دو کہانیاں ہیں
16 تبصرے:
- Unknown نے فرمایا ہے۔۔۔
-
کافی دل کو چھونے والی ہیں دونوں سچی کہانیاں زندگی کافی زیادہ تلخ ہے اصل میں
- May 3, 2014 at 10:25 AM
- rdugardening.blogspot.com نے فرمایا ہے۔۔۔
-
جی واقعی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایسا ہی ہوتا ہے غریبوں کے ساتھ ، دوسرا اب قومی ٹیم میں کھیل رھا ہے - May 3, 2014 at 10:37 AM
- عمر احمد بنگش نے فرمایا ہے۔۔۔
-
قومی اخبارات کے جمعہ ایڈیشنز میں اکثر، وقتاً فوقتاً ایک مضمون 'تقدیر اور تدبیر' الٹ پلٹ کر، کبھی ایک رخ اور کبھی دوسری صورت پڑھنے کو ملا کرتا ہے، مگر ہمیشہ ہی خاصہ بوجھل ہوتا ہے۔ اخبار والے اور میں، دونوں ہی ڈھیٹ واقع ہوئے ہیں کیونکہ میں نے کبھی ایسے مضمون پڑھے نہیں اور انھوں نے چھاپنا ترک نہیں کیا۔ ایسا نہیں کہ مجھے دلچسپی نہیں، بس مجھے ان مضامین سے خدا واسطے کی بیر تھی۔
یہ دو کہانیاں، بہرحال، فوراً پڑھ لیں اور ان کو بغور پڑھنے سے، دس منٹ میں فلسفہ تقدیر و تدبیر واضع ہو جاتا ہے۔ اشفاق احمد نے بڑے مزے کی تشریح کی تھی کہ، تقدیر و تدبیر انسان کے پیدل چلنے جیسا ہے، اگر ایک قدم تقدیر ہے تو دوسرا تدبیر۔۔۔ اور دونوں کا ہی کامیابی کہو یا کچھ، برابر کا عمل دخل ہے، جو دونوں کہانیوں میں ہمیں جا بجا نظر آتا ہے۔
اچھا، دلچسپ بات یہ کہ دونوں کہانیاں پڑھیں تو ہمارا پہلا تاثر عجب سا ہوتا ہے۔ پہلے کردار پر ترس آتا ہے اور دوسرے پر رشک، مگر میرے لیے اس پوسٹ کا مدعا نہیں ہے۔ جو مدعا ہے تو وہ فلسفہ تقدیر و تدبیر کا ہے جو ہم میں سے ہر ایک کے لیے سمجھنا نہایت ضروری ہے۔ - May 3, 2014 at 10:51 AM
- Unknown نے فرمایا ہے۔۔۔
-
السلام علیکم
بے شک ایسا ہی ہوتا ہے زندگی میں. یہ زندگی ایک امتحان ہے اور اس میں پر ایک کا کویسچن پیپر الگ ہوتا ہے. عقل مند لوگ اپنے سوالوں پر نظر رکھتے ہیں اور دوسروں کے سوالوں پر وقت ضائع نہیں کرتے. - May 3, 2014 at 12:08 PM
- Unknown نے فرمایا ہے۔۔۔
-
ذندگی بہت تلخ ہے اور ایسا ہی ہوتا ہے واقعی
- May 3, 2014 at 12:58 PM
- Mudassir Iqbal نے فرمایا ہے۔۔۔
-
