شفیق الرحمان نے کسی جگہ لکھا تھا کہ دنیا کے سارے عظیم آدمی غمگین تھے، لہذا آپ بھی غمگین رہنا شروع کردیں کہ غم عظمت کی کنجی ہے۔ مزاح کے پیرائے میں کی گئی اس بات پر ذرا غور کریں تو یہ اتنی غلط بھی نہیں لگتی۔
محبت سے لے کر روزگار تک اور بے وفائی سے لے کر غریب الوطنی تک، دکھوں کی اقسام ان گنت ہیں۔ آپ کہیں گے کہ محبت کوغم میں کیسے شمار کیا جاسکتا ہے؟ کرنے والوں سے پوچھ کر دیکھیں یا پھر اپنے دل سے ہی پوچھ لیں!
دکھ اور غم بندے کو ہرابھرا اور زرخیز رکھتے ہیں، مسلسل خوشی بندے کو ایسے بنجر اور ویران کردیتی ہے جیسے سیم اور تھور زرخیز اور آباد زمین کو کردیتا ہے۔ مثال کے لئے اپنی اشرافیہ کو دیکھ لیں، پچھلے دو تین سو سال میں اس نے کیا پیدا کیا ہے، کاٹھ کباڑ۔۔۔۔اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ بندہ، ایسے بھکاریوں کی طرح جو اپنے زخموں کو دکھا کر بھیک مانگتے ہیں، اپنے دکھوں کی نمائش لگا کر پھرتا رہے، اور ہمدردی کی بھیک سمیٹتا رہے۔ بلکہ دکھ کو بیج کی طرح دل کی زمین میں گہرا بونا پڑتا ہے، تنہائی میں بہائے گئے آنسوؤں کا پانی دینا پڑتا ہے اور یادوں کی دھوپ لگوانی پڑتی ہے۔ پھر جو پودا اگتا ہے تو اس سے پھل اورچھاؤں دونوں حاصل ہوتے ہیں۔