تیتھوں اُتّے۔۔

مجھے تو جی یہ لکھتے اور بولتے ہوئے کبھی شرم نہیں آئی کہ میرے آباء و اجداد کپڑا بُناکرتے تھے، سادہ الفاظ میں جولاہے تھے، اس سے بھی سادہ الفاظ میں کمّی کمین تھے! ہمارے ایک ساتھی نے لکھا ہے کہ جی ہنر والے لوگوں کو یہ گورے لوگ آرٹسٹ اور فنکار کہتےہیں جبکہ ہم انہیں کمّی کمین کہتے ہیں۔ تو جی فرق بھی دیکھ لیں ناں ان کا اور اپنا۔۔۔ ہم قوموں کے پِنڈ کے کمّی کمین اور وہ چوہدری۔۔۔

میں کالج میں نیا نیا تھا تو ایک دن گپ شپ کرتے ہوئے بات اسی طرف نکل گئی۔ میرا ایک کلاس فیلو جو الیاسے چونٹھیے (چوہدری الیاس جٹ، سابق ایم این اے، بدمعاشی میں اساطیری شہرت) کے گاؤں کا تھا، کہنے لگا کہ ہم چوہدری لوگ ہیں جبکہ تم تو جلاہے ہو، نیچ لوگ، کمّی کمین۔ تم ہماری برابری کیسے کرسکتے ہو۔ وہ جی میرے جانثار تو تپ گئے فورا اور لگے آستینیں چڑھانے کہ تیری اور تیرے الیاسے کی تو ٹوں ٹوں ٹوں۔۔۔ پر میں نے ان کو ٹھنڈا کیا اور اس نسرین باجوے کو کہا کہ باجوہ صاحب! بات تو آپ کی ٹھیک ہے، پر ہم جولاہوں کا بڑا احسان ہے جی ساری انسانیت پر۔ وہ تمسخرانہ انداز سے بولا ۔۔ کیسے۔۔۔؟؟ میں نے کہا کہ بھائی دیکھ۔۔ اگر میرے آباء و اجداد یہ کام نہ سیکھے ہوتے تو آج تمہاری ماں بہنیں پتّے لپیٹ کر بکریوں سے بچتی پھر رہی ہوتیں کہ کہیں ان کے ملبوسات تناول کرکے انہیں آدم و حوّا والی شرمندگی سے دوچار نہ کردیں۔

اس پر جی وہ ایسا چپ ہوا کہ اردو میں لکھیں تو اس کی بولتی بند ہوگئی جبکہ پنجابی میں تو صرف کہہ سکتے ہیں، لکھ نہیں سکتے۔

میرے سگے چچا ہیں جی، شیخ ہوگئے ہیں۔ گھر کی نیم پلیٹ پر بھی شیخ لکھوالیا ہے۔ 'انصاری' کہلواتے اور لکھواتے ہوئے انہیں شرم آتی ہے کہ لوگ انہیں جولاہا سمجھیں گے۔ جبکہ میرے قریبی عزیز ہیں کراچی میں ۔۔۔ وہ سارے بھی ترقی (یا تنزلی!) کرکے شیخ لگ گئے ہیں۔ میں ان کو کہا کرتا ہوں کہ یار۔۔ اگر ترقی(؟) ہی کرنی ہے اور ذات ہی بدلنی ہے تو شیخ بننے کی کیا تُک ہے؟ بندہ سیّد بنے۔ میں نے سوچا ہوا ہے کہ جب بہت سارا پیسہ کما لینا ہے اور ترقی کرنے پر تُل جانا ہے توانصاری سے پروموٹ ہوکے 'ڈریکٹ" سیّد ہی لگناہے۔

چار پانچ پشت پہلے جالندھر کے گردونواح میں آباد، میرے آباء و اجداد کے ہاتھ میں یہ فن تھا کہ وہ ستر ڈھانپتے تھے لوگوں کا،کپڑا بُن کے، پر پھر بھی ان کےہاتھ چوہدریوں اور پِیروں کے سامنے پھیلے ہی رہتے ہوں گے اور جن ہاتھوں سے غریبوں کی عزتیں محفوظ نہیں تھیں تب بھی اور اب بھی، ان کو لوگ چوما کرتے تھےتو پھر میں نے بھی ایسا ہی بن جانا ہے، کہ لوگ مجھے نیچ اور کمّی کمین اور جُلاہا نہ سمجھیں بلکہ میرے ہاتھ چومیں کہ جی یہ تو سیّد بادشاہ ہیں!

