"کام" یاب


اس نے قہقہہ لگایا۔ گلاس سے ایک چسکی لی۔ بواسیر والا پیڈ درست کیا اور مجھ سے مخاطب ہوا۔ دیکھ چوہدری! میں آج کہاں پہنچ گیا اور تم؟ وہیں کے وہیں۔ اس نے استہزائیہ انداز میں ہاتھ سے ایک فحش اشارہ کرتے ہوئے کہا۔ میں نے جھلاّ کر جواب دیا، "تم بواسیر کے ہاتھوں کرسی پر بیٹھنے سے بھی عاجز ہو، بلڈ پریشر تمہارا ہائی رہتا ہے، دو دفعہ دل کا دورہ تمہیں پڑ چکا ہے۔ شوگر تمہاری کنٹرول نہیں ہوتی۔ اور شوگر کی وجہ سے تمہیں کُرہ ارض کی ساری خواتین، بشمول تمہاری بیوی اور "سیکرٹری"، بہنیں محسوس ہونی شروع ہوگئیں ہیں۔ اگر یہ سب کامیابی ہے تو اپنی کامیابی اپنے پاس سنبھال کے رکھ۔ مجھے ایسی کامیابی نہیں چاہیے"۔
اس نے ایک بار پھر قہقہہ لگایا۔ کرسی پر سسکاری بھرتے ہوئے پہلو بدلا۔ خالی گلاس میں ارغوانی مشروب انڈیلا۔ پلیٹ سے ایک چکن تکّہ اٹھا کے منہ میں ڈالا اور منہ چلاتے ہوئے کہنے لگا، "تم ہمیشہ کہتے رہے کہ سادہ غذا کھاؤ۔ پاکیزہ زندگی گزارو۔ رزق حلال کماؤ۔ یہ سب کرکے تمہیں کیا ملا؟ دس تاریخ آتے آتےتمہاری جیب میں پیسوں کی بجائے بل نظر آنے لگتے ہیں۔ تمہارے بچّے سرکاری سکولوں میں تعلیم کے نام پر وقت ضائع کرتے ہیں۔ تمہاری بیوی آج بھی اپنے جہیز کے کپڑے کھلے کرکر کے پہننے پر مجبور ہے۔ کیا فائدہ ہوا تجھے اعلی تعلیم حاصل کرکے؟ دو ٹکے کے ماسٹر؟ جس کا دل چاہے تیرے  منہ پر تھپڑ ماردے یا ٹانگوں پر گولیاں۔۔۔ہنہہ۔۔۔ مجھے دیکھ۔ میں نے جیسے میٹرک کیا تھا، تجھے بھی یاد ہوگا۔ میں اگر تیری طرح بے وقوف ہوتا تو پڑھتا رہتا اور آج تک تیری طرح کُڑھتا رہتا۔میں نے عقلمندی کی اور آج۔۔۔"، اس نے اپنے عالیشان دفتر پر ایک طائرانہ نظر ڈالتے ہوئے کہا، " میں تیرے جیسے اعلی تعلیم یافتہ لوگوں کی قسمتوں کے فیصلے کرتا ہوں۔ اب تو خود ہی بتا، کامیاب کون ہے؟ تو یا میں"۔
Comments
8 Comments

8 تبصرے:

علی نے فرمایا ہے۔۔۔

تمہاری بیوی آج بھی اپنے جہیز کے کپڑے کھلے کرکر کے پہننے پر مجبور ہے
ڈاھڈی گال کیتی اے سائیں

افتخار اجمل بھوپال نے فرمایا ہے۔۔۔

وہ یعنی آپ کا فرض کردہ مخاطب بالکل غلط کہتا ہے ۔ حرام کے پیسے میں ظاہریت ہو سکتی ہے مگر وہ بھی مفلوج یعنی ذیابیطس ۔ فشارِ خون ۔ دل کے دوروں وغیرہ والی ۔ نیند کیلئے انہیں نشہ کرنا پڑتا ہے یا نیند آور گدوا استعمال کرتے ہیں ۔ جو محنت کی کھاتا ہے بظاہر ضستہ حال مگر دراصل صحتمند زندگی گزارتا ہے ۔ آپ نے دیکھا نہیں محنت کرنے والے مزدور کتنی گہری نیند سوتے ہیں ؟ فٹ پاتھ پر بھی لیٹ کر سو جاتے ہیں ۔ جو گھروں میں ہوتے ہیں وہ بھی اپنی نیند سوتے ہیں

عمران اقبال نے فرمایا ہے۔۔۔

نہایت تلخ حقیقت۔۔۔ پڑھ کر افسوس ہوا۔۔۔ کہ واقعی قابل لوگوں کی اس دنیا میں کوئی قدر نہیں۔۔۔

عمیر ملک نے فرمایا ہے۔۔۔

ہممم۔۔۔ میں اپنا غم و غصہ اس تحریر کے حق میں محفوظ کرواتا ہوں۔

ڈاکٹر جواد احمد خان نے فرمایا ہے۔۔۔

کسی عقلمند انگریز نے کہا کہ :
جب دولت چلی جائے تو کچھ نقصان نہیں ہے
جب صحت چلی جائے تو کچھ نقصان ہے۔
لیکن اگر کردار چلا جائے تو سراسر نقصان ہے۔

اگر فقر توکل کے ساتھ ملا ہے تو اللہ سبحانہ تعالٰی کا سب سے بڑا انعام ہے ورنہ ایک وبال کے سوا کچھ نہیں۔

راشد کامران نے فرمایا ہے۔۔۔

دیکھیے مجھے آپ سے اختلاف کرکے کبھی خوشی محسوس نہیں ہوتی لیکن آپ کی مثال زیادہ تر سرکاری عہدیداروں یا اس قبیل تک محدود ہے۔ میں اپنے چاروں طرف نگاہ دوڑاتا ہوں تو اپنے تعلیم یافتہ احباب کو ایک زیادہ بہتر، خوشحال اور کافی حد تک مطمئن زندگی گزارتا پاتا ہوں بنسبت ان ساتھیوں کو جنہوں نے تعلیم کو نوجوانی میں شغل سے زیادہ اہمیت نہیں دی۔ درحقیقت آج کی دنیا میں ناخواندہ افراد بہت دشوار زندگی گزار رہے ہیں۔ آپ غیر معمولی مثالیں ادھر ادھر تلاش کرسکتے ہیں لیکن ایک عمومی خاکہ غالبا میرے مقدمے کی توثیق کرے گا۔

غلام عباس مرزا نے فرمایا ہے۔۔۔

حرکات و سکنات اور حلیہ کی ڈسکرپشن کا انداز جاوید چوہدری والا تھا۔ بہرحال آپ نے بہت اہم معاشرتی رویے کی طرف توجوہ دلائی۔ ویسے ضروری نہیں کہ ایک کالے دھن کا مالک ضرور ہی شوگر اور بلڈ پریشر کا مریض ہو۔ وہ جسمانی طور پر ایک دیانتدار اور ایماندار آدمی سے ذیادہ صحت مند ہو سکتا ہے اور اکثر ہوتا بھی ہے۔ لیکن انسان کی ایک روحانی سیلف بھی ہوتی ہے وہ کس حال میں ہے یہ بھی دیکھنا چاہیے۔

MAniFani نے فرمایا ہے۔۔۔

گڈ ون

تبصرہ کیجیے