میں نے اک بار کہا تھا ۔۔۔۔۔۔۔

31 جنوری 1999
متوسط طبقے کے گھر کا ایک کمرہ۔ کونے میں ٹی وی۔ بیڈ پر ایک نوجوان اپنے سامنے اخبار پھیلائے، چائے کاکپ ہاتھ میں لئے ، بار بار ٹی وی اور دیوار پر لگے وال کلاک کی طرف دیکھتا ہوا۔ چہرے سے بے تابی کااظہار۔ آخرکار اس نے اخبار سمیٹ کر سائڈ ٹیبل پر رکھا اور ٹی وی کی طرف متوجہ ہوگیا۔ پاکستان اور ہندوستان کے درمیان پہلے ٹیسٹ کا آخری روز۔ انڈیا کی آٹھ وکٹیں باقی۔ میچ شروع ہوا۔ جیسے جیسے میچ آگے بڑھتا رہا نوجوان کی بےتابی اور بے چینی بھی بڑھتی رہی۔ انڈیا کی وکٹ گرنے پر وہ اٹھ کر ناچنا شروع کردیتا اور باونڈری لگنے پر وہ باولرز کو ایسے مشورے دینے لگتا جیسے وہ اس کی آواز سن رہے ہوں! چائے کے وقفے تک ہندوستان کی پوزیشن بہت مضبوط۔ نوجوان کے چہرے پر مایوس چھائی ہوئی۔ صبح‌ سے اس نے چائے کے علاوہ کچھ کھایا پیا بھی نہیں۔ اس کی ماں بار بار اسے آواز دے کر کھانے کے لئے پوچھتی لیکن وہ انکار کردیتا۔ انڈیا کو جیتنے کے لئے سولہ رنز درکار اور اس کی چار وکٹیں باقی۔ اچانک میچ کا پانسہ پلٹا اور جیتا ہوا میچ انڈیا آخری لمحات میں ہار گیا۔ نوجوان جو صبح سے بھوکا پیاسا ٹی وی کے سامنے جما ہوا تھا، اپنی خوشی پر قابو نہ رکھ پایا۔ شاید اس کا نروس بریک ڈاون ہوگیا تھا۔ وہ چلا چلا کر کہتا رہا ، پاکستان جیت گیا، پاکستان جیت گیا۔ اس کی آنکھوں سے آنسو بہتے رہے لیکن اس کو کوئی احساس نہیں تھا۔ اس کی ماں‌ اور بہنیں دوڑ کر آئیں ۔اس کی ماں اس کو گلے سے لگا کر تسلی دینے لگی۔
یہ نوجوان میں‌ تھا!!
12جون 2009
پاکستان اور سری لنکا کے درمیان 20/20 ورلڈ کپ کا میچ جاری ہے۔ شاہد آفریدی کے آؤٹ ہوتے ہی میرے فون کی گھنٹی بجی۔ نمبر دیکھا تو پاکستان سے فون تھا۔ امی بات کررہی تھیں۔ پانچ چھ منٹ بات کرتی رہیں۔ میں‌ سمجھ گیا تھا کہ انہوں نے کس لئے فون کیا ہے ۔ میں نے ہنس کر ان سے کہا ”آپ فکر نہ کیا کریں، میں اب بڑا ہوگیاہوں۔ اب نہیں روتا۔“ جوابا کہنے لگیں، ”نئیں ۔۔۔نئیں۔۔۔ میں تے ویسے ای فون کیتا سی“۔
مجھے پاکستان چھوڑے ہوئے سات سال سے زیادہ ہوگئے۔ لڑکپن کے شوق اور جذبے کچھ مدہم ہوگئے اور کچھ معدوم۔ کرکٹ بھی ان میں ہی شامل ہے ۔ لیکن میری ماں جب بھی کبھی پاکستان کا میچ ہو تو فون کرکے باتوں باتوں میں میری حالت کا اندازہ ضرور کرتی ہیں!!

