اک ڈرائیور دو وہیکلز

 

ندّی کے پانی کی ٹھنڈک عرفان کے نفسِ لوّامہ کو سلا چکی تھی۔ گوگی با دِل نخواستہ ندّی سے باہر آئی۔ ترشے ہوئے جسم کو تولیے میں لپیٹا۔ عرفان کے ہاتھ سے پکّا سگریٹ تقریبا چھینتے ہوئے دو تین گہرے کش لیے۔ غصّہ تھوڑا ٹھنڈا ہوا تو جھاڑیوں کے پیچھے بچھی ہوئی چٹائی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے عرفان کو ادھر آنے کا کہا۔ عرفان ٹھنڈے پانی کے شاک سے ابھی تک باہر نہیں آسکا تھا۔ دونوں ہاتھ بغلوں میں دئیے آہستگی سے چلتا ہوا چٹائی کے پاس پہنچا۔ اسے ذرا سا گھسیٹ کر دھوپ میں کرکے اس پر دراز ہوگیا۔ گوگی دل میں سوچ رہی تھی کہ ضروری نہیں کہ سب کچھ دیرینہ خواب کے مطابق ہی ہو۔ سکرپٹ تھوڑا بدل بھی جائے تو حرج نہیں۔ اختتام البتہ اب بھی خواب والا ہو سکتا ہے۔ اس نے آہستگی سے لپٹا ہوا تولیہ کھول کر چٹائی پر رکھا اور عرفان کی پائنتی بیٹھ کر اس کے ٹھنڈے پاؤں اپنی گود میں رکھ کر مساج کرنے لگی۔ عرفان کا  ڈیزل انجن آہستہ آہستہ گرم ہونے لگا تھا۔ گوگی کی مراد پوری ہونے کا وقت آن لگا تھا۔

لگن سچّی ہو تو  خواب کو مقصد بنا لینا چاہیئے۔ جِیتو بھیّا  یہی کہتے ہیں۔۔!

عرفان اکرم نے گوگی کو ان منازل پر پہنچایا جہاں آج تک کوئی اسے نہ پہنچا سکا تھا اگرچہ اس نے  بہت سے سفر کیے تھے۔  ندّی کے اس ویران کنارے کے اردگرد موجود جنگل میں چرند پرند گوگی کی کُوکیں سن کر حیران تھے کہ ایساکون سا جاندار ہے جو لطف کی اس منزل پر پہنچ گیا ہے کہ اس کی کُوک جنگل بیلوں میں گونج رہی ہے۔

نی میں سونڑاں  جوگی دے نال۔۔۔

ادھیڑ عمری، چَرس اور ساری زندگی کی مشق ۔۔۔ عرفان کا انجن اتنا چلا کہ گوگی کو منزل سے بھی آگے پہنچا آیا۔ سفر تمام ہوا۔ عرفان نے گڈفلیک کی ڈبّی سے پکّا نکالا۔ سلگا کر ایک ہی کَش میں چوتھائی سگریٹ پھونک ڈالا۔ گوگی چٹائی پر ایسے پڑی تھی جیسے سیلاب اترنے کے بعد کچّے کا علاقہ ہو۔

یہی وہ لمحہ تھا جب گوگی نے نیم بے ہوشی آمیز انبساط میں تہیّہ کیا کہ دنیا اِدھر کی اُدھر ہو جائے، مانے کو مئیر ضرور بنوائے گی۔

اگلے دن وہ ملک نیاز سے  ملی۔ الیکشن کی ساری فنڈنگ کھلے گلے کے بلاؤز اورملک صاحب کے کندھے پر دو دفعہ نرمی سے ہاتھ رکھنے پر مل گئی۔ ڈی سی صاحب کو فون کرنا ہی کافی رہا۔  حلقے میں مانے کی پوزیشن جیتنے والے نہیں تھی مگر جب ملک اور ڈی سی ساتھ ہوں تو ووٹ کی ضرورت نہیں پڑتی۔

عرفان اکرم  کو مئیر کا الیکشن جتوا دیا گیا۔ نسرین پنبیری اور سرور کےسارے  وحشی خواب پورے ہونے کا وقت آ گیا تھا۔  عرفان کو  سائیکل اور سوزوکی ایف ایکس چلانے کے علاوہ کچھ بھی چلانے کا تجربہ نہیں تھا۔ گوگی اور پنبیری نے  عرفان کو تسلّی دی کہ  تمہارا کام صرف دو تین گھنٹے کے لیے دفتر آنا ہوگا وہ بھی ہفتے میں ایک دو  بار۔ باقی سب کچھ ہم سنبھال لیں گے۔ سرور نے خاکروبوں کے امور سنبھالے اور گوگی نے محصول چونگی کے۔ پنبیری نے تبادلوں کے لیے مناسب دام پر سیل لگائی۔ گلشن کا کاروبار اچھے سے چلنے لگا۔

