ایسا نہ سمجھیے کہ توند سے ہماری کوئی ذاتی دشمنی یا رنجش ہے، نظریاتی اختلافات، البتہ ہیں اور جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ ایسے اختلافات صحت مند معاشرے کے لیے بہت ضروری ہوتے ہیں۔ یہاں ایک بات ملحوظ خاطر رہے کہ توند اور دہرے جسم (یعنی موٹاپا) میں ایک بنیادی فرق ہوتا ہے۔ دہرے جسم والی خاصیت زیادہ تر نسلی ہوتی ہے، میں چند ایسے احباب کو جانتا ہوں کہ بے چارے، چاہے سارا سال ابلی سبزیاں کھاتے رہیں لیکن ان کے جسم پر یہ سبزیاں بھی قورمے، بریانی جیسا اثر کرتی ہیں ۔ لہذا یہ ایک جینیاتی مسئلہ ہے اور اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ سائنس پر کسی کا اجارہ نہیں ہے اور ہم بھی سائنس سے کھلواڑ کرنے میں آزاد ہیں۔ دوسرے طرف توند والے احباب نے یہ مٹکہ بطور خاص خود بنایا ہوتا ہے۔ جس کی وجوہات خاصی زیادہ ہیں اور ان میں سےاکثر ناگفتنی اور باقی دل دکھانے والی ہیں لہذا ہم ان خصوصیات سے صرف نظر کرتے ہیں۔
دہرے جسم والے افراد المعروف موٹوں کے بارے ہمارا مشاہدہ ہے کہ ایسے افراد شدید قسم کے خوشگوار لوگ ہوتے ہیں اور صرف اس وقت طیش میں آتے ہیں جب انہیں موٹا کہا جائے۔ اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ حقیقت ہمیشہ تلخ ہوتی ہے۔ اس کے برعکس، خود کردہ را علاجے نیست، کے مصداق توند پال اصحاب نہایت چڑچڑے اور زود رنج ہوتے ہیں اور صرف اسی وقت ہنستے ہیں جب کسی کو چونا لگانے میں کامیاب ہوجائیں۔
یہاں تک پہنچنے کے بعد ہمیں یاد آیا کہ ہم نے تو، توند اور تقوی کے باہمی تعلق پر لکھنا تھا لیکن اس کے بجائے یہاں موازنہء انیس و دبیر کی طرز پر موازنہء موٹے و توندیل شروع ہوگیا ہے۔ ادب میں ایسے مظہر کے لیے ضرور کوئی نہ کوئی اصطلاح ہوگی جو آپ کی خوش قسمتی کی وجہ سے اس وقت ہمیں یاد نہیں آرہی۔ بہرحال مشاہدات کا ذکر ہورہا تھا تو ایک مشاہدہ یہ بھی ہے کہ جیسے جیسے توند کا حجم اور وزن بڑھتا ہے ویسے ویسے ہی معیاری انسانی صفات کم ہوتی جاتی ہیں۔ جسے مولوی لوگ تقوی کا نام دیتے ہیں۔ ہماری سمجھ میں تو یہ آیا ہے کہ پیٹ کو آخری حد تک خوراک سے بھرنے کے بعد ذہن میں جو خیالات آتے ہیں ان کی اکثریت سفلے پن پر ہی مشتمل ہوتی ہے۔ اسی وجہ سے ہمیں حکم دیا گیا تھا کہ ایک حصہ خوراک، ایک حصہ پانی اور ایک حصہ خالی رکھو۔ پر جی "اندھا اعتقاد" رکھنے والے ہی ان پر عمل کرتے ہیں۔ عقل کے ترازو پر ناپنے سے تو پھر توندیں ہی نکلتی ہیں۔
ہماری سمجھ میں تو یہی آیا ہے کہ توند اور تقوی بالعکس متناسب ہوتے ہیں۔ ایک کے بڑھنے پر دوسرا گھٹنا شروع کردیتا ہے۔ لہذا فیصلہ ہمارے اپنے ہاتھوں میں ہے کہ دل یا شکم؟