یعنی کہ میں

میں جب مشرقی یورپ اور انٹارکٹیکا کے سفر سے واپس آیا تو سفرنامہ لکھنے کا سودا میرے سر میں سمایا۔ میں نے ستّر صفحات کا مختصر سا سفر نامہ لکھا اور ٹائم کو بھیج دیا۔ میری تحریر وہ پہلی اور آخری اردو تحریر تھی جو اس میں چھپی۔ پہلی چار سو اقساط تو انہوں نے بنا کسی قطع و برید کے چھاپ دیں جبکہ آخری تین سو سینتالیس اقساط میں انہوں نے علمی خیانت کا ثبوت دیتے ہوئے بنا کسی اطلاع کے بدترین قسم کی قطع و بریدکی۔
مثلا میں نے اپنا سارا سفر اپنے ذاتی جیٹ میں کیاتھا، جو کھیت، ندی، سڑک الغرض ہرجگہ سے ٹیک آف بھی کرسکتا ہے اور اتر بھی سکتا ہے۔ لیکن ٹائم کے ادارتی عملے نے لکھ دیا کہ میں نے معمولی سے ہیلی کاپٹر میں یہ سارا سفر کیا۔ اس وقت میں نے سوچا کہ میرے سفر نامے کے قارئین کیا سوچتے ہوں گےاور میرا تاثر ان کے ذہن میں کیسا بنا ہوگا؟ اس کے علاوہ بھی بہت سی زبان و بیان کی اغلاط تھیں جو کہ شروع کی اقساط میں نہ تھیں۔ اس سے کوئی بھی یہ تاثر بھی لے سکتا ہے کہ میں نے شروع کی اقساط کسی اور سے لکھوائی ہیں۔
ان وجوہات کی بنا پر میں نے اپنے اگلے سفرنامے کو کسی بھی جریدے میں نہ چھپوانے کا تہیہ کیا۔ یہ سفر چوہڑ کانے، اگوکی، سکھیکی، کانا کاچھا وغیرہ کے تھے۔ انہی دنوں میرے ایک جاننے والے نے اس سفرنامے کے مسودے کو دیکھا اور کہا کہ اگر آپ اس کو کہیں اور چھپوانا نہیں چاہتے تو اپنا بلاگ بنالیں۔ تب تک مجھے اردو بلاگنگ کا پتہ نہیں تھا۔ ان کے اس مشورے پر میں نے اردو بلاگنگ کے کی ورڈ سے گوگل پر سرچ کیا تو پتہ چلا کہ اردو میں بھی بلاگنگ ہورہی ہے۔ لیکن مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ یہ نہایت غیر معیاری، ناقص، گھٹیا ہے اور اردو بلاگرز میں اکثریت وچکارلے بازو کے نظریات سے تعلق رکھتےہیں۔
تب میں نے سوچا کہ میں یہاں مثبت اور انقلابی تبدیلی لاسکتاہوں۔ بس یہی سوچ کر میں نے بلاگنگ شروع کی۔
Comments
0 Comments

0 تبصرے:

تبصرہ کیجیے