ایک مدت سے مری ماں‌ نہیں سوئی تابش
میں نے اک بار کہا تھا مجھے ڈر لگتا ہے
Comments
31 Comments

31 تبصرے:

کاشفی نے فرمایا ہے۔۔۔

بہت خوب۔۔۔یہی حال ہمارا بھی تھا۔۔۔۔۔۔۔۔اور اب کچھ معدوم۔۔پتا نہیں کیا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔خیر۔۔لیکن پاکستان سے محبت اب تک قائم ہے۔۔۔

اسے پڑھ کر مجھے اپنی آب بیتی یاد آگئی دوست۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بنگلور میں میچ ہورہا تھا پاکستان اور انڈیا کا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اگلے دن میرا کیمسٹری کا کراچی بورڈ کا پیپر تھا۔۔۔۔۔۔۔صبح سے نہ کچھ کھایا تھا نہ پیا تھا ۔۔نہ کچھ پڑھائی کی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔بس پاکستان کی فکر۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پاکستان مشکلات سے دوچار ہو گیا تھا میچ کے دوران ۔۔۔۔۔میں بس مسجد کے چکر لگا رہا تھا۔۔۔۔ عجیب ہی کیفیت تھی اُس وقت۔۔۔گِڑگڑا کر دعائیں مانگ رہا تھا ۔۔۔اتنی دعائیں تو اپنی بخشش کی بھی نہیں‌ مانگی ہونگی کبھی۔۔۔۔۔۔۔۔ مغرب کے بعد جب گھر آیا تو اُس وقت تھوڑا سا سکون ہوا کہ میچ جیت جائیں گے۔۔۔۔۔لیکن کچھ اور ہی ہوا۔جاوید میانداد آؤٹ ہو گئے۔۔۔اور پھر باقی سب بھی۔۔۔۔۔پاکستان میچ ہار گیا تھا۔۔۔۔۔۔۔بدقسمتی سے۔۔۔اور میرا رو رو کر بُرا حال ہورہا تھا۔۔۔۔سب چھوٹے بہن بھائی تو مجھے چُپ کرا رہے تھے۔۔۔۔امی بھی رو رو کر مجھے چُپ کرا رہی تھیں۔۔۔۔۔۔۔

اب تو میں میچ کم کم ہی دیکھتا ہوں۔۔۔۔

ویسے آپ نے لکھا بہت خوب ہے۔۔۔۔

یہ جوش و خروش یہ روانی آپ کی!!
ہے عشق سے آشنا تحریر آپ کی!

عشق کس کے ساتھ۔۔۔عشق پاکستان کے ساتھ۔۔۔ پاکستان پائندہ باد۔۔

بدتمیز نے فرمایا ہے۔۔۔

استغفار :mrgreen:

sadia saher نے فرمایا ہے۔۔۔

اب نا کھلاڑی ویسے ھیں نا کھیل

اسکول میں ایک دوست کر کٹ کی حد سے زیادہ دیوانی تھی میچ ھو رھا تھا اب بے چینی پاکستان کے کتنے کھلاڑی آؤٹ ھوئے کون کھیل رھا ھے اس نے ٹیچر سے اس کی نانی جان کی طبیعت ٹھیک نہیں فون کر کے حال پوچھنا ھے

گھر فون کیا تو پہلا سوال تھا کتنے رنز بنے کون کون آؤٹ ھواَ

شعیب صفدر نے فرمایا ہے۔۔۔

:grin:
ہمممم

عمر احمد بنگش نے فرمایا ہے۔۔۔

یہ تو نے کیا چھیڑ دیا بھیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کچھ بھی لکھو، کچھ بھی کہو، کچھ بھی محسوس کرو لیکن اس ہستی یعنی ماں کا کوئی نعم البدل نہیں۔ یقین کرو میرے بلاگ کے ڈرافٹوں میں کئی ایسی تحریریں پڑی ہیں کہ ہر بار "بی بی جی" کے بارے لکھیں لیکن تشنگی محسوس ہوتی ہے، سو ہر بار ڈرافٹ میں کچھ تبدیلیاں کر کے محفوظ کر دیتا ہوں، الفاظ ہی ساتھ نہیں دیتے۔ بلکہ کم پڑ جاتے ہیں۔ :neutral:

