ایک دلدوز واقعہ - ہفتہء بلاگستان
یہ مئی کے اواخر کا واقعہ ہے۔ تیسرا اور چوتھا پیریڈ عباس صاحب کا ہوتا تھا جو ہمیں سائنس اور معاشرتی علوم سکھانے کی کوشش کیا کرتے تھے۔ اس دن وہ چھٹی پر تھے، ان کی جگہ جو استاد پیریڈ لینے کے لئے آئے تھے وہ پانچ منٹ کے بعد ہی کلاس کو مانیٹر کے حوالے کرکے ”ضروری“ کام سے چلے گئے۔ اب میں تھا اور میری رعایا۔ اسی اثناء میں ساتویں کلاس کا ایک لڑکا ہماری جماعت میں داخل ہوا اور مجھ سے پوچھا، ”عباس صاحب کہاںہیں؟“ ۔ زبان پھسلنے کی بیماری مجھے بچپن سے ہی ہے۔ میرا جواب تھا ”عباس صاحب آج ”پھُٹ“ گئے ہیں“۔ بس جی اس کمینے نے اگلے دن یہی ”بےضرر“ سی بات ان کو نمک مرچ اور نمبو لگا کے بتادی۔ اگلے دن تیسرے پیریڈ کے شروع ہوتے ہی انہوں نے اپنی مخصوص روبوٹ جیسی آواز میں کہا۔ ”موونییٹرررر کہاںںں ہےےے؟“۔ میں ان کی کرسی کے دائیں جانب جا کر کھڑا ہوگیا۔ اس میں بھی ایک مصلحت تھی۔ وہ یہ کہ انکے سیدھے ہاتھ کا انگوٹھا اور شہادت کی انگلی کسی نامعلوم وجہ سے بہت موٹی تھیں۔ لہذا جب وہ سیدھے ہاتھ سے کان مروڑتے تھے تو اتنا درد نہیں ہوتا تھا۔ لیکن جناب، انہوں نے اس دن کان نہیںمروڑے بلکہ مجھے پورا ڈیڑھ گھنٹہ تقریبا پچاس ڈگری سینٹی گریڈ میں اصیل ککڑ بنائے رکھا۔ چوتھا پیریڈ ختم ہونے پر جب میں ککڑ سے انسان کی جون میںواپس آیا تو کھڑا ہونے کی کوشش میں گرگیا اور اگلے دو پیریڈ بے ہوشی کے مزے لوٹے۔
اگلے تین سال وہی شکایتی ٹٹو مجھے ”عباس صاحب ”پھُٹ“ گئے “ کہہ کر چھیڑتا رہا۔ وہ تو جب میں نویں میں پہنچا اور ہتھ چھٹ ہوا اور ایک فرزبی کے میچ میں اس کی پھینٹی لگائی تو پھر اس نے میری ”عزت“ کرنی شروع کی!
34 تبصرے:
- DuFFeR - ڈفر نے فرمایا ہے۔۔۔
-
نا بچو
ایک دن کی پھینٹی تین سال کی بیستی کو عزت افزائی میں نہیں بدل سکتی :mrgreen:
ہمارے بھی تھے ایک عباس صاحب میٹرک میں
بیالوجی کے استاد تھے
پورے دو سال میں پڑھانے ایک دن آئے اور پھینٹی لگانے چار پانچ دفعہ :mrgreen:
قابل اتنے کہ صفحہ نمبر، پیراگراف نمبر اور لائین نمبر زبانی بتا کر سوالوں کے جوابوں کے نشان لگوایا کرتے تھے :razz:
منیٹری سے یاد آیا ، منیٹر تو تھا لیکن میری جسامت کے مانیٹری کے معیار پر پورا نا اترنے کی وجہ سے ڈنڈا میرے اسسٹنٹ کے ہاتھ میں پکڑایا جاتا تھا۔ اس لئے اس نشے سے پوری طرح واقفیت نہیں :cry: - August 16, 2009 at 6:52 PM
- میرا پاکستان نے فرمایا ہے۔۔۔
-
یہ شکایتی ٹٹو بڑے ہو کر چاپلوسیے بنتے ہیں اور زندگی میں بہت کامیاب رہتےہیں۔ حالانکہ انہیں بہت گندے لفظ سے یاد کیا جاتا ہے مگر وہ پھر بھی باز نہیںآتے۔
- August 16, 2009 at 8:17 PM
- دوست نے فرمایا ہے۔۔۔
