شہزاد۔۔۔ چودھری شہزاد

 

یہ چودھری شہزاد کی کہانی ہے!

سن 1939، لاہور ۔ سہ پہر کا وقت۔ نواب ممتاز حسین ممدوٹ کی کوٹھی کے پائیں باغ کا منظر۔ قائد اعظم سگار سلگائے گہری سوچ میں گم۔ دربان نے آکر عرض کیا ، آپ کے مہمان تشریف لا چکے ۔ قائد نے سگار کا گہرا کش لیا۔ تھوڑی دیر دھواں اندر روکا۔ پھر نتھنوں سے خارج کرتے ہوئے دربان کو آنکھ کے اشارے سے مہمان کو بلانے کے لیے کہا۔

مہمان چودھری سرکار اعظم تھے۔

قائد نے کھڑے ہو کر ان کا پر جوش استقبال کیا۔ مصافحے اور معانقے کے بعد چودھری صاحب قائد کے بغل میں دھری کرسی پر بیٹھ گئے۔ قائد ہمیشہ ٹو دی پوائنٹ بات کرتے تھے۔ چودھری صاحب سے فرمایا، "ویل چودھری۔۔۔ ہم ڈیسائڈ کیا ہوں کہ پاکیسٹین بناؤں گا۔ بٹ آئی ڈونٹ ہیو اینی ریسورسز رائٹ ناؤ۔۔۔ اسی لیے ہم تم کو بلایا ہوں۔ وٹس یور اوپینئین۔۔۔"
چودھری سرکار نے مونچھ کو تاؤ دیا۔ قائد کی طرف محبت سے دیکھا اور بولے، "آپ بے فکر ہو کر اعلان کر دیں۔ باقی سب مجھ پر چھوڑ دیں۔"  

یہ ملاقات دراصل پاکستان بنانے کا آغاز تھا۔ اگلے سال مینارِ پاکستان کے سائے میں قراردادِ پاکستان منظور ہوئی اور صرف  سات سال میں پاکستان بن گیا۔ قائد کی جدوجہد اور عزم اپنی جگہ مگر آج پاکستان قائم ہے تو اس میں سب سے بڑا حصہ چودھری سرکار اعظم کا ہے۔ اگر اس دن نواب ممدوٹ کی کوٹھی کے پائیں باغ میں وہ انکار کر دیتے تو آج نجانے تاریخ کیا ہوتی۔

یہ وہ خاموش مجاہد تھے جنہوں نے پاکستان کے قیام کو یقینی بنایا مگر کسی تاریخ کی کتاب میں ان کا  ذکر نہیں۔ پاکستان بننے کے بعد بھی چودھری صاحب نے نئے ملک کی معاشی ترقی کے لیے عظیم منصوبے شروع کیے۔ پاکستانی صنعت کو بامِ عروج پر پہنچانے میں ان کا کردار کلیدی تھا۔ جنرل ایوب نے مارشل لاء لگایا تو یہ چودھری صاحب طیش کے عالم میں سکندر مرزا کے گھر پہنچے۔ جنرل ایوب کو بے نقط سنائیں۔ جنرل صاحب سر نیچا کرکے سنتے رہے۔ ان کی اتنی جرأت نہ تھی کہ چودھری صاحب سے الجھ سکتے۔ کچھ عرصہ بعد جنرل ایوب کی مسلسل منت سماجت کے بعد ان کو ملنے کو تیار ہوئے۔ بدوملہی میں چودھری صاحب کی حویلی میں ملاقات ہوئی۔ جنرل صاحب نے منت کی کہ پاکستان کو ائیرلائن کی ضرورت ہے۔ آپ اس کام کا بیڑا اٹھائیں کیونکہ صرف آپ ہی یہ کام کر سکتے ہیں۔