جاوید گوندل ۔ بآرسیلونا ، اسپین نے فرمایا ہے۔۔۔

عمر احمد بنگش رقمطراز ہيں:
یقین کرو میرے بلاگ کے ڈرافٹوں میں کئی ایسی تحریریں پڑی ہیں کہ ہر بار “بی بی جی” کے بارے لکھیں لیکن تشنگی محسوس ہوتی ہے، سو ہر بار ڈرافٹ میں کچھ تبدیلیاں کر کے محفوظ کر دیتا ہوں، الفاظ ہی ساتھ نہیں دیتے۔ بلکہ کم پڑ جاتے ہیں۔

عمر بھائی کے مندرجہ بالا الفاظ سے مجھے مکمل اتفاق ہے۔ پانچ موضوعات جن پہ لکھتے ہوئے، عقیدت ، احترام اور الفاظ کی کم مائیگی۔ مافی الضمیر کو مناسب طور پہ بیان نہ کر پانے پہ مجھے شدت سے اپنی کم مائیگی اور بے وقعت ہونے کا احساس دلاتی ہے۔
اللہ سبحان و تعالٰی۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ۔
میرے والد مرحوم رحمتہ اللہ علیہ ۔
میری والدہ ۔
میرے اساتذہ اکرام۔
ان پانچ موضوعات پہ لکھنا میرے لئیے غالباً دنیا کے مشکل ترین کاموں سے ہے۔ مجھے یوں لگتا ہے کہ میں مناسب الفاظ ۔ سے اپنی عقیدت محبت کا اظہار نہیں کر پارہا۔ کبھی کبھی الفاظ ھاتھ پکڑتے محسوس ہوتے ہیں۔ کبھی محبت ، احترام ، عقیدت ۔ شدتِ غم ( والد مرحوم رھمۃ اللہ علیہ کے بارے لکھتے یا بات کرتے ہوئے) محبت شفقت عقیدت احترام کی ان منزلوں۔ ان وادیوں میں لے جاتی ہے۔ گُم کر دیتی ہے۔اپنا آپ بہت چھوٹا سا لگتا ہے۔اپنی زات سکڑ ایک نکتے میں سمٹ آتی ہے۔ الفاظ، قلم، کی بورڈ۔ سب ساتھ چھوڑ جاتے ہیں ۔ میں بڑی مشکلوں سے اپنے آپ کو سمیٹ پاتا ہوں اور پھر کچھ لکھا نہیں جاتا۔

میرے ایک استاذ محترم رحمۃ اللہ علیہ کی والدہ ماجدہ نہائت ضعیف العمری میں فوت ہوگئیں۔ میں نے انھیں تعزیت نامہ لکھ بیجھا۔ ان کا جواب آیا ۔ ۔۔بیٹا میں خود کافی عمر رسیدہ ہورہا ہوں۔ میرے پوتے اور نواسے ہوچکے ہیں۔ مگر جس دن مجھے گھر آنے میں کچھ دیر ہوجاتی۔ سب کے تسلی دینے کے باوجود میری والدہ مرحومہ دروازے کی چوکھٹ سے سے لگیں، بار بار پریشان ہو کر کہتیں۔ میرا بچہ ابھی تک کیوں نہیں آیا۔؟ ۔۔ انھوں نے مزید لکھا۔ ۔۔اب کون مجھے ۔۔میرا بچہ ۔۔ کہہ کر پکارے گا۔۔۔ بیٹا اب میں یتیم ہو گیا ہوں۔

ہم آپ کی امی کی درازی عمر کے لئیے دعا گو ہیں۔ اللہ سبحان و تعالٰی ان کا سایہ آپ پہ سلامت رکھے۔آمین

عبداللہ نے فرمایا ہے۔۔۔

واقعی ماں باپ کا کوئی نعم البدل نہیں کہیں بھی رہو ان کی شفقت کے سائے ہمیشہ اپنے ارد گرد محسوس ہوتے رہتے ہیں،جنکے یہ رشتے قائم ہین سدا قائم رہیں اور جن کے اس دنیا سے رخصت ہوگئے رب العالمین ان کی مغفرت اور بخشش فرمائے اور انہیں اعلی درجات عطا فرمائیں آمین،
آپ سب کو میری طرف سے بھی پاکستانی ٹیم کی جیت مبارک ہو اللہ میرے پاکستان کو سدا ہر میدان میں کامیاب اور کامران رکھے آمین

