رات کو بے خبری میں جو مچل جاتا میں
تو ترے کان سے چپ چاپ نکل جاتا میں
صبح کو گرتے جو ترے زلفوں سے باسی پھول
میرے کھوجانے پہ ہوتا تیرا دل کتنا ملول
تو مجھے ڈھونڈتی کس شوق سے گھبراہٹ میں
اپنے مہکے ہوئے بستر کی ہر ایک سلوٹ میں
جونہی کرتیں تری نرم انگلیاں محسوس مجھے
ملتا اس گوش کا پھر گوشہء مانوس مجھے
کان سے تو مجھے ہرگز نہ اتارا کرتی
تو کبھی میری جدائی نہ گوارا کرتی
یوں تری قربتِ رنگین کے نشے میں مدہوش
عمر بھر رہتا مری جاں میں ترا حلقہ بگوش
کاش میں تیرے بُنِ گوش میں بُندا ہوتا!
(مجید امجد)
وصی شاہ کی نظم ”کاش میں ترے حسیں ہاتھ کا کنگن ہوتا“ بہت الگ اور انوکھی لگتی تھی لیکن جب مجید امجد کو پڑھا تو پتہ چلا کہ شاہ جی کی انسپریشن کدھر سے آئی تھی۔۔۔
موازنہ مقصود نہیں لیکن پھر بھی فرق صاف ظاہر ہے۔۔۔