امریکہ پہنچ کر کسی نووارد نے
پڑتا لگایا کہ کسی ملک میں نوشہری ہونے کے معنی یہ ہیں کہ زیادہ سوال نہ پوچھے
جائیں ورنہ لوگ آپ کو انجان سمجھ کر کمتر جانیں گے۔ لوگوں کو اشیاء کی طرح سمجھیں،
استعمال کریں اور پھر آزاد چھوڑ دیں۔ اپنے آبائی وطن کو پہلی بیوی کی مانند کہیں
اندر سینت کر رکھیں لیکن اس کی خوبیوں خرابیوں کا قطعا ذکر نہ کریں۔ پتہ نہیں سننے
والے پر اس ذکر کا کیا اثر ہو۔۔۔۔۔ ایک ہی شخص کو دو مرتبہ دھوکا نہ دیں۔ آپ کے
وطن کی شہرت کا سوال ہے ۔۔۔۔۔ پس ماندہ ترقی پذیر ملکوں کے نادار لوگوں کی مدد
کرنے والے اداروں کو چندہ نہ دیں۔نہ جانے ان کے پیچھے سیاسی گٹھ جوڑ کیا ہو۔۔۔۔
ہمیشہ ایسی تحریکوں میں شامل ہوں جو گلہریوں، Flamingoes
اور Skunks کے لیے پریشان ہیں۔ وائلڈ لائف میں دلچسپی لینے سے
انسان زیادہ کلچرڈ، لبرل اور انسان دوست شمار ہوتا ہے۔
______________________________________________________________________
پینڈو، روزی کی خاطر شہر کا رخ
کرے تو وہ اپنی ذہانت ساتھ لاتا ہے، لیکن شہر میں آتے ہی اسے احساس کمتری ہونے
لگتا ہے۔ سب سے پہلے تو اسے وہ زبان ششدر کرتی ہے جس کا ماخذ کتابیں، ابلاغ کے
جملہ وسائل اور مارکیٹ جنم دیتے ہیں۔۔۔۔۔ لباس تو وہ جلد ترک کردیتا ہے لیکن زبان
سیکھنے کے لیے اسے کچھ مدت درکار ہوتی ہے، لیکن جسے پینڈو سمجھ کر شہری لوگ برخاست
کرنا چاہتے ہیں، وہ اپنے تروتازہ دماغ کے باعث تجربے سے سیکھی ہوئی فہم و فراست کے
باعث بہت جلد شہری کے سامنے سیڑھیاں چڑھنے لگتا ہے۔ اسے آداب محفل سیکھنے میں دیر
لگتی ہے کیونکہ یہ وہ پانی نہیں جن میں اس نے تیرنا سیکھا لیکن مجلسوں میں زندہ
دلی، پینڈو ہی کے دم قدم سے ہوتی ہے۔ شہری انہیں ان پڑھ سمجھتے ہیں لیکن پھر اسی
کی گھڑت کے ٹوٹم اور Taboos شہری معاشرے میں لہو کی طرح دوڑنے
پھرنے لگتے ہیں۔ دیہاتی کی ترقی شہر میں اور بھی تیز ہوتی ہے جب یہ تعلیم کی سان
پر چڑھے الفاظ کا جنتر منتر سمجھ پائے اور گفتگو کے اتار چڑھاؤ میں دیہاتی تجربے
سمونے لگے تو شہری اس کا مقابلہ نہیں کرپاتے۔
______________________________________________________________________
امریکہ میں لوگ ڈالر نہیں بچاتے،
وقت بچاتے ہیں۔ پھر جب وقت کا صحیح مصرف ہونے لگتا ہے تو ڈالر خود ہی پس انداز
ہونے لگتے ہیں۔ اس طرح ایک خاص قسم کی Frustration جنم لیتی ہے۔ مایاداس پر دولت کا
بوجھ خودبخود بڑھتا ہے۔ دولت اپنی مشغولیات خود بڑھاتی ہے۔ محل نما گھر، ان گھروں
کے انتظامات، بیرونی ممالک کے سفر، Designer کپڑوں او رجوتوں کی تلاش، دولت کی
بناء پر شہرت کی ہوس۔۔۔۔ پارٹیاں، پی آر، پرسنیلٹی پرابلمز، نفسیاتی بیماریوں کا
لاینحل سلسلہ جاری ہوجاتا ہے۔ جب ڈالر بچنے لگتے ہیں تو پھر ایک اور قسم کا Stress شروع ہوجاتا ہے۔ دراصل یہاں انسان پوری کوشش کرتا ہے کہ
وہ ذہنی دباؤ سے نکلے۔ طمانیت قلب، سکون اور شانتی ملے۔ ۔۔۔ لیکن شاید معیشت اور
معاشیات کو یہ کچھ درکار نہیں۔ زندگی کا اصل راز اسی Stress میں ہے ۔۔۔ یہ اور بات ہے کہ فلاح کے
راستے پر چلنے والے دباؤ کی گھڑی سر سے اتار کر ملکوتی مسکراہٹ کے ساتھ گردوپیش
میں ٹھنڈی چاندنی کی طرح پھرتے ہیں۔ نہ جہاں سوزی کا باعث بنتے ہیں نہ خود سوزی
کا۔۔۔ لیکن اس سکون کے نسخے کا Patent وہ ایسی جگہ کراتے ہیں، جہاں سے نبیوں کا نسخہ
سکون میسر آتا ہے اور اسے کسی اور زبان میں لکھا جاتا ہے۔
بانو قدسیہ/حاصل گھاٹ