احمد ندیم قاسمی / قیصر تمکین

ُاُسی انگریز کے بارے میں منشی جی یہ بھی بتاتے تھے کہ وہ تھل کی آندھیوں سے بہت پریشان تھا، اور اس نے اُدھر ولایت میں اپنی سرکار کو لکھا تھا کہ پٹڑی بچھانے کے لئے یہ کیسا علاقہ مجھے دیا گیا ہے کہ آندھی کے بعد اس کا سارا جغرافیہ ہی بدل جاتا ہے، یہاں تو ریت کے ٹیلے باقاعدہ سفر کرتے ہیں، سو میری کچھ مدد کیجیے۔ اس پر ولایت کی سرکار نے دلّی کی سرکار کو لکھا، اور دلّی کی سرکار نے کسی پہنچے ہوئے پِیر سے ایک تعویذ حاصل کیا، جو پٹڑی کے آس پاس کی ببول میں لٹکا دیا جاتا۔ اس کے بعد آندھی آتی تو ریت کے ٹیلے پٹڑی کو چھوتے تک نہ تھے، مگر معلوم ہوتا ہے، حضرت پِیر اس پِیر سے بھی بڑے پِیر تھے۔ اس لیے کہتے ہیں، جب ایک بار بہت تیز آندھی آئی تو ایک ٹیلا ببول میں لٹکے تعویذ کی پروا کئے بغیر پٹڑی پر چڑھ گیا، پھر دلّی سے ایک اور تعویذ منگایا گیا، اور جب پہلے تعویذ کی جگہ اسے ببول میں لٹکایا گیا تو اچانک 'شررررر' کی آواز آئی۔ ریت کے اس ٹیلے کو آگ لگ گئی، اور وہ راکھ کی چٹکی بن کر اڑ گیا۔ غرض، تھل میں جب تک پٹڑی بچھتی رہی اس علاقے کے حضرت پِیر اور دلّی کے پیروں کا آپس میں سخت مقابلہ ہوتا رہا، اور حضرت پِیر کے جن بھوت تو آج بھی سرگرم ہیں۔ پچھلے دنوں اللہ جوایا اپنی بھینس سمیت گاڑی کے نیچے آکر کٹ گیا تو اس کی وجہ صرف یہ تھی کہ وہ بات بات پر ریل کا ٹکٹ کٹا لیتا تھا۔ بڑے بوڑھوں نے اسے بہت سمجھایا کہ ریل گاڑی میں اتنا سفر نہ کیا کرو، حضرت پِیر خفا ہوجائیں گے ، مگر وہ نہ مانا، اور پھر ایک پٹڑی پر چرتی ہوئی بھینس کو ریل گاڑی سے بچانے دوڑا تو بھینس کے ساتھ خود بھی انجن کے پہیوں کے ساتھ لپٹا چلا گیا۔ لوگوں نے پہیوں سے لپٹی ہوئی سوکھی چمڑی بیلچوں سے ادھیڑی۔

احمد ندیم قاسمی کی کہانی "تھل" سے اقتباس

دلی میں ان دنوں 'خروشچیف' اور 'بلگانن' کی آمد کی دھوم تھی۔ دیس کی پرانی تہذیب کے مظاہرے ہورہے تھے۔ طرح طرح کے ہنر اور پیشے زندہ کیے جارہے تھے۔ اسی میلے ٹھیلے میں مدّو میاں نے اپنے ساتھ قنوج سے لائے ہوئے حقے اور پیچوان بھی منہ مانگے داموں پر سیاحوں کے ہاتھ بیچ دیے۔ دو چار پیسے ان کے ہاتھ آئے تو یکایک دماغ کی ساری کھڑکیاں کھل گئیں۔ انہوں نے ترک وطن کا خیال ہی دل سے نکال دیا۔ عطر اور تیل کے ساتھ ہی تمباکوے خوردنی و کشیدنی کا کاروبار بھی شروع کردیا۔ پھر بھئی، اللہ نے برکت بھی خوب دی۔

تھوڑے ہی دنوں بعد حاجی بمبا نے مدّو میاں کے، جو اب سیّد امداد حسین کا روپ دھار چکے تھے، بیٹے اجّن سے اپنی بیٹی بیاہ دی۔

اجّن اپنے گھرانے میں سے زیادہ لائق فائق تھا، کیوں کہ ملک کے جمہوریہ بننے کی خوشی میں جشن جمہوریہ کے موقع پر جو لوگ رعایتی نمبروں سے پاس کردیے گئے تھے، ان میں اجّن بھی میٹرک کی کھائی پھلانگ گیا تھا۔ اپنے خاندان میں وہ پہلا میٹرک پاس شخص تھا اور سیّد ایجاد حسین کے نام سے شہر کے عمائدین میں گنا جانے لگا تھا۔

