کل ہمارے دل کو ایسا دھچکا لگا، جس کی توقع ہم بالکل نہیں کررہے تھے۔ ایک بہت اہم ہستی نے ہمیں کہا کہ تم اب کچھ زیادہ ہی سنجیدہ نہیں لکھنے لگے؟ اگرچہ کچھ احباب اشارتا اس بات کی طرف ہمیں پچھلے کچھ عرصے سےمتوجہ کرنے کی کوششیں کرتے رہے ہیں لیکن اپنی روایتی لاپرواہی اور چول وادی کی وجہ سے ہم نے یہ پندونصائح، دو،کانوں کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بغیر کسی رکاوٹ کے گزرنے دئیے اور ان پر غور کرنے کی مطلق کوشش نہیں کی۔ کل کی اس 'ہارٹ بریک' واردات کے بعد ہم نے اپنی پچھلی کچھ تحاریر کا طائرانہ جائزہ لیا اور خود کو اس بات سے متفق پایا کہ خلق خدا کچھ اتنا غلط بھی نہیں کہتی۔
قسمیہ بیان کیاجاتا ہے کہ کچھ بھی لکھنے سے پہلے ہمارا ارادہ ہمیشہ یہی ہوتا ہے کہ اگر کسی ایک دوست کے چہرے پر بھی مسکراہٹ آگئی تو سمجھیے کہ بیڑا پار ہوا لیکن پچھلے کچھ عرصے سے ہماری کوشش تو شوّال کا استقبال کرنے کی ہوتی ہے لیکن لکھنے کے بعد پتہ چلتا ہے کہ محرّم شروع ہوگئے ہیں۔
ایک وجہ تو یہ سمجھ میں آتی ہے کہ ہم خود کو بزعم خود بڑا تیس مار خاں قسم کا ادیب و مصنّف و دانشور سمجھنے لگے ہیں حالانکہ کیا پّدی اور کیا پدّی کا شوربہ۔ دوسرا، ہمارے ذہن میں یہ خنّاس بھی سما گیا ہے کہ اس قوم کی اصلاح کرنا ہمارا اخلاقی فریضہ ہے اور ہم خدائی فوجدار قسم کے پاٹے خاں بن چکے ہیں لہذا بات بے بات ہم اپنا اخلاقی لتّر نکال کر قوم کی تشریف لال کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ایک خیرخواہ نے بہت عرصہ پہلے ہمیں متنبّہ کیا تھا کہ شادی شدہ خواتین اور فلسفے سے ہمیشہ دور رہنے کی کوشش کرنا۔ استاد محترم قبلہ ابن انشاء کے کینسر کی وجہ بھی ایک شادی شدہ خاتون ہی تھیں جو ساری زندگی ان کا جذباتی استحصال کرتی رہیں، حوالے کے لیے ملاحظہ ہو ان کی وہ نظم جس میں وہ یہ دہائی دیتے پائے جاتے ہیں کہ یہ ساری جھوٹی باتیں ہیں جو لوگوں نے پھیلائی ہیں لہذا ان کا نام نہ لیا جائے کیونکہ مابدولت سودائی نہیں ہیں۔ اس سکینڈل بارے ہمیں حمید اخترسے پتہ چلا تھا۔ انہوں نے اس خاتون کی عیّاریوں اور ہمارے گرو کی بے اختیاریوں کا ذکر بھی کیا تھا۔ ہماری شدید خوش قسمتی ہے کہ خواتین سے دور رہنے کی کبھی ضرورت ہی پیش نہیں آئی کہ وہ خود ہی ہم سے بارہ کوس دور رہتی ہیں، البتّہ فلسفے والی بات نے ہمیں برباد کیا ہے۔ ہمارے چند بلاگی و فیس بکی احباب، جن کا نام لینا ہم مناسب تو سمجھتے ہیں لیکن ان کی مفت میں مشہوری کرنا ہماری کمینگی سے مطابقت نہیں رکھتا، اکثر ہمیں آن لائن پاکر فلسفے کے 'کھُنڈے' استرے سے ہمارے دماغ پر جمی ہوئی کائی کھرچنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ اس حرکت سے وہ تو اپنا اپھّارہ ختم کرلیتے ہیں لیکن ان کی اس انٹلکچوئل دراندازی سے ہمیں جو فلسفیانہ بدہضمی ہوجاتی ہے، وہ ماضی قریب کی تحاریر میں ملاحظہ کی جاسکتی ہے۔