محمد وارث نے فرمایا ہے۔۔۔

دعا گو ہوں کہ آپ کی آپ کی والدہ محترمہ کی محبت اسی طرح سلامت رہے اور بڑھتی رہے اور آپ کی اور کرکٹ کی محبت بتدریج کم ہو جإے بلکہ ختم ہو جإے :grin:

جعفر نے فرمایا ہے۔۔۔

::کاشفی:: وہ تو لڑکپن کا جنون تھا۔۔۔ لکھنے کا مقصد صرف ماں کی اولاد کے لئے فکر اور محبت کو ظاہر کرنا تھا۔۔۔ اب تو یہ حال ہے کہ ”اور بھی غم ہیں ہیں زمانے میں ”کرکٹ“ کے سوا“۔۔۔
::بدتمیز:: شکرہے لاحول نہیں پڑھ دی۔۔۔ :lol:
::سعدیہ سحر::‌ ہوتا ہے بی بی اُس عمر میں‌ایسا جنون۔۔۔
بہرحال اس تحریر کا مرکزی خیال، کرکٹ نہیں، ماں ہے۔۔۔۔
::شعیب:: :cool:
::عمر:: کبھی لفظ ملیں گے بھی نہیں ۔۔۔۔ :neutral:
::جاوید گوندل:: بجا ارشاد فرمایا۔۔۔
::عبداللہ:: آمین۔۔۔
::وارث:: ثم آمین ۔۔۔۔ :lol:

کاشفی نے فرمایا ہے۔۔۔

جی ہاں میرے دوست۔۔۔! آپ کے لکھنے کا مقصد ماں کی اولاد کے لئے فکر اور محبت کو ظاہر کرنا تھا۔۔۔۔

ماں کے بارے میں کیا لکھوں۔۔۔

کہتے ہیں۔۔۔۔۔
دُنیا میں کوئی ایسی داستاں نہیں ملتی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہاں سب کچھ مل جاتا ہے۔۔۔لیکن ماں نہیں ملتی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جن کی ماں ہوتی ہے وہ خوش قسمت ہوتے ہیں۔۔جن کی ماں نہیں ‌ہوتی جیون بھر روتے ہیں۔۔۔۔
ماں ہے زندگی۔۔۔۔
ماں ہے خوشی۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ماں ہے مُحبت
ماں ہے پیار۔۔۔۔

اور

۔۔۔ماں کے پیار سے اچھی کوئی دولت کیا ہے
ماں کا آنچل جو سلامت ہے تو جنت کیا ہے

۔۔۔

ماں باپ نے ہمیں بولنا سکھایا۔۔۔چلنا سکھایا۔۔۔۔کتنی محبت دی۔۔اچھی تعلیم دی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہمیں انسان بنایا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

فائزہ نے فرمایا ہے۔۔۔

بہت خوب :mrgreen:
ہم اگر کبھی ایسی حرکت کریں تو امّاں چار چھّتر لگا دیں گی :sad:

جعفر نے فرمایا ہے۔۔۔

::کاشفی:: بہت اعلی ۔۔۔ :smile:
::فائزہ::‌ نہ جی لڑکیوں کو کرکٹ پر رونے کی کیا ضرورت ہے۔۔۔ ان کے لئے تو رونا ایسا ہے جیسے سانس لینا۔۔۔ بغیر کسی وجہ کے بھی رو سکتی ہیں ۔۔۔ مثلا اس بات پر کہ آج کوئی رونے والی بات نہیں ہوئی۔۔ :mrgreen:
ایک بات سمجھ میں نہیں‌ آتی۔۔۔ لڑکوں کو چھتر ابا سے لگتے ہیں اور لڑکیوں کو اماں سے۔۔۔ اس کی کیا وجہ ہے؟؟؟‌کیا یہ بھی برطانیہ کے غیر تحریری آئین کی طرح کوئی غیر تحریری قانون ہے۔۔۔۔ :lol:

