(اسد علی کی نذر)
ارشاد:کہاں سے سنی ہے محبت کی تعریف؟
سراج : ہر ایک جگہ سے سنی ہے سرکار۔ مسجد سے، مندر سے، ریڈیو ٹی وی سے، سٹیج سے، جلسے جلوس سے لیکن دکھائی نہیں دیتی ۔۔۔ پکڑائی نہیں دیتی۔۔۔ ہوتی نہیںحضور۔
ارشاد:محبت وہ شخص کرسکتاہے سراج صاحب جو اندر سے خوش ہو، مطمئن ہو اور پُرباش ہو۔ محبت کوئی سہ رنگا پوسٹر نہیں کہ کمرے میںلگالیا۔۔۔ سونے کاتمغہ نہیں کہ سینے پر سجا لیا ۔۔۔ پگڑی نہیں کہ خوب کلف لگا کر باندھ لی اور بازار میں آگئے طرہ چھوڑ کر۔ محبت تو آپ کی روح ہے۔۔۔۔ آپ کے اندر کا اندر ۔۔۔ آپ کی جان کی جان ۔۔۔
سراج :بس اسی جان کی جان کو دیکھنے کی آرزو رہ گئی ہے حضور! آخری آرزو!!
ارشاد : لیکن محبت کا دروازہ تو صرف ان لوگوں پر کھلتا ہے سراج صاحب جو اپنی انا اور اپنی ایگو سے اور اپنے نفس سے منہ موڑ لیتے ہیں۔ ہم لوگ تو محض افراد ہیں، اپنی اپنی انا کے کھونٹے سے بندھے ہوئے۔ ہمارا کوئی گھر بار نہیں ۔۔۔ کوئی آگا پیچھا نہیں ۔۔۔ کوئی رشتہ نہیں ۔۔۔ کوئی تعلق نہیں۔ ہم بے تعلق اور نارشتہ دار سے لوگ ہیں۔
سراج :بے تعلق لوگ ہیں حضور ؟
ارشاد:اس وقت اس دنیا کا سب سے بڑا مرض اور سب سے بڑی Recession محبت کی کمی ہے ۔۔۔۔ اور آج دنیا کا ہر شخص اپنی اپنی پرائیویٹ دوزخ میں جل رہا ہے اور چیخیں ماررہا ہے ۔۔۔۔ اور ورلڈ بینک، آئی ایم ایف اور دنیا کی حکومتیں اس روحانی کساد بازاری کو اقتصادی مندے سے وابستہ کررہی ہیں۔
سراج :(اصل موضوع نہ سمجھ کر ۔۔۔ ذرا رک، ڈر کر، شرما کر) ویسے سر، محبت گو مشکل سہی لیکن اپنا یہ ۔۔۔ عشق مجازی تو آسان ہے۔
ارشاد :عشق مجازی بھی اسی بڑے پیڑ کی ایک شاخ ہے سراج صاحب! یہ بھی کچھ ایسا آسان نہیں۔
سراج:آسان نہیںجی؟
ارشاد :دیکھئے! اپنی انا اور اپنے نفس کو کسی ایک شخص کے سامنے پامال کردینے کا نام عشق مجازی ہے اور اپنی انا اور اپنے نفس کو سب کے آگے پامال کردینے کا نام عشق حقیقی ہے۔ معاملہ انا کی پامالی کا ہے ہر حال میں!
بابا جی اشفاق احمد کی تحریر ”منچلے کا سودا“ سے ایک اقتباس