میرے جیسا بندہ کہ جس کا بچپن نادانی، نوجوانی حیرانی اور جوانی پریشانی میں گزری ہو (جوانی ویسے ابھی پوری طرح گزری نہیں، تھوڑی سی باقی ہے)، اس کے لئے سالگرہ کچھ زیادہ خوشی نہیں لاتی کہ ایک اور سال ان حسرتوں کا بھگتان بھگتتے گزر جاتا ہے جو نہ پوری ہوتی ہیں نہ جان چھوڑتی ہیں!
لیکن یہ سالگرہ ایسی ہے جو میرے لئے واقعی خوش ہونے کا موقعہ ہے۔ آج کے دن ٹھیک ایک سال پہلے اس بلاگ کی پہلی پوسٹ شائع ہوئی تھی۔ تو یہ بلاگ ٹھیک ایک سال کا ہوگیا ہے۔ اگر بدقسمتی سے آپ پچھلے ایک سال سے اس بلاگ پر آرہے ہیں اور اپنی سخت جانی کی وجہ سے پوسٹیں بھی پڑھتے رہے ہیں تو شاید آپ نے محسوس کیاہوگاکہ میرا "کلیدی تختہ" کچھ رواں ہوگیا ہے۔ یا پھر میرا ایسا ہی گمان ہے۔ اور سیانے کہتے ہیں کہ ہمیشہ اچھا گمان کرنا چاہئے۔
ارادہ تو یہ تھا کہ اپنی تحاریر اور ان پر کئے گئے تبصروں کا ایک چوندا چوندا انتخاب آپ کی خدمت میں پیش کرتا۔ لیکن پھر سوچا کہ یہ تو ان لکھنے والوں کی تحاریر کے ساتھ کیا جاتا ہے جو یا تو داعی اجل کو لبیک کہہ چکے ہوتے ہیں یا بس کہنے ہی والے ہوتے ہیں۔ اور میرا ابھی مرنے کا کوئی ارادہ نہیں( کسی کا بھی نہیں ہوتا!) کہ میں نے تو ابھی اس کے بچوں کی خوشیاں بھی دیکھنی ہیں! اور ویسے بھی بے شرم جلدی نہیں مرتے۔
اپنے دوستوں کا شکریہ میں سوویں پوسٹ میں ادا کرچکا ہوں، باربار بلکہ اب توایک بار بھی شکریہ ادا کرنا ہماری تہذیب میں معیوب سمجھا جانے لگا ہے اور آپ تو جانتے ہی ہیں کہ میں کتنا تہذیب یافتہ انسان ہوں۔ انسانیت کو مجھ پر فخر بلکہ فخر عالم ہونا چاہئے! ہیں جی!!