بہت دن الٹی سیدھی ہانکنے کے بعد ہمیں محسوس ہونا شروع ہوگیا ہے کہ اب چونکہ چل چلاؤ کا وقت آن لگا ہے تو کچھ ایسا کام کرجانا چاہیے کہ ہمارا نام تاریخ (کیلنڈر والی نہیں) میں چمپئی الفاظ سے لکھا جائے اور مؤرخین، ہمیں ایک ایسے عظیم ادیب اور مصنف کے طور پر یاد کریں جس نے اردو کا مستقبل ہمیشہ کے لیے بدل کے رکھ دیا ہو۔ بناء بریں ہماری نظر اس موئے قاعدے کی طرف ہی گئی ہے جو ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتا۔ بہرحال اس دفعہ ہم اپنے تئیں سر دھڑ کی بازی لگا کر اسے ختم کرنے کی کوشش کریں گے مبادا اس سے پہلے کہیں ہم خود ہی کڑیں نہ ہوجائیں۔۔ ہیں جی!۔
ض۔۔۔۔ ضرار۔ یہ ایک ٹینک ہے۔ پانی والا یا تیل والا ٹینک نہیں بلکہ گولہ بارود برسانے والا ٹینک۔ اسے ہماری "مُسلا" افواج نے بنفس نفیس اپنی ورکشاپ میں بنایا ہے۔ تاکہ بوقت جنگ دشمن افواج کے دانت کھٹے اور ان کی جیپیں، ٹرک ودیگر آلات حرب و ضرب تباہ و برباد کیے جاسکیں۔ مستقل دشمن سے جنگ کا چونکہ کوئی امکان نہیں، لہذا اسے آزمانے کے لیے ہم نے ایسے جزوقتی "دشمن" ڈھونڈ لیے ہیں، جن کے پیسوں سے یہ ٹینک بنایا گیا تھا۔ان ناہنجاروں کی کمر توڑنے میں یہ ٹینک بہت کار آمد ثابت ہورہے ہیں۔ ایک محاورے میں اس صورتحال کی عکاسی ایسے کی گئی ہے کہ "میریاں جُتّیاں، میرا اِی سر" ۔
ط۔۔۔۔طوطا۔ اس کا نک نیم میاں مِٹھّو ہوتا ہے اور یہ چُوری کھاتا ہے۔ جبکہ طوطا چشم چَوری کھاتے ہیں۔ اشفاق احمد یہ اصرار کرتے کرتے اللہ کو پیارے ہوگئے کہ طوطا ، ت سے ہوتا ہے۔ لیکن کسی نے ان کی بات سن کر نہیں دی۔ تھوڑا غور کرنے پر پتہ چلتا ہے کہ توتا چشم، زیادہ طوطا چشم محسوس نہیں ہوتا!۔
ظ۔۔۔۔ ظُلمی۔ یہ لفظ پرانے فلمی گانوں میں کثرت سے استعمال کیا جاتا تھا۔ مثلا، ظلمی نہ موڑ موری بیّاں ، پڑوں تورے پیّاں ۔۔ وغیرہ وغیرہ۔ اور اصل میں خاتون ان الفاظ کے برعکس ظُلمی کو اکسارہی ہوتی تھی کہ میری بّیاں پکڑ کے مروڑ کمبخت، مٹی کا مادھو بن کے نہ کھڑا رہ۔ اس ساری صورتحال کو وکی لیکس کے تناظر میں بخوبی سمجھا جاسکتا ہے۔
ع۔۔۔۔ عریانی و فحاشی۔ ملک عزیز میں اس کے مظاہر جابجا بکھرے نظر آتے ہیں۔ جناتی سائز کے سائن بورڈز، جہاں کوئی خاتون چارگرہ کپڑے میں پھنسی ہوئی آپ کومختلف اشیاء، جو سوڈا واٹر سے لے کر موبائیل پیکجز تک کچھ بھی ہوسکتا ہے، خریدنے کے لیے ورغلانے کی جان توڑ کوشش کرتی نظر آرہی ہوتی ہے۔ ان اشتہارات کو دیکھ کر آپ یہ فیصلہ نہیں کرسکتے کہ اشتہار سوڈا واٹر کا ہے یا خالص دودھ کا!۔ احباب اس بات پر شدید اعتراض کرسکتے ہیں کہ اس مظہر یعنی عریانی و فحاشی کی باقی علامات جو وطن عزیز میں جگہ جگہ نظر آتی ہیں، ان پر ہماری نظر کیوں نہیں پڑی؟ اس پر ہمارا جواب ایک طویل چپ ہے!۔
