انہوں نے مخصوص رازدارانہ انداز میں گردن آگے کرکے اور آہستہ سی آواز میں پوچھا، 'جعفر بھائی!۔۔ یار کیا بنے گا؟'۔
میرے ہونٹوں پر خباثت بھری مسکراہٹ نمودار ہوئی اور میں نے ان کا کندھا ہولے سے دبا کر کہا، 'پہلے کیا بنا تھا؟'
انہوں نے جواب دیا، 'کچھ نہیں'۔ میں نے کہا تو اب بھی کچھ نہیں بنے گا۔ انہوں نے اس مسخرے پن پر نظروں ہی نظروں میں مجھے سخت سست کہا، دل ہی دل میرا شجرہ 'دانش' کی علامت پرندے سے ملایا اور بزبان اردو مجھ سے کہاکہ حالات بڑے خراب ہیں بھیّا۔ تم ٹی وی نہیں دیکھتے؟
یہ صاحب میرے جاننے والے ہیں۔ ایک کمپنی میں ملازمت کرتے ہیں۔ 'ڈرائیور کم پی آر او' ہیں۔ کراچی کے رہنے والے ہیں۔ ہفتے میں ایک دو دفعہ ان کا ہمارے دفتر، کام کے سلسلے میں آنا ہوتا ہے اور سلام دعا/گپ شپ ہوجاتی ہے۔ ہردفعہ ملنے پر ان کے ابتدائی جملے ہمیشہ یہی ہوتے ہیں کہ کیا بنے گا۔ ایسا نہیں ہے کہ وہ کسی خاص چیز یا واقعہ پر پریشان ہوتے ہیں بلکہ ان کی پریشانی اور اس 'کیا بنےگا' ماخذ کسی نہ کسی ٹاک شو کے میزبان کی پچھلی رات کو چھوڑی ہوئی درفنطنی ہوتی ہے!
وہ اس نیوز چینلی ثم ٹاک شو یلغار کے کلاسک شکار ہیں جس نے اچھے بھلے سمجھدار بندوں کی پچھلے چند سالوں سے مت ماری ہوئی ہے۔
بہرحال میں نے 'چیزے' لینے کے لیے ان کو ایک دفعہ پھر اکسایا کہ قبلہ! آخر بولیے (بولیے کی جگہ جو لفظ میں نے سوچا تھا، وہ کہنے سے 'منی' فساد ہونے کا اندیشہ تھا) تو سہی کہ ہوا کیا؟۔ کیا 'بھائی' پھر دلہا بننے پر تیار ہوگئے؟۔ 'بھائی' ان کی چھیڑ ہیں اور ان کے ذکر پر وہ ایسے تپتے ہیں جیسے بھائی اور ان کے ہمنوا، بھتّے کے ذکر پر!
پہلے تو انہوں نے بھائی کی شان میں تئیس بند کا 'قصیدہ' پڑھا جس کی تاب نہ لاکر میرے جیسے بے شرم کے کان بھی لال ہوئے پھر انہوں نے چچ چچ کی آواز نکالتے ہوئے کہا کہ آپ نے وکی لیکس (اور لیکس کا تلفظ انہوں نے جھیل والے لیک سے مستعار لیا!) کے انکشافات نہیں سنے؟۔ میں نے جواب دیا کہ حضور والا، پڑھے تو ہیں، سنے نہیں لیکن ان میں، مجھے انکشاف تو کوئی نظر نہیں آیا۔ اگر کوئی ان کو انکشاف سمجھتا ہے تو یہ میرے لیے اس کی ذہانت کے بارے ایک انکشاف ہے۔
وہ بھنّا کر اٹھے اور الوداعی مصافحہ کرتے ہوئے مجھے ایسی نظروں سے گھورا جیسے میرے استاد مجھے زمانہ طالب علمی میں گھورا کرتے تھے کہ بچّہ! تو نہیں سدھر سکتا اور تیرا کیا بنے گا؟ وغیرہ وغیرہ۔۔۔