میں نے اپنے والد سے ایک دفعہ پوچھا تھا جی کہ یہ سیّد طاہر احمد شاہ (سابق ایم پی اے) واقعی سیّد ہے؟ انہوں نے جواب دیا کہ ہاں بھئی! یہ تو بالکل خالص سیّد ہے، ہمارے سامنے بنا ہے۔

ہم برصغیر کے مسلمانوں کے اختیار کی بات ہوتی تو جی سارے مسلمان ہی بالترتیب سیّد اور چوہدری اور خان اور سردار ہوتے۔ اس بات پر تو کسی کا اختیار نہیں کہ جس نطفے سے وہ پیدا ہوتا ہے وہ' کون'،'کہاں' پرگرائے ، پراس بے اختیاری پر فخر بہت ہوتا ہے کہ جی ہمارا نطفہ تو بڑا اعلی ہے اور حسب نسب والا ہے۔

بس یہی چیز رہ گئی ہے عزت اور حسب نسب کا معیار

نطفہ۔۔!

Comments
29 Comments

29 تبصرے:

ڈفر نے فرمایا ہے۔۔۔

بکریوں اور پتوں کو بڑی فٹ جگہ فِٹ کیا ہے :mrgreen:
ویسے تو مراثی ہونے پہ مجھے بھی بڑا فخر ہے لیکن کہلوانا میں سید ہی پسند کرتا ہوں۔ اسی لیے عربیوں کے ملکوں کا رخ کرتا ہوں کہ یہاں پر چوڑوں کے نام سے پہلے بھی سید لگ جاتا ہے ;-)
آخر ساڈی وی کوئی عزت اے :lol:

یاسر خوامخواہ جاپانی نے فرمایا ہے۔۔۔

دیکھیں جی۔یہ کوئی بات تو نہیں ھوئی جی۔یہ بھی نہیں اور وہ بھی نہیں۔۔۔۔۔ایسی بھی نہیں اور ویسی بھی نہیں۔انسانیت اپنی جگہ پر سہی جی۔یہ انداز ہمارے ماموں جی کا ھے جو نطفہ سادات پر فخر کرتے ھیں۔جب بات نہ بنے تو آئیں بائیں شائیں لیکن جناب ایک بات سچی مچی بتاوں آپ کوبعض اوقات اللہ کا نہایت مشکور ھوتا ھوں۔کہ انسان کے بجائے سید پیدا ھوا۔ :razz: بے شک گندکرو جی جلاہے بے چارے نے ہمیں شاہ جی ھی کہنا ھے۔بے چارہ ہماری عزت ڈھانپنے والا کمی کمین جو ھوا۔شاہ جی زندہ باد۔اگر انسانوں کی دل آزاری ھوئی ھے تو معافی کا خواستگار ھوں۔

جعفر نے فرمایا ہے۔۔۔

::ڈفر:: :mrgreen:
میں‌ بھی اسی لئے شیخوں‌کے ملک میں‌ آیا تھا، بس اب نام کے آخر میں‌شاہ لگوانا ہے، اس کے لئے جدوجہد جاری ہے
::یاسر:: جناب آپ جیسی سوچ ہوجائے ہم سب کی تو ہم بھی برابر آجائیں گے عالمی چوہدریوں‌ کے، ورنہ کامے ہی رہیں گے ہمیشہ
آپ کا تبصرہ بہت عمدہ اور کٹیلا ہے

سعد نے فرمایا ہے۔۔۔

عمدہ اور قابلِ غور تحریر ہے۔
اب زرا دوسرے نقطہ نظر سے اس پر غور فرمائیں۔ کمی کو کمی اس لیے بھی کہا جاتا ہے کہ عموما اس کی حرکتیں کمینوں والی اور سوچ نیچ ہوتی ہے۔ آپ کسی کمی کو جتنا بھی دوست بنا لیں، مصیبت کے وقت وہ کبھی آپ کے کام نہیں آئے گا اور اپنی کوئی مجبوری بتا کر کھسک جائے گا۔ دل آزاری کیلیے معذرت چاہتا ہوں مگر میں کیوں کہ گاؤں میں رہتا ہوں اور کمی کلچر کو اچھی طرح سمجھتا ہوں، میرا مشاہدہ یہی ہے۔

