معصوم بسنت
16 تبصرے:
- Anonymous نے فرمایا ہے۔۔۔
-
ﺍﮔﺮ ﺁﭖ ﮐﻮ ﭘﺘﻨﮓ ﺍﮌﺍﻧﺎ ﻧﮩﻴﮟ ﺁﺗﺎ ﺗﻮ ﺍﺱ ﻣﻴﮟ ﺑﺳﻨﺖ ﮐﺎ ﮐﻴﺎ ﻗﺼﻮﺭ
- February 25, 2012 at 1:52 PM
- یاسر خوامخواہ جاپانی نے فرمایا ہے۔۔۔
-
واہ ۔۔۔۔۔۔۔۔مزا آگیا۔
بس جی ہمارے لئے تو آپ ہی لیجنڈ ہو جی۔ - February 25, 2012 at 1:57 PM
- محمد ریاض شاہد نے فرمایا ہے۔۔۔
-
بہت خوب جناب
- February 25, 2012 at 2:58 PM
- ضیاءالحسن خان نے فرمایا ہے۔۔۔
-
اوے استاد سماج اور پونڈی بازی کے دشمن ۔۔۔۔۔۔۔:)
- February 25, 2012 at 3:16 PM
- محمد وارث نے فرمایا ہے۔۔۔
-
خوب لکھا جعفر صاحب۔ گویا ایک طرح سے میری ہی کہانی ہے یہ، جتنی پتنگ بازی آپ نے کی ہے اتنی میں نے بھی کی تھی، اور آپ ہی کی طرح میں اپنے سب سے چھوٹے ماموں کی پتنگوں کو ًکنیاںً دیا کرتا تھا اور پتنگ کٹ جانے پر ڈور واپس کھینچنے کی بھاری زمہ داری بھی میرے ہی کندھوں پر ہوتی تھی۔
آخری جملے واقعی غور طلب ہیں۔ ایک معصوم سی روایت کو ہم نے کنجر خانہ بنا دیا ہے۔ - February 25, 2012 at 3:17 PM
- محمد وارث نے فرمایا ہے۔۔۔
-
اور معذرت خواہ ہوں کہ اپنے آخری جملے میں ایک ثقیل لفظ استعمال کر گیا لیکن یہ بات ہی کچھ ایسی ہے ۔۔۔۔۔ خیر پھر معذرت خواہ ہوں۔
- February 25, 2012 at 3:18 PM
- غلام عباس مرزا نے فرمایا ہے۔۔۔
-
خوب جی!کبھی بنٹوں کے موسم کی بھی بات سنائیے گا۔
- February 25, 2012 at 5:21 PM
- DuFFeR - ڈفر نے فرمایا ہے۔۔۔
-
لےاس پوسٹ کو پڑھ کے تو میری وکیبلری کے بھولے وے کئی الفاظ تازہ ہو گئے
ہائے گڈی بازی :(
ہمارے گھر کی اتنی بڑی چھت اور صحن کا فائدہ یہ تھا کہ گڈیاں خود بخود ہی لٹ لٹا کے آ جاتی تھیں
اور ہم نے نکی نکی گڈیوں سے لے کے اپنے سے وڈے وڈے گڈے غیر استعمال شدہ واش روم کے بنائے گئے سٹور میں لگے فوارے پر لٹکا دیتے تھے۔ بہت ہوا تو کبھی کبھار پھاڑ بھوڑ کے تیر کمان بنا لیتے تھے
اور صرف اتنا سا ہی کام کرنے پہ کبھی کبھار تشریف پہ سوفٹی چپلیں نشان چھوڑ جاتی تھیں
پر بسنت؟ :( - February 25, 2012 at 6:56 PM
- عمر نے فرمایا ہے۔۔۔
-
