درد تے نئیں ہو رئی جی
10 تبصرے:
- اخلاق احمد نے فرمایا ہے۔۔۔
-
كج ديوے كيپٹن صاب جے ايس دهرتى تے ازلاں تك روشنائى كردے رين سى…كى هويا جے سورج نے ساتهوں منه موڑ ليا تے…
- July 16, 2012 at 7:21 PM
- ڈفر نے فرمایا ہے۔۔۔
-
تو انگلی کرنے سے باز نہ آیو
اگر اب درویشوں کو غصہ چڑھ گیا نا، تو فیر دیکھیو
اور تجھے اس پوسٹ کا جواب پوسٹ کی صورت میں ہی ملنا چاہیے
:ڈ - July 16, 2012 at 7:23 PM
- Rai Azlan نے فرمایا ہے۔۔۔
-
اج کل ھم بھی پرانی باتوں کو یاد کرنے میں لگے ہوئے ھیں ہر پرانی بات کا یاد اآنا لاشعور میں موجود اس واقعہ سے جڑے سبق سے ہوتا ھے جوکہ میں نے مشاہدہ کیا ہے۔ شاید اس سب کے یاد انے کی وجہ حالیہ ہڑتال تھی جو کتنی صحیح تھی اور کتنی غلط ابھی تک ککھ سمجھ نہیں آئ۔
- July 16, 2012 at 7:42 PM
- جاوید گوندل ، بآرسیلونا ، اسپین نے فرمایا ہے۔۔۔
-
آپکی تحریر لا جواب ہے ۔
ہم بہ حیثیت قوم اخلاق کے کم تر معیار سے بھی نیچے گر چکے ہیں۔ ایسے میں ہر "حساس" فرد کو "درد تو ہوگا۔" - July 16, 2012 at 8:52 PM
- غلام عباس مرزا نے فرمایا ہے۔۔۔
-
او کادا ڈاکو اے جہڑا لٹے نہ! تے ڈاکٹر بنن دا کی فیدا جے فٹا فٹ امیر نہی ہونا۔
ویسے آپ کے کیپٹن صاحب جیسے ڈاکٹر کم ضرور ہیں مگر نایاب نہیں ہمارے ملنے والے بھی ہیں ایک ڈاکٹر صاحب سلوار قمیض پہنتے ہیں، ڈاکٹری والے ٹیبل پر ہی کھانا کھا لیتے ہیں، مریضیوں سے گپ شپ بھی لگا لیتے ہیں،مسکراتے رہتے ہیں، کوئی جو دے خوشی سے لے لیتے ہیں۔ اللہ ایسے ڈاکٹروں کو خوش رکھے!!۔ - July 17, 2012 at 11:58 AM
- فیصل نے فرمایا ہے۔۔۔
-
ڈاکٹر صاحب شریف آدمی تھے اسی لئے کپتانی میں ہی فوج سے ریٹائر ہو گئے :)
آپ نے بات بہت اچھی کہی ہے لیکن اس کا اطلاق شائد پر پیشے پر ہوتا ہے۔ جو لوگ یہ نہیں جان پاتے کہ وہ پیدائشی طور پر کس کام کے لئے موزوں ہیں، وہ وقت کی دھول بن جاتے ہیں یا یوں کہئے نظام کا موبل آئل، جسے وقت آنے پر تبدیل کر دیا جاتا ہے لیکن گاڑی چلتی رہتی ہے۔ - July 17, 2012 at 9:20 PM
- Behna Ji نے فرمایا ہے۔۔۔
-
السلام علیکم
ذکر اُس فرشتہ صفت ڈاکٹر
درد کیہڑی جی،تھاڈی پوسٹ ای انی سکون آور سی
ڈاکٹری تو مسیحائ ہوتی ہے-پیسے کمانے ہیں تو بندہ کوئ اورکام کر لے-دکھی انسانیت کی خدمت بجائے خود ریوارڈنگ ہوتی ہے- آپکو ڈاکٹری وارا نہیں کھاتی اور گزارا نہیں ہوتا تو چھوڑ دیں، کسی اور کمپیشینیٹ بندے کے لئے- پروفیشن بدل لیں آپ-
حسن البناشہید کے والد گھڑی ساز تھے، وہ بس دن بارہ بجے تک دکان پر بیٹھتے اور پھر بند کرکے گھر آ جاتے تھے- اس وقت میں جتنا رزق آ گیا آگیابس-
پھر وہ درس و تدریس اورقرآن و حدیث کے لکھنے پڑھنے کا کام کرتے تھے-
مجھے ایسے لوگ پسند ہیں جو زندہ رہنے کے لئے کماتے ہیں، نا کہ کمانے کے لئے زندہ رہتے ہیں-
ام عروبہ - July 18, 2012 at 2:34 AM
- Billu نے فرمایا ہے۔۔۔
-
Post buhat achi hai pasand bhi ayee par yeh nahin pata chal saka ke us larkay ka doctor banney ka irada kahan tak pohancha?
- July 29, 2012 at 11:49 AM
- جعفر نے فرمایا ہے۔۔۔
-
اخلاق احمد: درست کہا۔ اور صرف ایک انہی ڈاکٹر صاحب کی بات نہیں۔ بہت سے ایسے لوگ ہیں۔ جن کی وجہ سے ایسے کنجر حکمران طبقے کے باوجود ہم زندگی کرتے جارہے ہیں
ڈفر: توبہ توبہ میری کیا مجال۔ میں نے تو ایک واقعہ بیان کرا بس :ڈ
رائے ازلان: ڈاکٹروں کے مطالبات بارے دو رائیں ہوسکتی ہیں۔ لیکن ہڑتال بارے نہیں۔ یہ ہڑتال ہزار فیصد غلط تھی۔ ڈاکٹر اور ہڑتال دو متضاد لفظ ہیں
جاوید گوندل: شکریہ سر جی
غلام عباس مرزا: جو بندہ کامپلیکس کا شکار نہ ہو، وہی جینوئن ہوتا ہے۔
فیصل: جی وہ لازمی سروس ہوتی ہے ناں شاید۔ آرمی میڈیکل کالج سے ڈاکٹر بننے کے بعد۔ باقی جہاں تک ہمارے معاشرے میں رجحانات جانچنے کا تعلق ہے تو شاید وہاں تک پہنچنے میں ہمیں طویل عرصہ لگے۔ یہاں تو جس کے جدھر سینگ سماتے ہیں ادھر چلاجاتا ہے
ام عروبہ: شکریہ باجی۔
بلو: کدھر ہے یار تو؟ میں تو سمجھا شہید وغیرہ ہوگیا ہوگا۔ - August 9, 2012 at 11:43 PM
- Sufyan Ahmad Sufi نے فرمایا ہے۔۔۔
-
بہت ہی لاجواب تحریر لگتا ہے جیسے آپ بهی ڈاکٹر ہیں-
میں بهی میڈیکل شعبے سے وابستہ ہوں
بہت ہی عمدہ تحریر لکهی آپ نے - February 2, 2016 at 11:20 AM