غالباً اسمعیل میرٹھی نے 'اردو کی پہلی کتاب' لکھی تھی اور استاد الاساتذہ ابن انشاء نے 'اردو کی آخری کتاب'۔ اگرچہ ان حضرات نے اپنے تئیں سارے دریا، جھیلیں، ندیاں، ڈیم، بحور وغیرہ کوزے میں بند کردیئے تھے لیکن اہل نظر (یعنی ہم) جانتے تھے کہ اس ضمن میں ابھی بہت سا کام کرنا باقی ہے۔ ہم نے بہت وقت اس انتظار میں گزارا کہ شاید کوئی اس کام میں ہاتھ ڈالے لیکن صد افسوس کہ کوئی مائی کا لال یا ابّا کی بنّو (محاورات میں دورجدید کے تقاضوں کے مطابق ترامیم بھی زیر نظر کتاب میں شامل ہوں گی) اس بھاری پتھّر کو نہ اٹھا سکے, بنا بریں ہمیں خود ہی ہمّت کرنی پڑی اور لنگر لنگوٹ وغیرہ کسنا پڑا۔ اگرچہ ہمارے لئے یہ کام کوئی ایسا کٹھن نہیں تھا لیکن ہم صرف یہ دیکھنا چاہتے تھے کہ عصر حاضر میں شاید ایسا جواں مرد یا زنِ ذہین ہو جو ہمارا ہم عصر کہلانے کے لائق ہو، لیکن ۔۔۔ اے بسا آرزو کہ خاک شد۔۔۔ ہیں جی۔۔۔
ہم گاہے بہ گاہے یعنی کَدَی کَدَی (وہی 'مَوکَا ملے کَدَی کَدَی' والا) اس کتاب کے لئے مضامین اسی بلاگ پر تحریر کریں گے۔ جن کو بعد میں کتابی شکل میں چھاپا جائے گا(بشرطیکہ ہمیں ہی کسی چھاپے وغیرہ میں نہ اٹھا لیا جائے)۔ چونکہ ہم درویشی/ فقیری قسم کی طبیعت رکھتے ہیں اس لئے اس کتاب کی رائلٹی وغیرہ سے ہم اللہ کی شان دیکھنے بلاد یورپ و امریکہ وغیرہم جائیں گے جہاں سیر و سیاحت اور فاسق و فاجر فرنگنوں کو دیکھ کر حصولِ عبرت برائے آخرت، جیسے نیک مقاصد پورے کئے جائیں گے۔ ہم اس بات پر بھی عمیق و دقیق غور کررہے ہیں کہ ان اسفار بارے تین چار چَوندے چَوندے سفرنامے بھی پھڑکائیں جن کے ہر تیسرے صفحے پر 'وَن سَوَنِّی' فاسق و فاجر فرنگی دوشیزائیں ہم پر موسلادھار طریقے سے عاشق ہوں جیسے اپنے چاچا جی پر ہوا کرتی تھیں اور بخدا کارٹون والے معصوم سے چاچا جی کے سفرنامے جب ہم نے ذرا بڑے ہونےپر پڑھے تو ہمیں چاچا جی کے میسنے پن پر بیک وقت غصّہ اور پیار آیا۔ اس بیک وقت غصے اور پیار کی وجوہات بیان کرنے کا یہ موقع نہیں، اسے کسی اور موقع پر اٹھا رکھتے ہیں!
اس کتاب کے فلیپ پر اپنی آراء چھپوانے کے لئے دنیا کے بہت سے عظیم ادباء، شعراء و مصنفین نے ہم سے رابطہ کیا جن میں گاما بی اے، فیجا لُدّھڑ ، طافو طمنچہ، شادا پوٹھوہاری، ماجھو ٹھاہ، ببّن کراچوی، ناجا لاہوری، چاچا چُوئی، مائیکل ٹُن، جارج گھسیٹا وغیرہم شامل تھے، لیکن چونکہ ہم ایسی سستی تشہیر پر یقین نہیں رکھتے اس لئے ہم نے ان سب عظیم ہستیوں سے معذرت کرلی۔ اب سب کو دو دو ہزار اور کتاب کے پچاس مفت نسخے کون دیتا پھرے! ویسے بھی ادب عالیہ کے عظیم نثرپاروں کو کسی ریویو وغیرہ کی محتاجی نہیں ہوتی کیونکہ جادو وہ جو سرچڑھ کے بولے اور ۔۔آہو۔۔۔
کتاب کے نام کی وجہ تسمیہ فوکویاما بھائی جان کا وہ نظریہ ہے جس میں انہوں نے فرمایا تھا کہ تاریخ کا خاتمہ ہوگیا ہے۔ لہذا اصولی طور پر اب تاریخ کو پیچھے کا سفر کرنا چاہیے تو آخری کتاب سے پیچھے جاتے ہوئے پہلے 'وچکارلی' کتاب ہی آنی چاہیے، اسی لئے ہم نے اس نام کو موزوں جانا۔ ویسےبھی چاچو شیکسپئیر نے فرمایا تھا کہ نام میں کیا رکھاہے اور گلاب (اس نکتے پر ذرا غور کریں کہ چاچو کو کیسے پتہ تھا کہ میں نے اپنا گریویٹار گلاب رکھنا ہے۔۔۔!!!! یہاں آپ (اپنے) منہ سے ۔۔ ڈھن ڈھنااااان۔۔۔ کا میوزک بھی بجا سکتے ہیں ) کو جس نام سے بھی پکاریں وہ گلاب ہی رہتا ہے۔ لہذا اگر اس کتاب کا نام 'ٹریکٹر کو 'پَینچر' کیسے لگاتے ہیں؟' یا 'برسات کے موسم میں ملیریا سے بچاؤ کی حفاظتی تدابیر اور روح افزا کے فائدے' بھی ہوتا تو اس سے کوئی فرق نہیں پڑنا تھا۔
آخر میں ہم اپنا شکریہ ادا کرتے ہیں جنہوں نے اپنے نہایت قیمتی وقت کو خرچ کرکے آپ جیسے کم پڑھے لکھے، سطحی سوچ کے حامل اور عقل کے پورے لوگوں کے لئے اس کتاب کو لکھنے کا ارادہ کیا! جئے ہم۔۔۔۔