شاہدہ اکرم نے فرمایا ہے۔۔۔

جعفر کيا کُچھ ياد دِلا ديا کرکٹ کے ميچ جب ہوتے تھے تو ميرا سب سے چھوٹا بھائ اگر پاکِستان ہارنے والا ہو رہا ہوتا تھا تو اُس سے برداشت نہيں ہوتا تھا اور وُہ جاۓ نماز لے کر چھت پر چلا جايا کرتا تھا ہم لوگ بھی ايک کے بعد ايک نفلوں کی تعداد بڑھاتے جاتے تھے ايک دفعہ بہُت ضرُوری تھا بازار جانا امّی بازار ميں کُچھ دِکھا رہی ہيں کہ ديکھو يہ ٹھيک رہے گا اور ميں دوکاندار سے پُوچھتی کہ سکور کيا ہے بھائ ،بازار تھا ورنہ کس کے تھپڑلگاتيں
ليکِن جو بات دِل کے اندر تک سب کُچھ ہِلا گئ ہے وُہ ہے ماں کی پياری باتيں جو کبھی ختم ہو ہی نہيں سکتيں اور مُجھے لگتا ہے ميں ماں کے لِۓ لِکھنے لگُوں تو اِلفاظ گُنگ ہو جاتے ہيں يا ايسا کہ بس ميں لِکھتی ہی جاؤُں سب بہن بھائيوں نے جو بھی لِکھا وُہ کِتناپیارا ہے ماں کے لِۓ ،کہ ماں ہستی ہی ايسی ہے ہر وقت ،ہر موقعے پر بچوں کا سوچنے والی کاش کہ بچے بھی اُن کے لِۓ ايسا ہی سوچيں

جعفر نے فرمایا ہے۔۔۔

::شاہدہ:: شاعر، انسانیت کے اجتماعی شعور اور جذبات کی نمائندگی کرتے ہیں۔۔۔
عباس تابش کا یہ شعر جب میں نے پڑھا تھا تو حیران رہ گیا کہ کیسے اس نے میرے تجربے کو زبان دی ہے !!!!
ماں کے بارے میں‌اب کیا لکھوں۔۔۔۔ سکرین دھندلا رہی ہے۔۔۔۔

شاہدہ اکرم نے فرمایا ہے۔۔۔

جعفر اللہ تعالیٰ سب کی جنّتوں کو سلامت رکّھے اور اُن کی بر وقت قدر کرنے کی توفیق عطا ہو،آمین
آپ نے شاعروں کی بات کی ہے تو بھائ اصل بات یہ ہے کہ وُہ بھی تو اپنی ماں کے بیٹے ہوتے ہیں سو ماں کی مُحبّت جانتے ہیں تو سبھی کے جزبات کی ترجمانی کر سکتے ہیں
اور ایک بات اور اگر بُرا نا لگے تو سبھی مُجھے آپی کہتے ہیں توآپ بھی مُجھے شاہدہ آپی کہہ سکتے ہو

شاہدہ اکرم نے فرمایا ہے۔۔۔

ماں کے بارے میں‌اب کیا لکھوں۔۔۔۔ سکرین دھندلا رہی ہے۔۔۔۔

اور میرا دِل بند ہونے والا ہو رہا ہے کہ بہُت دِل چاہتا ہے ماں کو جا کے گُھٹ کے جپھی ڈال لُوں پیار کرُوں اور لُوں بھی لیکِن

جعفر نے فرمایا ہے۔۔۔

جی بالکل آپی کہہ سکتا ہوں۔۔۔ :grin:

عمر احمد بنگش نے فرمایا ہے۔۔۔

پا، اے تو کج لوک زیادہ جذباتی نی کر دتے :shock:
ہاہاہاہاہا :mrgreen: :mrgreen:

جعفر نے فرمایا ہے۔۔۔

ہنسانا مشکل اور رلانا بہت آسان ہوتا ہے۔۔۔
:wink:
ایک شعر تھوڑی سی ری مکسنگ کے بعد عرض کیا ہے ۔۔۔
”سنجیدہ“ سے بہتر ہے ”مسخرا“ بننا
مگر اس میں پڑتی ہے محنت زیادہ
:mrgreen: :mrgreen:

شاہدہ اکرم نے فرمایا ہے۔۔۔

:razz: :razz: :razz: :razz: :grin: :grin: :grin:

عمر احمد بنگش نے فرمایا ہے۔۔۔

شاہدہ آپی۔۔۔۔۔۔ :razz: ایسے ہی خوش رہا کریں۔
جعفر::لے تو فیر آگیا آپڑی عادت تے :mrgreen:

DuFFeR - ڈفر نے فرمایا ہے۔۔۔

یار بالکل میری کیفیت بیان کر دی ہے
میرا بھی یہی حال تھا بچپن میں
امی کہتی تھیں پانی کی بوتل ساتھ رکھ کر بیٹھا کر
اور ادھر میں منہ سے کچھ برا بھلا نکالنے لگتا تو کہتیں چل پانی پی لے تھوڑا سا
96 کا کوارٹر فائنل ہارے تھے تو دھاڑیں مار مار کر رویا تھا
لگتا تھا کہ میری جان ہی کسی نے جسم سے کھینچ لی ہے
اسی میچ کی وجہ سے پتا نہیں کتنے کرکٹرز کو آج تک گالیاں دیتا ہوں
لیکن وقت کےساتھ ساتھ اب اتنا کنٹرول ہو گیا ہے ”ہماری ٹیم کی لگاتار یا اکثر عمدہ پرفارمنس کی بدولت“، کہ اب تو میرے چھوٹے بہن بھائیوں کا وہ حال ہوتا ہے جو میرا ہوتا تھا اور میں دانت نکالتا ہوں
اور امی میری مثال دیتی ہیں یہ بھی ایسا ہی ہوتا تھا
بس نہیں چلتا تھا کہ میدان میں جا کر سب کو قتل کر دے :lol:
اور اب اپنے بہن بھائیوں کے سامنے حقیقت پسند بات بھی کرو تو وہ مجھے ”غدار“ قرار دے دیتے ہیں :mrgreen:

جعفر نے فرمایا ہے۔۔۔

اسے کہتے ہیں جوانی اور بڑھاپے کا فرق ۔۔۔۔ :mrgreen:

انکل ٹام نے فرمایا ہے۔۔۔

میں کبھی ان چیزوں‌ کو سیریس نہیں لیتا ۔۔۔۔۔ مجھے تو اپنے بڑے بھای پر غصہ آتا ہے جو چوکا چھکا لگنے پر تالیاں پیٹتا ہے اور آوٹ پر گالیا دیتا ہے ۔۔۔۔۔ بھلا اس سے امت کو کیا فائدہ ؟؟؟؟؟؟؟؟ :grin: پھر کہتے ہیں کہ مسلمان ہمیشہ پٹتے ہین ۔۔۔ بھلا مار نہ پڑے تو لڈو ملیں‌؟؟؟؟ کشمیر پر روتے نہیں ۔۔ فلسطین پر روتے نہیں ۔۔۔ ایک میچ پر روتے ہین جسکا کوی حاصل نہیں لگے رہو پاکستانیووووووووووووو
تمہارا اللہ ہی حافظ ہے

جعفر نے فرمایا ہے۔۔۔

::انکل ٹام:: امت؟؟؟؟؟
آپ ذرا کبھی خلیجی ممالک کا چکر بھی لگائیں
پھر آپ کو پتہ چلے گا کہ اصلی اور وڈی امت کونسی ہے۔۔۔
ہم لوگوں کو تو یہ مسلمان ہی نہیں‌سمجھتے
یا کم ازکم اپنے جتنا نہیں سمجھتے۔۔۔
امت کے مروڑ صرف غریب غربا ممالک کے لوگوں کو ہی اٹھتے ہیں۔۔۔
ان لوگوں کو امت کا نہ کوئی پتہ ہے نہ پروا۔۔۔

جاوید گوندل ، بآرسیلونا ۔ اسپین نے فرمایا ہے۔۔۔

ہم لوگوں کو تو یہ مسلمان ہی نہیں‌سمجھتے
یا کم ازکم اپنے جتنا نہیں سمجھتے۔۔۔
امت کے مروڑ صرف غریب غربا ممالک کے لوگوں کو ہی اٹھتے ہیں۔۔۔
ان لوگوں کو امت کا نہ کوئی پتہ ہے نہ پروا۔۔۔

