کمینہ
گاڑی جیسے ہی شہر سے نکلی اور کھلے علاقے میں آئی، وہ تینوں سب چھوڑ چھاڑ کر دروازے میں جا کھڑے ہوئے۔ ان میںایک جو دبلا پتلا اور معنک تھا، اس نے سگریٹ سلگالیا۔ اس سارے ہنگامے میں ان کا سرپنچ، اس حرکت پر معنک کو خونریز نظروں سے گھورتا ہوا دوسرے دروازے میں جاکر کھڑا ہوگیا اور پہاڑی علاقے کے مناظر سے لطف اندوز ہونے لگا۔ سوہاوہ پار کرنے کے بعد یا شاید پہلے پہاڑی علاقے کے ایک چھوٹے سے سٹیشن پر گاڑی رکی، شاید کسی دوسری گاڑی کا کراس تھا۔ گاڑی کے رکتے ہی تینوں چھلانگیں مار کر نیچے اتر آئے، پانچ دس منٹ پلیٹ فارم نما چبوترے پر گھومنے کے باوجود بھی جب گاڑی کی روانگی کے آثار نظر نہ آئے تو وہ اپنے سامان سے بیٹ اور ٹینس بال نکال لائے اور پلیٹ فارم پر کرکٹ کھیلنے لگے۔ دیکھا دیکھی ان کے ساتھ پانچ چھ مسافر اور مل گئے۔ تقریبا آدھ گھنٹے کے بعد گاڑی نے وسل دی اور روانہ ہوئی۔ مغرب کا وقت ہونے والا تھا۔ وہ تینوںبھی شاید مسلسل بولنے اور رنگبازیاں کرنے کی وجہ سے تھک چکے تھے اور اب کھڑکیوںسے لگے پیچھے کو دوڑتے مناظر میںگم تھے۔ اپنی حرکتوں اور باتوں سے ان کا غیر اعلانیہ لیڈر لگنے والا سائیڈ والی سنگل سیٹ پر براجمان ہوچکا تھا۔ اس کے ہاتھ میںاب ایک ڈائجسٹ تھا اور وہ دنیا و مافیہا سے بے خبر اس میںگم تھا۔ ان کے ساتھ سفر کرنے والی فیملی کو بھوک نے ستایا اور انہوں نے اپنے ٹفن وغیرہ کھولے تو پوری بوگی مرغن کھانوں کی خوشبو سے مہک اٹھی۔ ایک خاتون نے مروتاً اس سے کھانے کو پوچھا تو اس نے بہت معصومیت سے جواب دیاکہ ”جی شکریہ! مجھے ڈاکٹر نے چکنائی والے کھانوں سے منع کیا ہے۔“ خاتون نے اپنی لہجے میںبے یقینی سموتے ہوئے کہا، ”کیوں؟“ اس پر وہ بولا، ”بس جی کیا کریں گی پوچھ کر؟ چھوڑیں“۔ نوجوان کے لہجے کی اداسی اور چہرے پر چھائی افسردگی آمیز مسکراہٹ نے خاتون کے شوق تجسس کو بڑھاوا دیا اور انہوں نے اصرار سے پوچھا ”بیٹا! بتاؤ تو سہی کیا بات ہے؟“
”میرے دل میں سوراخ ہے۔ ڈاکٹر کہتے ہیں کہ اگر احتیاط کی تو ایک سال تک اور جی سکتے ہو۔ آپ یقینا ہمارے شور شرابے سے تنگ آگئے ہوں گے۔ لیکن میری جتنی بھی زندگی باقی ہے اسے مرنے کے خوف میں ضائع نہیں کرنا چاہتا، اسی لئے میںاپنے کزنز کے ساتھ مری آیا تھا، اگلے سال تک پتہ نہیں میں رہوں گا یا نہیں! میں آپ سے اس شور شرابے کی معافی چاہتاہوں“۔ یہ کہہ کر نوجوان افسردہ سے انداز میں مسکرایا اور کھڑکی سے باہر جھانکنے لگا۔
خاتون کا تو وہ حال تھا کہ کاٹو تو بدن میں لہو نہیں۔ ان کی آنکھیں بھر آئیں۔ وہ نوجوان کے پاس آئیںاس کے سر پر ہاتھ پھیرا اور اصرار کرکے اسے اپنے ساتھ والی سیٹ پر بٹھا لیا۔ تھوڑی دیر بعد نقشہ ہی بدلا ہوا تھا۔ ان تینوں کو کھانا، چائے ، ڈرائی فروٹ ہر چیز مہیا کی جارہی تھی۔ باقی کے دونوں اس معنک سمیت حیران تھے کہ آخر کیا قیامت آگئی ہے کہ جو خواتین ہمیں تھوڑی دیر پہلے کچا چبانے والی نگاہوں سے گھور رہی تھیں اب وہی اتنے پیار سے تواضع کررہی ہیں۔ وہ بار بار سوالیہ نظروں سے اپنے لیڈر کو گھورتے تھے لیکن اس کے چہرے پر لگے ”بکواس بند کرو اور آرام سے کھاؤ“ کا بینر پڑھ کر پھر چپ چاپ پیٹ پوجا میں مصروف ہوجاتے تھے۔
باقی سفر میں بھی ان کا ہنگامہ جاری رہا، لیکن اب ان خواتین کی نگاہوں سے غصے کی بجائے ہمدردی جھلک رہی تھی۔ آدھی رات کے بعد جب گاڑی اپنی منزل پر پہنچی تو رخصت ہوتے ہوئے بزرگ خواتین ، اس نوجوان کو گلے لگا کر ایسے دعائیں دے رہی تھیں کہ جیسے وہ محاذ جنگ پر جارہا ہو!
