دیتا ہوں کہ یہ وہی عظیم شخصیت ہیں جو فرعون کے سگے برادر نسبتی کے لہجے میں ٹی وی پر تین تین گھنٹے ”مجے ڈر نئیں لگتا اے“ کی گردان کیا کرتے تھے!
اور پھر ”شباز ساب“ ہیں! جو دن رات کھجل ہوتے پھرتے ہیں، ون مین شو کا اتنا شوق بھی اچھا نہیں‌ہوتا! اپنی پروجیکشن کے چکر میں سارے سسٹم کا بیڑہ غرق بھی ہوجائے تو کوئی بات نہیں، اگلا الیکشن تو جیت جائیں‌گے ناں! وزیر اعلی کا کام سستے آٹے کی لائنیں سیدھی کروانا ہے یا ایک ایسا نظام تشکیل دینا ہے جو میرٹ اور انصاف کو یقینی بنائے!
اور پھر اپنے مشہور زمانہ ”جسٹس کہیں پہ نگاہیں کہیں پہ نشانہ“ ہیں۔ بحالی کے بعد مزے سے ٹھنڈے کورٹ روم میں بیٹھ کے عزت کا کلچہ کھا رہے ہیں۔ لاپتہ افراد کیس، پٹرول، چینی، این آر او، آٹا، بجلی، ۔۔۔۔۔۔۔ چپ کر جا۔۔۔ توہین عدالت میں اندر ہونا ہے۔۔۔
لکھنا تو اور بھی بہت کچھ چاہتا ہوں لیکن
مجبور ہوں‌کہ
میرے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں!!!

ہونے کی گواہی کے لئے ۔۔۔

ہونے کی گواہی کے لئے خاک بہت ہے
یا کچھ بھی نہیں ہونے کا ادراک بہت ہے
اک بھولی ہوئی بات ہے اک ٹوٹا ہوا خواب
ہم اہل محبت کو یہ املاک بہت ہے
کچھ دربدری راس بہت آئی ہے مجھ کو
کچھ خانہ خرابوں میں مری دھاک بہت ہے
پرواز کو پر کھول نہیں پاتا ہوں اپنے
اور دیکھنے میں وسعت افلاک بہت ہے
کیا اس سے ملاقات کا امکاں‌ بھی نہیں اب
کیوں ان دنوں میلی تری پوشاک بہت ہے
آنکھوں میں ہیں محفوظ ترے عشق کے لمحات
دریا کو خیال خس و خاشاک بہت ہے
نادم ہے بہت تو بھی جمال اپنے کئے پر
اور دیکھ لے وہ آنکھ بھی نمناک بہت ہے
(جمال احسانی)

چیخوف کی چیخیں اور پکوڑے

”ڈارلنگ! کیا بات ہے! آج تو بڑی خوبصورت لگ رہی ہو“۔ شوہر نے بیوی کے ملگجے لباس، الجھے ہوئے بالوں اور وحشت زدہ چہرے پر پیار بھری نظر ڈالتے ہو کہا۔
اس تعریف کا منبع، شوہر کی بیوی سے والہانہ محبت کی بجائے، فطری تقاضوں سے وہ محرومی تھی، جس کا وہ اکثر اپنی زوجہ کی مصروفیات، بقراطیات اور افلاطونیات کی وجہ سے شکار رہتا تھا۔
بیوی نے شوہر پر ایک نگاہ غلط انداز ڈالی اور یوں مخاطب ہوئی۔ ”کل رات میں روسو کی ”جنگ اور امن“ کا مطالعہ کررہی تھی۔ کیا تمہارے علم میں ہے کہ اس نے ”کساد بازاری اور ادب کے جدلیاتی عمل کی حسیت“ پر کتنا عمدہ لکھا ہے؟ چیخوف کی ”جنت گم گشتہ“ بھی اس کے سامنے پانی بھرتی نظر آتی ہے۔ والٹئیر نے ”بادشاہت کی مفصل تاریخ“ میں‌ اس چیز پر روشنی ڈالی ہے کہ انسان اور پکوڑے کس طرح جدلیاتی عمل اور داخلی حسیت کے ذریعے ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔ تب سے یہی سوچ رہی ہوں کہ شعوری رو، لاشعور کی طرف بہتے ہوئے اپنے ساتھ کیا کیا بہا کر لے جاتی ہے! کساد بازاری نے ادب کو جس طرح متاثر کیا ہے، عنقریب میری لکھی ہوئی کتاب کے اوراق کو لوگ پکوڑے لپیٹنے کے لئے استعمال کیا کریں گے“۔ یہ کہہ کر اس نے ٹھنڈی سانس بھری اور دوبارہ ضخیم ڈکشنری کے مطالعے میں غرق ہوگئی!
شوہر کے چہرے کے تاثرات چغلی کھا رہے تھے کہ وہ انتہائی سنجیدگی سے اپنے بال نوچنے کے آپشن پر غور کررہاہے! لیکن فی الوقت اس نے اس آپشن کو التوا میں ڈالا اور ایک کوشش اور کے مصداق تھوڑا سا کھسک کر اپنی بیوی کے ذرا اور پاس ہوگیا۔ بیوی اس سے بالکل بے خبر ڈکشنری میں گم تھی! شوہر نے اپنے لہجے میں 55 روپے کلو والی چینی کی تمام تر شیرینی سموتے ہوئے بیوی کے کان میں سرگوشی کی۔ ”جان! چلو آج کہیں باہر چلیں، کھانا کھائیں گے، انجوائے کریں گے، فلم دیکھیں گے“۔ تس پر بیوی نے غضب ناک ہوکر جواب دیا۔ ”تو کان میں پھونکیں مارنے کی کیا ضرورت ہے؟ سیدھی طرح منہ سے نہیں پھوٹ سکتے؟ دانت بھی صاف نہیں کرتے، کیسی مہک آرہی ہے منہ سے۔۔۔ اونہہہ۔۔۔۔“۔ شوہر کھسیانا سا ہوکر ہنسنے لگا۔ بیوی کے بالوں میں انگلیاں پھیرتے ہوئے اس نے ایک بار پھر اس کی توجہ حاصل کرنے کی کوشش کی لیکن بیوی نے جب اسے یہ کہا کہ ”ذرا سر کے بائیں جانب کھجاؤ، لگتا ہے جوئیں پڑ گئی ہیں!“
تو مجازی خدا کے تمام رومانی جذبات، اس پر تین حرف بھیج کر دفان ہوگئے!!!

مچلکہ برائے نیک چلنی

منکہ مسمی جعفر، حال مقیم حال دل، بقائمی ہوش وحواس اقرار کرتا ہوں کہ آئندہ کبھی کسی سیاسی موضوع پر لکھنے کا پاپ نہیں‌کروں گا۔ کبھی کسی پر تنقید نہیں‌ کروں گا۔ سب کی تعریف کروں گا۔ تمام نقطہ ہائے نظر کو درست مانوں گا چاہے ایک دوسرے کی ضد ہی کیوں نہ ہوں! بھٹو کو بھی شہید سمجھوں گا اور ضیاء الحق کو بھی۔ بے نظیر کو دختر مشرق اور نواز شریف کو قائد اعظم ثانی سمجھوں‌گا۔ پرویز مشرف کو پاکستان بچانے والا اور اسلام کا سپاہی سمجھوں گا۔الطاف حسین کو اپنے زمانے کا سب سے ذہین، راستباز، حق پرست اور بے باک لیڈر سمجھوں‌گا۔ منظور وٹو کو پاکستان کا سب سے دیانتدار شخص سمجھوں‌گا (اگر چہ صدرپاکستان اس اعزاز کے زیادہ مستحق ہیں لیکن وہ کچھ 14 سال قید کا چکر ہے، اس لئے ان کا نام نہیں لکھا)۔ بریگیڈئیر بلے کو نشان حیدر دینے کی پرزور سفارش کروں‌گا۔
اور بھی لوگ جو کہیں اور لکھیں‌گے، میں‌پیشگی ان سے متفق ہونے کا اعلان کرتا ہوں!
فدوی
جعفر

بارے کچھ ذکر سوئی اٹکنے کا

”بات 1992 کے آپریشن سے شروع ہوتی ہے“۔ یہ کہہ کر اس نے گہرا سانس لیا، پہلو بدلا اور یوں گویا ہوا۔ ” جدید انسانی تاریخ میں اس سے بڑا ظلم ، اس سے بڑی زیادتی کسی قوم نے کسی کے ساتھ نہیں کی ہوگی۔ قائد تحریک کے مطابق 15 ہزار افراد نے جام شہادت نوش کیا، لاکھوں افراد زخمی ہوئے، کروڑوں کو قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنی پڑیں، اربوں ۔۔ اوہو ۔۔۔ میرا مطلب ہے کہ لوگوں کی بہت بڑی تعداد کو روزگار سے محروم ہونا پڑا۔ مرے پر سودرّے کے مصداق، ہمیں غدار بھی ٹھہرایا گیا اور جناح‌پورکے نام سے نئی ریاست بنانے کا الزام لگایا گیا۔ اس سارے ظلم کا ذمہ دار کون تھا؟ نواز شریف! اس نے ہمیں دھوکہ دیا، اسی کے ہاتھ پر معصوموں کا خون ہے، وہی ہے جو ہزاروں عورتوں کے بیوہ ہونے اور بچوں کے یتیم ہونے کا سبب ہے۔ اگر قائد تحریک بروقت ایجنسیوں کے ارادے بھانپ کر فرار ۔۔ نہیں ۔۔ نہیں ۔۔ میرا مطلب ہے، ہجرت نہ کرجاتے تو ان کو شہید کردیا جاتا اور ان کا مزار عظیم احمد طارق کے پہلو میں بنایا جاتا“۔
یہاں تک پہنچتے پہنچتے اس کا سانس پھول چکا تھا۔ شدت جذبات سے اس کا رنگ قرمزی جھلک دینے لگا تھا۔ میں نے اپنے دوست کو پانی کا گلاس پیش کیا۔ پانی پی کر جب اس کے اوسان بحال ہوئے تو میں نے عرض کی۔ ”آپ کی باتیں دل پر اثر کرتی ہیں، ہولو کاسٹ کے بعد 1992 کا آپریشن انسانی تاریخ کا بدترین المیہ ہے۔ اس کے ذمہ داروں کو کڑی سے کڑی سزا دی جانی چاہئے۔ اگرچہ جانے والے واپس نہیں آیا کرتے، لیکن ان کے پسماندگان کو یہ سکون تو ہوگا کہ ان کے پیاروں پر ظلم کرنے والے کیفر کردار کو پہنچ گئے ہیں“۔ یہ کہہ کر میں نے پہلو بدلا، سگریٹ سلگایا، گہرا کش لے کر نتھنوں سے دھواں نکالتے ہوئے دوبارہ اپنی بات شروع کی۔ ”لیکن یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے۔ وہی قائد تحریک ہیں، وہی نواز شریف ہے، لیکن اب 1997 ہے! اب دونوں پھر شیروشکر ہوچکے ہیں۔ کیاصرف پانچ سالوں میں‌ہی قائد تحریک تاریخ کے اس سب سے سے بڑے ظلم پر بقول شجاعت حسین ”مٹی پاء“ چکے تھے؟؟؟ آگے چلتے ہیں! 1994 میں‌نصیر اللہ بابر کے دور میں‌جو کچھ ہوا، اس کے نوحے ابھی تک پڑھے جاتے ہیں۔ کراچی میں‌ باقاعدہ دو فوجوں کی جنگ ہوئی جس میں‌جنگی قیدیوں کے تبادلے بھی ہوئے۔ اللہ بخشے بے نظیر نے قائد تحریک کو چوہے کے لقب سے بھی نوازا۔ کیا صرف قبرستان میں فاتحہ پڑھنے سے سب گناہ معاف ہوجاتے ہیں؟ یا یہ کسی گرینڈ ماسٹر کی سکیم آف تھنگز ہے؟‌یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ کربلا کے مجرموں میں سے شمر تو ملعون ہو اور ابن زیاد، مفاہمت کے این آر او کے بعد دوست اور رحمۃ اللہ علیہ ہوجائے؟“
میرے دوست کا رنگ بدل گیا، اس کے چہرے پر غیظ و غضب کے آثار نظر آنے لگے۔ اس نے میز پر مکا مارا اور چلاتے ہوئے کہنے لگا۔ ”بات 1992 کے آپریشن سے شروع ہوتی ہے۔ جدید انسانی تاریخ میں اس سے بڑا ظلم ، اس سے بڑی زیادتی کسی قوم نے کسی کے ساتھ نہیں کی ہوگی۔ قائد تحریک کے مطابق 15 ہزار افراد نے جام شہادت نوش کیا، لاکھوں ۔۔۔۔

ٹیگو ٹیگ - (ہفتہء بلاگستان - 6)