جعفر بھائی!
ہمارا آقا اور آجکل انکا آقا بھی امریکہ ہے ۔ ہم میں اور ان میں یہ فرق ہے کہ ہم انکے محتاج ہیں یہ ہمارے نہیں۔ یہ امیر ہیں ۔ ہم ۔۔ ہم سے مراد ہمارا ملازم اور مزدور پیشہ طبقہ جو ان کے ہاں محض اپنے اپنے حالات کی وجہ سے ان کے پاس ملازم ہے۔ ہم بھی انہی کے کے جیسے اوصاف کے مالک ہیں ۔ دونوں کے تعلق کی بنیاد صرف پیسہ ہے۔درمیانی رشتہ محض ضرورت ہے۔ ایک طبقہ ضرورتمند تو دوسرا ضرورت روا۔ ہمارے لوگ اجنبی۔ اور یہ وطنی۔ جبکہ نہ ہم اسلام کی وجہ سے یا اسلام کی خاطر وہاں ہیں۔ نہ ینہوں نے صرف اسلام یا ہمارے مسلمان ہونے کی وجہ سے ہمیں ملازمتیں دے رکھی ہیں ۔ وہ تو انہوں نے ہندؤوں اور فلپائینی کھیتولکوں کو بھی دے رکھی ہیں۔

اس صورت میں ان سے(خلیجی ریاستوں کی وطنیوں سے) ہمارے ساتھ صرف اس بنیاد پہ کہ ہم بھی مسلمان ہیں۔ ترجیجی سلوک کا مطالبہ کرنا مناسب نہیں لگتا۔ کیونکہ ہمارے بھی اکثر خصلتیں درست نہیں۔ آپ نے اپنے لوگوں کے معاملات بھی دیکھ رکھے ہونگے۔ کہ وہ کیا کیا کارنامے انجام دے کر پاکستانیوں اور پاکستان کو بدنام کرنے کی کوئی گنجائش نہیں چھوڑتے۔

جب کی خلیجیوں کی اکثریت کا قبلہ بھی امریکہ ہے ۔ یعنی ان کے نزدیک ہمارے ہوناے نہ ہونے سے کوئی خاص فرق نہیں پڑنے والا۔ جب ہم دونوں اطراف میں وہ رشتہ جسے ہم اسلام کہتے ہیں ۔ وہ تعلق ہی دھندلا دھندلا سا ہے تو پھر بھلا عام خلیجی کے پیٹ میں ہمارے لئیے مرؤڑ کیوں اٹھے گا۔؟

اس ساری تہمید کا مطلب یہ ہے کہ ضروری نہیں کہ سب خلیجی ہی درست نہ ہوں اور سارے پاکستانی ہی برے ہوں۔ آپ انھیں بھی دیکھیں جو دونوں طرف صرٍ اسلام کی وجہ سے ایک دوسر کی عزت کرتے ہیں اور مدد بھی ۔۔ آپ اپنے گردو پیش پہ غوروفکر کریں گے تو ایسے لوگوں کو لازماً ڈھونڈ نکالیں گے۔

ایک نکتہ یہ بھی ذہن میں رکھیں ۔ کہ امریکہ کے مطابق افغانستان اور عراق میں امریکی افواج کے خلاف لڑنے والے لوگوں کی مالی مدد کا ایک بڑا حصہ سعودی عرب اور خلیجی ریاستوں سے جاتا ہے۔ آخر کیوں۔؟ اور وہ کونسے لوگ ہیں۔؟؟ اور کس وجہ سے وہ ہر قسم کے ناموافق حالات میں، جان جھکوں میں ڈال کر یہ مدد کرتے ہیں۔ قطع نطر اس بات سے کہ خلیجی حکومتیں یا امریکہ کی نظر میں یا اخلاقاً اور قانوناً یہ مدد جائز ہے یا ناجائز۔ مگر جو مدد کرتے ہیں وہ اُمہ کی عالمگیریت کو سمجھتے ہوئے کرتے ہیں۔

اس لئیے (تیز حس مزاح کو ظاہر کرنے والے لوگ اندر سے بہت سنجیدہ اور حساس ہوتے ہیں اور انکا مشاہدہ عام آدمی سے زیادہ ہوتا ہے) آپ جیسے سمجھدار اور صاحبِ فکر کو پین اسلام ازم ( اسلام کے عالمگیری احساس) پہ بہت سوچ کر کچھ کہنا چاھئیے۔