-
:lol: :lol: :lol: :lol: :lol: :lol:
- August 16, 2009 at 11:10 PM
- عمر احمد بنگش نے فرمایا ہے۔۔۔
-
بھیا تو تو واقعی معصوم تھا، سیدھا ہی کہہ دیا، اب کوئی پُھٹجائے تو اسے پُھٹجانا ہی کہیںگے، ویسے مانیٹررررررررر کہاںںںںںں ہےےےےےے مذیدار ہے۔ اورآخر تک تو یہ لاین کنگ والے سمبا کی واپسی کی داستان لگتی ہے۔۔۔۔۔۔!-
یہ سمائیلی کام نہیںکر رہے۔۔۔۔۔۔ - August 17, 2009 at 12:47 AM
- فائزہ نے فرمایا ہے۔۔۔
-
ککڑ بننے کی داستان تو لکھ دی بندہ بننے کی بھی لکھ دیتے۔ کچھ ہمارے جنرل نالج میں اضافہ ہو جاتا۔
- August 17, 2009 at 2:30 AM
- راشد کامران نے فرمایا ہے۔۔۔
-
:grin:
شاید اردو میں اسی لیے سادہ باتیں کرنے کے لیے بھی لچھے دار الفاظ ہیں تاکہ شکایتیوں کو گمراہ کیاجاسکے۔۔ لیکن خیر آپ نے جو سادہ انداز بیان اپنایا اس کی سزا پالی۔ اصیل ککڑ سے یاد آیا کہیں یہ پچاس ڈگری میں ڈیڑھ گھنٹہ تو نہیں آپ کی انوکھی تراکیب کا ماخذ؟ - August 17, 2009 at 2:36 AM
- جاوید گوندل ۔ بآرسیلونا ، اسپین نے فرمایا ہے۔۔۔
-
متفق علیہ-
کہ یہ مرغا اور انسان بنے کی تراکیب کا آپس میں کیا کیا تعلق ہے۔ اس پہ روشنی ڈالہ جائے۔ تانکہ بندے کے نالج میں بھی اضافہ ہو۔
ویسے ایک بات درست ہے کہ والدین اور اساتذہ کرام محض اپنا غصہ اپنے بچوں یا طلباء پہ نکالتے ہیں۔ اس مارپیٹ یا تھپڑ کا اثر الٹا ہوتا ہے۔اس سے بچے کا ذہن بند ہوجاتا ہے اور وہ تھپڑ کھا کر متشدد رویہ اپناتا ہے۔ ہماری سوسائٹی بہت متشدد ہورہی ہے اسے عدم تشدد کی طرف قائل کرنے کی ضرورت ہے۔
شیخ سعدی رحمتۃ اللہ علیہ کہیں جارہے تھے انہوں نے ایک آدمی دیکھا جس کے پیچھے پیچھے ایک بکری ممنایتی ہوئے جارہی تھی ۔ بکری کہ گلے میں رسی نہیں تھی اور وہ خود بخود اس آدمی کے پیچھے چل رہی تھی ۔ شیخ یہ ماجرا دیکھ کر حیران ہوئے ۔ شیخ نے اس شخص کو روک کر پوچھا کہ "یہ ماجرا کیا ہے - کہ بکری کے گلے میں رسی بھی نہیں اور وہ ادہر ادہر کے کھیتوں میں منہ بھی نہیں مارتی اور تمہارے پیچھے پیچھے چل رہی ہے۔اسکا مطلب ہے بکری کو تم سے بہت الفت ہے۔" وہ شخص شیخ سعدی کے بھولپن پہ مسکرایا اور اپنی گدڑی سے مٹھی بھر دانہ نکال کر دکھایا کہ شیخ یہ میری نہیں اس دانے کی الفت ہے جو یہ میری پیچھے چل رہی ہے۔ میں کچھ فاصلے پہ اسے کچھ دانہ کھلا دیتا ہوں یہ مزید کے لالچ میرے پیچھے چلتی رہتی ہے۔ ویسے تو میں سوچتا ہوں شیخ سعدی شیرازی رحمتہ اللہ علیہ کی یہ مثال ہمارے حکمرانوں اور امریکہ دانہ نواز پہ پوری اترتی ہے۔ لیکن اگر آپ دانہ کو محبت میں بدل لیں اور اپنے ہمسائیوں دوستوں اہل خانہ اہنے اعیال و اولاد کے ساتھ اچھے سلوک سے پیش آئیں تو شاید روگوں کے ذہن پہ مثبت اثر ہو۔۔ شاید نماز کا وقت ہوگیا۔۔۔ پھر کبھی - August 17, 2009 at 2:51 AM