. آپ کا نام یا نک؟ اگر اصل نام شیئر کرنا چاہیں تو کر سکتے ہیں۔
جعفر
2. آپ کے بلاگ کا ربط اور بلاگ کا نام یا عنوان؟ بلاگ کا عنوان رکھنے کی کوئی وجہ تسمیہ ہو تو وہ بھی شیئر کر سکتے ہیں۔
نام یہی ہے جہاں‌ آپ اسے پڑھ رہے ہیں اور ربط بھی یہی ہے۔ وجہ تسمیہ کا مطلب پتہ نہیں مجھے، تو جب تک مطلب پتہ نہ ہو تو کیسے جواب دے سکتا ہوں
3. آپ کا بلاگ کب شروع ہوا؟
اسی سال شاید فروری میں۔
4. آپ اپنے گھر سے کون سے ایک ، دو یا زائد لوگوں کو بلاگنگ کا مشورہ دیں گے یا دے چکے ہیں؟ ربط پلیز
اتنا بے وقوف نہیں ہوں میں۔
5. کوئی ایک ، تین یا پانچ یا زائد ایسے موضوعات جن پر لکھنے کی خواہش ہے مگر ابھی تک نہیں لکھ سکے یا آئندہ لکھنا چاہیں ؟
میں موضوعات پر لکھ ہی نہیں سکتا، یاویاں ہی مارسکتا ہوں لہذا ہر طرح کے موضوع پر لکھنے کی خواہش ہے جو پوری ہونا ممکن نہیں۔
6. آپ کا بلاگ اب تک کس کی بدولت فعال یا زندہ ہے ؟ آپ خود یا کوئی دوسرا نام ؟ (مؤخرالذکر کی صورت میں نام بھی لکھ دیں۔ اگر ربط دیا جا سکتا ہے تو ربط بھی)
قارئین کی وجہ سے۔
7. اپنے موبائل سے کم از کم کوئی ایک ، تین یا پانچ اچھے ایس ایم ایس شیئر کریں
پچھلے پانچ ایس ایم ایس نہایت ذاتی قسم کے ہیں، انہیں شئیر کرکے چھتر کھانے کا خطرہ مول نہیں لے سکتا!
8. آپ کی اردو زبان سے دلچسپی کس نام کے سبب سے ہے ؟ (استاد ؟ گھر کا کوئی فرد؟ یا کوئی دوسرا نام؟ یا کوئی الگ وجہ ؟)
مجبوری ہے، کسی اور زبان میں لکھ نہیں‌سکتا!
9. کیا آپ اردو بلاگ دنیا روزانہ وزٹ کرتے ہیں اور مختلف بلاگز کسی ترتیب سے وزٹ کرتے ہیں یا جو بھی بلاگ سامنے آ جائے؟ اپنا بلاگنگ روٹ شیئر کریں ۔
جی ہاں، سب سے پہلے اپنا بلاگ، ڈفر، عمر بنگش، خاور کھوکھر، راشد کامران، اردو سیارہ، وہاں سے پھر جو بھی نئی پوسٹ ہو۔
10. آپ کے بلاگ پر پہلے پانچ یا دس تبصرہ نگار کون سے تھے؟
عدیل، بلو بلا، ڈفر، تانیہ رحمان، شعیب سعید شوبی
11. ہفتہ بلاگستان یا اردو بلاگ دنیا سے مختلف تحریروں پر ہونے والے تبصروں میں سے چند دلچسپ یا مفید تبصرے شیئر کیجیے۔ ربط دینا نہ بھولیں ۔
یہ سوال بلاگنگ پر پی ایچ ڈی کروں گا تو ہی اس کا جواب لکھ سکتا ہوں۔ اتنی تحقیق ابھی کرنے کا وقت نہیں!
12۔ ہفتہ بلاگستان کے بعد اب ہم “یوم بلاگستان” منایا کریں گے آپ کے خیال میں “یوم بلاگستان” ہر ہفتہ میں ایک دن منایا جائے یا ہر ماہ میں ایک دن منایا جائے؟
جیسا آپ کا دل چاہے!
14. مختلف بلاگرز کو کوئی شعر یا جملہ انہیں ٹائٹل کے طور پر منسوب کریں۔
ڈفر: بنا کر فقیروں کا ہم بھیس غالب
خاور: لوک دانش
راشد کامران: ادیب
میرا پاکستان: سیاستدان (اچھے معنوں میں!)
عمر بنگش: یاراں دا یار
آپی: آپا وڈی
بدتمیز: انتہائی میسنا!
خرم بھٹی: دانشور
اسماء: یکے والی
انیقہ ناز: بھیجہ فرائی
14۔ ہفتہ بلاگستان اور بلاگ دنیا میں شامل تحریریں جو آپ کو پسند آئی ہوں؟
راشد کامران کی تمام تحاریر، ڈفر کی اکثر تحاریر، خاور کھوکھر کی تمام تحاریر مگر خاص طور پر ”پیجا حرام دا“، عمر بنگش کی چوٹی پرت۔ اور بھی بہت سی جو ابھی ذہن میں‌نہیں۔
15۔. کن بلاگرز کو آپ کے خیال میں باقاعدگی سے لکھنا چاہیے ؟
مجھے!
16. بلاگ دنیا میں آپ اپنا کردار کس انداز میں ادا کرنا چاہتے ہیں یا کر رہے ہیں؟
میرا کردار تو سائیڈئیے کا ہے جو میں بخوبی ادا کررہا ہوں۔
17۔ ہفتہ بلاگستان کے بارے میں آپ کے تاثرات
زبردست
اب میں ٹیگ کرتا ہوں
راشد کامران
عمر بنگش
خاور کھوکھر
غفران
آپی

کھلا خط بنام سہراب مرزا - (ہفتہء بلاگستان - 5)

عزیزی!
بمشکل پہلے اندوہناک سانحہ سے جاں بر ہوا ہی تھا کہ آپ کی تصویر دیکھ لی!
واللہ اگر آپ میری دسترس میں‌ ہوتے تو آپ کا وہ ”حالاں“ کرتا کہ آپ کی ”چیکاں“ نکل جاتیں! اس طرح کی صحت پر آپ نے جتنی بڑی چوٹی سر کرنے کی ٹھانی ہے اس پر آپ کو کالے پانی کی سزا دی جانی چاہئے! اور آپ کے والدین کی سمجھداری کی بھی داد دینے کو جی چاہتا ہے کہ جانتے بوجھتے (شاید) اکلوتے بیٹے کو موت کے منہ میں‌ دھکیل رہے ہیں۔
آپ کی صحت سے لگتا ہے کہ آپ آج تک اپنی بیکری سے صرف بند ہی کھاتے رہے ہیں۔ بندے کو کبھی کھلا بھی کھا لینا چاہئے!
آپ کے نام پر بھی یہاں لوگوں کو بہت اعتراض ہیں اور وہ آپ کا نام لے کر معنی خیز انداز میں ہنستے رہتے ہیں۔ ہنسنے کی وجہ دریافت کرنے پر سہراب سائیکل فیکٹری شاہدرہ لاہور کا حوالہ دے کر دوبارہ واہیات انداز میں قہقہے لگانے لگتے ہیں! مجھے سمجھ تو نہیں آئی لیکن یقینا کوئی بےہودہ بات ہوگی!
سب سے اہم بات یہ ہے کہ شادی کے بعد (اگر ہوئی تو) آپ کی زوجہ کیک، پیسٹریاں اور کریم رول وغیرہ کھا کھا کر وزن اور حجم میں ہیبت ناک اضافہ کرسکتی ہیں، جس سے آپ کا دل تو کھٹا ہوگا ہی، میرے جیسے عشّاق کا دل بھی کرچی کرچی ہوجائے گا!
آخر میں آپ سے دردمندانہ اپیل ہے کہ اپنی نہ ہونے کے برابر جوانی پر ترس کھائیں اور اس کام میں‌ ہاتھ نہ ڈالیں جس میں شرمندگی کے علاوہ جان جانے کا بھی خدشہ ہو!
فدوی
آپ کی ہونے والی زوجہ کا عاشق زار
(چاہیں تو اس فقرے پر بھی غیرت کھا سکتے ہیں آپ!)

اصلی والی ترکیب - (ہفتہء بلاگستان - 4)

میں تمام احباب سے ان کی مایوسی پر پیشگی معافی چاہتا ہوں!
یہ ایک واقعی کھانے کی ترکیب ہے جس کی ایجاد کا سہرا ضرورت اور مجبوری کے سر جاتاہے۔ خاور صاحب نے بھی ایک ”چھڑا سٹائل“ فٹافٹ کھانے کی ترکیب لکھی ہے جو مجھے بہت پسند آئی ہے لہذا آج شام وہ ڈش بنے ہی بنے!
بہرحال کھانے کی جو ترکیب میں آپ کو بتانے جارہاہوں یہ بالکل میرے بھیجے کی پیداوار ہے۔ لہذا پکانے سے پہلے یقین کرلیں کہ آپ واقعی یہ کام کرنا چاہتے ہیں!
اس کے اجزاء میں ایک پیاز، ایک ٹماٹر، چند سبز مرچیں، تھوڑی سی بند گوبھی، دو درمیانے سائز کے آلو، تھوڑے سے مٹر، دو گاجریں، ایک شملہ مرچ، چھ انڈے، نمک، کالی مرچ، کوکنگ آئل اور سویا ساس شامل ہیں۔
ساری سبزیاں باریک باریک کاٹ لیں۔ آلو ایسے کاٹیں‌جیسے چپس بنانے کے لئے کاٹے جاتے ہیں۔ سبزیاں ایک پتیلی میں ڈال کر ساتھ ہی کوکنگ آئل ملادیں اور پتیلی پر ڈھکن دے کر ہلکی آنچ پر پکنے دیں۔ سبزیاں گلنے پر نمک، کالی مرچ اور سویا ساس حسب ذائقہ ملادیں۔ ساتھ ہی انڈے بھی ملادیں۔ انڈے ملانے کے بعد زیادہ چمچ نہ چلائیں۔ جب سفیدی اور زردی دونوں پک جائیں تو آپ کی ڈش تیار ہے۔
اس ڈش کو آپ چاول، روٹی یا میکرونی کے ساتھ کھا سکتے ہیں۔
اگر مزیدار ہو تو یہ میرا کمال ہے اور نہ ہو تو آپ کا قصور!
دوستوں نے مختلف بلاگز پر میری تراکیب کے بارے میں جو حسن ظن ظاہر کیا، میں اس پر ان کا مشکور ہوں۔ بلکہ چند دوستوں نے تو اسی انداز میں چند تراکیب لکھ بھی ڈالیں ہیں، اس پر میں یہی کہہ سکتا ہوں کہ
میں ہوا کافر تو وہ کافر مسلماں ہوگیا!!!

بلاگ شلاگ - (ہفتہء بلاگستان - 3)

اردو بلاگنگ سے میرا تعارف ایک اتفاق تھا۔ یہ اتفاق حسین و رنگین تھا یا غمگین و سنگین، اس کا اندازہ آپ خود لگائیں!
گوگل پر کچھ تلاشتے ہوئے نظر ڈفرستان کے نام پر پڑی تو میں چونکا کہ ہیںںںں۔۔۔ یہ کیا؟ وہاں پہنچا تو پہلے تو سمجھنے میں‌ کچھ وقت لگا کہ یہ ہو کیا رہا ہے۔ تحریر مزیدار لگی۔ عنوان پر کلک کیا تو تبصروں پر نظر پڑی، ان کو پڑھتے ہوئے آخر تک پہنچا تو ایک دھچکا نما خوشی ہوئی کہ میں بھی اس تحریر پر اپنا لچ تل سکتا ہوں۔ اپنا کچھ لکھا ہوا، شائع ہوا دیکھ کر کتنی خوشی ہوتی ہے، پہلی دفعہ علم ہوا!
باقی بلاگروں کا علم بھی وہیں سے ہوا۔ بس پھر چل سو چل۔ ڈفر نے ہی شاید کسی تبصرے کے جواب میں مجھے بلاگ بنانے کی ”اشکل“ دی تھی۔ یہاں پر آکر پاک نیٹ والے عبدالقدوس اس کہانی میں داخل ہوتے ہیں۔ ورڈپریس ڈاٹ پی کے، کے بلاگ پر ”اپنا بلاگ حاصل کریں“ لکھا دیکھا اور بس پھر اللہ دے اور بندہ لے۔
شروع میں میرا خیال تھا کہ شاید یہ سلسلہ زیادہ دیر نہ چل سکے کہ میں‌نے زندہ رہنے کے سوا مستقل مزاجی سےکوئی کام نہیں‌کیا۔ بقول منیر نیازی ”جس شہر میں بھی رہنا، اکتائے ہوئے رہنا“ لیکن اس شہر میں‌ دل ابھی تک لگا ہوا ہے! اس کی وجہ شہر کے رنگ برنگے مکین ہیں، جو آپ کو تپا تو سکتے ہیں لیکن آپ ان سے اکتا نہیں سکتے!
میری بچپن سے منڈلی جمانے کی عادت تھی۔ ملک چھوڑا تو منڈلیاں بھی وہیں‌ رہ گئیں۔ ملک سے باہر، غم روزگار سے ہی فرصت نہیں ملتی، کہ بندہ، غم جاناں کا کچھ بندوبست کرسکے۔ میری یہ کمی بلاگستان نے پوری کردی۔ یہاں آپ جیسی منڈلی چاہیں، جما سکتے ہیں۔ آئنسٹائن کے نظریہ اضافیت کی منڈلی سے استاد مام دین گجراتی کے مشاعرے تک جہاں آپ کا دل چاہے ٹھہر جائیں اور جب آپ کا دل چاہے نو دو گیارہ ہوجائیں۔
میرا بلاگنگ میں آنا کسی عظیم مقصد، نصب العین اور ایسے ہی دوسرے بھاری بھرکم الفاظ جو مجھے اس وقت یاد نہیں آرہے، کی وجہ سے نہیں ہوا۔ اس کی وجہ صرف اپنے ”ساڑ“ نکالنا تھا، جو اگر بندے کے اندر رہیں تو اسے اندر سے ”ساڑ“ دیتے ہیں، اور اندر سے سڑا ہوا بندہ، نہایت خطرناک ہوتاہے! تو آپ کہہ سکتے ہیں کہ میں نے معاشرے کو ایک خطرناک بندے سے پاک کردیا ہے اور یہ بھی کوئی ایسا برا مقصد نہیں!
آخر میں میری دعا ہے کہ اللہ کسی اور بلاگر کو مشہور کرے نہ کرے
مجھے ضرور کردے
مجھے مشہور ہونے کا بہت شوق ہے!