چودھری سرکار نے بادلِ نخواستہ حامی بھری اور پی آئی اے کا آغاز ہوا۔ چند ہی برسوں میں پی آئی اے دنیا کی نمبر ون ائیر لائن بن گئی۔ چودھری صاحب نے کبھی اس پر غرور نہیں کیا۔ جنرل ایوب آخری دم تک چودھری صاحب کے احسان مند رہے۔
چودھری سرکار کے پوتے چودھری شہزاد کی کہانی بھی اپنے دادا حضور کی طرح ان سنگ ہی رہی۔ انہوں نے پاکستان کی حفاظت کے لیے لاتعداد دفعہ اپنی جان داؤ پر لگا کر ناممکن مشن مکمل کیے۔ یہ بچپن سے ہی کمانڈو ٹائپ بچے تھے۔ یہ گول گپوں کی ریڑھی سے بنا گول گپے کھائے تین تین پیالیاں کھٹے کی پی جاتے تھے اور گول گپے والے پائی کو پتہ بھی نہیں چلتا تھا۔ ان کی فراست، جرأت اور ذہانت ان میچ تھی۔

آتش جوان ہوا تو یہ پاکستان کے دفاع پر کمر بستہ ہوگئے۔ مغربی دنیا سے پرزے پاکستان لانے ہوں یا اہم شخصیات کو ادھر سے ادھر کرنا ہو، ان سے زیادہ مہارت کسی کے پاس نہ تھی۔ نوے کی دہائی سے لے کر آج تک ہر سیاسی بحران میں ان کا کردار امیتابھ بچن کی طرح مرکزی رہا۔

ہر عظیم شخصیت کے حاسد بھی پیدا ہو جاتے ہیں۔ انہیں حاسدین نے چودھری شہزاد کو  ایسے مشن پر بھیجا جس میں 1000 فیصد ناکامی منتظر تھی۔ پلان یہ تھا کہ ان سے چھٹکارا حاصل کیا جائے ۔حاسدین  مگر چودھری کو مس جج کرگئے۔ آپ دشمن کی کچھار میں بلا خطر گھسے اور  دلیری اور جانبازی کے ساتھ مشن مکمل کیا جس کی تفصیلات بتانا ملکی مفاد میں نہیں۔ مشن کی تکمیل کے بعد ایکسٹریکشن سائٹ پر پہنچے تو وہاں کوئی موجود نہ تھا۔ چودھری کو پھنسانے کے لیے پلان کے مطابق کوئی انہیں وہاں سے ایکسٹریکٹ کرنے نہیں پہنچا۔ چودھری نے واچ ٹرانسمیٹر کے ذریعے بہت رابطے کی کوشش کی مگر کسی نے جواب نہیں دیا۔  غداروں کے نزدیک یہ مشن ناممکن تھا مگر وہ چودھری ہی کیا جو ناممکن کو ممکن نہ کرسکے۔  گھبراہٹ اور چودھری شہزاد  دومتضاد چیزیں ہیں۔ کیونکہ ان کا اس قول پر یقین  کامل ہے کہ "آپ نے گھبرانا نہیں ہے"۔ چودھری صاحب نے فورا نائی کی دکان کے باہر کھڑے سائیکل کا تالا توڑا اور دبادب پیڈل مارتے ہوئے دشمن کے علاقے سے فی الفور چمپت ہوگئے۔

حاسدین کا منصوبہ ناکام ہوا۔ مدعی لاکھ برا چاہے تو کیا ہوتا ہے۔۔۔۔ اس کے بعد بھی کئی دفعہ چودھری صاحب کو پکڑنے  اور گدڑ کٹ لگانے کی کوشش کی  گئی مگر آپ مکھن سے بال کی طرح نکل گئے کیونکہ۔۔۔۔ چودھری کو پکڑنا مشکل ہی نہیں ، ناممکن ہے۔

آپ آج بھی خفیہ ٹھکانوں سے حاسدین کے سینوں پر مونگ دلتے ہیں۔ ان کی غداری اور اپنی شجاعت کے قصے بیان کرتے ہیں تاکہ نئی نسل کو پتہ چل سکے کہ پاکستان کے اصل بانی اور محسن کون ہیں۔