- اسماء نے فرمایا ہے۔۔۔
-
اس سے کہيں زيادہ سزا بھگتی ہے ميں نے اپنی ٹيچر کے ہاتھوں ؛ وجہ يہ بنی کہ ميں نے اپنی کلاس ٹيچر کی بجائے اسکی دوست ٹيچر کو کہہ ديا کہ مس آپ مجھے بہت اچھی لگتی ہيں ميں اسوقت چھٹی کلاس ميں تھی نتيجہ جو بھگتنا پڑا وہ تين سال پر محيط تھا کيونکہ وہ تين سال تک ہماری کلاش ٹيچر رہی اور ہر روز مجھے اپنے پيريڈز ميں کھڑا رکھتی تھی باوجود اسکے کہ ميں کلاس کی لائق ترين لڑکی ( اندھوں ميں کانا راجہ) تھی اس واقعے نے ميری پرسينيلٹی کو بہت برے طريقے سے متاثر کيا تھا کہ عمر کے ايک حصے تک ميں جگہز بات کہتے ہوئے بھی ڈر خوف کا شکار رہتی تھی امی کو بھی پتہ تھا مگر انہوں نے بھی اس خلاف قانون سزا کے خلاف کچھ ايکشن نہ ليا ميں سوچتی ہوں کہ ميرے بچوں کے ساتھ ايسا واقعہ پيش آئے تو ميں ايسی ٹيچر کو وہيں پےنچا کر آؤں جہاں سے وہ _ _ _ _ يہ نظر کرم صرف ميرے تک محدود نہ تھی ايک بہت اچھے گھر کی لڑکی تھی اس پر چوری کا الزام لگايا اس نے اس برے طريقے سے اثر ليا کہ آج بھی بدنامی کے ڈر سے چپ رہتی ہے اور کہيں آنا جانا پسند نہيں کرتی اگر وہ گھر ميں بتا ديتی تو اسکے ابو محکمہ تعليم ميں اچھی پوسٹ پر فائز تھے ٹيچر کو پوچھ ليتے مگر اسکے چانسز زيادہ تھے کہ ڈانٹ پھٹکار کی حقدار وہ خود ہی ٹھرتی کيونکہ ہمارے معاشرے ميں والدين ايسا ہی کرتے ہيں
ميں ايسی باتيں اس وجہ سے لکھ ديتی ہوں کہ دوسرے شايد اس سے سبق حاصل کريں moral of story
اپنے بچوں ميں تبديلی محسوس کريں اسے ڈرا ہوا ماحول نہ ديں اسکی باتيں غور سے سنيں اور ہر وقت چپ رہو منہ بند کرو جيسے فقرے کہنے کی بجائے اسکے مسائل سنيں اور اسے حل کرنے کی کوشش کريں
نوٹ!
بندی بعد ميں خود بھی ٹيچر کے رتبے پر فائز ہوئی صرف ايک سال بعد جب جاب چھوڑنے لگی تو تمام سکول کی بچياں خبر ملنے پر کلاسز سے باہر نکل آئيں اور ايسا روئيں کہ کسی فوتگی کا گمان ہوتا تھا - August 17, 2009 at 2:55 AM
- اسماء نے فرمایا ہے۔۔۔
-
ُجگہز ` کی جگہ ُجاہز ` پڑھا جائے
- August 17, 2009 at 2:58 AM
- منیر عباسی نے فرمایا ہے۔۔۔
-
مگر اسماء صاحبہ، کیا بات ہے کہ ایسی ٹیچرز جن کے لئے سٹوڈنٹ بعد میں روتے ہیں، اُن کی شادی جلدی ہو جاتی ہے؟ جبکہ باقی قسم کے ٹیچر ساری ساری عمر سٹوڈنٹس پر مسلط رہتے ہیں؟
- August 17, 2009 at 10:52 AM
- جعفر نے فرمایا ہے۔۔۔
-
::ڈفر:: جتنی اس کو پھینٹی لگی تھی، بیستی عزت میںبدلی ہو یا ناں، میرا کلیجہ تو ٹھنڈا یخ ہوگیا تھا ۔۔۔ :mrgreen:
::میرا پاکستان:: درست ہے، میں نے بڑی کوشش کی خود بھی چاپلوسی کرنے کی، لیکن عین موقع پر زبان ساتھ چھوڑ جاتی ہے۔۔۔۔ :lol:
::دوست:: ہاں جی، پرچے مکنے کے بعد بندے کے دانت ایسے ہی نکلتے ہیں۔۔۔ :grin:
::عمر بنگش:: لائن کنگ کی وضاحت کی جائے۔۔۔۔ عباس صاحب پر تو ایک پوری پوسٹ لکھنے کا پروگرام ہے۔ چھٹی جماعت میں ہمارا خیال یہ تھا کہ عباس صاحب خلائی مخلوق ہیں!!! :mrgreen:
::فائزہ:: بندہ بننے کی کوشش تو بہت عرصے سے کررہا ہوں، دیکھئے کب کامیابی ہوتی ہے۔۔۔ :roll:
::راشد کامران:: ہاںںںںں۔۔۔ بالکل شاید یہی شان نزول ہے ان تراکیب کی۔۔۔ :grin:
::جاوید گوندل:: ایک آدھ استاد ہی تھے جی ایسے، باقی تو بہت اچھے بلکہ بہت ہی اچھے تھے۔
::اسماء:: ہیںںںں۔۔۔ کڑیوں کو بھی مار پڑتی ہے۔ ویسے ککڑیاں بنی ہوئی کتنی اچھی لگتی ہوں گی۔۔۔ :grin:
مجھے صئی صئی بتائیں، آپ پچھلے جنم میںمولا جٹ تو نہیں تھیں۔۔۔ کیا مردانہ دھمکی ہے ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
ميرے بچوں کے ساتھ ايسا واقعہ پيش آئے تو ميں ايسی ٹيچر کو وہيں پےنچا کر آؤں جہاں سے وہ _ _ _ _
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
:lol: :lol: :lol:
::منیر عباسی:: وہ جی ایسے بندوں (اور بندیوں) کی تو سب کو ضرورت ہوتی ہے۔ سڑیل استانیوں سے شادی کرکے ساری ساری رات مرغا تھوڑی بننا ہوتا ہے بندے نے۔۔۔ ;-) - August 17, 2009 at 12:22 PM
- محمد وارث نے فرمایا ہے۔۔۔
-
اصیل ککڑ کا مزہ ہی اپنا ہے جی، یہ 'ولایتی چوچے' تو بس نمائشی ہیں ;-)
- August 17, 2009 at 1:55 PM
- اسماء نے فرمایا ہے۔۔۔
-
منير عباسی صاحب شادی کی مارکيٹ ميںايسی لڑکياں جلدی اٹھا لی جاتی ہيں (ميرے جيسی اور اچھے لڑکے بھی پيچھے جعفر اور ڈفر جيسا ايسا مال بچتا ہے :lol: ) اندازہ کريں کہ اگر ان جيسوں کی شادی ہوتی ہو گی تو مياں کو کتنا تنگ کرتی ہوں گی جس ٹيچر کا ميں نے ذکر کيا ہے وہ بچيوں کا بريک کے وقت جبکہ بچياں باہر کھيل رہی ہوتی تھيں پيچھے سے بيگ بھی چيک کرتی تھيں اب ميں سوچتی ہوں مياں کی جيب کا کيا حال ہوتا ہو گا عرصہ بعد ستم زدگان لڑکيوں ميں سے کچھ نے باہم مشورے سے طے کيا کہ ثبوتوں کی بنياد پر اسکو عدالت ميں ليکر جاتے ہيں تاکہ باقی ٹيچرز ان جيسے کچھ سبق حاصل کريں مگر پتہ چلا کہ آجکل انکی ازدواجی زندگی آخری سانسيں لے رہی ہے تو ہم نے گرتی ديوار کو دھکہ دينا مناسب نہ سمجھا ويسے بھی پاکستان ميں اساتزہ اور ماں باپ جيسے بھی ہوں ان کے خلاف بات کرنا معيوب سمجھا جاتا ہے
- August 17, 2009 at 4:30 PM
- منیر عباسی نے فرمایا ہے۔۔۔
-
درست کہا ، آپ نے اسما ء صاحبہ، اچھے لوگ کم ہی ملتے ہیں دنیا میں۔