نظام تعلیم - دے دھنا دھن (ہفتہء بلاگستان -2)

تعلیمی نظام کی بات ہوتے ہی، دانشوروں کے منہ سے جھاگ بہنے لگتے ہیں، جذبات کی شدت سے ان کے قلم اور زبان سے شعلے نکلنے لگتے ہیں اور وہ اپنی دانشوری کی پٹاری سے قسم قسم کے سانپ برآمد کرکے تماشا شروع کردیتے ہیں۔ جونہی بحث ختم ہوتی ہے اور لذت کام و دہن المعروف کھابوں کا آغاز ہوتا ہے، یہ دانشور سب کچھ بھول بھال کر سموسوں اور شامی کبابوں کا تیاپانچہ کرنے لگتے ہیں! خیر یہ تو ایک جملہ معترضہ قسم کی بات تھی جو دانشوروں سے میرے قدیمی حسد کا نتیجہ ہے۔ آمدم برسر مطلب۔۔۔
پاکستان کے نظام تعلیم میں چند بنیادی خرابیاں ہیں۔ ذیل کی سطور میں ان خرابیوں اور ان کے حل پر بات کی جائے گی۔
سب سے بڑا ظلم یہ ہے کہ اس ملک میں‌ عام آدمی کو ابھی تک کسی نہ کسی شکل میں تعلیم، چاہے ناقص ہی کیوں نہ ہو، میسر ہے۔ پچھلے باسٹھ سالوں سے یہ اتیاچار اس ملک کی اشرافیہ پر کیاجارہا ہے۔ یہ کمی کمین لوگ چار جماعتیں پڑھ کر اپنے انہی ان داتاؤں کے خلاف زبان طعن دراز کرنے لگتےہیں‌۔ جو کہ نہایت شرم اور رنج کا مقام ہے۔
سرکاری سکولوں میں ابھی تک اساتذہ کے نام پر ایسے دھبے موجود ہیں جو تعلیم کو مشن سمجھ کر پھیلا رہے ہیں۔ حالانکہ تعلیم ایک کاروبار ہے اور اسے اسی طرح چلایا جانا چاہئے۔
اسی نیچ طبقے کے لوگ کچھ الٹا سیدھا پڑھ کر قانون کی حکمرانی، آئین اور دستور کی بالادستی، عوام کا حق حکمرانی (؟) قسم کی اوٹ پٹانگ باتیں بھی کرتے ہیں جو ہمارے جاگیردار، صنعتکار، خاکی و سادی افسر شاہی جیسی آسمانی اور دھلی دھلائی مخلوق کی طبع نازک پر بہت گراں گزرتی ہیں اور ان کے بلند فشار خون کا سبب بھی بنتی ہیں!
ان مسائل کے حل کے کے لئے سب سے پہلے تو بلا کسی ہچکچاہٹ کے تعلیم حاصل کرنےکا حق صرف اشرافیہ کی اولاد کے لئے مخصوص کرنا چاہئے۔ عوام کے تعلیم حاصل کرنے کو سنگین غداری کے زمرے میں لانا چاہئے اور اس پر سخت ترین سزا ہونی چاہئے!
ایچی سن، لارنس، کیڈٹ کالجز اور ایسے ہی دوسرے تعلیمی اداروں کو پورے سال کاتعلیمی بجٹ دینا چاہئے۔ تاکہ ہماری اگلی حکمران نسل پوری تسلی اور اطمینان سے تعلیم حاصل کرسکے۔ یہ گندے مندے سرکاری سکول بند کرکے اس سے حاصل ہونے والی رقم سے مندرجہ بالا اداروں کے تمام طالبعلموں کو نئے ماڈل کی گاڑیاں، ڈیزائنرز آؤٹ فٹس، رے بان کے چشمے، فرانس کے پرفیومز وغیرہ وغیرہ سرکاری خرچے پر فراہم کرنے چاہئیں۔ تمام سرکاری کالجز اور جامعات کو بھی بند کرکے ان سے حاصل ہونے والی رقم سے اسی آسمانی مخلوق کو سال کے چھ مہینے یورپ، ”تھائی لینڈ“، امریکہ وغیرہ تعطیلات پر بھیجنا چاہئے۔ تاکہ ان کا ”وژن“ وسیع ہوسکے۔
نچلے متوسط طبقے کے منتخب بچوں کو بھی تعلیم حاصل کرنے کی اجازت دی جانی چاہئے تاکہ کلرکی شلرکی کا کام بھی چلتا رہے۔ ماتحتوں کے بغیر بھلا افسری کا کیا خاک مزا آئے گا! اس کے لئے پورے ملک میں‌ دس بارہ تعلیمی ادارے کافی ہیں۔
جو عوام اس تعلیمی انقلاب کے نتیجے میں سکولوں اور کالجوں سے فارغ ہو، اس کو نازی کیمپس کی طرز پر کیمپوں میں‌ رکھا جائے اور ان سے بیگار کیمپ کی طرز پر سڑکیں، پل اور ڈیفنس ہاوزنگ اتھارٹیز کی آبادیاں بنانے کا کام لیا جائے۔ ان کو کھانے کو اتنی ہی خوراک دی جائے کہ تیس پینتیس سال سے زیادہ نہ جی سکیں۔ اس سے ایک تو آبادی کا بوجھ کم ہوگا اور دوسرا ملک میں ترقی اور خوشحالی کا ایک نیا دور شروع ہوگا!
امید ہے کہ ان اصلاحات سے وہ مقاصد ایک ہی جست میں حاصل ہوسکیں گے جو ہماری اشرافیہ سلو پوائزننگ کی صورت میں حاصل کرنے کی کوشش پچھلے باسٹھ سالوں سے‌ کررہی ہے!

ایک دلدوز واقعہ - ہفتہء بلاگستان

یہ قصہ ہے چھٹی جماعت کا۔ جب ہم بزعم خود پرائمری کے بچپن سے نکل کر مڈل کی جوانی میں تازہ تازہ وارد ہوئے تھے۔ چھٹی کے داخلہ ٹیسٹ میں اول آنے کے جرم میں ہمیں اپنی جماعت کا مانیٹر بھی بنادیا گیا تھا۔ حالانکہ یہ ”بندر کے ہاتھ استرے“ والی بات تھی۔ اگر آپ میں سے کوئی سکول میں مانیٹر رہا ہو تو اسے علم ہوگا کہ اقتدار کتنی نشہ آور چیز ہے!
یہ مئی کے اواخر کا واقعہ ہے۔ تیسرا اور چوتھا پیریڈ عباس صاحب کا ہوتا تھا جو ہمیں سائنس اور معاشرتی علوم سکھانے کی کوشش کیا کرتے تھے۔ اس دن وہ چھٹی پر تھے، ان کی جگہ جو استاد پیریڈ لینے کے لئے آئے تھے وہ پانچ منٹ کے بعد ہی کلاس کو مانیٹر کے حوالے کرکے ”ضروری“ کام سے چلے گئے۔ اب میں تھا اور میری رعایا۔ اسی اثناء میں ساتویں کلاس کا ایک لڑکا ہماری جماعت میں داخل ہوا اور مجھ سے پوچھا، ”عباس صاحب کہاں‌ہیں؟“ ۔ زبان پھسلنے کی بیماری مجھے بچپن سے ہی ہے۔ میرا جواب تھا ”عباس صاحب آج ”پھُٹ“ گئے ہیں“۔ بس جی اس کمینے نے اگلے دن یہی ”بےضرر“ سی بات ان کو نمک مرچ اور نمبو لگا کے بتادی۔ اگلے دن تیسرے پیریڈ کے شروع ہوتے ہی انہوں نے اپنی مخصوص روبوٹ جیسی آواز میں کہا۔ ”موونییٹرررر کہاںںں ہےےے؟“۔ میں ان کی کرسی کے دائیں جانب جا کر کھڑا ہوگیا۔ اس میں بھی ایک مصلحت تھی۔ وہ یہ کہ انکے سیدھے ہاتھ کا انگوٹھا اور شہادت کی انگلی کسی نامعلوم وجہ سے بہت موٹی تھیں۔ لہذا جب وہ سیدھے ہاتھ سے کان مروڑتے تھے تو اتنا درد نہیں ہوتا تھا۔ لیکن جناب، انہوں نے اس دن کان نہیں‌مروڑے بلکہ مجھے پورا ڈیڑھ گھنٹہ تقریبا پچاس ڈگری سینٹی گریڈ میں اصیل ککڑ بنائے رکھا۔ چوتھا پیریڈ ختم ہونے پر جب میں ککڑ سے انسان کی جون میں‌واپس آیا تو کھڑا ہونے کی کوشش میں گرگیا اور اگلے دو پیریڈ بے ہوشی کے مزے لوٹے۔
اگلے تین سال وہی شکایتی ٹٹو مجھے ”عباس صاحب ”پھُٹ“ گئے “ کہہ کر چھیڑتا رہا۔ وہ تو جب میں نویں میں پہنچا اور ہتھ چھٹ ہوا اور ایک فرزبی کے میچ میں اس کی پھینٹی لگائی تو پھر اس نے میری ”عزت“ کرنی شروع کی!

عشق مجازی / عشق حقیقی

(اسد علی کی نذر)


ارشاد:کہاں سے سنی ہے محبت کی تعریف؟



سراج : ‌ہر ایک جگہ سے سنی ہے سرکار۔ مسجد سے، مندر سے، ریڈیو ٹی وی سے، سٹیج سے، جلسے جلوس سے لیکن دکھائی نہیں دیتی ۔۔۔ پکڑائی نہیں دیتی۔۔۔ ہوتی نہیں‌حضور۔

ارشاد:محبت وہ شخص کرسکتاہے سراج صاحب جو اندر سے خوش ہو، مطمئن ہو اور پُرباش ہو۔ محبت کوئی سہ رنگا پوسٹر نہیں کہ کمرے میں‌لگالیا۔۔۔ سونے کاتمغہ نہیں کہ سینے پر سجا لیا ۔۔۔ پگڑی نہیں کہ خوب کلف لگا کر باندھ لی اور بازار میں آگئے طرہ چھوڑ کر۔ محبت تو آپ کی روح ہے۔۔۔۔ آپ کے اندر کا اندر ۔۔۔ آپ کی جان کی جان ۔۔۔

سراج :بس اسی جان کی جان کو دیکھنے کی آرزو رہ گئی ہے حضور! آخری آرزو!!

ارشاد : لیکن محبت کا دروازہ تو صرف ان لوگوں پر کھلتا ہے سراج صاحب جو اپنی انا اور اپنی ایگو سے اور اپنے نفس سے منہ موڑ لیتے ہیں۔ ہم لوگ تو محض افراد ہیں، اپنی اپنی انا کے کھونٹے سے بندھے ہوئے۔ ہمارا کوئی گھر بار نہیں ۔۔۔ کوئی آگا پیچھا نہیں ۔۔۔ کوئی رشتہ نہیں ۔۔۔ کوئی تعلق نہیں۔ ہم بے تعلق اور نارشتہ دار سے لوگ ہیں۔

سراج :بے تعلق لوگ ہیں حضور ؟

ارشاد:اس وقت اس دنیا کا سب سے بڑا مرض اور سب سے بڑی Recession محبت کی کمی ہے ۔۔۔۔ اور آج دنیا کا ہر شخص اپنی اپنی پرائیویٹ دوزخ میں جل رہا ہے اور چیخیں ماررہا ہے ۔۔۔۔ اور ورلڈ بینک، آئی ایم ایف اور دنیا کی حکومتیں اس روحانی کساد بازاری کو اقتصادی مندے سے وابستہ کررہی ہیں۔

سراج :(اصل موضوع نہ سمجھ کر ۔۔۔ ذرا رک، ڈر کر، شرما کر) ویسے سر، محبت گو مشکل سہی لیکن اپنا یہ ۔۔۔ عشق مجازی تو آسان ہے۔

ارشاد :‌عشق مجازی بھی اسی بڑے پیڑ کی ایک شاخ ہے سراج صاحب! یہ بھی کچھ ایسا آسان نہیں۔

سراج:آسان نہیں‌جی؟

ارشاد :دیکھئے! اپنی انا اور اپنے نفس کو کسی ایک شخص کے سامنے پامال کردینے کا نام عشق مجازی ہے اور اپنی انا اور اپنے نفس کو سب کے آگے پامال کردینے کا نام عشق حقیقی ہے۔ معاملہ انا کی پامالی کا ہے ہر حال میں!

بابا جی اشفاق احمد کی تحریر ”منچلے کا سودا“ سے ایک اقتباس

ایسے ہوتی ہے گائیکی!

حیراں ہو دل کو روؤں کہ پیٹوں جگر کو میں
استاد جنرل (ریٹائرڈ) پرویز مشرف کمانڈو خاں صاب
یہاں دیکھئے اور سر دھنیئے

مُنّا سلانے کے آسان طریقے

ہمارے ایک دوست نے لوڈ شیڈنگ کے نقصانات پر روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا ہے کہ اب کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ ”اوپر پنکھا چلتا ہے ۔۔۔ نیچے مُنّا سوتا ہے“۔
ان کی اس فکرمندی پر یار لوگوں نے کتاب چہرہ پر اپنے اپنے لچ تلے ہیں۔ آخر میں بات مُنّے کو سلانے کے طریقوں تک آپہنچی ہے۔ تو حاضر ہیں‌ مُنّا سلانے کے آسان طریقے۔
مُنّے کو سارا دن جگائے رکھیں۔ سونا بھی چاہے تو زبردستی اٹھادیں۔ بجلی موجود بھی ہو تو مین سوئچ آف کردیں تاکہ مُنّا کسی بھی طرح سو نہ سکے۔ اسکا نتیجہ یہ نکلے گاکہ مُنّا شام ڈھلتے ہی سونے کے بہانے ڈھونڈتا پھرے گا۔ نو بجے تک کسی بھی طرح اسے جگائے رکھیں۔ اس کے لئے آئس کریم، کارٹون، ٹافیاں وغیرہ آپ کے بہترین معاون ثابت ہوسکتے ہیں۔ دس بجے تک یقیناً مُنّے کے حالات نہایت نازک ہوچکے ہوں گے۔ بس یہی وقت ہے اسے سلانے کا۔ اب جب مُنّا سوئے گا تو صبح کی خبر ہی لائے گا۔ چاہے پنکھا چلے یا نہ چلے، مُنّا نہیں‌ اٹھے گا۔ اب آپ اپنے تمام ”ضروری کام“ سہولت اور آسانی سے نمٹا سکتے ہیں!
دوسراطریقہ کچھ ظالمانہ ہے! مُنّے کے سونے کا وقت تو پتہ ہی ہوگا آپ کو۔ تو اس کے سونے سے 15 منٹ پہلے مُنّے کی بلاوجہ ایک پھینٹی لگائیں اور مُنّے کو اس کی اماں کے حوالے کردیں۔ رونے کے بعد بندہ ہو یا مُنّا اس کو نیند بہت گہری آتی ہے! اس کا ثبوت؟؟؟ اس کا ثبوت یہ شعر ہے۔
کل اچانک یاد وہ آیا، تو میں رویا بہت
روتے روتے سوگیا میں، اور پھر سویا بہت
مُنّے کے سونے کے بعد تو آپ کو پتہ ہی ہے کہ کیا کرنا ہے! اور اس شعر میں آپ، یاد، کی جگہ اپنی مرضی کا کوئی بھی ”موزوں“ لفظ استعمال کرسکتے ہیں۔
یہ والا طریقہ ”اشد ضرورت“ کے تحت ہی استعمال کریں۔ اس کا باقاعدہ استعمال آپ کے مُنّے کو بڑا ہو کر پائلٹ کی بجائے جہاز کے درجے پر بھی فائز کرسکتا ہے۔ تھوڑی سی افیم مُنّے کے فیڈر میں ملادیں۔ بس پھر اس کے بعد آپ آزاد ہیں!
”اشد ضرورت“ والا انتباہ یاد رکھیں!
یہ طریقے آزمانے کے بعد بھی اگر افاقہ نہ ہو تو جوابی ڈاک سے مطلع کریں۔
کچھ اور نسخے بھی ہیں لیکن ان کے لئے آپ کو اپنی جیب ڈھیلی کرنی پڑے گی۔