اک ڈرائیور دو وہیکلز

 

ندّی کے پانی کی ٹھنڈک عرفان کے نفسِ لوّامہ کو سلا چکی تھی۔ گوگی با دِل نخواستہ ندّی سے باہر آئی۔ ترشے ہوئے جسم کو تولیے میں لپیٹا۔ عرفان کے ہاتھ سے پکّا سگریٹ تقریبا چھینتے ہوئے دو تین گہرے کش لیے۔ غصّہ تھوڑا ٹھنڈا ہوا تو جھاڑیوں کے پیچھے بچھی ہوئی چٹائی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے عرفان کو ادھر آنے کا کہا۔ عرفان ٹھنڈے پانی کے شاک سے ابھی تک باہر نہیں آسکا تھا۔ دونوں ہاتھ بغلوں میں دئیے آہستگی سے چلتا ہوا چٹائی کے پاس پہنچا۔ اسے ذرا سا گھسیٹ کر دھوپ میں کرکے اس پر دراز ہوگیا۔ گوگی دل میں سوچ رہی تھی کہ ضروری نہیں کہ سب کچھ دیرینہ خواب کے مطابق ہی ہو۔ سکرپٹ تھوڑا بدل بھی جائے تو حرج نہیں۔ اختتام البتہ اب بھی خواب والا ہو سکتا ہے۔ اس نے آہستگی سے لپٹا ہوا تولیہ کھول کر چٹائی پر رکھا اور عرفان کی پائنتی بیٹھ کر اس کے ٹھنڈے پاؤں اپنی گود میں رکھ کر مساج کرنے لگی۔ عرفان کا  ڈیزل انجن آہستہ آہستہ گرم ہونے لگا تھا۔ گوگی کی مراد پوری ہونے کا وقت آن لگا تھا۔

لگن سچّی ہو تو  خواب کو مقصد بنا لینا چاہیئے۔ جِیتو بھیّا  یہی کہتے ہیں۔۔!

عرفان اکرم نے گوگی کو ان منازل پر پہنچایا جہاں آج تک کوئی اسے نہ پہنچا سکا تھا اگرچہ اس نے  بہت سے سفر کیے تھے۔  ندّی کے اس ویران کنارے کے اردگرد موجود جنگل میں چرند پرند گوگی کی کُوکیں سن کر حیران تھے کہ ایساکون سا جاندار ہے جو لطف کی اس منزل پر پہنچ گیا ہے کہ اس کی کُوک جنگل بیلوں میں گونج رہی ہے۔

نی میں سونڑاں  جوگی دے نال۔۔۔

ادھیڑ عمری، چَرس اور ساری زندگی کی مشق ۔۔۔ عرفان کا انجن اتنا چلا کہ گوگی کو منزل سے بھی آگے پہنچا آیا۔ سفر تمام ہوا۔ عرفان نے گڈفلیک کی ڈبّی سے پکّا نکالا۔ سلگا کر ایک ہی کَش میں چوتھائی سگریٹ پھونک ڈالا۔ گوگی چٹائی پر ایسے پڑی تھی جیسے سیلاب اترنے کے بعد کچّے کا علاقہ ہو۔

یہی وہ لمحہ تھا جب گوگی نے نیم بے ہوشی آمیز انبساط میں تہیّہ کیا کہ دنیا اِدھر کی اُدھر ہو جائے، مانے کو مئیر ضرور بنوائے گی۔

اگلے دن وہ ملک نیاز سے  ملی۔ الیکشن کی ساری فنڈنگ کھلے گلے کے بلاؤز اورملک صاحب کے کندھے پر دو دفعہ نرمی سے ہاتھ رکھنے پر مل گئی۔ ڈی سی صاحب کو فون کرنا ہی کافی رہا۔  حلقے میں مانے کی پوزیشن جیتنے والے نہیں تھی مگر جب ملک اور ڈی سی ساتھ ہوں تو ووٹ کی ضرورت نہیں پڑتی۔

