محبت کے دورے یوں تو اوائل عمری سے ہی پڑنے شروع ہوجاتے ہیں لیکن کچھ حضرات و خواتین کو یہ دورے درمیانی عمر کے آغاز میں شروع ہوتے ہیں اور ان دوروں کی نوعیت، شدید قسم کی ہوتی ہے۔ اکثر حضرات کو یہ دورے زیادہ سے زیادہ دو بچوں اور کم سے کم ایک بچے کا اباجان بننے کے بعد شروع ہوتے ہیں۔ ایک دن نیند سے بیدار ہونے پر انہیں اچانک محسوس ہونے لگتا ہے کہ یہ جو عورت ان کے بچے یا بچوں کی اماں جان ہے، اس سے تو ان کی 'ذہنی ہم آہنگی' ہی نہیں ہے اور اس کے ساتھ تو زندگی کزارنا بڑا ظلم ہے اور یہ ظلم ان پر مسلسل ہورہا ہے۔ لہذا یہ حضرات، اپنی کام کی جگہ جو آفس سے لے کر ہسپتال اور تعلیمی اداروں سے لے کر ثقافتی اداروں تک کہیں بھی ہوسکتی ہے، خوبصورت، قبول صورت یا کم صورت کولیگ کے سامنے اپنی مظلومیت کی داستان، بانداز علامہ راشد الخیری، سنانا شروع کردیتے ہیں۔ جس میں بتایا جاتا ہے کہ ان کے ساتھ تو بڑا ہاتھ ہوگیا ہے اوران کی بیوی کم ازکم ایریل شیرون جتنی ظالم تو ہے ہی اگر زیادہ نہیں۔
حالانکہ یہی حضرات شادی کے پہلے تین مہینے اپنی زوجہ کو یہ یقین دلاتے پائےجاتے ہیں کہ 'جانم! اگرتم نہ ملتیں، تو میرا کیا ہوتا؟' اوراسےمحمد رفیع کے گانے عطاءاللہ عیسی خیلوی کی آواز میں سنا کے مرنے کی حد تک بور کرتے رہے ہوتے ہیں۔ اس اچانک کایا پلٹ کی وجوہات نا گفتنی ہیں۔ جن کے ڈانڈے کمینگی سے شروع ہو کر رذالت سے جا ملتے ہیں۔
اس داستان ظلم ہائے زوجہ کے سامعین کی اکثریت بھی اس جال میں پھنس جاتی ہے اور اس سو کالڈ مظلوم کی کہانی پر آٹھ آٹھ آنسو بہاتی ہے۔ اور یہ سمجھتی ہے کہ اتنا اچھا انسان کیسے ایک ظالم عورت کے ہاتھوں برباد ہورہا ہے۔ اس سے آگے تو آپ جانتے ہی ہیں کہ اس کہانی کا رخ کدھر کو مڑتا ہے۔
ایسا نہیں ہے کہ اس حمام میں صرف حضرات ہی دھمال ڈالتےہیں۔ خواتین بھی اس میدان میں کسی سے پیچھے نہیں ہیں۔ اگر تین چار بچوں کے بعد اماں جان، ونیزہ احمد کی بجائے دردانہ بٹ لگنے لگتی ہیں تو ابا محترم بھی سلمان خان کی بجائے قادرخان ہوجاتے ہیں اور اپنی زوجہ کو ایک آنکھ نہیں بھاتے۔ تب پھران خواتین کو اپنے زمانہ 'طفولیت' کے کزن، کلاس فیلو یا محلے دار یاد آنے لگتے ہیں۔ اور ان سے رابطہ کرنے کی خواہش پیدا ہونے لگتی ہے۔ ایس ایم ایس، ایمیل، فیس بک، ٹوئٹر، چیٹنگ یا سادہ فون کال ہی اس مقصد کو پورا کردیتی ہے۔ انہیں لگتا ہے کہ انہیں چار، پانچ بچے تو مل گئے ہیں، محبت نہیں ملی۔ اس 'سوکالڈ' محبت میں پھر وہ کتنا خجل ہوتی ہیں، یہ ایک الگ کہانی ہے۔
دل تو میرا بہت کررہا ہے کہ یہاں میں ایک اخلاقی سبق قسم کی چیزآپ کے سامنے پیش کروں تاکہ ان تمام 'بگڑے' ہوئے حضرات بمعہ خواتین کو کان ہوں اور وہ 'راہ راست' پر آجائیں۔ پر جی سانوں کیہ۔۔۔
جنہاں کھادیاں گاجراں ٹڈھ انہاں دے پیڑ