درج بالا تحریر کو خاندانی منصوبہ بندی والوں اور مُنّوں کی پہنچ سے دور رکھیں۔
طبیعت زیادہ ”خراب“ ہو تو تیسرا نسخہ استعمال کریں۔

آٹو گراف

کھلاڑیوں کے خود نوشت دستخط کے واسطے
کتابچے لئے ہوئے
کھڑی ہیں‌ منتظر حسین لڑکیاں
ڈھلکتے آنچلوں سے بےخبر حسین لڑکیاں

مہیب پھاٹکوں کے ڈولتے کواڑ چیخ اٹھے
ابل پڑے الجھتے بازوؤں چٹختی پسلیوں کے
پُر ہراس قافلے
گرے، بڑھے، مڑے بھنور ہجوم کے

کھڑی ہیں‌یہ بھی راستے پہ اک طرف
بیاضِ آرزو بکف
نظر نظر میں نارسا پرستشوں کی داستاں
لرز رہا ہے دم بہ دم
کمان ابرواں کا خم
کوئی جب ایک نازِ بے نیاز سے
کتابچوں پہ کھینچتا چلا گیا
حروفِ کج تراش کی لکیر سی
تو تھم گئیں لبوں پہ مسکراہٹیں شریر سی
کسی عظیم شخصیت کی تمکنت
حنائی انگلیوں میں کانپتے ورق پہ جھک گئی
تو زرنگار پلوؤں سے جھانکتی کلائیوں کی تیز
نبض رک گئی!
وہ باؤلر ایک مہ وشوں کی جمگھٹوں میں گھر
گیا
وہ صفحہء بیاض پر بصد غرور کلکِ گوہریں
پھری
حسین کھلکھلاہٹوں کے درمیاں وکٹ گری
میں اجنبی میں بے نشاں
میں پابہ گل!
نہ رفعتِ مقام ہے نہ شہرتِ دوام ہے
یہ لوحِ دل ۔۔۔ یہ لوحِ دل!
نہ اس پر کوئی نقش ہے نہ اس پر کوئی نام ہے
مجید امجد

پان گوشت

نئی ترکیب کے ساتھ پھر حاضر خدمت ہوں!
بے پناہ شہرت اور پسندیدگی کے باوجود میں نے کبھی غرور نہیں کیا، کیونکہ چھٹی جماعت میں ہی میں نے پڑھ لیا تھا کہ غرور کا سر نیچا ہوتا ہے، اگرچہ میں نے ہمیشہ لمبے قد والے کا سر ہی نیچا دیکھا ہے۔ شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ لمبے بندے کی عقل گٹوں میں ہوتی ہے اور وہ اپنی عقل سے مشورہ کرنے کے لئے نیچے دیکھتا ہو!
بہرحال یہ تو جملہ معترضہ تھا۔ آج کی ترکیب کی طرف آتے ہیں۔ یہ ترکیب بین الثقافتی ہم آہنگی پیدا کرنے میں‌ بڑا اہم کردار ادا کرسکتی ہے۔ اس دعوی کا ثبوت اس کے اجزاء ہیں، جو درج ذیل ہیں:
پان کے پتے سوا سات عدد
کتھّا حسب ذائقہ
چونا حسب ہمت
سپاری آدھ کلو
راجہ جانی 1 ڈبیا
پیلی پتی 1 ڈبیا
ملٹھی 2 چمچ
الائچی 10 عدد
گوشت ایک پاؤ
لسّی ایک جگ
ہرڑ کا مربہ آدھ چھٹانک
نسوار ایک پُڑا
اور
جو آپ کا دل چاہے!
لسّی کو ہلکی آنچ پر پکنے دیں جب آدھی رہ جائے تو اس میں گوشت اور ہرڑ کا مربہ شامل کردیں۔ پانچ سے سات منٹ درمیانی آنچ پر پکنے دیں۔ گوشت کے گلنے پر اس میں نسوار، راجہ جانی اور پیلی پتی ملادیں۔ ملٹھی، سپاری اور الائچی کے ساتھ ہی آدھا گلاس پیپسی بھی ملادیں اور دس منٹ پکنے دیں۔ پان کے پتے حسب خواہش کاٹ لیں۔ چونا اور کتھا لگا کر ترتیب سے گوشت کے اوپر رکھ دیں اور ہلکی آنچ پر دم لگا دیں۔ دم کا دورانیہ اتنا ہو جس میں آپ دو دفعہ ”نگوڑی کیسی جوانی ہے“ سن سکیں۔ دوسری دفعہ گانا ختم ہوتے ہی چولہا بند کردیں۔ ڈھکن اٹھاتے ہی ایک ایسی خوشبو آپ کا استقبال کرے گی، جس کا تجربہ آپ کو زندگی میں پہلے کبھی نہ ہوا ہوگا!
یہ ڈش، ملٹی پرپز اور ملٹی ڈائمنشنل ہے۔ ایک تو یہ آپ کی پروٹین کی ضروریات پورا کرے گی، دوسرا آپ کی گائیکی کی صلاحیتوں کو چار چاند لگائے گی۔ جبکہ نسوار، راجہ جانی اور پیلی پتی آپ کی نکوٹین کی ضروریات بحسن و خوبی پورا کریں گی۔
باقاعدگی سے استعمال کرنے پر آپ اس فانی اور رنج و الم سے بھری دنیا سے نجات پا کر ابدی زندگی کی راحت بھی حاصل کرسکتے ہیں!

کمینہ

ٹرین پنڈی سے روانہ ہوئی تو سہ پہر نے اپنے سفر کا آغاز کیا ہی تھا۔ اس بوگی میں معمول سے رش کم ، لیکن شور زیادہ تھا۔ اس شور کا منبع تین نوجوان تھے، جو ریل کے وسل دیتے ہی اپنی نشستوں‌ پر جم گئے تھے اور تاش نکال کر کھیلنے کے نام پر جھگڑنے لگے تھے۔ اس جھگڑے کا حاصل وہ فلک شگاف قہقہے تھے جو وقتا فوقتا ان کے دہانوں سے توپ کے گولوں کی طرح برآمد ہورہے تھے۔ رش کم ہونے کی وجہ سے انہوں نے آمنے سامنے دو بڑی سیٹوں پر قبضہ جما رکھا تھا۔ ان کے ساتھ والے حصے میں ایک خاندان سفر کررہا تھا۔ جوتقریبا 14، 15 افراد پر مشتمل تھا۔ بزرگ خواتین اس شور شرابے پر زیادہ خوش نہیں تھیں۔ لیکن نوجوان پود ان تینوں‌کے ہاؤ ہو میں‌پوری دلچسپی لے رہی تھی۔ ان نوجوانوں کا دھیان بھی تاش سے زیادہ ہمسایوں کی دلچسپی میں تھا۔
گاڑی جیسے ہی شہر سے نکلی اور کھلے علاقے میں آئی، وہ تینوں سب چھوڑ چھاڑ کر دروازے میں جا کھڑے ہوئے۔ ان میں‌ایک جو دبلا پتلا اور معنک تھا، اس نے سگریٹ سلگالیا۔ اس سارے ہنگامے میں‌ ان کا سرپنچ، اس حرکت پر معنک کو خونریز نظروں‌ سے گھورتا ہوا دوسرے دروازے میں جاکر کھڑا ہوگیا اور پہاڑی علاقے کے مناظر سے لطف اندوز ہونے لگا۔ سوہاوہ پار کرنے کے بعد یا شاید پہلے پہاڑی علاقے کے ایک چھوٹے سے سٹیشن پر گاڑی رکی، شاید کسی دوسری گاڑی کا کراس تھا۔ گاڑی کے رکتے ہی تینوں چھلانگیں مار کر نیچے اتر آئے، پانچ دس منٹ پلیٹ فارم نما چبوترے پر گھومنے کے باوجود بھی جب گاڑی کی روانگی کے آثار نظر نہ آئے تو وہ اپنے سامان سے بیٹ اور ٹینس بال نکال لائے اور پلیٹ فارم پر کرکٹ کھیلنے لگے۔ دیکھا دیکھی ان کے ساتھ پانچ چھ مسافر اور مل گئے۔ تقریبا آدھ گھنٹے کے بعد گاڑی نے وسل دی اور روانہ ہوئی۔ مغرب کا وقت ہونے والا تھا۔ وہ تینوں‌بھی شاید مسلسل بولنے اور رنگبازیاں کرنے کی وجہ سے تھک چکے تھے اور اب کھڑکیوں‌سے لگے پیچھے کو دوڑتے مناظر میں‌گم تھے۔ اپنی حرکتوں اور باتوں سے ان کا غیر اعلانیہ لیڈر لگنے والا سائیڈ والی سنگل سیٹ پر براجمان ہوچکا تھا۔ اس کے ہاتھ میں‌اب ایک ڈائجسٹ تھا اور وہ دنیا و مافیہا سے بے خبر اس میں‌گم تھا۔ ان کے ساتھ سفر کرنے والی فیملی کو بھوک نے ستایا اور انہوں نے اپنے ٹفن وغیرہ کھولے تو پوری بوگی مرغن کھانوں کی خوشبو سے مہک اٹھی۔ ایک خاتون نے مروتاً اس سے کھانے کو پوچھا تو اس نے بہت معصومیت سے جواب دیاکہ ”جی شکریہ! مجھے ڈاکٹر نے چکنائی والے کھانوں سے منع کیا ہے۔“ خاتون نے اپنی لہجے میں‌بے یقینی سموتے ہوئے کہا، ”کیوں؟“ اس پر وہ بولا، ”بس جی کیا کریں گی پوچھ کر؟ چھوڑیں“۔ نوجوان کے لہجے کی اداسی اور چہرے پر چھائی افسردگی آمیز مسکراہٹ نے خاتون کے شوق تجسس کو بڑھاوا دیا اور انہوں نے اصرار سے پوچھا ”بیٹا! بتاؤ تو سہی کیا بات ہے؟“
”میرے دل میں سوراخ ہے۔ ڈاکٹر کہتے ہیں کہ اگر احتیاط کی تو ایک سال تک اور جی سکتے ہو۔ آپ یقینا ہمارے شور شرابے سے تنگ آگئے ہوں گے۔ لیکن میری جتنی بھی زندگی باقی ہے اسے مرنے کے خوف میں ضائع نہیں‌ کرنا چاہتا، اسی لئے میں‌اپنے کزنز کے ساتھ مری آیا تھا، اگلے سال تک پتہ نہیں میں‌ رہوں گا یا نہیں! میں‌ آپ سے اس شور شرابے کی معافی چاہتاہوں“۔ یہ کہہ کر نوجوان افسردہ سے انداز میں‌ مسکرایا اور کھڑکی سے باہر جھانکنے لگا۔
خاتون کا تو وہ حال تھا کہ کاٹو تو بدن میں‌ لہو نہیں۔ ان کی آنکھیں بھر آئیں۔ وہ نوجوان کے پاس آئیں‌اس کے سر پر ہاتھ پھیرا اور اصرار کرکے اسے اپنے ساتھ والی سیٹ پر بٹھا لیا۔ تھوڑی دیر بعد نقشہ ہی بدلا ہوا تھا۔ ان تینوں کو کھانا، چائے ، ڈرائی فروٹ ہر چیز مہیا کی جارہی تھی۔ باقی کے دونوں اس معنک سمیت حیران تھے کہ آخر کیا قیامت آگئی ہے کہ جو خواتین ہمیں‌ تھوڑی دیر پہلے کچا چبانے والی نگاہوں سے گھور رہی تھیں اب وہی اتنے پیار سے تواضع کررہی ہیں۔ وہ بار بار سوالیہ نظروں سے اپنے لیڈر کو گھورتے تھے لیکن اس کے چہرے پر لگے ”بکواس بند کرو اور آرام سے کھاؤ“ کا بینر پڑھ کر پھر چپ چاپ پیٹ پوجا میں‌ مصروف ہوجاتے تھے۔
باقی سفر میں بھی ان کا ہنگامہ جاری رہا، لیکن اب ان خواتین کی نگاہوں سے غصے کی بجائے ہمدردی جھلک رہی تھی۔ آدھی رات کے بعد جب گاڑی اپنی منزل پر پہنچی تو رخصت ہوتے ہوئے بزرگ خواتین ، اس نوجوان کو گلے لگا کر ایسے دعائیں دے رہی تھیں کہ جیسے وہ محاذ جنگ پر جارہا ہو!
سٹیشن سے باہر آتے ہی دونوں نےمل کر لیڈر نما کو دبوچ لیا اور اس رام کہانی کی وجہ دریافت کی۔ پورا ماجرا سننے پر دونوں نے بیک وقت فلک شگاف نعرہ لگایا!!
کمینہ!!

