آپ گامے بھیڈ کو دیکھ لیں۔ اس کو پولیس نے ڈکیتی کے جھوٹےالزام میں پکڑا اور مار مار کر 'بھیڈ' سے دنبہ بنا دیا۔ لیکن اس چھترول نے گامے کی زندگی بدل دی۔ آپ حیران ہوں گے کہ چھترول سے تو زیادہ سے زیادہ سونے کا آسن بدلتا ہے، زندگی کیسے بدل سکتی ہے؟ لیکن گامے کی زندگی پر چھترول نے جو دور رس اثرات مرتب کئے اس کا ذکر آگے آئے گا۔۔۔۔۔
گامے نے ڈکیتی تو دور کی بات، کبھی پُونڈی بھی نہیں کی تھی۔ گامے کا باپ 'جہاز' تھا۔ ماں لوگوں کے گھروں میں کام کرتی تھی تو زندگی کی گاڑی چلتی بلکہ گھسٹتی تھی۔گامے نے سکول صرف باہر سے دیکھا تھا۔ کالج کا لفظ اس نے تب سنا تھا جب اس نے گنڈیریوں کی ریڑھی لگائی اور اس کے لنگوٹیے مُودے پھُر نے اسے مشورہ دیا تھا کہ کالج کے گیٹ کے باہر کھڑا ہواکرے، بِکری زیادہ ہوگی۔ 'بھیڈ' گامے کا لقب، خطاب، عرفیت سب کچھ تھا۔ یہ لفظ اس کی ساری زندگی کی کہانی بیان کردیتا تھا۔ اس نے ساری زندگی کسی کو مارنا تو درکنار کسی سے مار کھائی بھی نہیں تھی۔ ہر ایسی جگہ سے وہ ساڑھے اٹھونجہ میٹر دور رہتا تھا جہاں اسے کسی بھی قسم کے دھول دھپّے کا خدشہ ہو۔
پھر 12مئی کا دن آیا جس نے گامے کی زندگی ہمیشہ کے لئے بدل دی۔ گاما ریڑھی لے کر کالج کی طرف رواں دواں تھا کہ راستے میں سنتری بادشاہ نے روک کر اسے دو کلو گنڈیریاں تولنے کو کہا۔ گامے کا گناہ صرف یہ تھا کہ اس نے پیسے مانگ لئےتھے اور اسی دن شام کو تھانےکے ڈرائنگ روم میں الٹا لٹکا ہوا گاما، دنیا کی بے ثباتی پر غور کررہا تھا!
شیخ نیامت اللہ کے گھر کے باہر کھڑی نئے ماڈل کی کاردن دہاڑے گن پوائنٹ پر چھیننے کے الزام میں گرفتار ہوکر ایک گھنٹے کے قلیل وقت میں گاما، پانچ پانجے فٹ کرواچکا تھا۔ الٹا لٹکا ہوا گاما جب ہوش کی سرحد ( یعنی خیبر پختونخوا ) پھلانگ گیا تو اسے عارضی پھانسی گھاٹ سے اتار کر حوالات میں ڈک دیا گیا۔
آپ کہیں گے یہ تو ایک عام کہانی ہے اور ہر روز اس ملک کے تھانوں میں دہرائی جاتی ہے۔ بس یہیں آپ گامے کو انڈر ایسٹیمیٹ کرگئے، گاما عام لوگوں کی طرح بوقت چھترول نہ چیخا چلایا، نہ واویلا مچایا نہ اپنی بے گناہی کی دہائی دی اور نہ رب رسول کے واسطے۔ بس وہ چپ چاپ چھترول کرواتا رہا۔ اس نے نہ تو رشوت دے کر چھوٹنے کی کوشش کی اور نہ ہی علاقہ ناظم کی سفارش سے باعزت رہائی کی جگاڑ لگائی۔
گامے کے ساتھ حوالات میں ایک باؤ قسم کا بندہ بھی بند تھا۔ اس نے گامے سے اس کی گرفتاری کا سبب پوچھا تو گامے نے بتایا کہ اس کی گرفتاری کی وجہ غربت ہے۔ یہ جواب سن کر وہ باؤ پھڑک اٹھا۔ وہ باؤ ایک وکیل تھا جو ایک جلوس نما مظاہرے کے بعد احتجاجا گرفتاری دینے کا ڈفانگ کرکے حوالات میں رات گزارنے آیا تھا تاکہ اگلے دن اخباروں میں گرفتاری دیتے ہوئے اس کی دو کالمی تصویر چھپ سکے۔ گامے کی صورت میں اسے اپنی مزید تشہیر کا سنہری موقع نظر آیا جو اس نے جھپٹ کر اچک لیا!