استاد جعفر کی اس تحریر پر بنگش صاحب کا اٹھایا ہوا نکتہ یعنی فلسفہ تقدیر و تدبیر دل کو لگا - تمام تر تدبیر کے باوجود بھی جب تقدیر مسلسل روٹھی ہی رہے تو اچھے اچھے ہمت ہار جاتے ہیں اور میری نظر میں یہی زندگی کا اصل چیلنج ہے- چونکہ کامیابی کی تعریف ہر شخص کے لئے یکساں نہیں، لہذا لازم ہے ہم اپنی صلاحیتوں سے دل برداشتہ نہ ہوں، ایک میدان نہ سہی ، دوسرا سہی ، جہد مسلسل کا نام ہی حیات ہے ، اس کی لذت میں جب آدمی کھو جاتا ہے تو سود و زیاں کے احساس سے عاری ہوجاتا ہے - میری نظر میں یہ اصل کامیابی ہے- استاد کا شکر گزار ہوں کہ وہ اپنے تجربات کو تحریر میں منتقل کر کے ہمیں سیکھنے کے مواقع فراہم کرتے رہتے ہیں -
- May 3, 2014 at 2:00 PM
- یاسر خوامخواہ جاپانی نے فرمایا ہے۔۔۔
-
باورچی خانے کی ضروریات سے بندہ مطمعین ہوتو صلاحیت و قابلیت اضافی صفتیں ہیں، جستجو، محنت ،لگن سے حاصل ہو ہی جاتی ہیں۔زندگی کی تلخیاں ۔۔۔۔۔۔تکمیل نہ پاسکنے والی امیدوں سے ہی جنم لیتی ہیں۔
- May 3, 2014 at 4:40 PM
- bhai g ki behn نے فرمایا ہے۔۔۔
-
ہمیشہ کی طرح خوبصورتی سے تلخ حقیقت کو دلچسپ انداز میں بیان کیا گیا ہے
- May 3, 2014 at 9:31 PM
- ابوشامل نے فرمایا ہے۔۔۔
-
یہاں کل میں نے تبصرہ کیا تھا وہ کہاں گیا؟ جواب جواب دو، تبصرے کا حساب دو :)
- May 3, 2014 at 11:39 PM
- Unknown نے فرمایا ہے۔۔۔
-
انگریزی کی ایک کتاب ہے Outliers اس کتاب میں کامیابی اور ناکامی کو بہت خوبصورتی کے ساتھ ایک مختلف زاویہ نگاہ سے بیان کیا گیا ہے۔ مثال کے طورپرکنیڈین آئس ہاکی کے کھلاڑی کا کس مہینے کی کون سی تاریخ کو پیدا ہوا یہ اس کی کامیابی اور ناکامی میں بہت اہم بن جاتا ہے۔۔۔۔۔۔دونوں کہانیوں کے کردار جس گھرانے میں پیدا ہوئے اس میں ان کا کوئی عمل دخل نہیں تھا۔۔۔۔لیکن آگے جاکر یہ چیز ان کی کامیابی اور ناکامی میں بہت اہمیت اختیار کرجاتی ہے۔
- May 4, 2014 at 7:19 AM
- جعفر نے فرمایا ہے۔۔۔
-
شکریہ خلیل میاں
جی ملک صاحب، دوسرا کھیل رہا ہے اور خوب کھیل رہا ہے
لالے، بعینہ یہی کہنا چاہا تھا میں نے جو تو نے بیان کیا۔ اعلی۔
شکریہ ام عروبہ صاحبہ
زندگی تلخ ہے یا نہیں، اکثریت کے حالات بہت تلخ ہیں رائنہ بی بی
بہت مشکور مدثر صاحب۔
متفق شاہ جی۔
:)بھائی جی کی طرف سے بہت بہت شکریہ ۔۔۔
ارے حضرت ہم نے تو ماڈریشن کو عرصہ ہوا خیر باد کہہ دیا۔ کوئی ایرر آگیا ہوگا۔ آپ کو تو علم ہے کہ ہم تبصرے وغیرہ ڈیلیٹ نہیں کیا کرتے
بہت گورکھ دھندا ہے یہ خورشید بھائی۔۔ کسی کی سمجھ میں نہیں آیا آج تک - May 4, 2014 at 8:18 AM
- میرا پاکستان نے فرمایا ہے۔۔۔
-