سٹیشن سے باہر آتے ہی دونوں نےمل کر لیڈر نما کو دبوچ لیا اور اس رام کہانی کی وجہ دریافت کی۔ پورا ماجرا سننے پر دونوں نے بیک وقت فلک شگاف نعرہ لگایا!!
کمینہ!!
27 تبصرے:
- جاوید گوندل ۔ بآرسیلونا ، اسپین نے فرمایا ہے۔۔۔
-
انتہائی کمینہ!!!
- July 31, 2009 at 9:24 PM
- DuFFeR - ڈفر نے فرمایا ہے۔۔۔
-
ہاہاہاہاہا :mrgreen: :mrgreen: :mrgreen: :mrgreen: :mrgreen:
یار پوسٹ کا عنوان غلط رکھ دیا ہے
ایسا عنوان ہونا چاہئے کہ بندہ آخری لائن پڑھ کر تمہیںاور اسے دونوں کو اس لفظ سے نوازے :mrgreen:
اور میرے دل میں تو واقعی سوراخ ہیں :cry: - August 1, 2009 at 12:35 AM
- سعدیہ سحر نے فرمایا ہے۔۔۔
-
سلام جعفر
یہ کہانی سے زیادہ آپ بیتی لگ رھی ھے - August 1, 2009 at 12:40 AM
- بدتمیز نے فرمایا ہے۔۔۔
-
دفر: سب کے دلوں میںہوتے ہیں :razz:
- August 1, 2009 at 2:27 AM
- خرم نے فرمایا ہے۔۔۔
-
خیر یہ تو معصوم سی شرارت تھی۔ کمینگی کا لفظ کافی وزنی لگتا ہے اس پر۔
- August 1, 2009 at 2:28 AM
- عبداللہ نے فرمایا ہے۔۔۔
-
کھا اور پی رہے تھے :smile:
- August 1, 2009 at 3:40 AM
- عبداللہ نے فرمایا ہے۔۔۔
-
جھوٹ بول کر ہی صحیح مگر اپنے حصے کا دانہ پانی کھارہے تھے :razz:
- August 1, 2009 at 3:40 AM
- جعفر نے فرمایا ہے۔۔۔
-
::جاوید گوندل:: شکریہ۔۔۔ :lol:
::ڈفر:: ------ایسا عنوان ہونا چاہئے کہ بندہ آخری لائن پڑھ کر تمہیںاور اسے دونوں کو اس لفظ سے نوازے-------
ایک ہی بات ہے ;-)
::سعدیہ سحر:: مجھے بھی کچھ ایسا ہی لگ رہا ہے۔۔۔ :shock:
::بدتمیز:: :lol:
::خرم:: میرے خیال میں تو سستے میں چھوٹ گیا وہ۔۔۔ :grin: - August 1, 2009 at 12:14 PM
- محمداحمد نے فرمایا ہے۔۔۔
-
جعفر بھائی خوب رہی یہ شرارت آپ کی :mrgreen:
ویسے کم از کم اس سے یہ بات تو پتہ چلتی ہے کہ زیادہ تر لوگ محبت کرنے والے ہی ہوتے ہیں اور زیادہ تر لوگوں کا غصہ عارضی ہی ہوتا ۔ اور پکے پکے "کمینے" لوگ بہت کم ہوتے ہیں۔ - August 1, 2009 at 2:06 PM
- راشد کامران نے فرمایا ہے۔۔۔
-
آپ کی کہانی نویسی ماشاء اللہ نکھرتی جارہی ہے۔۔ دل کے سوراخ کا اب کیا حال ہے؟
:grin: - August 1, 2009 at 4:17 PM
- جعفر نے فرمایا ہے۔۔۔
-
::محمد احمد:: درست فرمایا آپ نے، یہ پکے کمینے میرے جیسے ہی ہوتے ہیں۔۔۔ :mrgreen:
::راشد کامران:: آپ کی حوصلہ افزائی، خون کی دو بوتلوں کا کام کرتی ہے۔۔
