ترقی کرنی چاہیے جی اور ضرور کرنی چاہیے۔ محنت کرنی چاہیے، پیسہ کمانا چاہیے اور آگے بڑھنا چاہیے، لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ہر قیمت پر؟
جوماجھا ساجا گرمیوں کے پندرہ دن یورپ گزار آتا ہے وہ ہمارےکان کھانے شروع کردیتا ہے کہ تم لوگ کبھی ترقی نہیں کرسکتے۔ یہاں سیاحوں کے لیے کوئی 'سہولت' میسر نہیں، کوئی 'تفریح' کا بندوبست نہیں، کوئی 'منورنجن' نہیں۔ سوچنے والی بات یہ ہے کہ کیا ترقی کرنے کے لیے ضروری ہے کہ آپ اپنے ملک میں سیاحت کے فروغ کے نام پر قحبہ خانوں کا کلچر عام کریں؟ جو کہ الا ماشاءاللہ حضرت علامہ مولانا پیجا دہلوی پہلے کافی عام کرچکے ہیں لیکن ان شوقیہ فنکاروں کی سوکالڈ ترقی پھر بھی کہیں نظر نہیں آتی۔ کیا آپ اپنی معیشت بہتر کرنے کے لیے اپنے گھر کے کمروں کو بہترین ڈیکوریٹ کرکے اور تمام سہولیات میسر کرکے 'اچھا' وقت گزارنے والوں کو کرایہ پر دینا پسند کریں گے؟
دبئی کی مثال بہت دی جاتی ہے کہ اس نے کیسے کم وقت میں ترقی کی ہے اور وہاں ہر 'قسم' کی آزادی ہے اور کسی قسم کی 'روک ٹوک' نہیں ہے۔ اگر صاف گوئی کا مظاہرہ کیا جائے تو دبئی ایک بہت بڑے چکلے کے علاوہ کچھ بھی کہلانے کا حقدار نہیں ہے۔ اس کی ساری ترقی بلبلہ ثابت ہوئی اور وہ ایک جھٹکے کی مار نہیں سہہ پائی۔ اب پھر اس کا انحصار اسی 'قدیمی پیشے' پر ہے جس نے اسے دنیا میں اتنی 'مشہوری' عطا کی تھی۔
ترکی کی بہت بلّے بلّے ہورہی ہے کہ کیسے وہاں نماز پڑھنے والے نماز پڑھتے ہیں اور نائٹ کلب جانے والے نائٹ کلب جاتے ہیں اور کوئی ایک دوسرے کو تنگ نہیں کرتا۔ تو جی میرا سوال یہ ہے کہ اگریہی سب کچھ یہاں پاکستان میں بھی کرنا تھا تو یہ ملک 'امب' لینے کے لیے بنایا تھا؟ جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ اس ملک کے بنانے کا مقصد معاشی تھا نہ کہ دو قومی نظریہ تو اپنی چلتی معیشتیں اور نوابیاں چھوڑ کے یہاں لٹ پٹ کے آنے والے تو کائنات کے احمق ترین باشندے ہی ہوسکتے ہیں۔ اور سائڈ نوٹ یہ کہ دو قومی نظریہ تو اب یورپ اور امریکہ کی 'اعلی سیکولر اقدار' والی قومیں بھی تسلیم کرتی ہیں بلکہ اس پر عملدرآمد کے لیے اپنی پوری قوت بروئے کار لا کر نئے ملک بنانے سے بھی نہیں چوکتیں، ریفرنس کے لیےمشرقی تیمور اور جنوبی سوڈان ملاحظہ ہو۔
یہ ہماری اجتماعی بدقسمتی ہے کہ ہم نے ملک تو بدل لیا لیکن صدیوں سے قابض حکمران طبقے کو نہ بدل سکے جو کبھی مذہب اور کبھی روشن خیالی کے نام پر ہماری تشریف لال کرتا رہا ہے اور مسلسل کررہا ہے۔ یہ لوگ نہ تو عوام کو تعلیم دے سکے نہ انصاف، نہ تربیت کرسکے اور نہ ترقی دے سکے۔ لالی پاپ، البتہ بہت دیئے۔ زبان کے لالی پاپ، نسل کے لالی پاپ، برتری کے لالی پاپ، مذہب کے لالی پاپ،جمہوریت کے لالی پاپ، روشن خیالی کے لالی پاپ، نفرت کے لالی پاپ، اور ہم سب کو مجبور کیا کہ ان لالی پاپس کے چُوپے لگاتے جاؤ اور موجیں کرتے جاؤ اور اسی طرح جہنم رسید ہوتے جاؤ۔
ترقی کرنی ہے تو تعلیم دینی پڑے گی، تربیت کرنی پڑے گی نہ کہ سیاحت کے نام پر قحبہ گری کو 'گراس روٹ' لیول پر فروغ دینے کی کوششیں۔ ترکی اور دبئی کی مثالیں دینے والوں کو تھائی لینڈ کی سیاحتی بنیاد والی معیشت کے نتائج و مضمرات پر بھی روشنی ڈالنی چاہیے کہ اس سیاحتی ترقی نے وہاں کیسا سماجی ‘انقلاب’ برپا کیا ہے!۔