عرفان اکرم  کو مئیر کا الیکشن جتوا دیا گیا۔ نسرین پنبیری اور سرور کےسارے  وحشی خواب پورے ہونے کا وقت آ گیا تھا۔  عرفان کو  سائیکل اور سوزوکی ایف ایکس چلانے کے علاوہ کچھ بھی چلانے کا تجربہ نہیں تھا۔ گوگی اور پنبیری نے  عرفان کو تسلّی دی کہ  تمہارا کام صرف دو تین گھنٹے کے لیے دفتر آنا ہوگا وہ بھی ہفتے میں ایک دو  بار۔ باقی سب کچھ ہم سنبھال لیں گے۔ سرور نے خاکروبوں کے امور سنبھالے اور گوگی نے محصول چونگی کے۔ پنبیری نے تبادلوں کے لیے مناسب دام پر سیل لگائی۔ گلشن کا کاروبار اچھے سے چلنے لگا۔

ہردن عید اور رات شبِ برات تھی۔ عرفان نے اگرچہ گزشتہ زندگی مناسب خوشحالی میں گزاری تھی مگر اب اس کو پتہ چلا کہ اصل عیش کیا ہوتے ہیں۔ سرور، پنبیری اور گوگی اس کو 30 فیصد شئیر روزانہ  پہنچاتے تھے۔ اتنے پیسے مانے نے زندگی میں کبھی اکٹھے نہیں دیکھے تھے جتنے اسے روز مل رہے تھے۔

ایک دن شام کے جھٹپٹے میں پنبیری نے مانے کو لان میں جاگنگ کرتے دیکھا۔ سرور کے ساتھ ساری زندگی گزارنے کے بعد  اس کو یہ امید نہیں تھی کہ اس کا دل ایسے دھڑک جائے گا۔ پنبیری اب بھی لاکھوں میں نہ سہی، ہزاروں میں ایک تھی۔ اسی رات پنبیری نے  فیصلہ کیا کہ "ایک دفعہ سے کچھ نہیں ہوتا"۔

عرفان کے ساتھ پنبیری کی علامتی شادی کو کافی دیر ہو چکی تھی مگر ابھی تک وہ عملی طور پر میاں بیوی نہیں  تھے۔ پنبیری  نے اس رات  فیروزی رنگ کی ساڑھی کے ساتھ شلپا شیٹی کَٹ بلاؤز پہنا۔ ہلکا سا میک اپ کیا۔ بال کھلے چھوڑے اور عرفان کے کمرے میں پہنچ گئی۔ یہ مانے کا شربت ٹائم تھا۔ اس حالت میں انسان کو ویسے ہی حُوریں نظر آرہی ہوتی ہیں اور پنبیری تو واقعی ادھیڑ عمر مِس  حجرہ شاہ مقیم لگ رہی تھی۔  مانے کے فون پر کشور کمار کی آواز گونج رہی   تھی۔۔۔"اس سے آگے کی اب داستاں مجھ سے سن"۔۔۔

اس رات مانا چار بجے تک جاگا اور پنبیری اگلے دن دو بجے تک سوئی۔

صورتِ حالات لوّ ریکٹنگل ہو چکی تھی۔ گوگی، مانا، سرور، پنبیری۔ گوگی کو چند دن میں ہی اندازہ ہوگیا کہ پنبیری کی چال میں یہ دُلکی پَن کس کی دَین ہے۔یہ اس معاہدے کی خلاف ورزی تھی جو اس منصوبے کی شروعات پر کیا گیا تھا۔عرفان  لٹرلی گوگی کے خوابوں کا شہزادہ تھا۔ وہ پنبیری کی دوستی اور عرفان کے محبّت کے بیچ سینڈوچ بننے کو ہرگز تیار نہ تھی۔