ہماری نظر میں دونوں کہانیوں کے ہیروز میں فرق صرف یہ ہے کہ ایک نے حالات سے سجمھوتا کر لیا اور دوسرے کی لگن نے اسے کامیاب بنا دیا۔ ہماری اپنی زندگی میں بہت سارے ایسے واقعات ہیں جہاں غربت نے کامیابی کے راستے نہیں روکے بلکہ مایوسی اور احساس کمتری نے لوگوں کو کامیاب نہیں ہونے دیا۔
- May 4, 2014 at 3:42 PM
- انکل ٹام نے فرمایا ہے۔۔۔
-
استاذی یہ کہانیاں پڑھ کر یہ ہی سمجھ آتی ہے کہ یہ دنیا امتحان گاہ ہے، اللہ کسی کو لے کر آزماتا ہے کسی کو دے کر آزماتا ہے، بس جو انسان اسکی شکر گزاری میں زندگی گزار دے وہی کامیاب ہے۔ زندگی کا کیا ہے ساٹھ سال میں ختم نہ ہوئی تو ستر سال میں ختم ہو ہی جاتی ہے۔ اور ہم جیسے اسی دنیا میں کچھ کرنے نہ کرنے کو ہی روتے رہتے ہیں ۔
- May 4, 2014 at 7:34 PM
- Anonymous نے فرمایا ہے۔۔۔
-
یہی وجہ ہے کہ ہمارے ملک میں کسی بھی فیلڈ میں آگے نہیں بڑھ سکتے کیونکہ ہماری زندگی کا سب سے اہم مقصد گھر کےخرچے پورا کرنا ہوتا ہے، دوسرے ملکوں میں لوگوں کو اس چیز کی کم ہی پروا ہوتی ہے
یہی وجہ ہے ہمارے ملک میں ترقی کا فقدان ہے۔۔ - May 4, 2014 at 10:25 PM
- Anonymous نے فرمایا ہے۔۔۔
-
یہ دو کہانیاں کسی کیٹالسٹ کی طرح لگیں..تقدیر اور تدبیر کا فلسفہ سمجھنے کے عمل کو تیز کیا انہوں نے.
- May 5, 2014 at 12:25 AM
- Dohra Hai نے فرمایا ہے۔۔۔
-
استاد جعفر کے قلم سے لکھی کہانی تو خیر قاری کو باندھ لیتی ہے اِس بڑی خوشبختی کیا تھی کہ اب کی بار ایک نہیں دو کہانیں پڑہنے کو مِلیں۔عمر بنگش نے تقدیر اور تدبیر کے باہمی تعلق میں اشفاق احمد کا حوالہ دیا ہے ۔ اِس جکڑے ہوئے معاشرے میں بہت لوگ لنگڑے ہی رہتے ہیں ۔ کبھی تدبیر کی ٹانگ کمزور کبھی تقدیر من من کا وزن اُٹھائے۔ دونوں کہانیون کے کرداروں کو اللہ نے ایک ایک خوبی عطا کی ۔ کردار نمبر دو کی مستقل مزاجی اور ۔لگن نے جِسے آگے بڑہائی رکھا۔ مگر ۔۔۔۔
۔ ایک سفارشی کھلاڑی کو کرکٹ کے میدان میں موقع مِلا یہ اُس کی قسمت تھی مگر وہ دُنیا کا بہتری آل راونڈر بنا یہ اپس کی محنت اور مستقل مزاجی تھی عمران خان۔ بچپن میں میں نے میلکم مارشل اور عبدالقادر کی قسط وار کہانیاں پڑہی تھیں بہت مُتاثر کیا تھا اُن کی حالات سے لڑائی کی داستانوں نے۔ جب تک انسان سانس لیتا ہے اُس کی کہانی چلتی رہتی ہے۔ زِندگی میں جیت ہار زیاد ہ معنی نہں رکھتی اصل اہمیت کوشش کی ہوتی ہے۔ ِاِسی لئے میں آپ کی دو کہانیوں کو ڈیڑہ کہانی کہنا مُناسب سمجھتا ہوں۔ - May 8, 2014 at 4:01 PM