میں بڑی مشکل میں پڑگیا ہوں!
سیانےکہتے تھےکہ " علموں بس کریں او یار'' تو ٹھیک ہی کہتے تھے!
عشق ومحبت کی اقسام اور ان کی خصوصیات، جب سے پڑھی ہیں تو میرے دل میں بھی بڑی خواہش اور تمنا پیدا ہوگئی ہے کہ میں بھی عشق کروں، محبت میں مبتلا ہوجاوں اور سیانے لوگوں نے محبت کی تعریفوں کے جو پل باندھے ہیں اور بے شمار صفحات، اس کوشش میں کالے کئے ہیں تو ذرامیں بھی اس کا مزا چکھوں!
پر شرط بڑی کڑی لگادی ہے جی کہ محبت کرنے کے لئے اپنا آپ خاک میں ملاو، اپنی انا کو محبوب کے سامنے سرنڈر کرو، اپنے آپ کی نفی کرو۔ اب میرے جیسا بندہ کہ جس کے پاس اپنی انا کے علاوہ کچھ ہے ہی نہیں، نہ علم ، نہ ایمان، نہ شعور، نہ وجدان، تو وہ کیسے اپنی ساری جمع پونجی اس جوئے میں لٹادے؟
دل کی بستی پر محبت کا بلڈوزر چلا کے پرانی بستی ڈھانی اور نئی بسانی بہت مشکل ہے۔ بستی کے پرانے مکین، غم روزگار کی عدالت سے حکم امتناعی لے آتے ہیں کہ جی یہ 420 منزلہ خود غرضی کی عمارت تو آپ بالکل نہیں گراسکتے۔اور اس کے متصل خواہشات کا ڈپارٹمنٹل سٹور بھی بہت ضروری ہے، اس کے بغیر تو کام چلتا ہی نہیں۔ اور انا کا مینار تو وہ ہے جی کہ اس کی آخری منزل پر کھڑے ہوکر بندے کو دوسرے آدم زاد کیڑے مکوڑے نظر آتے ہیں! اوروہ خود کو خدا کا نائب تو کیا خود ہی خدا سمجھنے لگتا ہے! بڑا ہنگامہ کھڑا ہوجائے گا جی دل میں تو۔ خانہ بدوشوں کی بستی کو بھی اگر حکومتی اہلکار گرانے آجائیں تو وہ مسکین بھی مزاحمت پر اتر آتے ہیں۔ لاٹھی چارج اور آنسو گیس استعمال کرنی پڑجاتی ہے جی بلکہ کبھی کبھار تو گولیاں بھی چل جاتی ہیں، تو دل کی بستی کے مکین تو بڑے ڈاہڈے ہوتے ہیں۔ یہ تو اتنی آسانی سے بستی چھوڑ کے جانے والے نہیں!
اور یہ دل کی بستی ہے بھی بڑی عجیب کہ ایثار و خلوص کی جھونپڑی بنتے تو زمانے لگ جاتے ہیں جبکہ خودغرضی اور کمینگی کے سکائی سکریپر لمحوں میں کھڑے ہوجاتے ہیں!
تودوستو!
میں تو بڑی مشکل میں پڑگیاہوں۔۔۔ کیا کروں؟