ابن سعید نے فرمایا ہے۔۔۔

جعفر میاں کیا لاجواب تحریر ہے۔ مانگئیے کیا مانگتے ہیں؟
میں تو اس سسٹم سے اتنا عاجز آ گیا تھا کہ اپنے کاغذات میں سرنیم سرے سے لکھا ہی نہیں۔ حالانکہ اتفاقاً ایسے خاندان سے ہوں جس کا سرنیم ہمارے یہاں قابل افتخار سمجھا جاتا ہے۔ حالانکہ قبائل کا اسلامی فلسفہ یہ ہے کہ اس کا مقصد پہچان ہے نہ کہ تحقیر و تفضیل۔ بس میں نے تحقیر و تفضیل والے نظام سے عاجز آ کی اپنی شناخت بھی کغذات سے مٹا دی۔ حالانکہ اب مشکل پیش آتی ہے لیکن افسوس نہیں ہوتا۔

جاہل اور سنکی، جہالستان نے فرمایا ہے۔۔۔

کھتری برھمن ماڈل کی تعریف لوکل کانٹسکٹ میں اور وہ بھی کافی نفاست سے ۔مزا آیا ۔

شعیب سفدر نے فرمایا ہے۔۔۔

اس میں‌کوئی شک نہیں‌ اصل شے تقوی ہے مگر پھر بھی کہیں‌ناں‌کہیں‌خاندان کی اہمیت ہوتی ہے۔ کسب نسب دیکھا جاتا ہے۔ اس سے بندے کی نفسیات کو سمجھنے میں‌مدد ملتی ہے۔
کبھی غور کیجئے گا۔

Khawar نے فرمایا ہے۔۔۔

ندی کے دو کناروں پر کھڑے لوگوں کا حال هے هر ایک دوسرے کو پار والا سمجھتا ہے
ماڑے بندے کی مجبوریاں جھگڑالو جاگیر دار کی لڑائیوں میں حصه لینے کی اجازت نهیں دیتی اور یه لوگ اس کو کمینه پن کہتے هیں جھگڑالو هونا کیا هے ؟؟
بالا کجرچوھدیوں کی زمین کے قبضے میں مارا گیا اور اس کی بیٹی بیوی کو چالو کردیا گیا کون هو گا جو ان کی ضروریات پوری کریے گا ؟؟
ندی کے دو کناروں پر کھڑے لوگوں کا حال هے هر ایک دوسرے کو پار والا سمجھتا ہے
وھ نیچ هیں ! کون ہر دورسرے کنارے والے

Aniqa Naz نے فرمایا ہے۔۔۔

زات پات کا نظام بر صغیر میں جاگیردارانہ نظام کو دوام دینے کے لئے بنایا گیا تھا۔ اب تو شہروں کی حد تک اثرات کافی حد تک ختم ہو گئے ہیں مگر ایک زمانے میں دستور یہ تھا کہ باپ کا جو پیشہ تھا اولادکوبھی وہی پیشہ وہی پیشہ اختیار کرنا پڑتا تھا۔ اس طرح سے آج بھی آپ کپڑا بن رہے ہوتے مگر عقلمند ہوتے تو اسے برانڈ کا نام دے دیتے جیسے گل احمد کی لان۔ اس فائدہ یہ ہوتا تھا کہ لوگوں کی ایک بڑی تعداد تو ویسے ہی قابو میں آجاتی جو اپنے آقائووں کی عمر درازی کی دعائیں مانگتی ۔اور رعیت نسل در نسل محتاج و مشکور بغیر کچھ خرچ کئے۔ آقا آرام اور عیاشی میں نسل در نسل
مغرب نے جہاں ہمارے تمام نظام کو کمزور کیا وہاں انگریزوں نے ہمارے اس نظام پہ بھی ضرب لگائ۔ اور ہمیں ویسے اس چیز کے لئے انگریزوں کا مشکور ہونا چاہئیے کہ انہوں نے لوگوں میں یہ احساس پیدا کیا کہ دراصل مادی چیزوں کا وافر ہونا ہی برتری کی علامت ہے۔
یہ بھی مذہبی منافقت ہے کہ مذہب جس چیز کو مٹانے آیا تھا اسے رسول کی ذات سے وابستہ کر کے استحصال کا ذریعہ بنا لیا۔
ویسے میں بھی اس بات کی قائل ہوں جب برائ کرنا ہی ٹہری تو بڑی کرنی چاہئیے۔ سید جعفر حسین صاحب۔

دوست نے فرمایا ہے۔۔۔

بڑے عرصے بعد ایک کٹیلی تحریر پڑھنے کو ملی۔ پہلی نظر میں تو یہ لگا کہ خاور کے بلاگ سے اٹھائی ہے تحریر، وہی انداز تحریر۔