دو اقتباس

۔۔۔۔ میں تمہیں الف لیلہ کی کہانی نہیں سنا رہی، یہ ہمارے ملک کا دستور ہے۔ یہاں فرد تباہ ہوجاتا ہے اور سوسائٹی مضبوط تر ہوتی جاتی ہے۔ سال کے آخر پر اعدادوشمار شائع ہوتے ہیں، اور ہمیں پتہ چلتا ہے کہ آج ہم دنیا کے سب سے زیادہ ترقی یافتہ ملک میں رہ رہے ہیں، اور دنیا میں فی کس سب سے زیادہ کما رہے ہیں، اور اپنے جسموں کو دنیا کی عمدہ ترین غذا پر پال رہے ہیں، اور بھاگ رہے ہیں، اور بھاگ رہے ہیں، اور بھاگ رہے ہیں، اور پتہ نہیں کہ کدھر جارہے ہیں۔ ہماری روحوں کو دن بھر میں کتنی کیلوریز کی ضرورت ہے، اس کے اعداد و شمار ابھی تک شائع نہیں ہوئے۔
عبداللہ حسین کی کہانی ”ندی“ سے
================================================
۔۔۔۔ میری چپ حویلی کے صدر دروازے کے قدموں میں گرے ہوئے اس قفل کی مانند ہے، جسے چور پچھلی رات دروازے کے کنڈے سے اتار کر پھینک گئے ہوں۔ ایسا تالا بہت کچھ کہتا ہے، لیکن کوئی تفصیل بیان کرنے سے قاصر رہتا ہے۔ وہ ساری واردات سے آگاہ ہوتا ہے، لیکن اپنی صفائی میں کچھ نہیں کہہ سکتا۔ حفاظت نہ کرسکنے کا غم، اپنی ہیچ مدانی کا احساس، اپنے مالکوں سے گہری دغابازی کا حیرت انگیز انکشاف اسے گم سم کردیتا ہے۔
بانو قدسیہ کی کہانی ”انتر ہوت اداسی“ سے

خیالاتِ پریشاں

یہ کیسا انصاف اے؟
مجھے نوٹس دیا اے۔ میں نے کیا کِیا اے؟
سب سے پَیلے پاکستان اے۔ پھر لندن اے۔ مزے ایں۔ رنگ میں بھنگ ڈالا اے۔ مجھے ڈر نئیں لگتا اے۔
نواز شریف اے۔ بے ایمان اے۔ لوٹ کے کھا گیا اے پاکستان کو۔ میری اونسٹی اے، ڈگنیٹی اے۔ صرف 24 کروڑ کا فلیٹ اے۔ ایجویئر روڈ اے، اچھااے۔ رونق میلہ اے۔ میمیں‌ ایں۔ پھرتی ایں۔ مزا آتا اے۔
زرداری اے، اچھا آدمی اے۔ مجبور اے۔ پھس گیا اے۔ نواز شریف نے دھوکہ دیا اے، مکر گیا اے۔
رانی مکر جی اے، وہ بِی مکر گئی تھی، میں‌ گیا اوں، وہ نئیں آئی اے، میں نے ویٹ کیا اے، پھر بِی نئیں‌ آئی اے۔ دل توڑا اے۔ محفلیں یاد آتی ایں۔ شوکت عزیز تھا، عبداللہ یوسف بی تھا، گانے ہوتے تھے، ڈانس ہوتا تھا، مزا آتا تھا۔ اب کچھ بی نئیں‌ اے۔ ظلم اے۔ زیادتی اے۔ اس پر کوئی سووموٹو نوٹس نئیں‌اے۔ میرا کوئی حق نئیں اے؟؟ خدمت کی اے، ملک کی، عوام کی۔
مجھے جسٹس چوہدری سے ڈر نئیں لگتا اے۔ صرف اس کی آنکھوں سے ڈر لگتا اے۔ خون اے، اترا ہوا اے۔ ساری نواز شریف کی سازش اے۔ اس کے پاس پیسہ اے۔ لگاتا اے۔ وکیلوں کو لگاتا اے۔ جلوس نکلواتا اے۔ صحافیوں کو کھلاتا اے۔ مکار اے۔ جھوٹا اے۔ ہائی جیکر اے۔ اب لارڈ نذیر کو میرے پیچھے لگادیا اے۔
امریکہ اے۔ بے وفا اے۔ نظریں‌ نئیں ملاتا اے۔ کہتا اے، عدالت کا معاملہ اے۔ اتنے بندے پکڑ کے دئیے ایں، پھر بھی کوئی مدد نئیں کی اے۔ ظلم اے۔
میں‌ بہادر اوں، میں نے جنگیں لڑیں‌ ایں۔ مجھے ڈر نئیں لگتا اے۔ (سوں‌سوں سوں) رو نئیں را اوں۔ نزلہ اے۔ ناک صاف کی اے، رویا نئیں اوں، مجھے ڈر نئیں‌ لگتا اے۔۔۔

7ند سوال

آپ ”لوگ“ اتنے بد تہذیب اور بد تمیز کیوں‌ ہوتے ہیں؟
جہالت آپ میں کوٹ کوٹ کر کیوں بھری ہوئی ہے؟
آپ قتل و غارت اور خونریزی کے کیوں‌ اتنے شوقین ہیں؟
علم سے دشمنی آپ کی گھٹی میں کیوں پڑی ہوئی ہے؟
دوسروں کی حق تلفی کرنا، آپ اپنا پیدائشی حق کیوں سمجھتے ہیں؟
آپ خود کو انسان کہلانے پر کیوں بضد ہیں؟
آپ اتنے تنگ نظر اور چھوٹے دل کے کیوں ہیں؟
نفرت، منافقت اور مکاری، آپ کی فطرت کیوں ہے؟
آپ لوگ ”ڈھگے“ کیوں مشہور ہیں؟
آپ کے لہجے اور برتاؤ سے ہر وقت تعصب کیوں چھلکتا رہتا ہے؟


کیا کہا؟
نہیں نہیں، نفرت اور تعصب کی وجہ سے یہ سوال نہیں پوچھے۔۔۔
صرف اپنی معلومات میں اضافہ کرنا چاہتا ہوں!

حاجی غلام دین نمازی زکاتی

”تمہاری سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ تم چوّل ہو“۔ یہ کہہ کر انہوں نے اپنے کھیسے سے کے ٹو کی ڈبی نکالی، سگریٹ سلگایا اور لمبا کش لگا کر ناک سے دھواں نکالتے ہوئے سر ہلانے لگے۔
ٹھہرئیے ! پہلے میں ان سے آپ کا تعارف کروادوں۔
ان کا نام حاجی غلام دین نمازی زکاتی ہے۔ چونکئے مت۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر حج کرنے کے بعد بندہ اپنے نام کے ساتھ حاجی لگا سکتا ہے تو نماز پڑھنے کے بعد اسے نمازی لکھنے اور زکوۃ دینے کے بعد زکاتی لکھنے کا بھی پورا حق ہے۔ اگرچہ خود انہوں نے صرف اس وقت ہی زکوۃ دی تھی جب حکومت بینک کھاتوں سے زبردستی زکوۃ کاٹ لیا کرتی تھی۔ آج کل کے حالات میں‌جہاد کا ذکر کرنا وہ مصلحت کے منافی گردانتے ہیں‌، اس لئے جہادی لکھنے پر آمادہ نہیں اگرچہ ان کا کہنا ہے کہ وہ ہر وقت اپنے نفس امارہ کے ساتھ جہاد میں مصروف رہتے ہیں۔ میں جب بھی بہت خوش ہوتا ہوں، میرا کوئی کالم ہٹ ہوتا ہے، میرے پروگرام کو اشتہارات زیادہ ملتے ہیں اور نتیجے کے طور پر میرا کمیشن بھی بڑھ جاتا ہے، جب بھی کسی نئے اعلی عہدیدار سے میرے ”دوستانہ“ تعلقات پنپتے ہیں۔ غرض جب بھی میری زندگی میں خوشی کا کوئی موقع آتا ہے میں‌ان کے پاس حاضری ضرور دیتا ہوں۔
میری ان سے ملاقات انجمن تاجران غلہ منڈی کی تقریب حلف برداری میں‌اتفاقا ہوئی اور پہلی ہی ملاقات میں انہوں نے مجھے اپنی شخصیت کا گرویدہ کرلیا۔ ان کی شخصیت کی سادگی حیران کن ہے۔ بے تحاشا دولتمند ہونے کے باوجود غربت ان کے چہرے اور باتوں‌سے ٹپکتی ہے۔ سادہ خوراک استعمال کرتے ہیں۔ ایک دفعہ تو میں نے انہیں کیک رس، پیپسی میں ڈبو کر کھاتے ہوئے بھی دیکھا ہے!
اس کے بعد میری ان سے ملاقاتیں جاری رہیں۔ مجھے یہ اعتراف کرنے میں کوئی عار نہیں کہ میں نے اپنی زندگی میں جتنی بھی کامیابیاں حاصل کی ہیں ان کے پیچھے ان کا ہی ذہن کام کرتا رہا ہے۔ آپ اعلی درجے کے عیار، چوٹی کے دھوکے باز اور بے حد عمدہ بے ایمان ہیں۔ ان سے ملنے سے پہلے میں بھی نام نہاد ایمانداری، راست گوئی، اور قلم کی عصمت وغیرہ کا قائل ہوا کرتا تھا۔ لیکن ان کی صحبت میں، مجھے پتہ چلا کہ زندگی میں کامیابی کے گُر کیا ہوتے ہیں!
لیکن آج ان کی بات نے مجھے حیرت زدہ اور غمگین کردیا۔ میرے چہرے کے تاثرات دیکھ کر انہوں نے ایک قہقہہ لگایا اور میرے کندھے پر ہاتھ مار کر بولے۔ ”دل چھوٹا نہ کرو۔ چوّل ہونا فی زمانہ ایک خوبی ہے، اس میں بیستی کی کوئی بات نہیں۔ یقین نہیں‌ آتا تو رحمن ملک سے لے کر سلمان تاثیر اور فوزیہ وہاب سے لے کر شیخ رشید تک کسی کو بھی دیکھ لو۔ ایک سے بڑھ کر ایک چوّل ہے۔ اور ان سب کے سردار کا نام تو پوری دنیا جانتی ہے“۔ یہاں‌ تک پہنچتے پہنچتے ان کی آواز بھرّا گئی تھی اور آنکھوں میں فرط عقیدت سے آنسو آگئےتھے۔ میں نے اٹھ کر ان کے گھٹنوں‌ کو چھوا اور کمرے سے باہر نکل آیا۔

سوال گندم ۔۔۔ جواب چنا

سوال: آپ کسی کچے انڈے کو کنکریٹ کے فرش پر اسے توڑے بغیر کیسے گرا سکتے ہیں؟
جواب:‌کنکریٹ کا فرش بے حد مضبوط ہوتا ہے، اس کا ٹوٹنا مشکل ہے۔
سوال: اگر آٹھ آدمی دس گھنٹے میں ایک دیوار بناتے ہیں تو چار آدمی اسے بنانے میں کتنا وقت لگائیں گے؟
جواب: کوئی وقت نہیں لگائیں گے، وہ پہلے ہی بنی ہوئی ہے۔
سوال:‌ اگر آپ کے دائیں ہاتھ میں‌تین سیب اور چار نارنگیاں اور بائیں ہاتھ میں چار سیب اور تین نارنگیاں ہوں تو آپ کے پاس کیا ہوگا؟
جواب: بے حد بڑے ہاتھ۔
سوال: کوئی شخص آٹھ دن تک بغیر سوئے کیسے رہ سکتا ہے؟
جواب:‌ وہ رات میں سو سکتا ہے۔
سوال:‌ اگر کسی نیلے سمندر میں سرخ پتھر پھینکا جائے تو کیا ہوگا؟
جواب: پتھر یا تو صرف گیلا ہوگا، یا ڈوب جائے گا۔
سوال:‌ کس چیز کی شکل نصف سیب جیسی ہوتی ہے؟
جواب:‌ سیب کے دوسرے نصف حصے کی۔
سوال: آپ ظہرانے میں کیا چیز نہیں کھا سکتے؟
جواب: عشائیہ۔
(سب رنگ ڈائجسٹ سے انتخاب)

رس(؟) ملائی

اگرچہ آج تک ہم رس ملائی شوق سے کھاتے رہے ہیں لیکن اس کے نام سے ہم کبھی متفق نہ ہوسکے۔ہمارے خیال میں‌ تو اس کا نام ”میٹھے شوربے والی گلاب جامن“ ہونا چاہئے۔ویسے بھی ہمیں تو کبھی اس میں رس (بیکری والا) نظرنہیں آیا۔اور اگر اس رس سے مراد جوس ہے تو ملائی کا جوس کیسے نکل سکتا ہے؟ رس تو ہمیشہ ٹھوس چیز کا نکلتا ہے جیسے گنے کا رس، سیب کا رس، آم کا رس، حکومت پاکستان کے ہاتھوں عوام کا رس۔
اس مسئلے پر ہم نے بہت غوروخوض کرنے کے بعد ایک ترکیب ایجاد کی ہے جو واقعی رس ملائی کہلائے جانے کے قابل ہے۔ اس کے اجزاء زیادہ نہیں لیکن ان کو حاصل کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ لہذا جو خواتین و حضرات سہل پسند اور عیش کوش ہوں، ان سے درخواست ہے کہ اس ترکیب پر طبع آزمائی نہ کرنا ہی ان کی صحت وسلامتی کے لئے بہتر ہے۔
سب سے پہلے تو ہمیں خالص ملائی کی ضرورت ہوگی۔ اگر آپ یہ سوچ رہے ہیں کہ یہ ملائی آپ اس دودھ نما چیز سے کشید کرسکتے ہیں جو گوالہ فراہم کرتا ہے تو یقیناً آپ احمقوں کی جنت کے آس پاس کہیں رہائش پذیر ہیں۔ اس دودھ نما سے آپ جگر کو جلانے والی چائے اور خراب معدے کے علاوہ کچھ حاصل نہیں کرسکتے۔ خالص ملائی حاصل کرنے کے لئے آپ کو کچھ اور آپشنز پر غور کرنا ہوگا۔ مثلاً کسی گاؤں وغیرہ کا سفر۔ لیکن جب سے ہم نے جعلی کرنسی چھاپنے والے کا ایک عبرت ناک واقعہ سنا ہے جو غلطی سے پندرہ روپے کا نوٹ چھاپ بیٹھا تھا اور گاؤں‌کے لوگوں کی سادگی کا فائدہ اٹھانے کے لئے اس نے یہ نوٹ گاؤں میں‌چلانے کا فیصلہ کیا تھا۔ گھر کی بیٹھک میں کھلی ایک کریانے کی دکان سے جہاں ایک بڑی بی تشریف فرما تھیں وہاں اس مرد شریف نے پندرہ روپے کے نوٹ کا کھلا کروایا تو بڑی بی نے اسے ساڑھے سات کے دو نوٹ لوٹادئیےتھے، تب سے ہم اس آپشن سے بھی کچھ ناامید سے ہوگئے ہیں۔
دیکھا، ہم نے شروع میں ہی کہہ دیا تھا کہ اس ڈش کے اجزاء ملنے بہت مشکل ہیں!
ایک آخری آپشن بچا ہے کہ آپ ایک بھینس خریدیں، اور اس کے دودھ سے خالص ملائی حاصل کرلیں۔ اب دوسرے جز کی باری ہے۔ کسی اچھی سی بیکری سے تازہ رس لائیں۔ برسات کا موسم ہے لہذا اچھی طرح چیک کرلیں کہ رس ”سیلابے“ نہ ہوں۔ لیجئے، اب ترکیب اپنے اختتامی مرحلے تک پہنچا چاہتی ہے۔ ایک رس لے کر اس پر ملائی کا اچھی طرح لیپ کریں اور اس کے اوپر دوسرا رس رکھ دیں۔
مزیدار رس ملائی تیار ہے!