اللہ آپ کو خوش رکھے۔آمین

جعفر نے فرمایا ہے۔۔۔

::جاوید گوندل:: آپ کا مفصل اور پرُ مغز تبصرہ پڑھا۔ چند گزارشات میری بھی ہیں۔
آپ نے ضرورت کے رشتے کے متعلق بالکل درست لکھا اور میں مسلمان ہونے کے ناطے ان سے کسی خصوصی سلوک کی نہ تو توقع رکھتا ہو‌ں اور نہ امید۔ جب ہم امت کا لفظ استعمال کرتے ہیں تو اس سے مراد امت محمدی صلی اللہ علیہ وسلم ہوتی ہے۔ تو ہمارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم اپنے غلاموں سے جو سلوک کرتے تھے وہ تاریخ کا ایک مہکتا ہوا باب ہے۔ مجھے تکلیف اس بات کی ہوتی ہے کہ جب ہم (ہم سے مراد مسلمان)نام تو اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کا استعمال کرتے ہیں اور ہمارے رویے امتیوں سے جانوروں سے بھی بدتر ہوتے ہیں۔ آپ دنیا گھومے ہوئے ہیں آپ سے بہتر کون جانتا ہوگا کہ مغربیوں سے ان لوگوں کا رویہ کیا ہوتا ہے اور ہم لوگوں سے کیا؟
اس منافقت پر امت کا لیبل لگانا کم از کم مجھے بہت چھبتا ہے۔ خلیجی تو ہیں ہی آپ کسی بھی عرب ملک کے باشندے کا رویہ برصغیر کے مسلمانوں سے تحقیر آمیز ہی پائیں گے۔ خیال ‌رہے کہ بات اکثریت کی ہو رہی ہے۔ اچھے لوگ بھی ہیں لیکن کم۔
آپ کی محبت اور توجہ دلانے کا شکریہ۔

عمر احمد بنگش نے فرمایا ہے۔۔۔

اے گل کہیں اور چلی گئی۔
میرا تجربہ صرف اتنا ہے کہ یونیورسٹی میں کچھ ساتھی ہوا کرتے تھے عرب ممالک سے۔ تو ہوتا یوں کہ ہم بڑا خیال رکھتے کہ جی مہمان ہیں یا پردیسی، بلکہ ایسا زیادہ ہوتا کہ ہم سوچتے کہ ۔امتی۔ ہیں۔
لیکن بیسیوں بار ایسا ہوا کہ ان صاحبان کا رویہ ایسا تھا کہ جیسے انھوں نے تمام پاکستانیوں کو خرید رکھا ہو یا پھر سارے پاکستانی شودر۔ تو کچھ ایسا پیٹا کہ عقل ٹھکانے آگئی۔ بندے دے پتر یہ اس وقت بنے جب لاتوں سے سمجھایا۔
افسوس ہے مجھے لیکن میرے سر سے امہ کا بھوت اتر گیا۔
رہ گئی بات امت محمدی کی تو جناب بات جعفر والی کہ اس منافقت کو ایسے نتھی کرنا اچھی بات نہیں۔

حارث گلزار نے فرمایا ہے۔۔۔

ماں آخر ماں ہے۔ بہت بہتریں تحریر لکھی آپنے۔ ماں کی فکر کو جس الفاظ کا روپ دیا، بہت خوب۔ لکھتے رہئیے گا۔ ۔ ۔

جعفر نے فرمایا ہے۔۔۔

::حارث گلزار:: بہت شکریہ۔۔۔ :smile:

noor نے فرمایا ہے۔۔۔

دو بہت ذبرست مضامین یکجا کئے ہیں آپ نے

ہائے ۔ ۔ کیا لکھوں ۔ ۔ ۔

اس تحریر کے اختتام نےتو سب الفاظ بھلا دیے ۔ ۔۔ ۔


ضرور کرتی ہیں!!

ایک مدت سے مری ماں‌ نہیں سوئی تابش
میں نے اک بار کہا تھا مجھے ڈر لگتا ہے

تبصرہ کیجیے