ویسے، گڈی لٹنے کا یہ جو جنگ جو قسم کا تصور ہے، وہ میں نے پنجاب کے میدانی علاقوں کے لوگوں میں دیکھا، ورنہ بالاکوٹ میں جہاں میں رہتا تھا وہاں پہاڑی پر اوپر نیچے گھر تھے اور خوش قسمتی سے چوٹی پر ہمارا گھر۔ اب نیچے کے گھروں کی چھتوں سے کوئی بھی گڈی اڑتی، وہ کیا کہتے ہیں کہ گڈی کا عارضی اور ڈور کا کُل وقتی ٹرانزٹ کوریڈور ہماری چھت سے ہو کر جاتا تھا۔۔۔ اسطرح نہ کسی پیچے کی حاجت تھی اور نہ ہی کٹی گڈی کے پیچھے بھاگنے کی۔ چھت کے اوپر سے ڈور پکڑو اور نیچے والے کو بال کی طرح نکال کر اڑتی گڈی خود اڑانا شروع کر دو۔۔۔۔
ویسے، کمرشلائزڈ قسم کی گڈی بازی تب بھی نی ہوتی تھی، اب بھی خال خال ہی ہے۔ پلاسٹک کے شاپروں اور سخت جھاڑو کے تنکوں سے خود گڈیاں بنا کر اڑائی جاتی تھیں، زیادہ سے زیادہ ہوتا تو خام مال خود لا کر بنانی پڑتی تھیں، اور اسی طرح اچھا دھاگہ بھی خود بنانا پڑتا تھا۔ مچھی سلیش کی بدبو گھنٹوں پیچھا نی چھوڑتی تھی، جس دن دھاگہ بنایا جاتا تھا۔
اس کے بعد، تیرے آخری جملوں کی وجہ مجھے نی پتہ۔ - February 25, 2012 at 9:03 PM
- Anonymous نے فرمایا ہے۔۔۔
-
خوب جی...
- February 25, 2012 at 9:14 PM
- عمیر ملک نے فرمایا ہے۔۔۔
-
جب لالہ موسیٰ میں بسنت پہ ذرا مزا آنے لگا تو پابندی لگ گئی۔۔۔ اس پوسٹ میں آپ نے امپلائی کیا کرنے کی کوشش کی ہے۔۔؟ ہونی چاہیئے یا نہیں؟
- February 26, 2012 at 7:16 PM
- عدنان مسعود نے فرمایا ہے۔۔۔
-
خوب مضمون ہے جناب۔
ہمیشہ "تُکّل" اڑایا کرتے تھے، ان کے بقول اصل پتنگ بازی تُکّل اڑانا ہی ہوتی ہے
باقی تمام اصطلاحات تو ہمارے ذخیرہ الفاظ میں موجود تھے، یہ زرا تُکّل وکیبلرئ کے لئے نیا ہے، امید ہے اس کے معانی و مفہوم سے آگاہ فرمایئں گے۔ :) - February 26, 2012 at 7:33 PM
- نعمان محمد نے فرمایا ہے۔۔۔
-
بھیا اتنا بتا دیں اگر ہم بسنت جیسا تہوار بھی نہیں منائیں گے تو آخر اپنے ملک و قوم کا امیج دوسری اقوام کے سامنے کیسے بہتر بنا کر پیش کریں گے۔۔۔۔۔
- February 26, 2012 at 8:00 PM
- جعفر نے فرمایا ہے۔۔۔
-
سعد: قصور اور بسنت کا بہت گہرا تعلق ہے کاکے۔
یاسر جاپانی: چلو فیر کوئی چڑھاوا وغیرہ چڑھاو :ڈ
ریاض شاہد: بہت شکریہ
ضیاءالحسن: مولبی تو کیا جانے پونڈی۔ فلپینیوں کو دیکھ دیکھ کے ترسنے والے :ڈ
محمد وارث: چول کو چول ہی کہنا پڑتا ہے جناب۔ :ڈ
غلام عباس: جب بنٹوں میں بم فٹ ہونے لگے تو اس کا ذکر بھی چھیڑیں گے
ڈفر: یار اپنی تشریف کا ذکر نہ کرا کر۔ دل خراب ہونے لگتا ہے :ڈ
عمر: یعنی تو بھی چوٹی پرت تھا۔ :ڈ