ایف ایس سی میں ہماری ایک اردو ٹیچر ہوتی تھیں میڈم اختر جہاں۔ ان کو ہم نے اتنا تنگ کیا کہ ایک دن انھوں نےرو کر بد دعا دے ڈالی کہ جس مقام کی خواہش رکھتے ہو، اللہ کرے وہاں پہنچو ، مگر آسانی سے نہیں۔
ہمیں بہت افسوس ہوا مگر آہ دل سے نکل چکی تھی۔ اُن کی کلاس میں جیسے ہی وہ کہتیں کہ " شاعر کہتا ہے "، پچھلی سیٹوں سے ہمارا دوست قیصر اور ایک اور دوست سعد بکرے کی آوازیں نکالنا شروع کردیتے، دونوں اس کام میں ماہر تھے اور دونوں بالکل مختلف آوازیں نکالتے تھے۔
پھر ایک شرجیل تھا، کلاس بالکل خاموش ہوتی ، میڈم کا ٹیمپو بن چکا ہوتا کہ وہ کھڑا ہوتا، اور کہتا " ایکسکیوز می میڈم، وہ سامنے فلیٹوں میں ایک بچہ مجھے تنگ کر رہا ہے" جن فلیٹوں کی بات وہ کر تا تھا وہ کلاس روم کی کھڑکی سے متصل ایک بڑے میدان کے دوسرے کونے پر تھے، اور ایک ڈیڑھ کلومیٹر دور فلیٹ کی کھڑکی میں ایک بچے کا نظر آنا محال تھا، مگر ہمارا مقصد پورا ہوجاتا۔ جنھوں نے بھاگنا ہوتا، اس ہڑبونگ اور میڈم کے غصے سے فائدہ اٹھا کر کھڑکی سے نکل بھاگتے۔
حال آنکہ ان کی اپنی گھریلو پریشانیاں بہت ہوتی تھیں، مگر انھوں نے کبھی ان پریشانیوں کی وجہ سے کسی لڑکے یا لڑکی کو تنگ نہیں کیا۔
اللہ ان کو غریق رحمت کرے، اور ان کی مغفرت کرے، - August 17, 2009 at 5:21 PM
- اسدعلی نے فرمایا ہے۔۔۔
-
:lol: چاواچھا ھے ۔۔۔کم اذ کم اتنا لحا ظ تو کیا ک، صرف ککڑھی بںا یا اور چھتر یا ڈںڈہ پریڈ نھں ھوئ۔۔۔ ;-)
- August 17, 2009 at 6:23 PM
- اسماء نے فرمایا ہے۔۔۔
-
ُشاعر کہتا ہے` سے تو ميں خود بڑی تنگ تھی شاعر بيچارے نے پتہ نہيں کس موڈ ميں شعر دو لائنوں کا کہہ ديا ہوتا ہے کہ ہم بيچاروں کو دو صفحات کی تشريح زبردستی کرنی پڑتی ہے شکر ہے زيادہ تر شاعر وفات شدہ ہوتے ہيں نہيں تو ہماری تشريح ديکھ کر اپنا شعر ہی حذف کر ديں ،
ادھر يورپ ميں بھی لوگوں کے اتنے پرسنل پرابلمز ہوتے ہيں مگر يہ کبھی ان کو دوسروں کے ليے مسئلہ نہيں بناتے سکول بچوں کو چھوڑنے جاتی ہوں تو ہر ٹيچر ہر بچے کے والدين اور بچے کو مسکرا کر سلام کہتی ہے اور ايسا دن ميں اسکو چار دفعہ کرنا پڑتا ہے کيونکہ يہاں بچوں کو جو سکول کھانا پسند نہ کريں دوپہر ميں کھانے کے ليے گھر اور پھر واپس سکول چھوڑا جاتا ہے اور بچوں سے تو اتنا اچھا سلوک کيا جاتا ہے کہ بيماری والے دن بھی ميری بچياں سکول سے چھٹی نہيں کرنا چاہتيں اپنے پانچ سالہ دور فرانس ميں ميں نے آج تک کسی ٹيچر کسی ڈاکٹر کسی سرکاري اہلکار کے ماتھے پر شکن تک نہيں ديکھی واللہ کيا شاندار قوم ہيں يہ فرانسے اور کيسی شاندار روايات ہيں انکي، بندی تو دل و جان سے قدر کرتی ہے ان لوگوں کی اور اس ملک کی آپ يوں بھی کہہ سکتے ہيں ُ جہاں کا کھانا وہيں کے گن گانا ` کيوں عباسی صاحب درست کہا ناں ميں نے - August 17, 2009 at 7:02 PM