ہردن عید اور رات شبِ برات تھی۔ عرفان نے اگرچہ گزشتہ زندگی مناسب خوشحالی میں گزاری تھی مگر اب اس کو پتہ چلا کہ اصل عیش کیا ہوتے ہیں۔ سرور، پنبیری اور گوگی اس کو 30 فیصد شئیر روزانہ  پہنچاتے تھے۔ اتنے پیسے مانے نے زندگی میں کبھی اکٹھے نہیں دیکھے تھے جتنے اسے روز مل رہے تھے۔

ایک دن شام کے جھٹپٹے میں پنبیری نے مانے کو لان میں جاگنگ کرتے دیکھا۔ سرور کے ساتھ ساری زندگی گزارنے کے بعد  اس کو یہ امید نہیں تھی کہ اس کا دل ایسے دھڑک جائے گا۔ پنبیری اب بھی لاکھوں میں نہ سہی، ہزاروں میں ایک تھی۔ اسی رات پنبیری نے  فیصلہ کیا کہ "ایک دفعہ سے کچھ نہیں ہوتا"۔

عرفان کے ساتھ پنبیری کی علامتی شادی کو کافی دیر ہو چکی تھی مگر ابھی تک وہ عملی طور پر میاں بیوی نہیں  تھے۔ پنبیری  نے اس رات  فیروزی رنگ کی ساڑھی کے ساتھ شلپا شیٹی کَٹ بلاؤز پہنا۔ ہلکا سا میک اپ کیا۔ بال کھلے چھوڑے اور عرفان کے کمرے میں پہنچ گئی۔ یہ مانے کا شربت ٹائم تھا۔ اس حالت میں انسان کو ویسے ہی حُوریں نظر آرہی ہوتی ہیں اور پنبیری تو واقعی ادھیڑ عمر مِس  حجرہ شاہ مقیم لگ رہی تھی۔  مانے کے فون پر کشور کمار کی آواز گونج رہی   تھی۔۔۔"اس سے آگے کی اب داستاں مجھ سے سن"۔۔۔

اس رات مانا چار بجے تک جاگا اور پنبیری اگلے دن دو بجے تک سوئی۔

صورتِ حالات لوّ ریکٹنگل ہو چکی تھی۔ گوگی، مانا، سرور، پنبیری۔ گوگی کو چند دن میں ہی اندازہ ہوگیا کہ پنبیری کی چال میں یہ دُلکی پَن کس کی دَین ہے۔یہ اس معاہدے کی خلاف ورزی تھی جو اس منصوبے کی شروعات پر کیا گیا تھا۔عرفان  لٹرلی گوگی کے خوابوں کا شہزادہ تھا۔ وہ پنبیری کی دوستی اور عرفان کے محبّت کے بیچ سینڈوچ بننے کو ہرگز تیار نہ تھی۔

 سرور البتّہ خاکروبوں کی سپروائزری اور حصّے پر خوش تھا۔ اسے پنبیری کو ایسے خوش دیکھ کر شادی کا پہلا مہینہ یاد آگیا۔ اس کے بعد  وہ کبھی اتنا خوش نہیں دِکھائی دی تھی۔اس نے سوچا،  گرل ہیز آ رائٹ ٹُو بِی ہیپی۔

اُدھر عرفان اکرم کو کسی چیز کی پرواہ نہیں تھی۔ گوگی ہو، پنبیری ہو، وکّی ہو یا ٹونی ہو۔ جب تک اسے کھانے کو مٹن، پینے کو شربت اور پھونکنے کو چَرس ملتی رہے۔ راتیں  (اور کبھی کبھی دوپہریں) رنگین و سنگین  ہوتی رہیں۔ بنک اکاؤنٹ میں حصّہ پہنچتا رہے۔  چاہے قیامت آجائے، پنجابی محاورے کے مطابق اس کو انجن کو ٹھنڈ ہے۔

مانا، گوگی کی نوجوانی کا عشق تھا جبکہ  پنبیری کے ادھیڑ عمری میں وہ طبق روشن ہوئے تھے جو ساری عمر بجھے رہے۔ دونوں سہیلیاں مانے سے دستبردار ہونے کو تیار نہیں تھیں۔ نہ ہی اس خزانے کو چھوڑنے پر تیار تھیں جو مانے کے مئیر بننے کے بعد ان کے ہاتھ لگا تھا۔

مئیر اسلام آباد جناب عرفان اکرم  ان طوفانوں سے بے خبر اپنی دنیاوی جنّت کے حُور و غلمان کے ساتھ مشغول تھے۔ ان کے فرشتوں کو بھی خبر نہیں تھی کہ ان کے ساتھ کیا ہونے والا ہے!