ہماری برداشت کی داد دی جانی چاہیے کہ آج نہ تو ہم نے زیرو میٹر وزیر خارجہ پر کچھ لکھا اور نہ ہی صدر مملکت کی دو مسلمان مملکتوں، جو ہمیشہ اپنا اپنا اسلامی برانڈ برآمد کرنے کے چکروں میں رہتی ہیں، کے درمیان مفاہمتی کوششوں کو موضوع سخن بنایا۔ حالانکہ اس موضوع پر ہمارے دل میں جو مُغلّضات کا طوفان برپا ہوا تھا اس نے خود ہمیں ہی شرمندہ کردیا تھا کہ ۔۔۔ یارب! ایسی چنگاری بھی اپنی خاکستر میں تھی۔۔۔ چونکہ بقول نورجہاں، میرا دل چنّاں، کچ دا کھڈونا (اے 'محبوب' میرا دل کانچ کا کھلوناہے)۔۔۔ اور اس کھڈونے کو کل جو ٹھیس لگی ہے، اس نے ہمیں ان تمام موضوعات پر لکھنے سے باز رکھا جو ہمیں کھڑوس پنے کے اور قریب کردیتے۔
ہم اگر شاعر ہوتے(جو الحمد للہ نہیں ہیں) تو کبھی ن م راشد کی طرح اپنے خواب سرعام بیان نہ کرسکتے کیونکہ ایسے رنگین و سنگین خواب اگر ریکارڈ کیے جاسکتے تو ہم ان کی فروخت سے کم ازکم سٹیو جابز سے تو زیادہ امیر اور تندرست ہوتے! یہ خواب فروشی بھی تقریبا بے ضرر ہی ہوتی کیونکہ ہم کسی کو سبز باغ کے خواب دکھانے کی بجائے اپنے خوابوں سے انٹرٹین کرتے۔ حالیہ یبوست زدگی کا اثر ہمارے خوابوں پر بھی پڑا ہے اور ہم اپنی زندگی کی اکلوتی عیّاشی سے بھی محروم ہوگئے ہیں۔ کہاں وہ دور تھا کہ ہمارے خواب، پہاڑی وادیوں، جھرنوں، سبزہ زاروں، ساحلوں، بادبانی کشتیوں اور رومانی دوگانوں پر مشتمل ہوتے تھے۔ بچپن اور نوجوانی کے 'کرش' ہمارے خوابوں میں جلوہ افروز ہوکر ہمیں وہ سب کچھ کہتے تھے، جس کا الٹ وہ ہمیں حقیقی زندگی میں کہتے رہے تھے۔ ان میں کچھ مناظر "سختی سے بالغوں کے لیے" والے زمرے میں بھی آتے تھے، جوکہ ظاہر ہے، ریکارڈنگ کی صورت میں مناسب حد تک قطع و برید کے بعد ہی فروخت کے لیے پیش کیے جاتے۔ البتہ 'ڈریمرز کٹ' کے نام پر بغیر کٹ کے بھی یہ خواب دستیاب ہوتے لیکن ان کی قیمت 'تھوڑی' سی زیادہ ہوتی۔ اصل سانحہ یہ ہے کہ یہ سارے منصوبے اور خواب چکناچور ہوگئے ہیں اورہمارے یہ سنگین و رنگین و دلنشین خواب ، خواب ہوئے اور آج کل کے تازہ ترین خواب، انتظار حسین کے افسانوں کی طرح ہوگئے ہیں کہ جن کی سمجھ چاہے نہ آئے لیکن ڈر ضرور لگتا ہے۔
کل کی وارداتِ انہدامِ قلبی کے بعد ہم نے یہ ارادہ باندھ لیا ہے کہ آئندہ فلسفے، اخبار اور ماش کی دال سے بالکل اجتناب کریں گے۔ فلسفیانہ مسائل وہی مردان باصفا سلجھا سکتے ہیں جو بقول شاعر۔۔۔ انہی کا کام ہے جن کے حوصلے ہیں 'ابن' زیاد۔۔۔۔ اوریہ کام ہمارے بس کا نہیں ہے لہذا آج سے معمول کی نشریات وقتی خلل اور دماغی خرابی کے بعد دوبارہ شروع سمجھی جائیں۔