- جعفر نے فرمایا ہے۔۔۔
-
::محمد وارث:: مجھے سخت شک ہے کہ اصیل ککڑ آپ نے مجھے ہی کہا ہے۔۔۔ :mrgreen:
::اسماء:: آپ نے ڈفر اور مجھے ڈی گریڈ کرنے کی ناکام کوشش کی ہے :grin:
میں اتنا حسین و جمیل ہوں کہ کل ہی چار لڑکیاںمجھے دیکھ کر غش کھا کر گری ہیں۔ حسن برداشت کرنا بھی کسی کسی کا کام ہوتا ہے۔ :mrgreen:
::منیر عباسی:: ہیںںںںں۔۔۔ ڈاکٹر صاحب ایف ایس سی میں بھی استانیوں سے پڑھتے رہے ہیں آپ۔۔۔ اسی لئے اتنے تمیز دار ہیں۔۔۔ :grin:
::اسد علی:: ٹھیک ہے جی آپ بھی عباس صاحب کے ساتھ مل گئے۔۔۔۔ ڈیڑھ گھنٹا گرمی میں اصیل ککڑ بننے سے بہتر تھا وہ مجھے سوٹیاں شوٹیاں مار لیتے جی بھر کر۔۔۔ :o
::اسماء:: یہ تو جی آپ کی بات بالکل ٹھیک ہے کہ مغربی لوگ اخلاق ، تہذیب اور سائنس میں ہم سے صدیوں آگے ہیں۔۔۔ بابا جی اشفاق احمد نے ایک دفعہ کہا تھا کہ ہم مسلمان تب ترقی کریں گے جب یورپ والے مسلمان ہوں گے!! - August 17, 2009 at 7:27 PM
- نوائے ادب نے فرمایا ہے۔۔۔
-
ہماری منیٹر تو ایک لڑکی تھی بہت خوبصورت تھی لیکن اندر سے اتنی ہی بدصورت تھی۔
ہمارا ایک گروپ تھا جس میں 6 لٹکے اور ساتھ لڑکیا تھی۔ ہمارا گروپ اس لیے کامیاب تھا ۔ کیونکہ ہم سب ایک ہی محلہ کے تھے اور ایک دوسرے کے ہمسائے تھے۔ ہم نے مل کر اس مونیٹر کو سبق سکھایا
ایک دن ٹیچر نے مونیٹر کو کہا کہ ان سب سے سبق سنو۔
وہ پوری کلاس سے سبق سن کر ہمارے پاس آئی تو ہم نے کہا ہمیں سبق یاد نہیں ہے اس نے ہمیں سب کو کھڑا کر دیا جب ٹیچر ہمارے پاس آئی تو ہم نے کہا ہمیںتو سبق یاد ہے آپ خود سن لیں ٹیچر نے سبق سنا تو سب کو یاد تھا میرے علاوہ ہا ہاہ ا
پھر کیا تھا اپ جانتے ہی ہیں - August 17, 2009 at 7:50 PM
- منیر عباسی نے فرمایا ہے۔۔۔
-
جعفر::: میں نے تو ساری عمر " کو ایجوکیشن" میں "مزے " سے پڑھا ہے۔ سوائے ۔۔۔ خیر چھوڑیں اس بات کو ۔۔ کیا یاد کروادیا آپ نے ہا! ہائے۔۔۔
اسما ء صاحبہ درست کہا آپ نے، اور اچھی بات بھی یہی ہوتی ہے ، نہ کہ اسی تھالی میں چھید کرنا۔ ۔۔۔ - August 18, 2009 at 1:21 AM
- حجاب نے فرمایا ہے۔۔۔
-
آپ تو کُکڑ بنائے گئے -- میں تو کافی بار کالی مائی بنائی گئی ہوں :razz: کلاس میں سر میجھے کرسی پر کھڑا کروا کے کہتے تھے زبان باہر نکالو اور سیدھے ہاتھ سے اُلٹا کان اور اُلٹے سے سیدھا پکڑ کر کھڑی رہو :lol:
- August 18, 2009 at 3:25 AM
- عمر احمد بنگش نے فرمایا ہے۔۔۔
-
ہاہاہاہاہا :mrgreen: خلائی مخلوق وہ جیسے عینک والے جن ڈرامے میںہوتی تھی۔