دیر

”آپ کی والدہ حیات ہیں؟“ لا ابالی نظر آنے والے اس شخص نے ڈرائیور سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا۔
”کیوں؟“ ڈرائیور کے لہجے میں حیرت آمیز برہمی تھی۔
ٹھہریئے!
میرے خیال میں‌ ، ابتداء سے یہ قصہ شروع کرتے ہیں۔
وہ شخص شہر کے مرکزی علاقے سے ویگن میں‌ سوار ہوا تھا۔ اس کو آخری سٹاپ تک جانا تھا۔ خوش قسمتی یا بد قسمتی سے، اسے فرنٹ سیٹ مل گئی۔ جینز ، ٹی شرٹ میں ملبوس وہ شخص اپنے ارد گرد سے لا تعلق نظر آتا تھا۔ حرکات و سکنات اور بدن بولی سے وہ اپنے اندر کی دنیا میں گم رہنے والا لگتا تھا جسے دوڑتی بھاگتی، چیختی چلاتی، پرشور، انسانوں سے لبالب بھری دنیا سے کوئی دلچسپی نہ ہو۔
ویگن کے چلتے ہی ڈرائیور کا سگریٹ بھی سلگ اٹھا۔ نصیبو لعل کی آواز بھی مقناطیسی فیتے میں‌ سے انگڑائی لے کر جاگ اٹھی۔ اوسطا ہر تیس سیکنڈ کے بعد پریشر ہارن بھی کانوں میں‌ رس گھولتا رہا۔ ڈرائیور نے بھی شاید سوچ رکھا تھا کہ اپنی مہارت کے سارے گر وہ آج ہی آزمائے گا۔ بسوں، ٹرکوں، رکشوں، گدھا گاڑیوں کو اوور ٹیک کرتا، کسی کو گالی دیتا اور کسی سے گالی سنتا ہوا وہ اپنی منزل کی جانب گامزن رہا۔ کنڈیکٹر کی ”روک کے استاد جی“ کی آواز پر وہ سڑک کے عین درمیان بریک لگاکر مسافر اتارتا، چڑھاتا رہا تھا۔
اس سارے ہنگامے کے باوصف، وہ شخص بالکل پرسکون بیٹھا تھا۔ جیسے وہ کوئی تماشائی ہو اور تھیٹر میں‌بیٹھا، اداکاروں کی پرفارمنس سے لطف اندوز ہورہا ہو۔ بالآخر منزل آگئی۔ ویگن مسافروں سے خالی ہوگئی۔ لیکن وہ شخص بدستور گاڑی میں بیٹھا رہا۔ ڈرائیور نے سوالیہ نگاہوں سے اس کی طرف دیکھا۔ اس پر اس شخص نے مندرجہ بالا سوال ڈرائیور سے کیا!
ڈرائیور کی برہمی آمیز ”کیوں“ کے جواب میں وہ یوں گویا ہوا۔
”بھائی صاحب، جب آپ صبح کام پر جانے کے لئے گھر سے نکلتے ہیں تو آپ کی والدہ گھر میں سارا دن آپ کی خیریت اور سلامتی کی دعائیں کرتی ہوں گی کہ میرا بیٹا شام کو خیر خیریت سے گھر کو لوٹ کر آئے۔ اسے اللہ پاک اپنے حفظ وامان میں رکھے۔ سوچیں، اگر خدانخواستہ آپ کو کوئی حادثہ پیش آجاتا ہے، آپ زخمی ہوجاتے ہیں یا اس سے بھی بدتر صورتحال سے دوچار ہوکر جاں بحق ہوجاتے ہیں تو آپ کی والدہ کا کیا حال ہوگا؟ اب آپ اس عورت کے دکھ کا اندازہ کریں جو اپنے بیٹے، بھائی، شوہر کے انتظار میں بیٹھی ہے اور اسے پتہ چلے کہ اس کا انتظار ساری زندگی جاری رہے گا اور اس کا پیارا نہیں‌ آئے گا۔“ وہ سانس لینے کو رکا۔ ڈرائیور کے چہرے کے بدلتے رنگوں سےاندازہ ہورہا تھا کہ بات اس کی سمجھ میں آرہی ہے۔
”تو میرے بھائی!“ وہ پھر گویا ہوا، ”اگر آپ کو کسی مسافر کا یا اس کے گھروالوں کا خیال نہیں، تو کم از کم اپنی والدہ کا ہی احساس کریں۔ جو ہر شام آپ کی راہ تکتی ہیں۔ سوچیں کہ صرف پانچ، دس منٹ جلدی منزل پر پہنچنے کے لئے کہیں آپ کو ہمیشہ کے لئے دیر نہ ہوجائے“۔
یہ کہہ کر اس نے دروازہ کھولا اور ویگن سے اتر گیا!

ٹوٹے

ویگن میں مسافر نکو نک ٹھنسے ہوئے ہیں۔ کنڈیکٹر نے ایک اور مسافر کی جگہ بنانے کے لئے آواز لگائی۔
”ذرا نال نال ہوجاؤ جی“۔ (ذرا سمٹ جائیں)۔
”میں ربڑ دا بنیا واں، جیہڑا ہور نال نوں ہوجاواں“۔ (میں ربڑ کا بنا ہوا ہوں جو اور سمٹ جاؤں)۔
ایک بزرگ نے کنڈیکٹر کو مخاطب کرتے ہوئے جواب دیا۔
==============================================
مغرب کی اذان میں دس منٹ باقی تھے۔ آج وہ ذرا جلدی مسجد میں آگیا تھا۔ مسجد تقریبا خالی تھی۔ دو تین بندے تھے شاید۔ وہ بیٹھا ہی تھا کہ اسے کسی نے مخاطب کیا اور بزبان عربی اسے صلواتیں سنانے لگا کہ مسجد میں آکر سب کو سلام کرتے ہیں، ایسے ہی منہ اٹھا کر نہیں‌ آجاتے۔ مخاطب کرنے والے کے لہجے میں ایک عجیب طرح کی حقارت اور ناپسندیدگی تھی۔ اس نے مسکرا کر سر کو اثبات میں ہلادیا۔
چند ثانیوں بعد اسے پھر وہی آواز سنائی دی۔ اس نے مڑ کر دیکھا تو وہی صاحب سیل فون پر گفتگو میں مصروف تھے!!!
==============================================
میرا دوست ”خ“ اتنا مایوس ہے کہ مایوسی اسے دیکھ کر بذات خود مایوس ہوجاتی ہے!
==============================================
چست ٹی شرٹس اور جینز میں ملبوس خواتین کو دیکھ کر اتنی ٹھنڈی آہیں بھرنی پڑتی ہیں کہ مینجر آ کر درخواست کرنے لگتا ہے کہ یا تو ٹھنڈی آہیں بند کرو یا پھر میں‌ اے سی بند کرواتاہوں۔ جولائی کے مہینے میں نمونیا ہوجائے گا تو دنیا کیا کہے گی۔۔۔
==============================================
ڈفر اور دارا؟؟ اگر ڈفر ہی ڈفر ہے تو دارا کون ہے؟ اچھا، چلو فرض کرو، ڈفرستان کا باسی ہونے کی وجہ سے دارا بھی ڈفر ہے تو پھر ڈفر بھی ڈفر ہے اور دارا بھی ڈفر ہے تو جیسے ڈفر، دارا ہے تو ڈفر کون ہے؟؟
بس بس بس۔۔۔ خدا کے لئے بس کرو۔۔۔ میرا بھیجہ فرائی ہوگیا ہے۔۔۔۔۔۔
==============================================
اوئے ۔۔ ادھر آ۔۔۔
جی جناب۔۔
اپنی مرغیوں کی فیڈ چیک کرا اوئے ۔۔۔
لیکن جناب میں تو مرغیوں کو خوراک ڈالتا ہی نہیں۔۔۔
اوئے یہ کیا بکواس کررہاہے؟؟ خوراک نہیں ڈالتا تو اتنی بڑی کیسی ہوگئی ہیں؟
سر جی ۔۔۔ میں‌ ان کو دس روپے روز دیتا ہوں۔۔۔ یہ اپنی مرضی سے جو کھانا ہو کھالیتی ہیں!!

کریلا بینگن شیک

کچھ نامعلوم اور پراسرار وجوہات کی بناء پر آج کل میرا ”اَینٹ“ ترکیبوں پر خوب ”بخا“ ہوا ہے۔ گرمی زوروں پر ہے اور برسات کی آمد ہے لہذا پھوڑے، پھنسیاں اور ”پِت“ (اردو میں جس کو گرمی دانے کہتے ہیں، لیکن یہ لفظ پِت کی ذلالت کو ظاہر نہیں کرسکتا، ویسے بھی گرمی دانےپڑھ کر خیال آتا ہے کہ کیا سردی دانے بھی ہوتے ہیں!) بھی ٹکا کر نکلیں گے۔
تو ہمارا آج کا مشروب نہ صرف ایک ”مفرح“ اور ”خوش ذائقہ“ بلکہ خون کو بھی ”آخری حد تک صاف“ کرنے والا نسخہ ہے۔ اجزاء نوٹ کرلیں۔
1- کریلے (دو عدد)
2- بینگن (پنجابی میں جس کو بتاؤں اور سیالکوٹی میں پٹھے کہتے ہیں)
3- نیم کے پتے (مناسب مقدار میں)
4- گوند کتیرہ (حسب ذائقہ)
5- ہلدی (آدھا پینے کا چمچ)
6- دیسی شکر (دو دانے)
7- پانی (کافی سارا)
نیم کے پتے پانی میں ڈال کر پانی ابال لیں۔ پانی ابل جائے تو اس میں سے پتے چھان کر علیحدہ کرلیں۔ اگر محلے میں‌کوئی فوتیدگی ہوئی ہے تو پانی وہاں پہنچادیں، میت کو نہلانے کے کام آجائے گا اور آپ کی سماجی خدمت کی بھی دھوم مچ جائے گی جو مستقبل میں کونسلر کا الیکشن لڑنے میں کام آ سکتی ہے۔ نیم کے پتے، کریلے اور بینگن بلینڈر میں بلینڈ کرلیں اور اس میں گرم پانی ڈال کر اچھی طرح ملا لیں۔ پھر اس میں ہلدی، شکر اور گوند کتیرہ ڈالیں اور اچھی طرح ”شیک“ کرلیں۔ برف اگر میسر بھی ہو تو مت ڈالیں ورنہ ”ذائقہ“ خراب ہوجائے گا۔
لیجئے ۔۔۔ ”مزیدار“ کریلا بینگن شیک تیار ہے۔
خاص طور پر ان مہمانوں کو پیش کریں
جو اکثر بلا اطلاع آ دھمکتے ہیں اور پھر جانے کا نام نہیں لیتے۔
انشاءاللہ اسے پینے کے بعد، بلانے پر بھی نہیں آئیں گے!

گانے شانے۔۔۔

میرے کچھ پسندیدہ گانوں، غزلوں‌ اور قوالیوں‌ ‌کا انتخاب ۔۔۔
ایک ہی نشست میں سننے سے گریز کریں۔۔۔
گرم سرد ہونے کا اندیشہ ہے۔۔۔

یہ جو چلمن ہے ۔۔۔ دشمن ہے ہماری - محمد رفیع
چمکتے چاند کو ٹوٹا ہوا تارہ بنا ڈالا - غلام علی
کچھ اس طرح - عاطف اسلم
تیرے بن - عاطف اسلم
شعلہ تھا جل بجھا ہوں - مہدی حسن
تملّی معاک - عمرو دیاب
Don Omer - Dale Don Dale
نیناں ٹھگ لیں گے - راحت فتح علیخان
Enrique Iglesius - Bailamos
جب دل ہی ٹوٹ گیا - کے ایل سہگل
چنگا بنایا ای سانوں کھڈونا - نورجہاں
کہو اک دن - احمد جہانزیب
اے اجنبی - ادت نرائن (دل سے)
Sade - And I miss you
پھونک دے - کویتا (نو سموکنگ)
Lionel Richie - Hello
چپکے سے - سادھنا سرگم (ساتھیا)
اک پھل موتیے دا مار کے - منصور ملنگی
تنہائی - سونو نگم (دل چاہتا ہے)
کبھی کبھی آدیتی - راشد علی (جانے تو یا جانے نہ)
Enrique Iglesius & Whitney Housten - Kiss forever
آنکھوں میں رہو - سومیا (کمپنی)
توسے نیناں لاگے - شلپا راؤ (انور)
جائیں تو جائیں کہاں - طلعت محمود (ٹیکسی ڈرائیور)
نیندر نئیں آؤندی - سجاد علی
The Sopranos soundtrack - Leonard Cohen - woke up this morning
میں روواں تینوں یاد کرکے - نصرت فتح علی خان
کتھے عشق دا روگ نہ لا بیٹھیں - نصرت فتح علی خان
تم اک گورکھ دھندہ ہو - نصرت فتح علی خان
میرے دل دے شیشے وچ سجناں - نور جہاں
مینڈا عشق وی توں - پٹھانے خان
سن چرخے دی مٹھی مٹھی گھوک - نصرت فتح علی خان
اللہ ہو اللہ - سائیں ظہور (خدا کے لئے)
آجا صنم - مناڈے / لتا منگیشکر (چوری چوری)
یارا سیلی سیلی - لتا منگیشکر (لیکن)
ساگر جیسی آنکھوں والی - کشور کمار (ساگر)
تیری یاد - جَل
دیوانہ - علی عظمت
مائے نی میں کنوں آکھاں - حامد علی بیلا
پانی پانی رے - لتا منگیشکر (ماچس)
لائی وی نہ گئی - سکھویندر سنگھ (چلتے چلتے)
سوگیا یہ جہاں - نتن مکیش (تیزاب)
پپو کانٹ ڈانس - بینی دیال (جانے تو یا جانے نہ)
سپنوں سے بھرے نیناں - شنکر مہا دیون (لک بائی چانس)
عاشقاں‌ توں سوہنا مکھڑا لکان لئی - عنایت حسین بھٹی
انشاء جی اٹھو - امانت علی خان
یہ جو محبت ہے - کشور کمار
کلّی کلّی جان دکھ لکھ تے کروڑ وے - نور جہاں
بھیگی بھیگی جادو بھری - سجاتا تریویدی (تکشک)
یہ فہرست، درجہ بندی کے لحاظ سے نہیں ۔۔۔ یادداشت کے حساب سے ہے۔۔۔۔
ہومیوپیتھک قسم کی تحریر ہے! اس کااگر کوئی نقصان نہیں تو فائدہ بھی نہیں۔۔۔
اس لئے اس میں مقصد تلاش کرنا بھوسے میں سے سوئی تلاشنا ہے۔۔۔