 سرور البتّہ خاکروبوں کی سپروائزری اور حصّے پر خوش تھا۔ اسے پنبیری کو ایسے خوش دیکھ کر شادی کا پہلا مہینہ یاد آگیا۔ اس کے بعد  وہ کبھی اتنا خوش نہیں دِکھائی دی تھی۔اس نے سوچا،  گرل ہیز آ رائٹ ٹُو بِی ہیپی۔

اُدھر عرفان اکرم کو کسی چیز کی پرواہ نہیں تھی۔ گوگی ہو، پنبیری ہو، وکّی ہو یا ٹونی ہو۔ جب تک اسے کھانے کو مٹن، پینے کو شربت اور پھونکنے کو چَرس ملتی رہے۔ راتیں  (اور کبھی کبھی دوپہریں) رنگین و سنگین  ہوتی رہیں۔ بنک اکاؤنٹ میں حصّہ پہنچتا رہے۔  چاہے قیامت آجائے، پنجابی محاورے کے مطابق اس کو انجن کو ٹھنڈ ہے۔

مانا، گوگی کی نوجوانی کا عشق تھا جبکہ  پنبیری کے ادھیڑ عمری میں وہ طبق روشن ہوئے تھے جو ساری عمر بجھے رہے۔ دونوں سہیلیاں مانے سے دستبردار ہونے کو تیار نہیں تھیں۔ نہ ہی اس خزانے کو چھوڑنے پر تیار تھیں جو مانے کے مئیر بننے کے بعد ان کے ہاتھ لگا تھا۔

مئیر اسلام آباد جناب عرفان اکرم  ان طوفانوں سے بے خبر اپنی دنیاوی جنّت کے حُور و غلمان کے ساتھ مشغول تھے۔ ان کے فرشتوں کو بھی خبر نہیں تھی کہ ان کے ساتھ کیا ہونے والا ہے!

دوسرا پیگ

 

آپ مانگا منڈی چلے جائیں۔ آپ ٹنڈو جام چلے جائیں۔ آپ سبّی، لکّی مروت، چونیاں، لورا لائی، تخت بھائی، ٹھٹّھہ، مٹیاری الغرض کہیں بھی چلے جائیں۔ آپ کو لوگ شرابیں پیتے ملیں گے۔ یہ دیسی بھی پیتے ہیں۔ یہ کھانسی کے شربت بھی پی جاتے ہیں۔ یہ ولائیتی بھی چڑھا جاتے ہیں۔ یہ پونڈے بھی پی جاتے ہیں۔ یہ زہریلی شرابیں بھی پی جاتے ہیں۔ پھر مر بھی جاتے ہیں۔ مگر یہ شرابیں چھوڑتے نہیں۔ یہ جب پینا شروع کرتے ہیں تو بوتل کا کھنگار تک پی جاتے ہیں۔ یہ خالی بوتل بھی بیس بیس منٹ تک سونگھتے رہتے ہیں۔رینڈ کارپوریشن کی حالیہ سٹڈی کے مطابق دنیا میں دس لاکھ سال سے شراب پی جا رہی ہے۔ آج تک ایک بھی واقعہ ایسا ریکارڈ میں نہیں کہ کسی نے صرف ایک پیگ پی کے بس کر دی ہو۔ لوگ شروع کرتے ہیں پھر بوتل ختم ہوتی ہے یا ہوش۔ اس سے پہلے کوئی بس نہیں کرتا۔