او یار وہ کارٹون فلم نہیںتھی لاین کنگ۔۔۔۔ جس میںسمبا شیر کا باپ جو جنگل کا بادشاہ ہوتا ہے سازش سے قتل ہو جاتا ہے، سمبا بھاگ، بلکہ بھگا دیا جاتا ہے اور جب جوان ہو کر واپسآتا ہے تو اپنے چاچے سے تخت واپس لے کر اسی تشریف بھی لال کرتا ہے :mrgreen:
حجاب:::: کیا بچگانہ قسم کی سزائیںبھگتی رہی ہیں آپ-----------ہونہہ، :oops: - August 18, 2009 at 3:36 AM
- شاہدہ اکرم نے فرمایا ہے۔۔۔
-
يا اللہ جعفر تيرا کيا بنے گا ليکِن اب کيا بننا ہے جو بننا تھا بن چُکا بلکہ بن کے بِگڑ بھی چُکا اب اِس سے زيادہ کيا ہوگا ليکِن ايک بات اچھی ہے کہ مان ليا کہ زبان بچپن سے قصُور وار رہی پِھسلنے کے مُعاملے ميں
ويسے پوسٹ کے مزے ايک طرف اور تبصرے واہ بھئ واہ ،ہماری اسماء بھی خواتين کی جعفر اور ڈفر ہيں
ميں نے جو اپنے بچپن کے واقِعات لِکھے وُہ تو اب بہُت معصُوم اور بے ضرر سے لگ رہے ہيں - August 18, 2009 at 6:05 AM
- اسدعلی نے فرمایا ہے۔۔۔
-
اصل میں جعفربھائ مھے اپنا سکول کا ذمانھ یاد آ گیا تھا۔۔۔کُکڑ بھی اور ڈنڈہ پریڈ بھی۔۔۔ :shock:
- August 18, 2009 at 11:50 AM
- جعفر نے فرمایا ہے۔۔۔
-
::نوائے ادب:: یہ کونسی جماعت کا واقعہ لکھا ہے آپ نے۔۔۔ مجھے کچھ ابہام ہے، مانیٹر کے خوبصورت ہونے کا ذکر تو بندہ ذرا ”بالغ“ ہونے کے بعد ہی کرتا ہے۔ باقی جی خوبصورت لوگوں کو تو سات قتل معاف ہوتے ہیں، آپ نے اتنی معصوم سی شرارت پر ان کو شرمندہ کروادیا۔۔۔ بہت بری بات ہے۔۔۔ خوبصورت لوگوں کی سخت عزت کرنی چاہئے۔۔۔ :grin:
::منیر عباسی:: اچھاااااا۔۔۔ اپنی دفعہ چلیں چھوڑیں۔۔۔ یہ نہیں چلے گا ۔۔۔ بات پوری کریں ورنہ آپ کی مخبری کرکے آپ کا موسم سرما گلگت جیل میں گزروانے کا بندوبست بھی کیا جاسکتا ہے۔۔۔۔ :mrgreen:
::حجاب:: کالی مائی۔۔۔۔ :shock: مجھے یقین ہے کہ اس کنائے میں آپ کی رنگت کا کوئی حوالہ نہیں۔۔۔ :grin:
::آپی:: یہ تو بہت معصوم سا واقعہ لکھا ہے۔۔۔ اصل مال تو الگ باندھ کے رکھا ہے ۔۔۔ :grin: لیکن ایک بات ہے کہ شک کا فائدہ مجھے ہمیشہ ملتا رہا کہ اساتذہ سے لے کر رشتہ داروں تک سب یہی کہتے تھے کہ ”شکل سے تو ایسا نہیںلگتا“ :mrgreen:
::اسد علی:: اچھا تو چپڑی اور دو دو ۔۔۔ :mrgreen: - August 18, 2009 at 12:14 PM
- نوائے ادب نے فرمایا ہے۔۔۔
-
ہا ہا ہا جی بھائی جان یہ تو میٹرک کا واقع ہے ہا ہا ہا اس وقت تو کافی کچھ پتہ چل چکا ہوتا ہے
لیکن ہمیں پھر بھی پتہ ناچلا
اور ہاں خوبصورتی کا اندازہ اس وقت شاہد نہیں تھا بعد میں ہوا تھا کیونکہ وہ مونیٹر صاحبہ بعدمیں انسان بن گی تھی
خیر وہ بھی تو بچپن ہی تھا نا
ویسے آپ ہو بہت تیز - August 18, 2009 at 3:03 PM
- جعفر نے فرمایا ہے۔۔۔
-
