ہمارے یہاں، پچاس کے بعد، جب اولاد جوان ہوجاتی ہے، بیوی، ماں کا روپ دھار لیتی ہے، بہن بھائی اپنی اپنی زندگیوں میں مگن ہوجاتے ہیں، والدین یا تو گزر چکے ہوتے ہیں یا اس کی تیاریوں میں ہوتے ہیں تو بڑا مشکل وقت شروع ہوجاتا ہے جی عمر کے اس حصے میں۔ بچّے، جو اب بڑے ہوچکے ہوتے ہیں، اپنی ساری کمیوں اور ناآسودگیوں کا ذمہ دار باپ کو ٹھہراتے ہیں اور کہتے ہیں کہ آپ نے آج تک ہمارے لئے کِیا ہی کَیا ہے ؟؟؟۔۔۔ اور وہ جو پوری زندگی، دن رات محنت کرکےاور اپنا آپ مار کے ان کی خواہشیں ہر ممکن حد تک پوری کرنے کی کوشش کرتا رہا تھا، اس کے پاس اس بات کا کوئی جواب نہیں ہوتا۔۔۔۔!
بیوی کو بھی وہ سارے ظلم اور زیادتیاں یاد آنی شروع ہوجاتی ہیں جو بقول اس کے، شوہر نے ساری زندگی اس پر روا رکھیں۔ 'مُنّے کے ابّا' پکارنے والی محترمہ اب اپنا ہر جملہ یہاں سے شروع کرتی ہیں کہ 'اجی کبھی زندگی میں کوئی کام ڈھنگ سے بھی کر لیا کرو'۔۔ اور یہ بات وہ اپنی اولاد کے جھرمٹ میں ملکہ کی طرح بیٹھ کر ارشاد کرتی ہیں اور وہ یہ بھی کہہ نہیںسکتا کہ جن کے بل پر آپ یوں اکڑ رہی ہیں، یہ ڈھنگ کے کام بھی اسی نے کیے تھے!
مرے پر سو دُرّے۔۔۔۔۔کسی بھی مسئلے ،معاملے، جھگڑے، خوشی، غمی میں باپ ہمیشہ ایک طرف اور ماں اور اولاد دوسری طرف ہوتی ہے۔ باپ ہمیشہ غلط ہوتا ہے، ماں چاہے جتنی بھی غلط بات کررہی ہو، اولاد کی نظر میں وہ ٹھیک ہوتی ہے۔ تھوڑے بہت فرق کے ساتھ یہ کہانی تقریبا ہر گھر کی کہانی ہے۔
میرے نزدیک تو جی اس مسئلے کا ایک ہی حل ہے کہ بندہ عین جوانی میں ہی مرجائے، یہی کوئی پینتیس چالیس کے آس پاس، اس وقت بچے چھوٹے ہوتے ہیں اور چھوٹے بچوں کے لئے ان کے باپ سے زیادہ کوئی چیز اہم نہیں ہوتی اس دنیامیں۔ بچوں کے لئے باپ، دنیا کا سب سے بہادر، امیر اور اچھا انسان ہوتا ہے۔ وہ تو جب بچّے بڑے ہوجاتے ہیں تو ان پر باپ کی خامیاں اجاگر ہوتی ہیں کہ ان کا باپ کیسا غیر ذمہ دار، ظالم، عیّاش، ان کی ماں کی زندگی برباد کرنے والا اور لفنگا انسان تھا۔۔۔ جوانی میں مرنے کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ بچوں کے ذہن میں تاعمر باپ کا وہی تاثر رہتاہے جو ان کی بچپن کی یادداشت میں محفوظ تھا۔ اور بیوی کو متوفی خاوند میں وہ خوبیاں بھی نظر آنی شروع ہوجاتی ہیں جو کبھی موجود ہی نہ تھیں۔ مرنے کے بعد سب محفلوں میں اس کا ذکر ایسے ہوتاہے جیسے اس جیسا نیک، پارسا، ذمہ دار، بات کا پکا، بیوی بچوں کا خیال رکھنے والا انسان شاید ہی کوئی اور ہو۔۔۔۔ اور یہ فقرہ بھی کہ بس جی اللہ اپنے اچھے بندوں کو جلدی اپنے پاس بلالیتا ہے۔۔۔۔۔اوروہ رشتے دار جو زندہ ہوتے ہوئے منہ لگانا بھی پسند نہ کرتے ہوں، وہ بھی ایسے تعریفوں کے پل باندھتےہیں کہ ۔۔۔ حق مغفرت کرے، عجب آزاد مرد تھا۔۔۔۔
تو جی بات یہ ہے کہ ہمارے خطّے کے لوگوں کی اوسط عمر ساٹھ سے کم ہی ہے، تو پندرہ بیس بدذائقہ سالوں کے لئے پوری زندگی کی 'کیتی کرائی کھوہ' میں ڈالنے کا کیا فائدہ؟ میرا تو مفت مشورہ ہے کہ یہی وقت ہے مرنے کا، اس عمر تک پہنچتے پہنچتے دعا کریں کہ اوپر پہنچ جائیں، ورنہ آگے بڑی بدمزگی ہے!!