آپ شیدے کو دیکھ لیں۔ یہ ورزش بھی کرتا ہے۔ یہ اچھی خوراک بھی کھاتا ہے۔ یہ منہ متھے بھی لگتا ہے۔ یہ پنڈ کی مٹیاروں میں تبّت سنو سے زیادہ مقبول ہے۔ یہ اکثر رات کو کمادوں میں سے نکلتا پایا جاتا ہے۔ اس کے موڈھے پر ہر وقت بڑا صافہ پڑا رہتا ہے۔ یہ منہ صاف کرنے کے کام بھی آتا ہے۔ یہ بوقت ضرورت زمین پر بچھایا بھی جا سکتا ہے۔ شیدا اس سے سارے کام لیتا ہے۔ شام کو تلنگوں کی منڈلی جو کچّے کھوہ کے پاس لگتی ہے اس میں شیدے کی شرکت لازمی ہوتی ہے۔ یہ بڑے مزے دار واقعات سناتا ہے۔ یہ تلنگوں کو موٹیویٹ کرتا ہے۔ انکو مذہبی تاریخ سے واقعات سناتا ہے کہ کیسے حضرت محمود غزنوی نے سونے کے بت توڑے اور سونا غزنی لے گئے اور عیش کی۔ اس کی موٹیویشن پر کئی تلنگے آج کل جیل میں ہیں۔

جیرے کی ڈیوٹی ہوتی ہے کہ وہ منڈلی میں دیسی لائے۔ جیرا بہترین دیسی کشید کرتا ہے۔ شیری مان نے جیسے کہا تھا

"ہتھ دی کڈّی، سواد اولّے"۔۔۔ بالکل وہی سنیریو بن جاتا ہے۔ پھر سب اس وقت تک پیتے ہیں جب تک ایک دوسرے کی ماں بہن ایک نہ کرنے لگ جائیں۔ شیدا مگر ایک پیگ کے بعد بس کر دیتا ہے۔ پہلے سب اصرار کرتے تھے۔ ہور پی شژادے۔۔۔ ڈر دا کیوں ایں؟ مگر شیدا ہنس کر ٹال جاتا تھا۔ اب یہ معمول بن گیا ہے۔ سب پی کر انٹا غفیل ہو جاتے ہیں اور شیدا بیٹھا مسکراتا رہتا ہے۔

شراب ختم ہوتی ہے تو ساری منڈلی اوندھی پڑی ہوتی ہے۔ اس وقت شیدا اپنا صافہ جھاڑ کر موڈھے پر دھرتا ہے اور کمادوں کی طرف نکل جاتا ہے۔

شیدے کا ایک پیگ سارے پنڈ میں مشہور ہے۔ لوگ اس سے پوچھتے ہیں۔ وائے ون پیگ؟ وہ ہنس کر آنکھ مارتا ہے اور بات ٹال جاتا ہے۔ پینو کی بات مگر شیدا نہ ٹال سکا۔ جون کے تپتے دن کے بعد رات ٹھنڈی ہونی شروع ہوئی تو شیدا اپنا صافہ لے کر پینو سے ملنے کمادوں کی طرف نکلا۔ پینو نے شیدے سے گھُٹّ کے جپھّی پائی (جپھّی اک واری گھُٹ کے توں پا گجرا)۔ شیدے نے صافہ موڈھے سے اتارا۔ بچھانے لگا تو پینو نے انگلی کے اشارے سے منع کیا۔ "پہلے اج اک پیگ دی کہانی سنا۔۔۔ نئیں تے میں ہتھ نئیں لان دینا۔۔۔" پینو کے چہرے پر کمٹڈ لُک تھی۔

شیدے نے گہری سانس لی۔ صافے سے ماتھا پونچھا۔ بائیں ہاتھ سے جانگھوں میں خارش کی۔ دھوتی کو گھٹنوں تک اٹھایا۔ پینو کو ہارنی آمیز نظروں سے دیکھا اور ایک پیگ کی داستان شروع کی۔