::نوائے ادب:: بعد میں انسان بن گئی تھی، تو پہلے کیا تھی ، پری۔۔۔ :grin:
- August 18, 2009 at 3:11 PM
- منیر عباسی نے فرمایا ہے۔۔۔
-
جعفر ::: بات کچھ اتنی بھی خاص نہیں ہے، بس درمیان میں ایک دو سال خالص بوائز سکول میں پڑھنا پڑا، جہاں مجھے بہت سی " نئی " باتیں سننے کو ملیں، اور پھر میرا مسلسل آٹھ سال تک فرسٹ آنے کا ریکارڈ خراب ہو گیا۔
ہمارے ٹیچر بھی مردانہ ماحول میں پڑھانے کے عادی تھے، لہٰذا اتنی " بے تکلفی" سے پڑھاتے تھے کہ ۔۔۔۔
ایک صاحب جن کو ہم " سُوٹا " کہتے تھے، بائیولوجی پڑھاتے ہوئے ایک نظر کھڑکی سے باہر ایڈمن سیکشن کی طرف رکھتے تھے، جیسے ہی کوئی خاتون، کوئی بھی خاتون، سمجھ رہے ہیں نا آپ؟، وہاں نظر آتی، کلاس مانیٹر کے حوالے کر کے خود ۔۔شُو۔۔۔۔ وہاں پہنچ جاتے تھے۔ :mrgreen: :mrgreen:
اور کوئی ایسی بات نہیں ہے کہ جس کے لئے آپ مجھے گلگت جیل بھجوائیں، بمشکل ڈی آئی خان جیل جانے سے بچا ہوں، :sad: - August 18, 2009 at 6:40 PM
- جعفر نے فرمایا ہے۔۔۔
-
::منیر عباسی:: آہ! کاش میں بھی پڑھا ہوتا لڑکیوں کے ساتھ تو کچھ تمیز آجاتی۔۔۔ :mrgreen:
اور یہ زبان جو اب مشین گن کی طرح چلتی ہے
نسیم سحری کی مانند سبک خرام ہوجاتی ۔۔ ۔اے بسا آرزو کہ خاک شد
(نسیم سحری سے کچھ اور مراد نہ لی جائے) - August 18, 2009 at 6:51 PM
- منیر عباسی نے فرمایا ہے۔۔۔
-
کاش میں آپ کا طنز سمجھ سکتا ۔۔ :mrgreen: گہرا پوائنٹ مارا ہے بھائی، اپن سمجھ نہیں پا رہا کہاں درد ہو رہا ہے ۔۔ :mrgreen:
- August 18, 2009 at 6:56 PM
- جعفر نے فرمایا ہے۔۔۔
-
::منیر عباسی:: نہ جی نہ ۔۔۔ طنز نہیں ہے، اپنی ناکام حسرتوں کا ماتم اور ان غنچوںکا سیاپا ہے جو بن کھلے ہی مرجھا گئے
:grin: - August 18, 2009 at 7:07 PM
- DuFFeR - ڈفر نے فرمایا ہے۔۔۔
-
اوئے لڑکیوں کے ساتھ پڑھ کر زبان سبک خرام نہیں ہوتی
تیز گام بن جاتی ہے ;-) ذاتی تجربہ ہے :mrgreen: '
اسماء جی: جلدی کا کام شیطان کا :mrgreen:
دیر آید درست آید :mrgreen: - August 18, 2009 at 8:56 PM
- حارث گلزار نے فرمایا ہے۔۔۔
-
ہاہاہاہا، ویسے حیرت ہے کہ کیسے چھٹی جماعت کے واقعے بھی آپکو یاد ہیں۔ میرا مطلب ہے کہ آپکی باتوں سے آپ چھٹی سے کافی آگے کے معلوم ہوتے ہیں :razz:
- August 27, 2009 at 7:15 PM
- منظرنامہ » ہفتہ بلاگستان ایوارڈ : نامزدگیاں نے فرمایا ہے۔۔۔
-
[...] ایک دلدوز واقعہ از [...]
- November 2, 2009 at 4:20 AM
- منظرنامہ » ہفتہ بلاگستان ایوارڈز نتائج نے فرمایا ہے۔۔۔
-
[...] : (کل ووٹ : ۲۳) ٹائی تحریر : ایک دلدوز واقعہ از جعفر ( ۳ ووٹ) ٹائی تحریر : بچپن ہی پچپن از عمر احمد بنگش ( ۳ [...]
- March 10, 2010 at 7:16 PM