گمنام: یہ خوب جی ، تو صرف یہ دیکھنے کے لیے کیا گیا تبصرہ تھا کہ کیا ماڈریشن آن ہے یا آف۔ اور اس کے بعد جو آپ نے اپنی مستورات ہمیں پیش کرنے کی کوششیں کیں وہ قابل در تعریف ہیں۔ لگے رہییے۔
عمیر ملک: میں جوید چودری نی ہوں بابو۔ جو امپلائی کرنے کی کوشش کروں۔ میں تو خود پوچھ را آپ لوگوں سے کہ یہ ہو کیا گیا ہے؟
عدنان مسعود: تکل کا لنک ایڈ دیا گیا ہے۔ پسندیدگی کا شکریہ اور نوازش اور مہربانی
محمد نعمان: آسکر جیت کے :ڈ - February 28, 2012 at 9:02 PM
- Behna Ji نے فرمایا ہے۔۔۔
-
اسلام علیکم
بہت دلچسپ تحریر ہے،ہم بھی ماضی میں پہنچ گئے جب ہمارے بھائ جان بھی آپ ہی کی طرح اسی قسم کی محدود پتنگ بازی میں مبتلا ہوتے تھے-ہمارے گھر میں بھی گڈی اڑانا آوارہ لڑکوں کا کھیل سمجھا جاتا تھا-
ایک دفعہ میں نے بھی بھائ جان سے ضد کی کہ مجھے بھی آسمان سے چھوتی ہوئ پتنگ کی ڈور کو ہاتھ میں پکڑنا ہے، مجھے آج تک یاد ہے کتنا شاک ہوا تھا ڈور کی ٹینشن کو محسوس کر کہ، ہم سمجھے تھے کاغذ اور ڈور ایسی ہی ہلکی ہو گی جیسی زمین پر ہوتی ہے، پر وہاں توتندئ باد مخالف نے ہور ای کہانی مچائ ہوئ تھی ،چھوٹے تو ہم تھے ہی فوراً ڈر کے مارے بھائ کو واپس پکڑا دی ڈور کہ پتنگ ہی نا ہمارے نحیف و نازک ہاتھوں سے جاتی رہے :)
اگلی دفعہ پھر ہمت کی تو اس دفعہ غلط ٹائم پر 'سر' دے کر اسکو آسمان کی بلندیوں سے زمین پر لے آئے پل بھرمیں- اسکو بلندی سے پستی کے گڑھے میں دیکھ کر اتنا دکھ ہوا کہ پھر ہم نے پتنگ کو ہاتھ میں لینے کی ضد نہیں کی کبھِی بھِی، سوائے اس وقت کے جب بھائ جان 'کنی' دینے کو بلا لیتے تھے کبھی کبھِی- اور ہاں یہ پتنگ بازی بھائ گرمیوں میں چپکے سے اس وقت کرتے تھے جب امِی دوپہر کو سو رہی ہوتی تھیں اورباقی سبب چھتیں بھِی سنسان ہوتی تھِین- مگر بھائ کا سنولایا ہوا چہرا دیکھ کر امی کو پتا چل جاتا تھا اور ڈانٹ پڑتی تھی :)
اللہ میری امی کو جنت الفردوس میں جگہ دے آّمین-
ام عروبہ - March 25, 2012 at 1:19 AM
- راشد نے فرمایا ہے۔۔۔
-
جب دعا کرتے تھے کہ ابا جی کے پاس بہت پیسے آجائیں تاکہ ایک چوبارہ اور بن جائے اور ہمیں گڈی لوٹنے میں دوسروں پر ابدی سبقت حاصل ہو جائے
واقعی یہ ادراک ہی نہیں ہو سکا کہ یہ کهابوں اور ملاقاتوں کا جشن کب قاتل اور شراب و شباب میں بدل گیا؟ - February 9, 2016 at 4:26 PM