یاروں کی پسند
تیری صورت - عزیز میاں

اس فہرست میں‌سے اپنی پسند کے پانچ گانے منتخب کیجئے۔۔۔
مصنف کی درجہ بندی کے مطابق ہونے پر آپ کی لاٹری بھی لگ سکتی ہے ۔۔۔


جناب بدتمیز کی فرمائش پر لنکس بھی پیش خدمت ہیں۔۔۔ عذاب جاریہ کے لئے

بمباسٹک زردہ

نہیں ۔۔ نہیں۔۔۔ کوئی بم شم کاچکر نہیں، زردے کی ترکیب ہے۔ ایسے فلمی اشتہاروں سے متاثر ہوکر بمباسٹک لکھ دیا ہے، جو اکثر مصروف شاہراہوں پر ہورڈنگز کی شکل میں‌ لگے رہتے ہیں اور ہر آنے جانے والے کی برداشت اور ہمت کا امتحان لیتے ہیں جیسے مثال کے طور پر ”بمباسٹک حسینہ عرف کنگفو کی واپسی“ ہمراہ گرما گرم سائیڈ پروگرام۔۔۔ وغیرہ وغیرہ۔۔۔ اوہو یہ میں کدھر نکل گیا۔۔
چلیں چھوڑیں اسے اور شروع کریں آج کی ترکیب۔۔۔۔۔
ایک بڑا پتیلہ پانی سے بھر کر تیز آنچ پر رکھ دیں۔ ایک آدھ گھنٹہ پڑا رہنے دیں۔ پانی خشک ہونے پر دوبارہ بھردیں اور یہ عمل تین دفعہ دھرائیں۔ اس سے دو فائدے ہوں گے ایک تو آپ کا پتیلہ اچھی طرح صاف ہوجائے گا، دوسرا، اس مہینے گیس کا بل دیتے ہوئے آپ کو زیادہ تکلیف نہیں‌ہوگی کہ گیس کم استعمال کرنے پر بھی بل تو پورا ہی آتا ہے لہذا استعمال کرکے بل دینے پر قلبی اطمینان اور روحانی سکون حاصل ہوگا۔
اب ایسا کریں کہ زردے کی ترکیب تو مجھے معلوم نہیں تو اگر آپ کو علم ہے تو اسی طریقے سے پکا لیں اور اگر آپ بھی میری ہی طرح ”یملے“ ہیں تو پھر چاول، چینی، الائچیاں، گھی، پانی ، زرد رنگ سب پتیلے میں ڈال کر ہلکی آنچ پر رکھ دیں۔ جب پانی خشک ہوجائے تو امید ہے کہ زردہ پک گیا ہوگا۔
اب یہاں سے سادہ زردہ، بمباسٹک زردہ بنے گا!!
دم دینے سے پہلے اس میں بیر، فالسہ، گنڈیریاں، ملوک، شہتوت، آلو بخارا (تازہ) ملادیں اور دم دے دیں (زردے کو!)۔
ہر تیس سیکنڈ کے بعد ڈھکنا کھول کر دیکھیں کہ دم آگیا ہے یا نہیں۔ جب زردہ تیار ہوجائے تو اس پر ٹماٹو کیچپ کی دو بڑی بوتلیں انڈیلیں اور چاٹ مصالحہ بھی حسب ذائقہ چھڑک لیں۔
لیجئے۔۔۔ مزیدار بمباسٹک زردہ تیار ہے!
شادیوں پر پکانے سے گریز کریں۔
شادی کے بعد البتہ اپنی ساس اور جملہ سسرالیوں کو کھلانے میں کوئی مضائقہ نہیں۔

عمر دا اصل حصہ

ملدا کیہہ اے ایس دنیا وچ
رُت ایک نویں جوانی دی
ہوکے بھرن دی پیار کرن دی
اکھّاں دی نادانی دی
باقی عمر تے بس فیر ایویں
نسدیاں بھجدیاں لنگھدی اے
دور دراز دیاں سوچاں اندر
روندیاں ہسدیاں لنگھدی اے
بھُلدے جاندے خواباں دے
عکساں نوں لبھدیاں لنگھدی اے
منیر نیازی

ایک اور شعیب اختر ۔۔۔



ایک شعیب اختر سے جان چھوٹی ہے تو دوسرا اس کی جگہ سنبھالنے آگیا ہے۔۔۔
اور اس کی پسند کی بھی داد دینے کو جی چاہتا ہے۔۔۔
چھتر لاء لئے بندہ۔۔۔۔

تو ہے کوئی ۔۔۔۔

میرا بھی بہت جی چاہتا ہے کہ معاشرتی، معاشی، سیاسی، اقتصادی، سائنسی، ادبی وغیرہ وغیرہ جیسے موضوعات پر ”سنجیدہ“ اور ”بامقصد“ لکھوں، جس میں بھاری بھرکم الفاظ اور اصطلاحات کا تڑکا بھی ہو۔ لوگ مجھے اعلی پائے (اور سری) کا دانشور سمجھیں۔ میرے نام کے ساتھ بھی علامہ، پروفیسر جیسا کوئی لفظ جڑا ہو۔ میری تحریر کی کسی کو سمجھ آئے نہ آئے، سب واہ واہ ضرور کریں۔ ایسے سیمینارز اور کانفرنسز میں‌ مدعو کیا جاؤں، جن کے موضوعات اکثر ، بگلے اور انسانی ذہانت کا مستقبل یا تیل کی قیمیتیں اور اردو غزل کا زوال، ہوتے ہیں اور وہاں تین تین گھنٹے کے مقالے پڑھوں تاکہ سامعین میں ‌موجود، بے خوابی کے مریض خواتین و حضرات کو افاقہ ہو!!
میرا یہ بھی دل کرتا ہے کہ نجی چینلز پر ٹاک شوز کے نام پر جو سرکس ہوتا ہے مجھے بھی اس میں مدعو کیا جائے تاکہ میں‌ بھی اپنی دانش کے کرتب دکھا سکوں۔ میں ایک ایسا آل راؤنڈر قسم کا دانشور بن جاؤں‌ جو سیاسی ٹاک شوز کی بھی ضرورت ہو اور ”بالم آن لائن“ جیسے پروگرامز کی بھی۔ جو مرغیوں کی بیماریوں‌ پر بھی سیر حاصل گفتگو کرسکے اور برصغیر میں اردو کے زوال پر بھی۔ مریخ پر پانی کی موجودگی بھی اس کا موضوع ہو اور جسے اس بات کا بھی علم ہو کہ کترینہ کیف اتنی ظالمانہ حد تک خوبصورت کیوں ہے!!!
لیکن جب بھی میں لکھنے کے لئے اپنی انگلیاں کی بورڈ پر رکھتا ہوں، نجانے کیا ہوتا ہے کہ یہی کچھ لکھ پاتا ہوں جو آپ پڑھ رہے ہیں!!!
تو ہے کوئی پروفیسر، کوئی علامہ، کوئی بحر العلوم، کوئی دانشور جو میری مدد کرے۔ جو مجھے بتائے کہ میں‌ کیسے ان جیسا بن جاؤں‌کہ ہر جانب میری بلے بلے ہوجائے۔ میری تحاریر بھی ایٹی وان کا کام کرنے لگیں۔ مائیں بچوں کو سلانے کے لئے لوریوں‌ کی بجائے میری پوسٹیں سنائیں۔ عدالتیں قید بامشقت کی سزا کے زمرے میں‌، میرے بلاگ کا تین گھنٹے روزانہ مطالعہ، کی سزائیں سنانے لگیں۔ تھانوں میں پانجے لگانے کی بجائے سنتری بادشاہ میری پوسٹیں سنا سنا کر ملزمان سے تفتیش کریں۔۔۔
تو ہے کوئی ۔۔۔۔

چوہدری نسرین باجوہ اور ہمنوا

کچھ عرصہ پہلے اپنی ان گنت بیستیوں میں سے ایک بیستی بیان کی تھی یہاں!
سب احباب نے اسے پڑھ کر پاکستانیوں کی طبیعت کے عین مطابق خوشی اور مسرت کا بے پایاں اظہار بھی کیا تھا۔ اسی جگہ ، میں نے لکھا تھا کہ اصل پروگرام تو بعد میں چلا تھا۔ تو اب کچھ اس ”اصل پروگرام“ کا ذکر ہو جائے۔
اس سارے رنڈی رونے میں جن حضرات نے اصل ۔۔۔۔ کا پارٹ ادا کیا تھا، یہ کچھ ان کا ذکر ہے اور کچھ اپنی مزید بیستی کا!
چار کا ٹولہ تھا جی وہ۔
ایک پنجاب کا ”باغیرت“ گھبرو جوان، گاؤں سے تعلق تھا اس کا۔۔۔
ایک نہایت مسکین صورت میسنا اور
دو برگر ممی ڈیڈی!
سننے میں یہ گروپ جتنا عجیب وغریب لگتا ہے، دیکھنے میں‌ اس سے بھی زیادہ واہیات تھا۔ انہی کی ہلا شیری پرسب اس ”لیکچرر ہٹاؤ“ ایڈونچر کےلئے تیار ہوئے تھے۔ اور جب کیمسٹری کی کلاس میں ہمارے استاد محترم نے مجھے کھڑا کرکے پوچھا کہ ”بتاؤ اور کون کون تھا تمہارے ساتھ؟“ تو یہ سب ایسے میرے منہ کی طرف دیکھنے لگے تھے جیسے میں‌ مسجد سے جوتے چوری کرتا پکڑا گیا ہوں!
میرے دو یار جو صرف اس درخواست پر دستخط کرنے کے گناہگار تھے، وہ کھڑے ہوئے اور کہنے لگے کہ سر! ہم بھی ساتھ تھے اسکے۔ لہذا سزا بھی ہم تینوں کو ملنی چاہئے۔ تو صاحب اگلے دوسال بارش ہو یا آندھی، گرمی ہو یا سردی ، کرفیو ہو یا ہڑتال ۔۔۔ ہم تینوں کیمسٹری کی کلاس سے کبھی غیر حاضر نہیں ہوئے۔ اس کی وجہ؟ ایک غیر حاضری پر پندرہ دن کی غیر حاضری کی سزا!
داخلہ بھیجنے کے لئے حاضریاں پوری کرنے کی بھی شرط ہوتی تھی اس وقت (شاید اب بھی ہو!) پیریڈ بھی آخری ہوتا تھا۔ ساتواں۔ ایک دفعہ تو ایک سو تین بخار کی حالت میں بھی کالج گیا تھا۔ لیکن آپ داد دیجئے ہمارے استاد کو! ان کے دل میں‌ کبھی رحم نہیں‌ آیا۔ شمر کے سگے کزن تھے شاید۔۔۔
ہر سوال ہم سے ہی پوچھا جاتا تھا۔ ہر طنز کا نشانہ بھی ہماری ذات شریف ہی بنتی تھی۔ وہ تو میں‌فطرتاچکنا گھڑا واقع ہوا ہوں، اس لئے اس پیہم بیستی کو روح افزا سمجھ کر غٹاغٹ پی جاتا تھا۔
وہ سوال، جن کے جواب خود ان کو بھی نہیں آتے تھے، وہ بھی ہم سے ہی پوچھے جاتے تھے۔ پھر درست جواب نہ دینے پر ارشاد ہوتا تھا، ایک درخواست اور لکھ لو! بہت شوق ہے نا درخواستیں لکھنے کا۔ ہر پریکٹیکل میں بھی تان ہمارے اوپر ہی آکر ٹوٹتی تھی۔ بلاؤ اس کو! وہ جو بڑا لیڈر بنا پھرتا ہے۔
کم میں نے بھی ان چاروں کے ساتھ نہیں کی۔ ان کے نام بدل دئیے تھے۔ نئے نام سنئیے اور سر دھنئے!
چوہدری نسرین باجوہ
حنیفاں بشیر
رابعہ شفیق
پنکی حمید
ہماری کلاس کے جرگے کا متفقہ فیصلہ تھا کہ ان کی حرکت مردانگی کی ہر تعریف کے خلاف ہے لہذا آج سے ان کو زنانہ ناموں سے لکھا اور پکارا جائے ۔ تو دوستو! بڑے گھمسان کے ”گھڑمس“ برپا ہوئے، چار کے ٹولے نے مجھے یرکانے کی بڑی کوششیں کیں لیکن یہ نام نہ بدلنے تھے نہ بدلے، آخر میں‌ تو وہ بے چارے ان ناموں کے اتنے عادی ہوگئے تھے کہ اگر کوئی پکارتا تھا کہ ”اوئے چوہدری نسرین“ تو وہ ایسے چونک کر دیکھتا تھا کہ جیسے واقعی اس کا نام نسرین ہی ہو!
حنیفاں ایک نہایت میسنا بچہ تھا۔ شکل سے چندہ مانگنے والا لگتاتھا۔ اور کرتوتوں سے اس چندے کو ہڑپ کرنے والا! یہی ”بطل جلیل“ استاد محترم سے خفیہ ٹیوشن بھی پڑھا کرتا تھا اور اس کا انکشاف ایف ایس سی کرنے کے بعد ہوا۔ اسی سے آپ اس کے میسنے ہونے کا اندازہ لگاسکتے ہیں!! ہم بھی حیران ہوا کرتے تھے کہ آخر ہر بات لیکچرر صاحب کے پاس پہنچ کیسے جاتی ہے!!!
رابعہ شفیق اور پنکی حمید پیپلز کالونی کے برگر تھے۔ نازک اندام اور لچکدار۔ ہائے اللہ اور اوئی اللہ ٹائپ۔ اکڑتے تھے چوہدری نسرین کے بل پر تو جب نسرین کے کس بل نکلے تو وہ بھی نہایت نیک اطوار بیبیاں بن گئے تھے۔
آج جب یہ سارا ماجرا ذہن میں‌ آتا ہے تو لگتا ہے جیسے کوئی خواب دیکھا تھا۔
میرے یہ سب دوست جہاں بھی ہوں۔ خوش رہیں اور مجھ سے دور ہی رہیں کہ مجھے ان پر ابھی تک بڑی ”تپ“ ہے!!!
وما علینا الا البلاغ!!!

