یا کچھ بھی نہیں ہونے کا ادراک بہت ہے
ہم اہل محبت کو یہ املاک بہت ہے
کچھ خانہ خرابوں میں مری دھاک بہت ہے
اور دیکھنے میں وسعت افلاک بہت ہے
کیوں ان دنوں میلی تری پوشاک بہت ہے
دریا کو خیال خس و خاشاک بہت ہے
اور دیکھ لے وہ آنکھ بھی نمناک بہت ہے
دل جلوں کے لیے مرہم کا انتظام ہے
بہت خوب!!! کچھ بھی نہ کہا اور کہ بھی گئے۔
واہ بہت خوب۔!
کسی بھی دشت، کسی بھی نگر چلا جاتا
میں اپنے ساتھ ہی رہتا جدھر چلا جاتا
وہ جس منڈیر پہ چھوڑ آیا اپنی آنکھیں میں
چراغ ہوتا تو لو بھول کر چلا جاتا
اگر میں کھڑکیا ں، دروازے بند کر لیتا
تو گھر کا بھید سرِ راہ گزر چلا جاتا
مرا مکاں مری غفلت سے بچ گیا ورنہ
کوئی چرا کے مرے بام و در چلا جاتا
تھکن بہت تھی مگر سایہء شجر میں جمال
میں بیٹھتا تو مرا ہم سفر چلا جاتا
جمال احسانی مرحوم
::حارث گلزار:: نوازش۔۔۔ میں نے کچھ نہیں کہا۔۔۔ :razz: :razz:
جاوید گوندل:: بہت عمدہ ۔۔۔
ڈبویا مجھ کو ہونے نے۔۔۔ جناب۔۔ ڈبویا مجھ کو ہونے نے
شکریہ خوبصورت شاعری شیئر کرنے کیلیے۔
بہت خوب، پہلا شعر تو مجھے کچھ طبعیات یعنی فزکس کا اصول لگتا ہے :razz: جو کافی عرصہ پہلے سٹیفن ہاکنگ کے ایک مقالے میںپڑھا تھا۔۔۔۔۔۔ مادے کے بارے میں۔ نہایت عمدہ بھیے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہمیشہ کی طرح :mrgreen:
::راشد کامران:: سچ آکھیا جے۔۔۔ :roll:
::سعدیہ سحر:: آپ کا بھی شکریہ :smile:
::عمر احمد بنگش:: شاعر بھی سائنس بھی ہوتی ہے بھائی ۔۔۔ یہ وارث صاحب کی عروض پر تحاریر پڑھنے سے پتہ چلا تھا۔۔۔ ;-)
بہت خوب۔
کیا اس سے ملاقات کا امکاںبھی نہیںاب والا شعر بہت اچھا لگا۔
خرم:: جی بالکل۔۔ اور حسب حال بھی ہے ۔۔۔ :sad:
John976 رقمطراز ہيں یا کسی کی مجبوری سے فائدہ اُٹھا کر رقم کھینچنا چاہ رہے ہیں۔ :mrgreen:
اک بھولی ہوئی بات ہے اک ٹوٹا ہوا خواب
ہم اہل محبت کو یہ املاک بہت ہے
بہت خوب!
::محمد احمد:: ”مجبوری“ کی وضاحت کی جائے ;-)
انتخاب پسند کرنے کا شکریہ۔۔۔