میرا پاکستان نے فرمایا ہے۔۔۔

ہمارے بزرگ بتاتے ہیں کہ انگریز فوج میں‌ کمی کمینوں کو بھرتی نہیں‌کیا کرتے تھے۔ تب کمی کمین اپنے ناموں کیساتھ مغل، ملک، قریشی لگا کر فوج میں بھرتی ہوئے تھے۔
ویسے مغرب کی یہ بات ہمیں پسند آئی ہے کہ یہاں‌کوئی ذات پات نہیں مگر مسلمانوں میں یہ جنس وافر تعداد میں پائی جاتی ہے۔
آپ کا سید بننے کا حق ہم مانتے ہیں۔ بہت سارے چھوٹی ذات کے لوگ پاکستان میں شیعہ اسے لیے بنے ہیں تا کہ ان کے ناموں سے میراثی، موچی، جولاہا، نائی کا اضافہ ختم ہو جائے اور وہ سارے شاہ صاحب کہلوائیں۔
انتہائی عمدہ اور پرمغز تحریر ہے امید ہے پڑھنے والے اس سے ضرور سبق حاصل کریں گے۔

نعمان نے فرمایا ہے۔۔۔

ویسے یہ انصاری کہاں سے نکلا اور یہ شیوخ اور سید پنجاب کے میدانی علاقوں میں کیسے آپہنچے سمجھ سے بالاتر ہے۔

شکاری نے فرمایا ہے۔۔۔

چلو جی ایک اور سید کا اضافہ ہوا۔

جعفر نے فرمایا ہے۔۔۔

::سعد:: میرا گاؤں‌میں‌رہنے کا کوئی تجربہ نہیں، لیکن دنیا میں‌رہنے کا کافی تجربہ ہے۔ ہزاروں سال سے جب طاقت اور خوف کے ذریعے ذہنوں میں‌یہ راسخ کردیا گیا ہو کہ تو نیچ ہے، کمین ہے، اور ہم اعلی ہیں اور ارفع ہیں، اور ہم اس دھرتی پر تیرے داتا اور ان داتا دونوں ہیں تو آپ اس نیچ اور کمین سے اور کیا امید رکھ سکتے ہیں؟
::ابن سعید:: دعائیں عنایت کردیا کریں بس۔ آپ کا رویہ ان لوگوں کے لئے رول ماڈل ہوسکتا ہے، جن کے دماغ میں‌اپنے نطفے کی برتری کا خناس ہے!
::جاہل اور سنکی:: شکریہ جناب پسندکرنے کا۔
::شعیب صفدر:: جی بالکل نفسیات کو سمجھنے میں‌مدد ملتی ہے، لیکن کبھی یہ سٹڈی بھی ہونی چاہیے کہ اس نفسیات کے پیچھے کیا نفسیات ہے؟
::خاور:: درست، سو فیصد درست۔۔۔
::عنیقہ ناز::‌ ستارہ ٹیکسٹائل کا مالک حاجی بشیر، گھنٹہ گھر فیصل آباد (اس وقت لائل پور) کے ارد گرد کندھے پر تہہ بند رکھ کے پیدل گھوم پھر کے بیچا کرتا تھا، پھر جی وہ کامیاب ہوگیا اور نتیجتا شیخ‌ ہوگیا، بنتا اب بھی کپڑا ہی ہے ستارہ ٹیکسٹائل میں، تو اس سے یہ ثابت ہوا کہ آپ کا مشورہ بالکل درست، لیکن ذرا تاخیر سے ہے۔ لوگ کہتے ہیں‌ جی کہ یہ بڑا خاندانی آدمی ہے، نجیب الطرفین ہے، ابولہب بھی خاندانی تھا اور نجیب الطرفین تھا!
::دوست:: نہ جی خاور صاحب کے انداز کی تحریر لکھنا میرے بس میں‌کہاں، بس ایسی ہی کچھ یولیاں ماری ہیں
::میرا پاکستان:: میری خوش قسمتی یہ رہی کہ میں‌شہر میں‌پیدا ہوا اور پلا بڑھا۔ ورنہ میں‌بھی آج کسی چوہدری کی ٹانگیں دبا رہاہوتا اور گالیاں‌کھا رہا ہوتا۔۔۔
مساوات، احترام، انسانیت، رواداری۔۔۔۔۔۔ دھت تیرے کاسٹ سسٹم کی۔۔۔
::نعمان::‌ یہ سب ضرورت ایجاد کی ماں کے زمرے میں‌ آتا ہے۔۔۔
::شکاری:: شکریہ جی، سید ماننے پر۔۔۔