شیدے نے پینو سے کہا کہ اسے اس صافے کی قسم ہے اگر اس نے یہ بات کسی اور سے کی۔ شیدے کا علم لا انتہا تھا۔ وہ کسی سکول میں نہیں گیا۔ اس نے کبھی کتاب کی شکل نہیں دیکھی لیکن پھر بھی اسے ہر چیز کا علم ہوتا تھا۔ وہ موٹر سیکلیں ٹھیک کرلیتا تھا۔ وہ سائیکل کے فیل کتّے پاس کر دیتا تھا۔ وہ پیٹر انجن ٹھیک کر لیتا تھا۔ اسے نورانی قاعدہ زبانی یاد تھا۔ شیدے نے کہا کہ اسے پتہ ہے کہ زیادہ شراب پینے سے انسان ریلیکس فِیل کرتا ہے۔ اس کنڈیشن میں وہ دل کی باتیں کر جاتا ہے جو عام حالت میں نہیں کر سکتا۔

شیدے نے پینو کا ہاتھ تھاما۔ دوسرا ہاتھ اس کی کمر کے گرد لپیٹا۔ پینو تھوڑا کسمسائی۔ پھر شیدے نے گہری آواز میں کہا، "اب جو میں بتانے لگا ہوں اس کو سن کر ڈر مت جانا۔ دیکھ میری مکھن ملائی۔۔۔۔ اگر کسی دن دوسرا پیگ لگا لیا اور بگ بینگ والا منظر بیان کردیا تو تجھے علم نہیں کہ کیا گھٹنا گھٹ سکتی ہے۔"

پینو تھوڑا حیران ہوئی تھوڑا ڈر بھی گئی۔شیدے سے لپٹ کر بولی، "اس کا کیا مطلب ہے؟ کیا تم نے بگ بینگ دیکھا تھا؟"
شیدا گہری آواز میں ہولے سے ہنسا،
"دیکھنا کیا۔۔۔ میں نے ہی بگ بینگ والے دھماکے کو لائٹر دکھایا تھا۔"

پینو بے ہوش کر شیدے کی بانہوں میں جھول چکی تھی۔

شامِ خبیثاں

 

الم و رنج کی ایسی داستان ہے جس کا مثل یونانی المیہ میں بھی محال ۔۔۔ سنگدل بھی سنے تو خون رو دے، آسمان برس پڑے، دھرتی شق ہو۔ اور جو طالبعلم سا رکیک دل ہو تو لائف فق (انگلش والا بھی بعینہ درست) ہو جائے۔

افق کی پہنائیوں سے خلاء کی وسعت تک کون ہے جس کے کارنامے ملکی وے کو منّور کیے رکھتے ہیں؟کھیل میں قدم رکھا تو ربِّ لم یزل کی قسم کسی کافر کی ہمشیر چھوڑی نہ دختر۔کون جانتا تھا کہ ایسا مردِ میدان اٹھے گا کہ یک صد برس کی غلامی انہی کے پلنگ پر توڑ کے رکھ دے گا۔ ربع صدی ہوتی ہے۔ اوائل گرما میں ہدوانا  پارٹی کا آغاز تھا۔ درویش نے ہدوانے پر کالانمک ڈالا اور شڑوووپ کرکے پہلی دندی لی۔ ہدوانے کا لال رَس لُعابِ درویش سے مل کر ٹھوڑی تک پہنچ رہا تھا۔ طالبعلم نے دستی رومال سے ٹھوڑی صاف کی۔ وہ متبرک سوتی پارچہ  اُمِّ مامون نے محفوظ کر لیا۔ روایت کرتی ہیں کہ جہاں چھپکلیاں زیادہ ہوں، وہاں رکھ دیا جائے تو قریب دو سال اس جگہ ایسی غلیظ رینگتی چیز نہیں آتی۔  جملہءمعترضہ حضورِ والا جملہءمعترضہ۔۔۔

ہدوانا ختم ہوا ۔ درویش نے بآوازِ بلند ڈکار مارا۔  فدوی کے دامن سے منہ صاف کیا۔ سفید کرتا سرخ انقلاب کا پرچم سا ہوگیا۔کے ٹُو فلٹر کا سگریٹ سلگا کر طویل کَش لیا۔ ناک سے دھواں  خارج کرتے ہوئے، انگُشتِ شہادت بلند کی اور فرمایا، "اُمّت کو وہ جوڑ دے گا۔ پرچمِ انقلاب وہ لہرائے گا۔ پھر ایسا ظلم اس پر کیا جاوے گا کہ انسانی تاریخ میں مثال نہ ہوگی۔ "

