چاند میری زمیں، پھول میرا وطن ۔۔۔۔ سوہنی دھرتی اللہ رکھے ۔۔۔ اے وطن پیارے وطن ۔۔۔۔وغیرہ وغیرہ، اگر ملی نغموں، ترانوں، نعروں، فوجی پریڈوں سے ملک ترقی کیا کرتے اور قومیں دنیا میں اپنی پہچان بنایا کرتیں تو یقینا ہم اس کائنات میں بسنے والی سب سے عظیم قوم اور سب سے ترقی یافتہ ملک ہوتے۔
سکول کے زمانے میں ۲۳ مارچ کا اپنا ایک رومان ہوتا تھا۔ مارچ پاسٹ کرتے ہوئے چاق و چوبند فوجی، سلامی کے چبوترے کے سامنے سے گزرتے ہوئے ٹینک، توپیں، میزائل اور سونے پر سہاگہ اظہر لودھی کا خون کی گردش تیز کرتا ہوا رواں تبصرہ۔ وہ زمانہ گزرگیا۔ اور اپنے ساتھ بہت سے رومان بھی لے گیا۔ اب 23 مارچ کو بہت سے تلخ سوال میرے سامنے آکر کھڑے ہوجاتے ہیں اور جواب کا تقاضہ کرتے ہیں۔ میرے پاس ان کا کوئی جواب نہیں!
ایک سوال یہ ہے کہ "پاکستان کا مطلب کیا؟ لا الہ الا اللہ" کا کیا مطلب تھا؟ اگر اس کا مطلب پاکستان کو دین اسلام کے مطابق چلانا تھا تو عمر (رض) سے ایک عام آدمی بھری محفل میں پوچھ لیتا تھا کہ یہ کرتہ تو نے کیسے بنا لیا ایک چادر سے؟ اب آپ اپنے کونسلر سے پوچھ کے دیکھیں کہ بھائی یہ ایک ہی سال میں تو موٹر سائیکل سے کار پر کیسے آگیا تو اگلا پورا مہینہ آپ پشت کے بل سو نہیں سکیں گے اور موٹی گدی والی کرسی پر بیٹھنے سے پہلے بھی دس دفعہ سوچیں گے۔
ایک سوال یہ بھی ہے کہ بھونپو نما لوگ اخبارات میں اس دن بیانات چھپواتے ہیں (اب چینلز پر اپنی سریلی آواز میں کلام شاعر بزبان شاعر کی صورت میں بھی) کہ پاکستان قیامت تک قائم رہنے کے لئے بنا ہے۔ اچھا تو پھر 1971 میں اسرائیل کے دو ٹکڑے ہوئے تھے؟ شاید خدا نے ہمارے لئے اپنے قانون بدل دیئے ہیں۔ ہم جو جی چاہے کرتے رہیں یا یوں کہہ لیں کہ کچھ نہ بھی کریں اور ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہیں پھر بھی ہم قائم و دائم رہیں گے۔ اور وہ جو مالک کہتا ہے کہ "لیس للانسان الا ما سعی" تو وہ شاید ہمیں چھوڑ کے باقیوں کے لئے کہا گیا ہوگا۔
ہماری رگوں میں یقینا بنی اسرائیل کا خون ہے!
اسی ۲۳ مارچ کے دن چند بزرگ ایسے بھی نمودار ہوتے ہیں، جن کا فرض ہم کو یہ بتانا ہوتا ہے کہ پاکستان نہ بنتا تو وہ کسی ہندو کی دکان پر منشی ہوتے۔ اور وہ ہندوستان میں مسلمانوں کی حالت زار پر آٹھ آٹھ آنسو بہاتے ہیں اور ہمیں سرزنش کرتے ہیں کہ اللہ کا شکر ادا کرو کہ تم ایک "آزاد اسلامی" ملک کے رہنے والے ہو۔ میری سمجھ میں یہ نہیں آتاکہ کیا ہندوستان والےہماری سوکن ہیں؟ یا ہمارا ان سے وٹہ سٹہ ہے؟ کیا ہمیشہ ہم ان کو معیار مان کر ہی اپنی حالت ماپتے رہیں گے؟
ایک اور سوال ہے کہ ریاست اگر ماں جیسی ہوتی ہے تو یہ کیسی ماں ہے جو اپنے ہی بچوں کو کھاجاتی ہے؟یہ ماں ہے یا ناگن؟ یا پھر یہ ریاست صرف اس طبقے کی ماں ہے جن کے لئے اسے بنایا گیا تھا اور جو آج بھی سارے وسائل شیر مادر سمجھ کے ڈیک لگا کے پی جاتے ہیں۔ اور پھر اخبارات اور ٹی وی چینلز پر بھاشنوں کی صورت میں ڈکار مارتے پھرتے ہیں۔ عامیوں کے تعلیم، صحت، روزگار، امن و امان کے مطالبے پر انہیں ہر سال، اگلے سال ۳۲ مارچ تک کا وقت دے دیتے ہیں۔ اور شاباش ہے ۱۷ کروڑ "غیور" عوام پر جو ۶۲ سال سے ۳۲ مارچ کا انتظار کرتے آرہے ہیں۔ کرتے رہو، قیامت تک!
اوراس پیشینگوئی کے لئے آپ کو رینڈ کارپوریشن کی کسی ریسرچ، ہنود ویہود لابی کا ایجنٹ یا کافروزندیق ہونے کی ضرورت نہیں کہ معاملات اسی طرح چلتے رہے تو ہمارے ان داتاؤں کے پاس کچھ زیادہ ۲۳ مارچیں منانے کا وقت نہیں رہ گیا۔ حشرات الارض کا کیا ہے، آپ کے پاؤں کے نیچے آکر نہ کچلے گئے تو کسی اور کے پاؤں کے نیچےآکر کچلے جائیں گے۔ اور فرق تو ان کو بھی نہیں پڑے گا۔وہ نئےفاتح کے استقبال کے لئے ائیر پورٹ پر ہار لے کر کھڑے ہوجائیں گے، جیسےان کے باپ دادا انگریزوں کے لئے گھنٹوں دھوپ میں کھڑے رہا کرتے تھے۔
بس ذرا حکمرانی کا مزا کرکرا ہوجائے گا!