اس نے اپنے موبائل کے کیمرے سے گامے کی تشریف کی تصویریں کھینچیں اور اسے ہدایت کی کہ اپنا منہ بند رکھے اور کسی کو کچھ نہ بتائے۔
اگلی صبح رہا ہونے کے بعد وکیل صاحب نے ایک پاٹے خاں چینل کی ٹیم کو ساتھ لیا اور اس تھانے پر غیر سرکاری چھاپہ مار کر گامے کا انٹرویو حوالات سےلائیو چلوادیا۔ رپورٹر نے مزید مسالہ لگاتے ہوئے یہ بھی بتایا کہ شدیدتشدد کی وجہ سے گامے کے گردے فیل اور جان پاس ہونے کا خطرہ ہے اور اگر فوری طبی امداد نہ ملی توگاما اس جہان فانی سے کوچ کرکے عالم جاودانی اپنی زخمی تشریف سمیت جاسکتا ہے۔
اگلا دن بڑا ڈرامائی تھا۔ ہائیکورٹ کے ازخود نوٹس سے لے کر، وزیر قانون کی تین لاکھ کی امداد تک، سرکاری ہسپتال کی ایمبولینس میں خوبرو نرس کے ہاتھوں ڈریسنگ سے لے کر، ہسپتال کے پرائیویٹ روم میں سول سوسائٹی کے معزز ارکان کے ہاتھوں گلدستے قبول کرتے ہوئے، ہر چینل پر تین منٹی کوریج اور اخباروں کے پولیس کے مظالم پر مشتمل رنگین فیچرزتک گاما ہر جگہ موجود تھا!
اب آپ دیکھیں، اگر گاما شور مچاتا، پولیس کو رشوت دے کے چھوٹ جاتا، ناظم سے سفارش کرکے اپنی جان چھڑوالیتا تو آج بھی گنڈیریاں ہی بیچ رہا ہوتا، غلام محمد تبسم نہ بنتا۔ اس کے پاس نئی ہنڈا سیونٹی نہ ہوتی۔ ابھی تک اس کی شادی نہ ہوئی ہوتی۔ اسے این جی اوز کی طرف سے بیرون ملک سیمینارز میں نہ بھیجا جاتا۔ اسے انسانی حقوق کا سفیر اور امن و عزیمت کا نشان نہ سمجھا جاتا۔ یہ سب اس لئے ممکن ہوسکا کہ گامے کی چھترول ہوئی، اگر چھترول نہ ہوتی تو وہ آج اس مقام پر نہ پہنچتا۔ آپ مانیں یا نہ مانیں، یہ سب چھترول کی برکتیں ہیں۔ وہ تمام لوگ جو حوالات میں بند ہیں۔ جو چھترول سے ڈر کے سب کچھ مان جاتے ہیں۔ جو رشوت دے کر چھوٹ جاتےہیں، جو سفارش لڑا کر اپنی جان چھڑالیتے ہیں، وہ ہمیشہ گنڈیریاں بیچتے رہتے ہیں،وہ کبھی ترقی نہیں کرسکتے۔ کیونکہ چھترول ترقی کی کنجی ہے۔
لہذا چھترول بھی نعمت ہوتی ہے!