مردِ قلندر کی آنکھ وہ دیکھ سکتی ہے جو عامی کی نظر سے اوجھل ہو۔ درویش نے گریہ کیا۔ مسلسل کیا۔ تیسرے پیگ پر کچھ ہوش پکڑا تو  فقیر نے ترنت بوتل صوفے کے نیچے کھسکا دی۔ وہسکی اب ارزاں ہوئی، وہ وقت خشک سالی کا تھا۔ اچھا مشروب اور بھری عورت دیکھنے کو نہ ملتی تھی۔ فدوی کو ایسے آلام نے ہی گنجا کیا۔

اب وہ وقت ہے کہ  جیسے رنج، مصائب کا فلڈ گیٹ کھل گیا ہو۔ مردِ آزاد قید ہے۔ بی بی پاک کو دارالحکومت کی گلیوں میں رسوا کرکے گھمایا جاتا ہے۔ اکل و شرب میں سمِّ قاتل ملا کے دیا جاتا ہے۔ ایک زندانی روایت کرتا ہے،  کھانے سے پہلے کپتان منہ میں کچھ بدبدا کر پھونک مارتا ہے۔ کھانے سے دھواں سا  اٹھتا ہے ۔ زہر خارج ہو جاتا ہے۔ آج وہ چاہے تو سلاخیں پگھل سکتی ہیں۔ قفس کی دیواریں ریت  ہو سکتی ہیں۔ وہ مگر قانون کا پابند ہے۔  سب کچھ اس کا بند کیا جا چکا۔   سوکھ کر کانٹا وہ ہو چکا۔ ظالم مگر  ظلم پر تلے ہیں۔ اس کی کوٹھڑی کے سامنے  گوشت بھونا جاتا ہے۔ آہو چشم لونڈے، جلد جن کی ملائم اور ادا قاتل۔ سامنے والی کوٹھڑی میں قید کیے جاتے ہیں۔ آدمی چیخ اٹھتا ہے۔۔۔

ہے کہاں روزِ مکافات اے خدائے دیر گیر؟

الزام اس پر لگائے جاتے ہیں۔ کردار کشی کی جاتی ہے۔ وہ تبسّم فرماتا ہے۔ کہتا ہے، کرنے دو انہیں۔ جو چیز ہمارے پاس ہے ہی نہیں اس کو ظالم کیسے ختم کر سکتے ہیں۔ کیا چند بت توڑنے کی سزا میں یہ مجھے مارنا چاہتے ہیں؟ میں بت شکن کہلا کے مرنا پسند کروں گا۔ حضرت محمود غزنوی نے بھی سومنات میں بت توڑے۔ خدا نے انہیں اس کے اجر میں ہیرے جواہرات، سونے  اور ایازسے نوازا۔  میں بھی ایک دن اپنے ایاز سے ملوں گا۔ اس دنیا میں نہیں تو اگلے جہان میں۔۔۔ یہاں تک پہنچتے آواز بھرّا گئی۔ چشمِ تنگ میں مقدّس پانی کے قطرے تیرنے لگے۔  ریڈیو پر رفیع صاحب کی آواز بلند ہوئی۔۔۔

مرے دشمن تو میری دوستی کو ترسے۔۔۔ مجھے غم دینے والے تو ہنسی کو ترسے

الم و رنج کی ایسی داستان ہے جس کا مثل یونانی المیہ میں بھی محال ۔۔۔ سنگدل بھی سنے تو خون رو دے، آسمان برس پڑے، دھرتی شق ہو۔ اور جو طالبعلم سا رکیک دل ہو تو لائف فق (انگلش والا بھی بعینہ درست) ہو جائے۔