۔۔ اور نکلیں گے کَناجَر کے قافلے

 

 صد حیف۔۔ اہلِ پنجاب۔۔ صد حیف۔ حضرت جوش سے کسی ان گھڑ پنجابی نے کَن جَر کا معانی دریافت کیا۔ اس مردِ لَسٹ نے تبسم فرمایا۔توقف کے بعد بولے، گنگا جمن کا کَن جَرپنجاب سے الگ ہے۔ مردِ آزاد و کلاکار۔ رستوں کا راہی۔سفر ہی جس  کی منزل۔ شکاری، محب، دل آرا۔۔۔ واللہ کپتان سے بڑا کَن جَر کون ہو سکتا ہے! عقل انگشت بدنداں رہ جاتی ہے۔

قریب دو عشرے ادھر کی بات ہے۔ عشاء  ادا ہوچکی۔ تالاب کے کنارے گھاس پر چاندنی بچھی ہوئی۔ محفل یاراں جمی ہوئی۔ طالبعلم نے تیسری دفعہ بوتل کی طرف ہاتھ بڑھایا تو طیش کے عالم میں کپتان نے طالبعلم کی چندیا پر چپت جمائی۔ بولا، "کَن جَرا کسی ہور نوں وی پی لین دے"۔ فقیر کا دل  کَن جَر سے مسوس ہوا۔ جوش یاد آئے۔ روشنی کا جھماکا سا ہوا۔ پچھلی اماوس کی محفل یاد آئی۔ کپتان سےجوش بارے دریافت کیا تو انار کے پیڑ پر لٹکتے اناروں پر نظر ٹکا کر لحظہ بھر کو گم صم سا ہوا۔ پھر بولا، "یادوں کی بارات میں نے پڑھی نہیں، مجھ پر بیت گئی ہے۔ حضرت جوش کہ ہر سانس لیتی اور حرکت کرتی شے سے وصال  ومصلول کے خواہشمند۔ اپنا بھی سفرِ زیست ایسے ہی طے ہوا، ہو رہا ہے۔ " کپتان نے فقیر کی کمر کے گرد بازو حمائل کیا۔ بے خودی کے عالم میں چندیا پرہولے ہولے سے مساج کرنے لگا۔کمر پر سرکتا ہاتھ پشت کی جانب بڑھا تو فقیر کے حواس گم ہونے لگے۔

دوری نہ رہے کوئی۔۔۔ آج اتنے قریب آؤ۔۔۔ میں تم میں سما جاؤں۔۔ تم مجھ میں سما جاؤ۔۔۔
مراد سویٹ نے کپتان کے گال پر ہلکے سے پاری کی تو دفعتا کپتان عالمِ رنگ و بُو سے حقیقت کی دنیا میں آیا۔ طالبعلم کو خود سے چمٹا دیکھ کر "پَراں مر بغیرتا" کہہ کر دھکا دیا۔ فقیر تالاب میں جا گرا۔  کپتان سے وصال کی خواہش ، ناتمام رہی۔ باقی تاریخ ہے۔

تمہید کہ طولانی ہوچکی۔ کپتان کی سرشت محبت ہے۔ اپنی اصل میں کَن جَر۔ کیسے ممکن  کہ وہ فساد مچائے۔ دنگا کرے۔ سازش ہے یہ سازش۔  سپہ سالار کہ اکل کھرے سپاہی۔ کان ان کے پھر بھر دئیے۔ بدظن کر دیا گیا۔ 9 مئی کو ہوّا بنا دیا۔ ہاں۔۔ نکلے تھے قافلے۔۔ مگر کَناجَر کے قافلے۔ ہاتھوں میں پھول۔ لبوں پہ دعا۔۔۔

جتنے بھی تو کرلے ستم۔۔ ہَس ہَس کے سہیں گے ہم۔۔۔ یہ پیار نہ ہوگا کَم۔۔۔ صنم تیری قسم۔۔۔