یاسر خوامخواہ جاپانی نے فرمایا ہے۔۔۔

سید جعفر شاہ صاحب خوش آمدید اعلٰی طبقے میں۔لیکن اب ساڈا کی ھو گا :cry: :cry: اب ایسا کرتے ھیں آج سے مجھے سید یا سر عرفات کمال پاشا اتا پاکستان لکھا اور پڑھا کریں۔کمال پاشا ہمارے ایک شاہ صاحب اپنے نام کے آگے لگاتے ھیں۔جب ہم بچے ہوتے تھے تو یہ نہیں لگا ھوتا تھا ۔اب لگا ھو تا ھے۔وجہ یہی دیکھائی دیتی ھے۔کہ ان کے بیٹوں نے شیخوں سے کافی مال بنایا ھے۔اب مال بھی اور دوسرے شاہ جیوں سے اوپر بھی نہ ھوں تو مزا تو نہیں آئے گا جی۔

پھپھے کٹنی نے فرمایا ہے۔۔۔

جاپان کے دورے پر ہيں جناب آپ

پھپھے کٹنی نے فرمایا ہے۔۔۔

چاچا جی سے صرف لکھنے کی حد تک ہی متاثر رہنا باقی شعبوں ميں متاثر ہوئے تو ہڈياں پسلياں متاثر ہونے کا چکر پڑ جائے گا

راشد کامران نے فرمایا ہے۔۔۔

ہماری آنکھوں کے سامنے سامنے ایک "لبرل" جماعت کی سربراہی کے لیے جسطرح ناموں میں‌مناسب ردو بدل کیا گیا تاکہ "لبرل جاگیرداروں" کو کسی قسم کا اعتراض نا ہو تو اس پس منظر میں آپ کی تحریر کی صحت پر سوال اٹھانے کی جرات تو کسی کی نہیں‌ہوسکتی۔ بھٹو کو کیس اسٹڈی بنا لیں تو لوگوں کو یہ بھی سمجھ آجائے گی کہ عربوں سے زیادہ سید برصغیر میں کیوں ‌ہیں۔

ویسے "خاور کھوکھر اسٹائل" حاوی ہے اس پر :grin: لیکن اس بات سے انکار نہیں کہ خاور اسٹائل کے علاہ یہ باتیں کرنا بہت مشکل بھی ہے۔ ایک اچھی پر مغز تحریر پر مبارکباد قبول کریں

عمر احمد بنگش نے فرمایا ہے۔۔۔

یار، قوم یا زات پات کا چکر بارے میں‌ میں‌جتنا کٹر مسلمان ہوں‌‌اعمال کے حساب سے اتنا ہی بودہ۔ خیر، کہنا یہ ہے کہ دو باتوں‌کے علاوہ میں‌ہر چیز رد کر دیا کرتا ہوں، پہلا نبی پاک کا یہ بیان کہ نسل، قوم یا زات صرف پہچان کے لیے ہے اور دوسرا یہ بیان جس کا مفہوم یہ بنتا ہے کہ جس نے اپنی زات بدلنے کی کوشش کی اس نے ظلم کیا۔۔۔ اب ان دو بیانات کے بعد مجھے مزید کچھ سمجھنے کی ضرورت نہیں‌اور فیصلہ کرنے میں‌کوئی دشواری پیش نہیں‌آتی۔

