عید کے پُر کیف (پُر مسرّت اس لیے نہیں لکھا کہ ہمیں مسرّت شاہین پسند نہیں، اور کیف تو آپ سمجھ ہی گئےہوں گے) موقع پر ہم آپ کے لیے ایک خصوصی ترکیب کے ساتھ حاضر ہیں۔ چھوٹی عید اور میٹھا لازم و ملزوم بلکہ ظالم و مظلوم سمجھے جاتے ہیں۔ہماری تحقیق یہ بتاتی ہے کہ ذیابیطس کے بڑھنے کا ایک بڑا سبب، چھوٹی عید بھی ہے۔ احباب، اعتراض کرسکتے ہیں کہ یہ تحقیق اور اس کا نتیجہ، ماروں گُھٹنا پھوٹے آنکھ، کے مصداق ہے لیکن اگر بغور جائزہ لیا جائے تو یہ نتیجہ کچھ ایسا بعید از امکان بھی نہیں ہے۔ چھوٹی عید پر جتنا میٹھا پکایا اور کھایا جاتا ہے، ہمیں خدشہ ہے کہ مستقبل قریب کی چھوٹی عیدوں پر قورمہ بھی شیرے میں پکایا جانے لگے گا۔ اس یکسانیت کو ختم کرنے کے لیے آج ہم اس ترکیب کے ساتھ حاضر ہوئے ہیں۔
یہاں برسبیل تذکرہ ہم یہ بھی کہتے چلیں کہ سویّاں (جنہیں پیار سے شِیر خُرما بھی کہا جاتا ہے، یہاں خُرما سے مراد خرم شہزاد خرم نہیں ہے) اور آم کھانے کا کوئی معقول طریقہ آج تک دریافت نہیں ہوسکا۔ ہاتھ منہ "لَبیڑے" بغیر آم اور "سُڑکے" مارے بغیر سویّاں کھانا،اتنا ہی مشکل ہے، جتنا ہمارے مدیر کا انگریزی پر عبور حاصل کرنا۔ موضوع سے انحراف کا خدشہ نہ ہوتا تو ہم ان کی انگریزی کے ٹوٹے ضرور پیش کرتے۔ بہرحال، ہم آج جو شِیر خُرما المعروف "سیویاں" بنانے جارہے ہیں، انہیں معقول طریقے سےکھانا نہایت آسان ہے۔ صرف کھانا البتہ کافی مشکل ثابت ہوسکتا ہے کیونکہ "نفیس" چیزوں کا "ٹیسٹ" ڈویلپ کرنا پڑتا ہے!
تمہید کافی طویل ہوگئی ہے، اس دیباچے کی طرح جو کتاب کے متن سے بھی دو صفحے زیادہ ہو! بہرحال زیادہ دیر کبھی بھی نہیں ہوتی، لہذا اجزاء نوٹ کرلیں۔
پانچ پیکٹ سویّاں
املی کا کھٹّا- ایک جگ
سٹرپ سلز کے دو پتّے
خشک دودھ ایک کپ
گُڑ ایک پاؤ
نمک حسب توفیق
دار چینی، لونگ وغیرہ مٹّھی بھر
سرسوں کا تیل دو پکانے کے چمچ
پپیتا۔ ایک پلیٹ
کیمرے والا موبائیل ایک عدد
ڈیسک ٹاپ یا لیپ ٹاپ ہمراہ انٹر نیٹ کنکشن
پتیلی میں سرسوں کا تیل ڈال کر درمیانی آنچ پر گرم کریں اور اس میں سویّاں ڈال کر اچھی طرح فرائی کرلیں۔ جب ان کا رنگ ہلکا اوبامی ہوجائے تو املی کا کھٹّا ڈال کر آنچ ہلکی کردیں اور تین سے پونے پانچ منٹ تک پکنے دیں۔ خشک دودھ، سٹرپ سلز کا آدھے سے زیادہ پتّا، گُڑ، نمک، دارچینی لونگ وغیرہ ڈال کر کچھ بھی کرنے سے پہلے موبائیل سے اس کی دو تین تصویریں کھینچیں اور فیس بک پر اپ لوڈ کردیں۔ ایک کیپشن بھی دے دیں کہ "کھٹ مٹھا شیر خُرما تیار ہورہا ہے، جس نے کھانا ہو آجائے"۔ ظاہر ہے، کوئی نہیں آئے گا، لیکن آپ کی مہمان نوازی پلس ککنگ کی دھاک بیٹھ جائے گی۔ یہ خیال رکھیں کہ اس ساری سماجی سرگرمی کے دوران چولہا بند ہو، ورنہ فیڈ اور نوٹیفیکشنز پھرولتے، آدھا گھنٹہ لگ جائے گا اور آپ کی ڈش کا تورا بورا بن جائے گا۔ اس سماجی سرگرمی سے فارغ ہونے کے بعد دوبارہ اپنی ڈش کا رخ کریں اور ہلکی آنچ پرتب تک پکائیں جب سارے اجزاء 'یک جان' نہ ہوجائیں۔جب آپ کی چھٹی حس کہے کہ شِیر خُرما تیار ہے تو اسے فورا فریج میں رکھ دیں۔ جب اچھی طرح ٹھنڈا ہوکر جم جائے تو کٹے ہوئے پپیتے اور بچی ہوئی سڑپ سلز کی گولیوں کے ساتھ گارنش کرکے "مہمانوں" کی خدمت میں پیش کریں۔
رمضان کے آخری ایّام میں مولانا حضرات کا رقّت انگیز دعائیں مانگ مانگ کر گلا بیٹھ چکا ہوتا ہے جبکہ مقتدی حضرات و خواتین، سارا مہینہ تلی ہوئی اشیاء اور ٹھنڈے یخ مشروبات کے استعمال کے بعد گلے کی جملہ بیماریوں میں مبتلا ہوچکے ہوتے ہیں۔ ان سب کے لیے یہ شِیر خُرما خصوصی طور پر مفید ہے۔ نیز دیگر "روحانی و رومانی" فوائد الگ ہیں۔
اگر آپ مندرجہ ذیل شعر کے حقیقی معنی سے ابھی تک آشنا نہیں ہیں تو وہ بھی آپ پر ظاہر و باہر ہوسکنے کا پورا امکان ہے۔ شعر کچھ یوں ہے کہ۔۔۔
عید کا موقع ہے، آج تو گلے "مَل" لے ظالم
رسم دنیا بھی ہے، موقع بھی ہے، دستور بھی ہے
ہیں جی!۔