فٹیج نکلوا لی جائے۔ پَرے کے پَرے یہ گاتے ہوئے نکلے۔ کپتان  اور سپہ سالار۔ یہ جوڑی آسمانوں پر بن چکی۔ کب تک بدباطن اس  ملاپ کو روکیں گے۔ بہت جلد وہ دن آئے گا۔ محب اور محبوب بہم ہوں گے۔ شکوے دور۔ وصال ، حضورِ والا، وصال۔

خط محبوب  لکھتے ہیں۔ دشمن کو خط نہیں لکھے جاتے۔ صنم کتنا ہی سنگدل ہو۔ محبوب اس سے کبھی مایوس نہیں ہوتا۔ محبت ہے یہ، محبت۔ کپتان اپنے کَناجَر سے جب کہتا ہے کہ باہر نکلو اور آزادی حاصل کرو تو یہ پیار کی آزادی ہے۔ یہ وصال و مصلول کی آزادی ہے۔ یہ گیت گانے، ٹھمکے لگانے کی آزادی ہے۔ دھول دھپّہ اس کا مدعا نہیں۔

"جب آئے گا کپتان" سے "نیکسٹ سٹاپ اڈیالہ" اور نَک دا کوکا" تک ۔۔۔ سب مدھر گیت کپتان کے ذہنِ کَن جرانہ کی پراڈکٹ ۔ ساری طرزیں کپتان نے بنائیں۔ کریڈٹ کبھی وہ لیتا نہیں۔ ورلڈ کپ بھی جیتا تو ساری ٹیم کو کریڈٹ دیا۔ حقیقت مگر یہ کہ   جیت اسی کی تھی۔ باقی تو سب ریلو کٹّے۔ عمران اسماعیل کہ کپتان پہلے پیار اور 9 مئی کے بعد غصے سے اس کو گینڈے کی پشت پکارتا، راک سٹار بنا دیا۔ لالے عطاءاللہ کا کیرئیر ختم ہوئے زمانہ بیت چکا تھا ، "جب  آئے گا کپتان" سے اس کو نئی زندگی ملی۔ ملکو کے گانوں پر کوئی چھان بورا بھی نہ دیتا تھا۔ اب ڈالرز اور پاؤنڈز میں یافت۔ یہ کپتان کی کَن جرانہ برکت ہے۔

ایک پورا کَن جَر گروہ کپتان نے سوشل میڈیا پر کھڑا کردیا۔ یہ نظریے کی طاقت ہے۔ صلح جوئی، امن اور شائستگی۔ کوئی گالی بھی دے تو جواب میں انترا گا دیتے ہیں۔ ایسی جگل بندی بڑے بڑے خاں صاحبان نہ کر سکے جو  خان نے کر دکھائی۔

خدا رحمت کند ایں کَن جَرانِ یَک طینت را

قید میں ہرگز وہ گھبرایا نہیں۔ جن کے دل محبوب کی یاد سے روشن ہوں، ان کی آنکھیں نور خدواندی سے منور رہتی ہیں۔ قید کی ہر شام محبوب کی یاد میں ایک کوٹھڑی سے صدا بلند ہوتی ہے تو اڑتے پرندے رک جاتے ہیں۔ پیڑوں کے پات ساکن۔ جس کے کان میں وہ آواز پڑتی ہے، آنکھیں جھرنا بن جاتی ہیں۔ جاڑے کی رات خدا کسی کو محبوب سے جدا نہ کرے۔۔۔

نیڑے آ آ آ ظالما وےےےےے

میں ٹھَر گئی آں آں آں۔۔ میں مر گئی آں آں آں

صد حیف۔۔ اہلِ پنجاب۔۔ صد حیف۔ حضرت جوش سے کسی ان گھڑ پنجابی نے کَن جَر کا معانی دریافت کیا۔ اس مردِ لَسٹ نے تبسم فرمایا۔توقف کے بعد بولے، گنگا جمن کا کَن جَرپنجاب سے الگ ہے۔ مردِ آزاد و کلاکار۔ رستوں کا راہی۔سفر ہی جس  کی منزل۔ شکاری، محب، دل آرا۔۔۔ واللہ کپتان سے بڑا کَن جَر کون ہو سکتا ہے! عقل انگشت بدنداں رہ جاتی ہے۔