میں نے اک بار کہا تھا ۔۔۔۔۔۔۔

31 جنوری 1999
متوسط طبقے کے گھر کا ایک کمرہ۔ کونے میں ٹی وی۔ بیڈ پر ایک نوجوان اپنے سامنے اخبار پھیلائے، چائے کاکپ ہاتھ میں لئے ، بار بار ٹی وی اور دیوار پر لگے وال کلاک کی طرف دیکھتا ہوا۔ چہرے سے بے تابی کااظہار۔ آخرکار اس نے اخبار سمیٹ کر سائڈ ٹیبل پر رکھا اور ٹی وی کی طرف متوجہ ہوگیا۔ پاکستان اور ہندوستان کے درمیان پہلے ٹیسٹ کا آخری روز۔ انڈیا کی آٹھ وکٹیں باقی۔ میچ شروع ہوا۔ جیسے جیسے میچ آگے بڑھتا رہا نوجوان کی بےتابی اور بے چینی بھی بڑھتی رہی۔ انڈیا کی وکٹ گرنے پر وہ اٹھ کر ناچنا شروع کردیتا اور باونڈری لگنے پر وہ باولرز کو ایسے مشورے دینے لگتا جیسے وہ اس کی آواز سن رہے ہوں! چائے کے وقفے تک ہندوستان کی پوزیشن بہت مضبوط۔ نوجوان کے چہرے پر مایوس چھائی ہوئی۔ صبح‌ سے اس نے چائے کے علاوہ کچھ کھایا پیا بھی نہیں۔ اس کی ماں بار بار اسے آواز دے کر کھانے کے لئے پوچھتی لیکن وہ انکار کردیتا۔ انڈیا کو جیتنے کے لئے سولہ رنز درکار اور اس کی چار وکٹیں باقی۔ اچانک میچ کا پانسہ پلٹا اور جیتا ہوا میچ انڈیا آخری لمحات میں ہار گیا۔ نوجوان جو صبح سے بھوکا پیاسا ٹی وی کے سامنے جما ہوا تھا، اپنی خوشی پر قابو نہ رکھ پایا۔ شاید اس کا نروس بریک ڈاون ہوگیا تھا۔ وہ چلا چلا کر کہتا رہا ، پاکستان جیت گیا، پاکستان جیت گیا۔ اس کی آنکھوں سے آنسو بہتے رہے لیکن اس کو کوئی احساس نہیں تھا۔ اس کی ماں‌ اور بہنیں دوڑ کر آئیں ۔اس کی ماں اس کو گلے سے لگا کر تسلی دینے لگی۔
یہ نوجوان میں‌ تھا!!
12جون 2009
پاکستان اور سری لنکا کے درمیان 20/20 ورلڈ کپ کا میچ جاری ہے۔ شاہد آفریدی کے آؤٹ ہوتے ہی میرے فون کی گھنٹی بجی۔ نمبر دیکھا تو پاکستان سے فون تھا۔ امی بات کررہی تھیں۔ پانچ چھ منٹ بات کرتی رہیں۔ میں‌ سمجھ گیا تھا کہ انہوں نے کس لئے فون کیا ہے ۔ میں نے ہنس کر ان سے کہا ”آپ فکر نہ کیا کریں، میں اب بڑا ہوگیاہوں۔ اب نہیں روتا۔“ جوابا کہنے لگیں، ”نئیں ۔۔۔نئیں۔۔۔ میں تے ویسے ای فون کیتا سی“۔
مجھے پاکستان چھوڑے ہوئے سات سال سے زیادہ ہوگئے۔ لڑکپن کے شوق اور جذبے کچھ مدہم ہوگئے اور کچھ معدوم۔ کرکٹ بھی ان میں ہی شامل ہے ۔ لیکن میری ماں جب بھی کبھی پاکستان کا میچ ہو تو فون کرکے باتوں باتوں میں میری حالت کا اندازہ ضرور کرتی ہیں!!

ایک مدت سے مری ماں‌ نہیں سوئی تابش
میں نے اک بار کہا تھا مجھے ڈر لگتا ہے

بلاگروں کی حکومت

بلاگروں کی مسلسل بقراطیوں، افلاطونیوں اور چخ چخ سے تنگ آکر پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ نے یہ فیصلہ کیا کہ اگر اس ملک کا وزیر اعظم چوہدری شجاعت جیسا شخص بن سکتا ہے تو بلاگروں میں کیا کیڑے پڑے ہوئے ہیں؟ لہذا اس سارے جمہوری ڈرامے کو ختم کرکے تین سال کے لئے بلاگروں کی حکومت قائم کردی جائے تاکہ ملک ایسا جنت نظیر بن جائے جیسا بنانے کے دعوے وہ اپنے بلاگوں میں عرصہ دراز سے کررہے ہیں۔ ویسے بھی ہم نے ہر قسم کے تجربے کر کے تو دیکھ لئے ہیں۔ فوجی اور سول ڈکٹیٹر بھی بھگت لئے۔ اسلام نظام کے دعوے دار بھی موجیں کرگئے۔ عوام کی حالت بدلنے کے نعرے لگانے والے بھی اپنی حالت بدل کے چلے گئے تو ”اک گناہ اور سہی“ کی طرز پر اگر ایک اور تجربہ بھی ہوجائے تو اس میں ہرج ہی کیا ہے۔ یہ تجربہ کامیاب ہوگیاتو وارے نیارے اور اگر نہ ہوا تو کم ازکم ان بلاگروں کی چونچ تو بند ہوہی جائے گی!
یہ بھی فیصلہ کیا گیا کہ بلاگی حکومت کے پاس ہر قسم کے فیصلے کرنے اور انہیں نافذ کرنے کا اختیار ہو اور یہ موجودہ نمائشی قسم کی حکومت نہ ہو جس کے پاس دوروں پر جاکر ”لوشے“ لوٹنے کے علاوہ کوئی اختیار ہی نہیں۔
یہ خبر سنتے ہی دس بارہ بلاگر تو شادئ مرگ کی کیفیت سے دوچار ہو کر داعئ اجل کو لبیک کہہ گئے اور باقی ”اج خوشیاں دے نال مینوں‌ چڑھ گئے نیں حال“ کی عملی تفسیر بن گئے!
اب سوال یہ اٹھ کھڑا ہوا کہ اس حکومت کا سربراہ کون ہو اور کابینہ میں‌ کس کو شامل کیا جائے اور ان کے محکمے کیا ہوں؟ یہاں آکر پچھلے دوسال سے بلاگر ایک دوسرے سے ”بلاگو بلاگی“ ہورہے ہیں اور کوئی فیصلہ نہیں‌ہوسکا ہے!
سو پیارے قارئین اس قضئے کے حل کے لئے آپ کی مدد درکار ہے۔ آپ کے خیال میں اس بلاگی حکومت کی ہیئت ترکیبی کیا ہونی چاہئے؟
بلا خوف و خطر اپنی رائے کا اظہار کیجئے! اگر آپ کی تجاویز کے مطابق حکومتی سیٹ اپ بن گیا تو آپ کے پوبارہ بھی ہوسکتے ہیں!

فٹافٹ پیزا

جیسا کہ یہاں‌ سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ میں اگر مجلس بھی پڑھوں‌ تو یار لوگ اس میں‌ سے بھی ہنسی کا سامان برآمد کرلیں گے!!
تو کیا ضرورت ہے پھر منہ پکا کرکے سنجیدہ باتیں کرنے کی! تو خواتین و حضرات۔۔۔۔۔ ہور چوپو!!
پچھلی دو تراکیب روایتی اور مشرقی کھانوں پر مشتمل تھیں۔ اس دفعہ نوجوان نسل کے ذوق کو مدنظر رکھتے ہوئے پیزا کی ترکیب پیش خدمت ہے۔ گر قبول افتد زہے عزو شرف۔۔۔۔
اجزاء:
1- میدہ
2- تازہ زیتون
3- زیتون کا تیل
4- پنیر
5- ٹماٹر
6- پیاز
7- کالی مرچ
8- کھمبیاں
9- مرغی
اوہو۔۔۔ یہ تو بہت سارے اجزاء ہوگئے ہیں۔ ہممم اب کیا کریں؟؟؟
ایک طریقہ تو یہ ہے کہ آپ سر کھپائی کرکے خواتین کے کسی ڈائجسٹ سے پیزا بنانے کی ترکیب ڈھونڈیں اور پھر مندرجہ بالا اجزاء کسی نہ کسی طرح اس میں فٹ کرکے پیزا تیار کرلیں۔ لیکن خدشہ ہے کہ وہ پیزا کھانے والا ہر ذی روح مجھے بددعائیں ضرور دے گا۔ ایک دوسرا خدشہ بھی ہے کہ اتنی دیر میں شاید بھوک سے آپ کا دم ہی نکل جائے تو مرنے کے بعد تو بندہ کچھ بھی نہیں کھا سکتا!! ہیں جی۔۔۔
تو پھر کیاکریں اب؟؟ اچھا، ٹھہریں ذرا ایک منٹ ۔۔ مجھے ذرا سوچنے دیں۔۔۔۔ ارے ہاں۔۔۔ آپ ایسا کریں کہ فورا سے پیشتر ان تمام اجزاء کو جہاں جہاں سے نکالا تھا وہاں رکھیں، اپنی جیب میں ”جھاتی“ ماریں اگر کرنسی نوٹوں کی قابل عزت مقدار نظر آئے تو سایکل ، موٹر سائیکل یا کار پر اور اگر ذاتی سواری میسر نہ ہوتو تانگے ، رکشے ، چنگ چی، منی بس، ٹویوٹا ہائی ایس جو بھی میسر آئے، اس میں‌سوار ہوجائیں اور اپنے قریبی پیزا ہٹ جاکر اپنی مرضی کا پیزا کھائیں اور مجھے دعائیں دے کر عنداللہ ماجور ہوں۔
پیزا ہٹ والے اس مفت کی پبلسٹی پر اگر مجھے عمر بھر کے لئے مفت پیزا فراہم کرنے لگیں تو اسے میری قسمت اور اپنی بدقسمتی گردانیں اور تقدیر کا لکھا سمجھ کر برداشت کریں جیسا کہ ساری قوم ہر قسم کے عذاب ، چھترپولے اور لتریشن ، تقدیر کا لکھا سمجھ کر کافی عرصے سے برداشت کررہی ہے!!!

ورزش کے فائدے

غلط سمجھے آپ! یہ کوئی دسویں کا اردو ”ب“ کا پرچہ نہیں، جس میں ”ورزش کے فائدے“ نامی جواب مضمون لکھا جارہا ہو۔ یہ واقعی ورزش کے فائدے بیان ہورہے ہیں۔ سنجیدگی کے ساتھ سنیئے!
آپ ڈپریشن میں‌ مبتلا ہیں، ہر وقت ٹینشن میں رہتے ہیں، آپ کا ہاضمہ بھی کام نہیں کرتا، وزن بڑھتا جارہا ہے، آپ کی کمر کو لوگ کمرہ کہنے لگے ہیں۔ تو ایک آزمودہ علاج پیش خدمت ہے۔ کوئی دوا کھانے کی ضرورت نہیں، کوئی ٹوٹکے بھی نہیں کہ فلانے بیج لے کر فلانے شربت میں گھوٹ کر نوش کریں۔ ڈائٹنگ کی بھی ضرورت نہیں، کرنا آپ کو صرف یہ ہے کہ ہفتے میں کم از کم چار دن 45 منٹ تک ورزش کریں۔ ورزش کا انتخاب بھی آپ کی اپنی صوابدید ہے۔ دوڑ سے لے کر پیدل چلنے تک، عام ورزش سے لے کر ویٹ ٹریننگ تک جو بھی آپ پسند کریں۔ شرط صرف مستقل مزاجی ہے۔
میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ ایک سے دو ہفتوں میں آپ ذہنی اور جسمانی طور پر مثبت تبدیلی محسوس کریں گے۔ آپ خود کو زیادہ خوش اور تندرست محسوس کریں گے۔ خاص طور پر ڈپریشن کے لئے یہ ایک اکسیری نسخہ ہے۔ جب بھی آپ خود کو ڈپریس محسوس کریں، فورا اٹھیں اور ہلکی پھلکی ورزش شروع کردیں۔ چاہے آفس کے لوگ آپ کو خبطی سمجھیں یا گھر والے پاگل۔ ان کی پرواہ نہ کریں۔
یہ تو مجھے معلوم نہیں کہ ورزش سے کونسا عضو کونسے کیمیکل بناتا ہے جس سے بندہ خوش اور تندرست محسوس کرتا ہے، یہ باتیں آپ پورے ڈاکٹر اور زیر تعمیر ڈاکٹر سے پوچھ کر کنفرم کرسکتے ہیں، لیکن اتنا میں ضرور جانتا ہوں کہ جو بندہ یا بندی ورزش کو عادت بنالے تو مرنے تک صحت مند رہےگا/گی انشاءاللہ اور جیسا کہ آپ کو معلوم ہے کہ موت کا کوئی علاج نہیں، لیکن مرنے سے پہلے قسطوں میں مت مریں۔
اور ورزش کریں!!
بسوں اور ٹرینوں میں منجن ، چورن وغیرہ بیچنے والوں سے تشبیہہ دینے پر سخت قانونی کاروائی کی جائے گی۔ جج صاحب بحال ہوچکے ہیں اور میرا بلاگ بھی باقاعدگی سے پڑھتے ہیں لہذا ازخود نوٹس سے بچنےکے لئے سنجیدگی سے تبصرے کئے جائیں۔ پھر نہ کہنا خبر نہ ہوئی...  دوڑو زمانہ چال قیامت کی چل گیا۔۔۔۔