دل کہاں بچا ہے جی اب، سوراخ ہی رہ گیا ہے۔۔۔ :cry: - August 1, 2009 at 4:24 PM
- محمد وارث نے فرمایا ہے۔۔۔
-
واقعی کمینے پن کی انتہا ہے، انسانی جذبات کے ساتھ اس بیدردی سے کھیلنا کمینہ پن نہیں تو اور کیا ہے۔
ویسے آئیڈیا مزے کا تھا ;) - August 1, 2009 at 5:12 PM
- جاوید گوندل ۔ بآرسیلونا ، اسپین نے فرمایا ہے۔۔۔
-
مجھے نہیں علم تھا ۔ کہ ستاروں پہ کمند ڈالانے والا اقبال رحتمۃ علیہ کا عقابی نوجوان جعفر بھائی تھے۔ورنہ تگڑی سی گوشمالی باتیں لکھ بیجھتا۔
صاحب اگر یہ آپ ہی تھے۔ تو اسے نوجوانی کا لاابالی پن نہیں کہا جاسکتا۔ ٹرین میں ایک ڈبے سے دوسرے ڈبے میں دروازوں سے لٹک کر جانا تو سمجھ میں آتا ہے ۔ مگی اتنی بڑی نوسربازی۔ ;-)
اسکا مطلب یہ ہوا کہ آپ کو جذبات سے اور خواتین کے ۔۔دلوں۔۔ سے کھیلنے کی پرانی عادت ہے۔
نوٹ- یہ الفاظ اُس صورت میں پڑھے جائیں ۔ اگر وہ ۔ نوجوان۔۔ آپ ہی تھے تو۔ ورنہ آپ کو سو قتل معاف کرنے کے بارے سوچا جاسکتا ہے۔ :| - August 1, 2009 at 6:43 PM
- جعفر نے فرمایا ہے۔۔۔
-
::وارث:: کوئی سوچا سمجھا منصوبہ نہیں تھا جی کمینے کا، بس شرارتاّ خواتین کی خونریز نگاہوں کی فریکوئنسی بدلنے چاہتا تھا، کھانا پینا تو بونس میں مل گیا تھا۔ ;-)
::جاوید گوندل:: نہ جی نوسر بازی نہیں ڈرامہ بازی کہہ سکتے ہیں۔ نوسر بازیاں تو بندہ سوچ سمجھ کر کرتا ہے۔ :grin: لیکن آپ یقین کریں منزل تک پہنچتے پہنچتے کمینے کو خود پر واقعی ترس آنے لگا تھا اور اپنی متوقع جواں مرگی پر اس کی آنکھیں باربار نم ہوجاتی تھیں۔ :mrgreen: - August 1, 2009 at 7:03 PM
- عمر احمد بنگش نے فرمایا ہے۔۔۔
-
تیرے میںگٹے سیک دیاں، اور تینوںشرم نہ آئی ایسی غلیظحرکت کرتے ہوئے، کھایا کیا کیا تھا ویسے :mrgreen: :mrgreen: :mrgreen:
کمینہ، ہاہاہاہاہا، یار ایسا تو نہ کہو، یہ تو فن تھا اس بے چارے کا :mrgreen: - August 2, 2009 at 4:43 AM
- جعفر نے فرمایا ہے۔۔۔
-
::عمر بنگش:: قیمے والے پراٹھے، پلاؤ، سبز چائے، گاجر کا حلوہ، چلغوزے، مونگ پھلی، اخروٹ اور دیگر مقویات۔۔۔ ;-)
اسی لئے کہتا ہوں مجھے صدر بنا دو، اتنی امداد لا کر دوں گاکہ لہریں بہریں ہوجائیں گی۔۔۔ :mrgreen: - August 2, 2009 at 12:09 PM
- زین نے فرمایا ہے۔۔۔
-
;-) That is quite interesting. it seems it really happened to you.