غ۔۔۔۔ غرارہ۔ یہ زیادہ تر ساٹھ کی دہائی کی فلموں اور فاطمہ ثریا بجیا کے ڈراموں میں پایا جاتا ہے۔ اس غبارہ نما لباس کی خاص بات، اس کی عیب پوشی کی صلاحیت ہے۔ اس لباس میں شمیم آراء اور صائمہ یکساں طور پر لحیم شحیم نظر آسکتی ہیں۔ شنید ہے کہ جب یہ لباس عام پہناوا تھا تو گھروں میں جھاڑو پونچھا لگانے کی ضرورت کم ہی پیش آیا کرتی تھی۔ کیونکہ اس کام کے لیے یہ لباس پہن کر گھومنا پھرنا ہی کافی ہوتا تھا۔ ایک غرارہ وہ بھی ہوتا ہے جو گلا خراب ہونےکی صورت میں نیم گرم پانی میں نمک ملا کے کیا جاتا ہے۔ یہاں آکے ہمارا سارا علم جواب دے جاتا ہے کہ ان دونوں غراروں میں قدر مشترک کیا ہے؟
ف۔۔۔فیصل آباد۔ یہ شہر سے زیادہ ایک حالت ہے اوراکثر و بیشتر اس شہر کے باشندوں پر ہی طاری ہوتی ہے بلکہ طاری ہی رہتی ہے۔ روایت ہے کہ ایک مشہور خطیب جمعے کے خطبے کے دوران حسب رواج و موسم حضرت موسی علیہ السلام کا قصہ بیان کررہے تھے۔ اس قصہ میں جب کوئلے کا ذکر آیا تو وہ یوں گویا ہوئے کہ "واہ اوئے کولیا، تیریاں شاناں، او جے پَخ گیا تے نورانی، تے جے بُجھ گیا تےےےےےےے۔۔۔۔۔۔ مفتی جعفر حسین"۔۔۔۔(واہ اے کوئلے، تیری کیا شان ہے۔ اگر دھک جائے تو نورانی اور اگر بجھ جائے تو مفتی جعفر حسین)۔ اس مثال سے آپ بخوبی سمجھ گئے ہوں گے کہ فیصل آبادی حالت کیسی ہوتی ہے۔
ق۔۔۔ قانون۔ یہ گنّا بیلنے والی مشین کی طرح ہوتا ہے۔ جس میں عوام کا رَس نکالا جاتا ہے۔ اس مشین کو چلانے والے، قانون نافذ کرنے والے ادارے، کے نام سے جانے جاتے ہیں اور جیسا کہ انصاف کا تقاضہ ہے، یہ ادارے قانون سے بالاتر ہوتے ہیں۔ قانون کی مزید تشریح کیلئے آپ، منٹو کی "نیا قانون" بھی ملاحظہ کرسکتے ہیں۔
ک۔۔۔ کُتّا۔ یہ ایک پالتو جانور ہوتا ہے۔ اقوام مغرب میں اسے افراد خانہ کی حیثیت حاصل ہوتی ہے۔ وہاں بیوی رکھنا اتنا ضروری نہیں، جتنا کُتّارکھنا ضروری ہے۔ ہالی ووڈ فلموں کا ماچو ہیرو بھی اسی وقت غیض و غضب کی انتہا کو پہنچتا ہے جب ولن اس کے بیوی بچوں کو مارنے کے بعد اس کے کُتّے کو بھی مار دیتا ہے۔ صاحب لوگ اکثر کُتّے کو ان اقوام کی رحمدلی، جانوروں سے محبت اور تہذیب یافتہ ہونے کی دلیل کے طور پر بیان کرتے ہیں اور ہمیں شرمندہ کرتے ہیں کہ تم اب تک جاہل کے جاہل ہی رہے اور کُتّے کو اس کا اصل مقام نہ دے سکے۔ ان روز روز کے طعنوں سے تنگ آکر ہم نے بھی وہ کام کیا ہے کہ بقول شاعر۔۔ ۔جو کام ہوا ہم سے، رستم سے نہ ہوگا۔۔۔ سمجھ تو آپ گئے ہی ہوں گے!۔
گ۔۔۔ کھَوتَا۔ ہمارے برادر خورد، اردو کا الف انار ب بکری والا قاعدہ پڑھتے ہوئے ہمیشہ گ سے کھَوتَا پڑھتے تھے۔ ان کے معصوم ذہن میں یہ بات نہیں سماتی تھی کہ عام زندگی میں جسے وہ کھوتا کہتے ہیں، کاغذ پر اس کی تصویر چھپی ہو تو اسے گدھا کہنا کیوں ضروری ہے؟ اپنی مِس سے تو شاید انہیں مار نہیں پڑی ہوگی کہ شدید گُگلُو قسم کے بچے تھے، لیکن ہمارے ہاتھوں وہ غریب سخت زدوکوب ہواکرتے تھے۔ آخر تنگ آکے انہوں نے زمینی حقائق سے سمجھوتہ کرلیا اور گ سے کھوتے کی بجائے گدھا ہی پڑھنے لگے!۔