یہ
چودھری شہزاد کی کہانی ہے!
سن
1939، لاہور ۔ سہ پہر کا وقت۔ نواب ممتاز حسین ممدوٹ کی کوٹھی کے پائیں باغ کا
منظر۔ قائد اعظم سگار سلگائے گہری سوچ میں گم۔ دربان نے آکر عرض کیا ، آپ کے مہمان
تشریف لا چکے ۔ قائد نے سگار کا گہرا کش لیا۔ تھوڑی دیر دھواں اندر روکا۔ پھر
نتھنوں سے خارج کرتے ہوئے دربان کو آنکھ کے اشارے سے مہمان کو بلانے کے لیے کہا۔
مہمان
چودھری سرکار اعظم تھے۔
قائد
نے کھڑے ہو کر ان کا پر جوش استقبال کیا۔ مصافحے اور معانقے کے بعد چودھری صاحب
قائد کے بغل میں دھری کرسی پر بیٹھ گئے۔ قائد ہمیشہ ٹو دی پوائنٹ بات کرتے تھے۔ چودھری
صاحب سے فرمایا، "ویل چودھری۔۔۔ ہم ڈیسائڈ کیا ہوں کہ پاکیسٹین بناؤں گا۔ بٹ
آئی ڈونٹ ہیو اینی ریسورسز رائٹ ناؤ۔۔۔ اسی لیے ہم تم کو بلایا ہوں۔ وٹس یور
اوپینئین۔۔۔"
چودھری سرکار نے مونچھ کو تاؤ دیا۔ قائد کی طرف محبت سے دیکھا اور بولے، "آپ
بے فکر ہو کر اعلان کر دیں۔ باقی سب مجھ پر چھوڑ دیں۔"
یہ
ملاقات دراصل پاکستان بنانے کا آغاز تھا۔ اگلے سال مینارِ پاکستان کے سائے میں
قراردادِ پاکستان منظور ہوئی اور صرف سات
سال میں پاکستان بن گیا۔ قائد کی جدوجہد اور عزم اپنی جگہ مگر آج پاکستان قائم ہے
تو اس میں سب سے بڑا حصہ چودھری سرکار اعظم کا ہے۔ اگر اس دن نواب ممدوٹ کی کوٹھی
کے پائیں باغ میں وہ انکار کر دیتے تو آج نجانے تاریخ کیا ہوتی۔
یہ
وہ خاموش مجاہد تھے جنہوں نے پاکستان کے قیام کو یقینی بنایا مگر کسی تاریخ کی
کتاب میں ان کا ذکر نہیں۔ پاکستان بننے کے
بعد بھی چودھری صاحب نے نئے ملک کی معاشی ترقی کے لیے عظیم منصوبے شروع کیے۔ پاکستانی
صنعت کو بامِ عروج پر پہنچانے میں ان کا کردار کلیدی تھا۔ جنرل ایوب نے مارشل لاء
لگایا تو یہ چودھری صاحب طیش کے عالم میں سکندر مرزا کے گھر پہنچے۔ جنرل ایوب کو
بے نقط سنائیں۔ جنرل صاحب سر نیچا کرکے سنتے رہے۔ ان کی اتنی جرأت نہ تھی کہ
چودھری صاحب سے الجھ سکتے۔ کچھ عرصہ بعد جنرل ایوب کی مسلسل منت سماجت کے بعد ان
کو ملنے کو تیار ہوئے۔ بدوملہی میں چودھری صاحب کی حویلی میں ملاقات ہوئی۔ جنرل
صاحب نے منت کی کہ پاکستان کو ائیرلائن کی ضرورت ہے۔ آپ اس کام کا بیڑا اٹھائیں
کیونکہ صرف آپ ہی یہ کام کر سکتے ہیں۔
چودھری
سرکار نے بادلِ نخواستہ حامی بھری اور پی آئی اے کا آغاز ہوا۔ چند ہی برسوں میں پی
آئی اے دنیا کی نمبر ون ائیر لائن بن گئی۔ چودھری صاحب نے کبھی اس پر غرور نہیں