ان دنوں شہر میں صرف تین سیّد رہ گئے تھے؛ایک تھے سیّد وید رتن تنخا۔۔۔ جو ایک شراب خانے کے مالک تھے، دوسرے سیّد اقتدار المہام۔۔۔ آئی سی ایس، تیسرے تھے سیّد گنگا جان کاظمی ۔۔۔ جو ریاست میں وزارت کی گدی پر چڑھتے اترتے رہتے تھے۔ اب چوتھے، ذرا جونئیر قسم کے 'سیّد' بن گئے تھے مدّو میاں، یعنی سیّد امداد حسین، اور تو اور، انہوں نے شہر کے مئیر کا الیکشن بھی لڑ ڈالا، اور شہر کے نامی گرامی غلام السیّدین نے اخباروں میں مضامین شائع کرائے کہ سیّد امداد حسین اصل میں 'سر'، 'خان بہادر' یا 'شمس العلماء' قسم کے خطاب یافتہ تھے۔ پھر انہوں نے آزادی کی لڑائی میں سب کچھ قربان کردیا۔ کھدر پہننے لگے، اور پنڈت پنت اور رفیع احمد قدوائی وغیرہ کے ساتھ جیل بھی گئے تھے۔ انگریزی کے ایک غریباؤ رپورٹر نے تو یہاں تک لکھ دیا کہ سیّد امداد حسین بہت ٹھوس علمی انسان ہیں، اور مشرق و مغرب کے فلسفوں پر ان کی گہری نظر ہے۔

قیصر تمکین کی کہانی 'ختنے کے لڈو' سے اقتباس

Comments
12 Comments

12 تبصرے:

افتخار اجمل بھوپال نے فرمایا ہے۔۔۔

کيا لوگ تھے ۔ اب تو ترستے ہيں ايسے لکھاريوں کو

خرم ابن شبیر نے فرمایا ہے۔۔۔

بہت خوب اچھے اقتباس ہیں میں نے بھی سلسلہ شروع کیا تھا لیکن تھک گیا تھا :lol: آپ کو دیکھ کر لگتا ہے پھر سے شروع کرنا پڑے گا

پھپھے کٹنی نے فرمایا ہے۔۔۔

حيدر آباد سے دلی کيوں پہنچ گئے ہو اللہ خير کرے

محمد ریاض شاہد نے فرمایا ہے۔۔۔

ویسے تو احمد ندیم قاسمی کو عظیم بنانے کے لئے ان کا افسانہ 'جگا ' ہی کافی ہے ۔ مگر ان کے افسانوں میں‌ روایتی پنجاب اپنی تمام تر خوبیوں اور خامیوں کے ساتھ سامنے آ کھڑا ہوتا ہے اور وہ اپنے قلم کی مدد سے ہر کردار کا نفسیاتی تجزیہ کرتے چلے جاتے ہیں ۔ آج کی وادی سون سکیسر جہاں سے اس عظیم لکھاری کا تعلق تھا کچھ زیادہ نہیں بدلی

سعد نے فرمایا ہے۔۔۔

شکریہ عمدہ تحریریں شیئر کرنے کیلیے۔

عمر احمد بنگش نے فرمایا ہے۔۔۔

نہایت عمدہ انتخاب۔۔۔۔۔۔ اجمل انکل والی بات کو آگے بڑھاؤں‌‌تو ایک انتظار حسین کو چھوڑ‌کر ایسی تحریریں‌ناپید ہو چکی ہیں

جعفر نے فرمایا ہے۔۔۔

::افتخار اجمل بھوپال::‌ درست کہا آپ نے۔۔۔
::خرم ابن شبیر:: منڈیا اسی عمر میں‌تھک جاتا ہے تو۔۔۔ سگریٹ تو نہیں‌پیتا
::اسماء:: گھاس نہیں‌ڈالی ناں جی انہوں نے
::ریاض شاہد::‌ احمد ندیم قاسمی کے بارے میں میری ہمیشہ سے یہ رائے رہی ہے (اگرچہ میری رائے کیا پدی اور کیا پدی کا شوربہ کے زمرے میں آتی ہے) کہ اردو میں اتنی کمپیلنگ کہانی بہت کم لوگوں نے لکھی ہے۔
::سعد:: آپ کا بھی شکریہ
::عمر احمد بنگش:: شکریہ لالہ جی۔۔۔

خرم نے فرمایا ہے۔۔۔

بہت خوب۔

عمر احمد بنگش نے فرمایا ہے۔۔۔

اے بھائی ہم تو کاہل بھی ہیں‌اور قلم کو گہن بھی لگا ہے۔۔۔۔۔ تجھے کیا ہوا؟‌کیوں‌نہیں‌لکھ رہا تو؟ :sad:
مصروفیت کا بہانہ مت بنانا

عدنان مسعود نے فرمایا ہے۔۔۔

بہت خوب اقتباسات کا انتخاب ہے، شکریہ۔

جعفر نے فرمایا ہے۔۔۔

::عمر بنگش:: یار سچی بات تو یہ ہے کہ جو موضوع آجکل میرے ذہن میں ہیں ان پر لکھا تو بڑا فساد ہونے کا خطرہ ہے۔۔۔۔ اس لئے ذرا ٹیم پاس کررہا ہوں۔۔۔ ذرا بھیجہ اپنی آنے والی تھاں پر آجائے تو پھر ماریں‌ گے انشاءاللہ ۔۔۔ چولیں۔۔۔ :mrgreen:
::عدنان مسعود:: خوش آمدید جناب اس حقیر پر تقصیر کے بلاگ پر
اور انتخاب کی پسندیدگی کا بہت شکریہ۔۔۔
اس عاجز کی دوسری تحاریر پر بھی ذرا نظر ڈالتے رہیئے گا۔۔۔

خرم ابن شبیر نے فرمایا ہے۔۔۔

جعفر بھائی زندگی میں ایک دفعہ ہی سگریٹ کو منہ لگایا تھا اس وقت سگریت کے بارے میں پتہ بھی نہیں‌تھا کہ یہ کیا چیز ہے لیکن اس کے بعد جو والد صاحب نے حالت کی تھی آج تک سب کو سگریٹ سے منع کرتا ہوں :razz:

تبصرہ کیجیے