- August 2, 2009 at 10:51 PM
- جاوید گوندل ۔ بآرسیلونا ، اسپین نے فرمایا ہے۔۔۔
-
:lol: :lol: اسی لئے کہتا ہوں مجھے صدر بنا دو، اتنی امداد لا کر دوں گاکہ لہریں بہریں ہوجائیں گی۔۔ :lol: :lol: :lol:
یعنی اب ہم کمینگی کرنے کے علاوہ تصدیق شدہ سندی ۔۔مانگت۔۔ بھی بنیں گے۔
آپکے کے اس جملے کی وجہ سے یہ راز سمجھ میں یا ہے آپ کا جرم تو کوئی جرم ہی نہیں۔ وہ تو ایک ننھا سا لطیفہ تھا۔ جرم تو واقعی وہ کر رہے ہیں اور کمینگی بھی جو گھر گھر ملک ملک سے خیرات اکھٹی کر رہے ہیں۔ جس کی نہ کوئی لہر نظر آتی ہے نہ بہر۔ - August 3, 2009 at 1:21 AM
- رضوان نے فرمایا ہے۔۔۔
-
بہت عمدہ جعفر
ہاں سال پورا ہونے میں کتنے دن باقی ہیں؟؟؟ :roll: - August 3, 2009 at 1:58 AM
- جعفر نے فرمایا ہے۔۔۔
-
::زین:: خوش آمدید۔ بھائی جی، یار میری انگلش شیخ رشید کی انگلش جیسی ہے، اس لئے اگر سمجھنے میں غلطی ہوجائے تو میرا ذمہ توش پوش ہے۔۔۔ ;-) ۔
::جاوید گوندل:: بنیں گے کیا جی، بن چکے ہیں مانگت۔ اس بات پر حیرت ہوتی ہے کہ اپنا پیٹ تو ہم محنت کرکے بھرتے ہیں تو ہمارے حکمران قرضے اور امداد کس کے لئے لیتے ہیں؟؟؟
::رضوان:: دو دن باقی ہیں جی وہ بھی انتظار والے۔۔۔ آرزو والے دو دن تو گزر گئے۔۔ - August 3, 2009 at 12:08 PM
- اسدعلی نے فرمایا ہے۔۔۔
-
جنا ب ایسی کمینگی میں کو ئ ھرج نھں۔۔۔۔
- August 3, 2009 at 1:07 PM
- جعفر نے فرمایا ہے۔۔۔
-
::اسد علی:: خوش آمدید
تو پھر کیسی کمینگی باعث حرج ہوتی ہے؟
اچھا۔۔۔ سیاست دانوں والی۔۔۔ :lol: - August 3, 2009 at 7:39 PM
- انکل ٹام نے فرمایا ہے۔۔۔
-
واہ واہ کمال کا واوقعہ اور اندازِ بیاں ہے مزا آگیا ۔۔۔۔
- August 4, 2009 at 11:06 AM
- جعفر نے فرمایا ہے۔۔۔
-
::انکل ٹام:: کدھر غائب ہیں انکل؟؟؟ اپنے بلاگ پر بھی نظر نہیں آتے آپ؟ خیریت تو ہے۔
اچھااااا۔۔۔۔ اگر مزا آیا ہے تو نکالیں پیسے۔۔۔ :lol: - August 4, 2009 at 12:10 PM
- عبداللہ نے فرمایا ہے۔۔۔
-
کمال کا نہیں انکل ٹامی کمینے کا واقعہ ہے :lol:
- August 6, 2009 at 4:15 PM
- حارث گلزار نے فرمایا ہے۔۔۔
-
پہلی بار جب مرغن کھانے سے منع کیا تو سوچا تو ہوگا پتہ نہیں کہیں واقعی یہ موقع ہاتھ سے نہ نکل جائے :mrgreen:
- August 8, 2009 at 6:12 PM
- جعفر نے فرمایا ہے۔۔۔
-
::حارث گلزار:: وہ ”ناں“ اصل میں ہاں ہی تھی۔۔۔ ;-)
- August 8, 2009 at 6:25 PM