کیا۔ جنرل ایوب آخری دم تک چودھری صاحب کے احسان مند رہے۔
چودھری سرکار کے پوتے چودھری شہزاد کی کہانی بھی اپنے دادا حضور کی طرح ان سنگ ہی
رہی۔ انہوں نے پاکستان کی حفاظت کے لیے لاتعداد دفعہ اپنی جان داؤ پر لگا کر
ناممکن مشن مکمل کیے۔ یہ بچپن سے ہی کمانڈو ٹائپ بچے تھے۔ یہ گول گپوں کی ریڑھی سے
بنا گول گپے کھائے تین تین پیالیاں کھٹے کی پی جاتے تھے اور گول گپے والے پائی کو پتہ
بھی نہیں چلتا تھا۔ ان کی فراست، جرأت اور ذہانت ان میچ تھی۔
آتش
جوان ہوا تو یہ پاکستان کے دفاع پر کمر بستہ ہوگئے۔ مغربی دنیا سے پرزے پاکستان لانے
ہوں یا اہم شخصیات کو ادھر سے ادھر کرنا ہو، ان سے زیادہ مہارت کسی کے پاس نہ تھی۔
نوے کی دہائی سے لے کر آج تک ہر سیاسی بحران میں ان کا کردار امیتابھ بچن کی طرح
مرکزی رہا۔
ہر عظیم
شخصیت کے حاسد بھی پیدا ہو جاتے ہیں۔ انہیں حاسدین نے چودھری شہزاد کو ایسے مشن پر بھیجا جس میں 1000 فیصد ناکامی
منتظر تھی۔ پلان یہ تھا کہ ان سے چھٹکارا حاصل کیا جائے ۔حاسدین مگر چودھری کو مس جج کرگئے۔ آپ دشمن کی کچھار
میں بلا خطر گھسے اور دلیری اور جانبازی
کے ساتھ مشن مکمل کیا جس کی تفصیلات بتانا ملکی مفاد میں نہیں۔ مشن کی تکمیل کے
بعد ایکسٹریکشن سائٹ پر پہنچے تو وہاں کوئی موجود نہ تھا۔ چودھری کو پھنسانے کے
لیے پلان کے مطابق کوئی انہیں وہاں سے ایکسٹریکٹ کرنے نہیں پہنچا۔ چودھری نے واچ
ٹرانسمیٹر کے ذریعے بہت رابطے کی کوشش کی مگر کسی نے جواب نہیں دیا۔ غداروں کے نزدیک یہ مشن ناممکن تھا مگر وہ
چودھری ہی کیا جو ناممکن کو ممکن نہ کرسکے۔ گھبراہٹ اور چودھری شہزاد دومتضاد چیزیں ہیں۔ کیونکہ ان کا اس قول پر یقین
کامل ہے کہ "آپ نے گھبرانا نہیں ہے"۔
چودھری صاحب نے فورا نائی کی دکان کے باہر کھڑے سائیکل کا تالا توڑا اور دبادب
پیڈل مارتے ہوئے دشمن کے علاقے سے فی الفور چمپت ہوگئے۔
حاسدین
کا منصوبہ ناکام ہوا۔ مدعی لاکھ برا چاہے تو کیا ہوتا ہے۔۔۔۔ اس کے بعد بھی کئی
دفعہ چودھری صاحب کو پکڑنے اور گدڑ کٹ
لگانے کی کوشش کی گئی مگر آپ مکھن سے بال
کی طرح نکل گئے کیونکہ۔۔۔۔ چودھری کو پکڑنا مشکل ہی نہیں ، ناممکن ہے۔
آپ
آج بھی خفیہ ٹھکانوں سے حاسدین کے سینوں پر مونگ دلتے ہیں۔ ان کی غداری اور اپنی
شجاعت کے قصے بیان کرتے ہیں تاکہ نئی نسل کو پتہ چل سکے کہ پاکستان کے اصل بانی
اور محسن کون ہیں۔