جعفر نے فرمایا ہے۔۔۔

::یاسر:: خوش آمدید کہہ کے ایک اوکھا سوال بھی کردیا۔ ہم پرامن بقائے باہمی پر عمل کرتے ہوئے بیک وقت 'شاہ' رہ سکتے ہیں۔ :grin:
::اسماء:: اگر جاپان کے دورے کا میری طرف اشارہ ہے تو مجھے جاپان میں‌گھسنے کون دیتا ہے :roll: ویسے میری بڑی خواہش ہے کہ میں‌جاپان جاوں وہاں‌ کے 'لوگ' مجھے بڑے 'اچھے' لگتے ہیں :cool: جہاں سے متاثر ہونے کی بات ہے تو میں‌سب سے زیادہ خود سے ہی متاثر ہوں اور یہ متاثر ایسا ہے جیسے بندے زکام سے متاثر ہوتا ہے، گرمی سے متاثر ہوتاہے، وغیرہ وغیرہ۔۔۔ :mrgreen:
::راشد کامران:: جہالت و منافقت کا تہ در تہ سلسلہ ہے جی اس معاشرے میں، جسے ہم باشعور اور غیور عوام کا معاشرہ کہتے ہیں۔ مجھے آج تک سمجھ نہیں‌ آئی کہ کوئی بندہ اس بات پر کیسے فخر کرسکتا ہے کہ میں‌فلاں‌برادری میں‌پیدا ہوگیا، اس میں‌بندے کی کیا خوبی ہے؟ اگر وہ چوہڑوں (معذرت سے) میں‌پیدا ہوجاتا تو پھر؟ ساری زندگی لوگوں کا گند صاف کرتا؟ اور لوگ اسے ایسے ہی حقارت سے دیکھتے جیسے اب وہ مبینہ نیچ ذاتوں کو دیکھتا ہے۔ خاور صاحب نے ہی ایک دفعہ لکھا تھا جی کہ ایسے لوگ آدم کی دوسری بیوی سے ہیں، جو ٹیوب ویل والے کمرے میں‌ملنے آیا کرتی تھی، بہت سخت بات ہے پر سچی ہے!
::عمر بنگش:: یار ہم لوگوں‌کا رب رسول سے واسطہ بس نام کا ہی ہے۔ نمازیں پڑھ کے ہم رب پر احسان کردیتے ہیں۔ اس کے کہے پر عمل نہیں‌کرتے، کرتے وہی ہیں جو اپنا من چاہتا ہے۔ رب کہتا ہے کہ تم سب آدم کی اولاد ہو۔ ہم عملی طور پر اس کا انکار کرتےہیں۔ رسول فرماتے ہیں‌کہ تم میں‌سب سے اچھا وہ ہے جو تقوی میں بلند ہے۔ ہم نے دولت و مناصب کا نام تقوی رکھ دیا ہے آج کل۔ اس پر ہم کہتے ہیں‌کہ پتہ نہیں‌مسلمانوں‌پر اتنی سختی کیوں آئی ہوئی ہے؟ ہیں‌جی۔۔۔

خرم ابن شبیر نے فرمایا ہے۔۔۔

اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا یہ سب آہو ہیں

جعفر نے فرمایا ہے۔۔۔

::خرم ابن شبیر:: بہت فرق پڑا ہوا ہے یار، دیکھ ذرا اپنے آگے پیچھے۔۔۔

امتیاز نے فرمایا ہے۔۔۔

یار تو نے تو مجحے مخمصے میں ڈال دیا ہے ،

افتخار اجمل بھوپال نے فرمایا ہے۔۔۔

بہت عمد خيال اور عمدہ تحرير ۔ اب ميں اطمينان سے مر سکتا ہوں کہ ميرے بعد والی نسل ميں ميرے تخيالاتی ہم عصر موجود ہيں جو دنيا کو ان کی اصليت کا احساس دلاتے رہيں گے ۔ اللہ خوش و خوشحال رکھے

جعفر نے فرمایا ہے۔۔۔

::امتیاز:: خوش آمدید، آخر ہمارے غریب خانے پر تشریف لے ہی آئے۔
اس مخمصے کی وضاحت بذریعہ بلاگ پوسٹ کی جائے
::افتخار اجمل بھوپال::‌ جناب آپ کی محبت اور عنایت ہے۔

بلوُ نے فرمایا ہے۔۔۔

میں نے اپنے والد سے ایک دفعہ پوچھا تھا جی کہ یہ سیّد طاہر احمد شاہ (سابق ایم پی اے) واقعی سیّد ہے؟ انہوں نے جواب دیا کہ ہاں بھئی! یہ تو بالکل خالص سیّد ہے، ہمارے سامنے بنا ہے۔
کیا بات ہے :mrgreen: :mrgreen: :mrgreen:

انکل ٹام نے فرمایا ہے۔۔۔

بھئی اپنا بھتیجے جعفر ، وہ کیا کہتے ہیں کہ بہت کمال کی پر مغز تحریر لکھی ہے بھئی ۔

جعفر نے فرمایا ہے۔۔۔

بس چاچا جی، آپ سے دوری کا فیض ہے۔ :ڈ

Anonymous نے فرمایا ہے۔۔۔

استاد تو بڑھا پرانا مومن ہونا چاہ رہا تھا!!!!

تبصرہ کیجیے